Express News:
2025-04-22@14:40:23 GMT

ملک سے ہجرت یا موت!

اشاعت کی تاریخ: 13th, February 2025 GMT

(تحریر: سہیل یعقوب)

موجودہ حالات سے پہلے بھی ہمارے لوگوں نے دو بار ہجرت کی ہے اور آج کے حالات کی طرح ہی جبراً ہجرت ان پر مسلط کردی تھی۔ پہلی بار یہ ہجرت 1947 میں کی گئی اور لوگ آنکھوں میں ایک نئی اسلامی مملکت کا خواب سجا کر اس مملکت خداداد پاکستان میں آئے، اس کے بعد کیا ہوا یہ ایک الگ دردناک داستان ہے کہ جس کا اس تحریر میں احاطہ کرنے کی سعی کی گئی ہے۔

دوسری بار پھر یہ واقعہ 1971 میں پیش آیا اور ہم نے بچ کر آنے والوں کو پاکستان کے بچ جانے کی نوید سنائی اور ان کے پاس سوائے اس ’’خوشخبری‘‘ کو ماننے کے کوئی اور گنجائش نہیں تھی۔ اس سے پہلے کی دونوں ہجرتوں میں قوم کے دل میں یقین موجزن رہا اور آنکھوں میں مستقبل کے حسین خواب ابھی پوری طرح ڈوبے نہ تھے۔ لیکن اب یہ پہلی بار ہورہا ہے کہ قوم مستقبل سے بالکل مایوس ہوگئی ہے اور مستقبل بچانے کےلیے جان کی بازی لگانے کو تیار ہے۔

موجودہ حالات میں اس ملک پر ایسے ایسے سوال اٹھائے جارہے ہیں کہ جو اس ملک کے بانیان کے خواب و خیال میں بھی نہیں ہوں گے۔ یہ قوم اب اپنے روشن اور محفوظ مستقبل کےلیے زندگی کا جوا کھیلنے کےلیے بھی تیار ہے، یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس جوئے میں ہارنے کا تناسب نوے فیصد سے زائد ہے اور ہارنے کا مطلب زندگی کا خاتمہ ہے لیکن وہ شاید موت کو بھی پریشانیوں سے چھٹکارے کا ذریعہ سمجھنے لگی ہے۔

حالیہ دنوں میں کشتی کے حادثات میں پاکستانیوں کی اموات کی خبریں تواتر کے ساتھ آرہی ہیں۔ نہ ریاست کے ارباب اختیار اپنی روش بدلنے کو تیار ہیں اور نہ لوگ اپنے بیٹے اور بھائیوں کو اس راستے سے موت کے منہ میں جانے سے روکنے کو تیار ہیں۔ حکومت بس ایک اعلیٰ اختیاری کمیٹی بنا کر خود کو اپنے تمام فرائض سے بری الذمہ سمجھنے لگتی ہے اور لوگ ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر ان ہی اداروں اور اسمگلروں کے رحم و کرم پر آجاتے ہیں۔

اس ملک کا اس سے بڑا المیہ اور کیا ہوسکتا ہے کہ حکومت کا سربراہ کہتا ہے کہ میں عوام کو فلاں فلاں سہولیات دینا چاہتا ہوں، تو حضور پھر یہ سہولیات دیجیے، آپ کو کس نے روکا ہے بلکہ قوم نے تو ’’شاید‘‘ آپ کو اسی لیے یہاں بھیجا ہے۔ اور اگر آپ بھی بےبس ہیں تو پھر آپ کو کیا کرنا چاہیے، یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں ہونی چاہیے۔

کشتی کے ان تمام حادثات میں جن پاکستانیوں کی اموات ہوئی وہ سب یورپ میں غیر قانونی داخلے کے خواہشمند تھے۔ ان کی آنکھوں میں سنہرے مستقبل کے سپنے تھے، دل میں امنگیں تھیں اور اپنے زور بازو سے اپنے اور اپنے گھر والوں کےلیے بہتر مستقبل حاصل کرنا چاہتے تھے۔ لیکن وہ ریاست کے طاقتور لوگوں کی حرص کا شکار ہوئے اور انھیں موت کی وادی میں دھکیل دیا گیا۔

ان کا کیا قصور تھا؟ کیا مستقبل کے سنہرے سپنے دیکھنا جرم ہے؟ کیا اپنے گھر والوں کےلیے کچھ کرنے کی خواہش غلط ہے؟ یہ تمام لوگ کسی نہ کسی طیران گاہ، بندرگاہ یا اسٹیشن سے روانہ ہوئے ہوں گے اور ایسی تمام جگہوں پر ریاست کے ایک نہیں کئی ادارے تعینات ہوتے ہیں اور ان کا کام ایسی تمام غیر قانونی کارروائیوں کو روکنا ہے۔ لیکن شاید ارباب اختیار کے علاوہ سب کو پتہ ہے کہ پیسے کے عوض یہاں کیا نہیں ہوتا۔

یہ لوگ تو مجبور ہیں کیونکہ اس ملک میں کسی کا مستقبل محفوظ نہیں۔ ہر صوبے اور پورے ملک میں نوکریاں فروخت ہوتی رہی ہیں اور ہورہی ہیں۔ ایک نوکری کی قیمت عام طور پر اس کی تین سال کی تنخواہ ہوتی ہے اور جو یہ نہ دے سکے تو آپ ہی بتایئے کہ اس کے پاس ہجرت کے سوا کیا چارہ کار رہ جاتا ہے؟ چاہے اس کا انجام موت ہی کیوں نہ ہوں۔ ان تمام حادثات کو دیکھ اگر لوگ یہ نتیجہ اخذ کریں کہ یہ سب کچھ سرکاری سرپرستی میں ہورہا ہے تو شاید یہ کچھ ایسا غلط بھی نہ ہوگا۔

یقین مانیے کہ ماضی میں مختلف ممالک نے ہمارے وزرا کے کردار پر انسانی اسمگلنگ کے حوالے سے سوال اٹھائے ہیں بالخصوص برطانیہ نے تو باقاعدہ حکومت سے شکایت بھی کی تھی۔ اس معاملے میں گجرات اور منڈی بہاؤالدین کے علاقے زیادہ مشہور یا بدنام ہیں اور اب آہستہ آہستہ یہ عفریت ہمارے دگرگوں معاشی حالات کی وجہ سے پورے ملک میں پھیل رہا ہے۔

حکومت کہتی ہے کہ وہ ملک میں سرمایہ کاری کے ماحول کو بہتر کررہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ملک سے وہ کثیرالقومی ادارے جو پچاس پچاس سال سے ملک میں کام کررہے تھے اپنے کام بند کرکے جارہے ہیں۔ اگر نئے لوگوں کو لانا ہے تو پہلے ان اداروں کو تو روکیں، تاکہ دیگر سرمایہ کاروں کے سامنے یہ آپ کی اچھی حکمت عملی اور پالیسیوں کے سفیر بننے نا کہ وہ نیب کو خط لکھے کہ ہم سے کاروبار کرنے کی رشوت مانگی جارہی ہے۔ اس وقت سوائے حکومت میں موجود لوگوں کے اور ان سے وابستہ ان کے ایجنٹوں کے کاروبار ہی دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کررہے ہیں کیونکہ وہ دن میں دگنی محنت کررہے ہیں اور رات کو چوگنی محنت کرتے ہیں، کم از کم محاورے سے تو یہی سمجھ آتا ہے۔

حکومت اگر اپنے قول و فعل میں سنجیدہ ہے تو اسے اپنی صفوں سے کالی بھیڑیں نکالنی ہوگی۔ وہ کالی بھیڑیں کیسی ہیں اور کون ہیں اس پر ایک لطیفہ نما واقعہ اور اختتام۔

ایک بادشاہ کو اپنے ایک وزیر کی شکایت ملتی ہے کہ اسے کسی بھی محکمے میں رکھوں یہ وہاں رشوت کا بازار لگا لیتا ہے۔ اس صورتحال میں بادشاہ اس کی ڈیوٹی سمندر کے کنارے لہریں گننے پر لگا دیتا ہے اور سوچتا ہے اس کام میں وہ کیسے اور کس سے رشوت لے گا۔ وزیر بہت ہی کائیاں تھا اور تھوڑے دنوں میں پھر اس کی رشوت کے حوالے سے شکایت آتی ہے۔ بادشاہ نے پوچھا اب وہ کس سے رشوت لیتا ہے تو لوگوں نے بتایا کہ وزیر ان بحری جہازوں سے رشوت لیتا ہے جو یا تو بندرگاہ کی طرف آرہے ہوتے ہیں یا بندرگاہ سے باہر جارہے ہوتے ہیں۔ بادشاہ نے پوچھا کہ وہ کیوں اس کو رشوت دیتے ہیں تو لوگوں نے بتایا کہ جہاز کے چلنے سے جو ارتعاش پیدا ہوتا ہے اس سے اس کی گنتی کے عمل میں خلل ہوتا ہے اور چونکہ گنتی کا حکم شاہی ہے اس لیے وہ رشوت دینے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔

امید ہے کہ اس کہانی سے لوگوں کو اور خود سرکار کو بھی اپنے اداروں کے کام کرنے کی سمجھ آگئی ہوگی اور اگر نہیں تو وزرا کے نام بھی لیے جاسکتے ہیں لیکن پھر نام لینے والے کو بھی ہجرت کرنی پڑے گی اور بھی ایسی ہی غیر قانونی کشتی پر اور جس کا انجام ہم سب کو معلوم ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: مستقبل کے کرنے کی ملک میں ہیں اور ہے اور اور ان اس ملک ہیں تو

پڑھیں:

‘پاکستان میرا دوسرا گھر ہے’ سر ویوین رچرڈز نے دل کھول کر اپنے تاثرات بیان کردیے

ویسٹ اینڈیز کے سابق مایہ ناز کھلاڑی اور کوئٹہ گلیڈیئٹرز کے مینٹور سر ویوین رچرڈز کا کہنا ہے کہ پاکستان میرا دوسرا گھر ہے کیوں کہ میں یہاں ہونا پسند کرتا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ جتنے عظیم لوگ یہاں ہیں ایسے میں پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) ایک بہترین جگہ ہے۔

پی ایس ایل 10 میچز کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ لاہور قلندرز سے شکست کے باوجود ایونٹ ابھی تک اچھا جارہا ہے، ہم نے اچھا کم بیک کیا ہے اور ہم نے اچھا کھیلا تو ہم جیت سکتے ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں سر ویوین نے کہا کہ اہم بات اپنے آپ پر یقین اور کھلاڑیوں کو زیادہ سے زیادہ حوصلہ اور ترغیب دینا ہے، اگر میں اپنے کھلاڑیوں کو کچھ منتقل کرسکوں تو یہ میرے لیے اچھی بات ہوگی۔

یہ بھی پڑھیے: کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی جیت پر ویوین رچرڈز کا بے ساختہ جشن، ویڈیو وائرل

اس موقع پر وسیم اکرم نے سر ویوین کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ وہ کرکٹ کی تاریخ کا سب سے بہترین بلے باز نہیں بلکہ سب سے بہترین کرکٹر ہیں۔

 

View this post on Instagram

 

A post shared by Pakistan Super League (@thepsl)

ان کا کہنا تھا کہ سر ویوین رچرڈز نے صرف بہترین بلے بازی ہی نہیں کی بلکہ جس طرح وہ ٹیم کی سربراہی کرتے تھے اور جس طرح فیلڈ میں آتے تھے یہ سب بہترین تھا۔

انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ جد سر ویوین رچرڈز کا میچ ہوتا تھا تو میں ساری رات نہیں سو پاتا تھا۔

سر ویوین نے وسیم اکرم کے بارے میں کہا کہ ان کی مجھے باؤلنگ میری زندگی کے تیز ترین بالز تھے۔

انہوں نے نئے کھلاڑیوں کو نصیحت کی کہ پیسے کو اپنی منزل کا تعین کرنے نہ دیں بلکہ کھیل سے محبت رکھیں، پیسہ خود بخود آجائے گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

sir vive richards wasim akram پی ایس ایل سر ویو رچرڈز کرکٹ کھیل وسیم اکرم

متعلقہ مضامین

  • لیگی وزرا بیان بازی کر رہے ہیں، نواز اور شہباز اپنے لوگوں کو سمجھائیں، شرجیل میمن
  • مسلم لیگ ن کے وزرا بیان بازی کر رہے ہیں، شہباز شریف، نواز شریف اپنے لوگوں کو سمجھائیں، شرجیل میمن
  • سندھ کی عوام اپنے حقوق کا سودا کرنے والوں کو کسی قسم کے مذاکرات کا حق نہیں دیگی، سردار عبدالرحیم
  • فلسطین کی صورتحال اور امتِ مسلمہ کی ذمہ داری
  • ‘پاکستان میرا دوسرا گھر ہے’ سر ویوین رچرڈز نے دل کھول کر اپنے تاثرات بیان کردیے
  • ب فارم کیلئے نادرا دفتر جانے کی ضرورت نہیں،گھر بیٹھے بنوائیں
  • آئی ایس او کے زیراہتمام ملتان پریس کلب کے سامنے اسرائیل کیخلاف احتجاجی ریلی
  • عوام کا ریلیف حکومت کے خزانے میں
  • آئی ایس او کے زیراہتمام ملتان پریس کلب کے اسرائیل کے خلاف احتجاجی ریلی
  • پیچیدہ ٹیکس نظام،رشوت خوری رسمی معیشت کے پھیلاؤ میں رکاوٹ