ہائیکورٹ سے جج کا ٹرانسفر عارضی نہیں ہوتا، چیئرمین جوڈیشل کمیشن چیف جسٹس پاکستان کے تحفظات سے متفق نہیں،اٹارنی جنرل
اشاعت کی تاریخ: 13th, February 2025 GMT
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے بیان میں کہا ہے کہ چیئرمین جوڈیشل کمیشن چیف جسٹس پاکستان کے تحفظات سے متفق نہیں،ہائیکورٹ سے جج کا ٹرانسفر عارضی نہیں ہوتا۔
نجی ٹی وی چینل ایکسپریس نیوز کے مطابق اٹارنی جنرل آف پاکستان کاکہناتھا کہ جج کا ٹرانسفر پبلک انٹرسٹ کے تحت کیا، صدر مملکت، چیف جسٹسزہائیکورٹ سے مشاورت ہوئی،جسٹس سرفراز ڈوگر سے کہا گیا وہ مفاد عامہ کے تحت رضا مندی کااظہار کریں،ٹرانسفر جج نے مفاد عامہ کے تحت تبادلے کیلئے رضا مندی ظاہر کی نہ ذاتی مفاد کیلئے ،جسٹس سرفراز ڈوگر کی سنیارٹی سب سے نیچے نہیں کی جا سکتی۔
عمران خان کا شیر افضل مروت کو پارٹی سے نکالنے کے بعد ایک اور بڑا فیصلہ
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کاکہناتھا کہ نہ جج سول سرونٹ ہوتا ہے،سنیارٹی پر سول سرونٹ ملازمین رولز کا اطلاق اعلیٰ عدلیہ کے ججز پر نہیں ہو سکتا، نہ ہی اعلیٰ عدلیہ کے ججز سول سرونٹ ہوتے ہیں،آئین نے ججز کیلئے الگ سے جج کی سروس پر شرائط و ضوابط طے کررکھے ہیں،کسی جج کی سنیارٹی کا معاملہ جوڈیشل کمیشن میں نہیں اٹھایا جا سکتا،معاملہ آرٹیکل 184شق3کے تحت درخواست دائر کرکے عدالتی سائیڈ پر طے ہو سکتا ہے۔
اٹارنی جنرل کاکہناتھا کہ جب ایک جج ہائیکورٹ سے ٹرانسفر ہو کر دوسری میں آتا ہے اسے نئے حلف کی ضرورت نہیں ہوتی،آئین میں کہیں نہیں لکھا ایک جج ٹرانسفر ہو کردوبارہ حلف لے گا، ایک جج کی نئی تقرری اور تبادلے میں فرق ہے،آرٹیکل 202کے تحت جب ایک جج کا تقرر ہوتا ہے تو اسے تبادلے پر نئے حلف کی ضرورت نہیں۔
ہمیں اپنا قانون دیکھناہے، برطانیہ کانہیں، آپ وقت ضائع کر رہے ہیں، جسٹس امین کا سلمان اکرم سے مکالمہ
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: اٹارنی جنرل نہیں ہو کے تحت
پڑھیں:
ججز ٹرانسفر کیس؛ وکیل درخواستگزار کو جواب الجواب دینے کیلیے مہلت مل گئی
اسلام آباد:سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائیکورٹ ججز ٹرانسفر کیس میں وکیل درخواست گزار کو جواب الجواب جمع کروانے کے لیے مہلت دیتے ہوئے سماعت 29 اپریل تک ملتوی کر دی۔
جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔
جسٹس محمد علی مظہر نے درخواست گزار ججز کے وکیل منیر اے ملک کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تمام فریقین کے تحریری جوابات آچکے ہیں، کیا آپ ان پر جواب الجواب دینا چاہیں گے؟
سینیئر وکیل منیر اے ملک نے جواب دیا کہ جی میں جواب الجواب تحریری طور پر دوں گا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا آپ کو کتنا وقت چاہیے ہوگا؟ وکیل نے جواب دیا کہ آئندہ جمعرات تک وقت دے دیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اتنا وقت کیوں چاہیے بہت سے وکلا نے دلائل دینے ہیں، اس کیس کو اتنا لمبا نہ کریں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آئندہ سماعت سے کارروائی 9:30 بجے سے 11 بجے تک ہوگی، فوجی عدالتوں کا کیس 11:30 بجے معمول کے مطابق چلے گا۔
عدالت نے حکمنامے میں کہا کہ رجسٹرار سپریم کورٹ اور سیکرٹری جوڈیشل کمیشن نے تحریری جوابات جمع کروائے جبکہ وفاقی حکومت نے بذریعہ اٹارنی جنرل جواب جمع کروایا، رجسٹرار بلوچستان ہائیکورٹ، رجسٹرار اسلام آباد ہائیکورٹ، رجسٹرار پشاور ہائیکورٹ اور رجسٹرار سندھ ہائیکورٹ نے بھی جوابات جمع کراوائے۔
حکمانے کے مطابق تمام جوابات کا جائزہ لے کر فریقین کی طرف سے تحریری جواب الجواب جمع کروانے کے لیے وقت مانگا گیا۔