مغربی کنارے میں اس سال اب تک 13 بچے ہلاک، یونیسف
اشاعت کی تاریخ: 13th, February 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 13 فروری 2025ء) اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف) نے مقبوضہ مغربی کنارے میں بچوں کی بڑھتی ہلاکتوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ علاقے میں عسکری سرگرمیوں کو فوری طور پر روکا جائے۔
مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے لیے ادارے کے ریجنل ڈائریکٹر ایڈورڈ بیگبیڈر کا کہنا ہے کہ مغربی کنارے میں اسرائیلی سکیورٹی فورسز کی کارروائی کے نتیجے میں بچوں کی بڑی تعداد ہلاک، زخمی اور بے گھر ہو رہی ہے۔
گزشتہ جمعے کو ایک 10 سالہ بچہ گولی لگنے سے ہلاک ہو گیا اور اس سے دو روز کے بعد آٹھ ماہ کی حاملہ خاتون کو نور شمس پناہ گزین کیمپ میں ہلاک کر دیا گیا۔انہوں نے کہا ہےکہ حالیہ ہفتوں کے دوران تشدد میں ہونے والے اضافے کے نتیجے میں بہت سے خاندانوں نے اپنے عزیزوں کو کھو دیا ہے۔
(جاری ہے)
بچوں کے نقصان میں اضافہیونیسف کے مطابق رواں سال کے آغاز سے اب تک مقبوضہ مغربی کنارے میں 13 فلسطینی بچے ہلاک ہو چکے ہیں۔
ان میں سات ہلاکتیں 19 جنوری کو جنوبی علاقے میں ایک بڑی عسکری کارروائی کے دوران ہوئیں۔ ہلاک ہونے والوں میں دو سالہ بچہ بھی شامل ہے جس کی حاملہ والدہ فائرنگ سے زخمی ہوئی۔ 7 اکتوبر 2023 کے بعد مغربی کنارے میں 195 فلسطینی اور تین اسرائیلی بچے ہلاک ہو چکے ہیں۔گزشتہ 16 ماہ کے دوران علاقے میں ہلاک ہونے والے بچوں کی تعداد اس سے پہلے 16 ماہ کے دوران ہونے والی ہلاکتوں سے 200 گنا زیادہ ہے۔
پناہ گزین کیمپوں میں تباہیمغربی کنارے کے علاقے جنین، تلکرم اور توباس میں فضائی حملوں، گھروں کو منہدم کرنے کی کارروائیوں اور شہری علاقوں میں دھماکہ خیز ہتھیاروں کے استعمال سے انسانی حالات مزید خراب ہو گئے ہیں۔ پناہ گزین کیمپوں میں رہنے والے لوگ بنیادی خدمات سے محروم ہو چکے ہیں جبکہ انہیں پانی و بجلی کی فراہمی بھی متاثر ہوئی ہے۔
جنین، نور شمس، تلکرم اور الفارعہ کیمپوں میں عسکری کارروائیوں کے نتیجے میں ہزاروں خاندانوں کو نقل مکانی کرنا پڑی ہے۔ سلامتی کی بگڑتی صورتحال کے باعث روزمرہ زندگی مشکل ہوتی جا رہی ہے جبکہ بچے ان حالات میں بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔
تعلیم کو خطرہمغربی کنارے میں اسرائیلی سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں کے باعث تقریباً 100 سکولوں میں تعلیمی عمل متاثر ہوا ہے۔
ان حالات میں طلبہ پر طویل مدتی نفسیاتی و سماجی اثرات مرتب ہونے کا خدشہ ہے۔ تشدد، بے گھری اور عزیزوں کو کھونے کے صدمے کا سامنا کرنے والے بہت سے بچوں کو ہنگامی بنیادوں پر ذہنی و نفسیاتی صحت کی خدمات درکار ہیں۔یونیسف نے کہا ہے کہ بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر امدادی وسائل کی ضرورت ہے۔
تحفظ کا مطالبہایڈورڈ بیگبیڈر نے کہا ہے کہ یونیسف بچوں کے خلاف ہر طرح کے تشدد کی مذمت کرتا ہے۔
بچوں سمیت تمام شہریوں کو تحفظ ملنا چاہیے۔ امدادی اداروں کو ضرورت مند لوگوں تک بلارکاوٹ اور محفوظ رسائی ہونی چاہیے۔ادارے نے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ فلسطینی مسئلے کا پائیدار سیاسی حل نکالنے میں مدد دے تاکہ خطے میں تمام بچوں کا پرامن اور مستحکم مستقبل ممکن بنایا جا سکے۔
ایڈورڈ بیگبیڈر نےکہا ہے کہ ادارہ مغربی کنارے بشمول مشرقی یروشلم میں تشدد سے متاثرہ بچوں اور ان کے خاندانوں کی طویل مدتی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اپنے شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کرنے کو تیار ہے۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کے دوران ہلاک ہو
پڑھیں:
مغربی سامراجی قوتوں نے تاریخ کو کیسے مسخ کیا؟
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 20 اپریل 2025ء) اس کی ایک واضح مثال 1861ء سے 1865ء تک جاری رہنے والی امریکی خانہ جنگی ہے۔ مورخین اس کے اسباب پر منقسم ہیں۔ ایک گروہ کا ماننا ہے کہ یہ جنگ غلامی کے خاتمے کے لیے لڑی گئی، جبکہ دوسرا گروہ اسے یونین کے تحفظ سے جوڑتا ہے۔ تیسرے گروہ کی رائے ہے کہ شمالی ریاستیں، جو صنعتی ترقی کی راہ پر تھیں، جنوبی ریاستوں کے زرعی کلچر اور غلامی پر مبنی معیشت کو ختم کرنا چاہتی تھیں۔
جنوبی ریاستوں کے بڑے زمیندار، جن کی دولت غلاموں کی محنت سے حاصل شدہ زرعی پیداوار پر منحصر تھی، غلامی کو جائز قرار دیتے تھے۔ وہ دعویٰ کرتے تھے کہ افریقی غلاموں کو ان کے ''پسماندہ معاشروں‘‘ سے نکال کر امریکہ میں آباد کیا گیا، جہاں انہیں عیسائیت قبول کروا کر ''نجات اور معاشی استحکام‘‘ دیا گیا۔
(جاری ہے)
جب کوئی تاریخی واقعہ متنازع ہو جاتا ہے، تو ہر گروہ اپنے موقف کے دفاع کے لیے نئے تاریخی مآخذ تلاش کرتا ہے یا موجودہ مآخذ کی نئی تشریحات پیش کرتا ہے۔
اس عمل سے تاریخ کا دائرہ کار وسیع ہوتا ہے اور نئے خیالات اسے تازگی عطا کرتے ہیں۔ تاہم یہ عمل تاریخ کو مسخ کرنے کا باعث بھی بن سکتا ہے۔یورپی سامراجی ممالک نے اپنی نوآبادیاتی تاریخ کو بہت حد تک مسخ کیا ہے۔ انہوں نے مقامی باشندوں کا استحصال کیا، ان کا قتل عام کیا اور ان کی دولت لوٹ لی لیکن ان مظالم کا تذکرہ ان کی تاریخی کتابوں میں شاذ و نادر ہی ملتا ہے۔
اس کے برعکس، وہ اپنی نوآبادیاتی تاریخ کو فخر کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے ایشیا اور افریقہ کی ''پسماندگی‘‘ کو ختم کر کے انہیں ''مہذب‘‘ بنایا۔اسی طرح، جن یورپی ممالک نے غلاموں کی تجارت کی، انہوں نے افریقہ سے غلاموں کو جہازوں میں بھر کر امریکہ کی منڈیوں میں فروخت کیا اور کریبین جزائر میں ان سے شکر اور کافی کی پیداوار کروائی۔
ان مظالم کی تفصیلات ان کی تاریخ سے غائب ہیں۔تاریخ کا ارتقاء کیسے ہوتا ہے؟
وہ فخر سے بتاتے ہیں کہ 1830ء کی دہائی میں برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک نے غلامی کا خاتمہ کیا اور وہ اسے اپنی مذہبی و اخلاقی اقدار کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ لیکن یہ دعویٰ حقیقت سے دور ہے۔ غلامی کا خاتمہ مذہبی یا اخلاقی وجوہات کی بجائے تکنیکی ترقی کی وجہ سے ہوا۔
جب مشینوں نے غلاموں کی محنت سے زیادہ پیداوار دینا شروع کی تو غلام معاشی بوجھ بن گئے۔ نتیجتاً، انہیں آزاد کیا گیا لیکن آزادی کی قیمت بھی غلاموں سے ہی وصول کی گئی۔ مالکان نے دعویٰ کیا کہ غلام ان کی ملکیت ہیں، اس لیے انہیں آزادی کے بدلے چار سے پانچ سال تک بغیر معاوضے کے کام کرنا پڑا۔ یورپی ممالک نے غلاموں کی نسلوں سے لی گئی محنت کا کوئی معاوضہ ادا کرنے پر غور نہیں کیا اور غلامی کے کاروبار کو جرم قرار دینے سے گریز کیا۔
یورپی سامراج نے اپنی غربت کم کرنے کے لیے افریقہ میں کالونیاں قائم کیں۔ سیسل روڈز (وفات: 1902ء) نے موجودہ زمبابوے اور جنوبی افریقہ میں مقامی لوگوں کی زمینوں پر قبضہ کر کے برطانوی غریبوں کو آباد کیا۔ جرمنی نے نمیبیا اور ہرارے میں نابا قبائل کو ختم کر کے جرمن آباد کاروں کو بسایا۔ اس طرح، یورپی ممالک نے ''اپنی غربت ختم کر کے افریقیوں کو غریب‘‘ بنا دیا لیکن ان کی تاریخ ان جرائم پر خاموش ہے۔
تاریخ کو مسخ کرنے کا عمل قوم پرستی اور وطن پرستی کے نام پر بھی کیا گیا۔ 1937ء میں جاپان نے چین پر حملہ کیا اور نانجِنگ سمیت کئی شہروں میں لوٹ مار اور قتل عام کیا۔ نانجِنگ میں شہریوں کا قتل، خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی اور منچوریہ میں آبادی کا خاتمہ جاپانی بربریت کی واضح مثالیں ہیں۔
عالمگیر تاریخ
جاپان نے فلپائن اور کوریا میں بھی یہی مظالم دہرائے، جہاں کوریائی خواتین کو ''کمفرٹ ویمن‘‘ کے نام سے جنسی غلامی کا نشانہ بنایا گیا۔
لیکن دوسری عالمی جنگ کے بعد جاپانی مورخین نے قوم پرستی کے نام پر ان مظالم کو نظرانداز کیا۔ نانجنگ کے قتل عام کو تاریخی طور پر تسلیم نہیں کیا گیا، حالانکہ تصاویر اور شواہد موجود ہیں، جن میں شہریوں کی لاشیں سڑکوں پر بکھری نظر آتی ہیں۔کچھ جاپانی فوجیوں نے فخریہ طور پر اپنی ڈائریوں میں لکھا کہ انہوں نے شہریوں کو قطار میں کھڑا کر کے یہ دیکھا کہ ایک گولی سے کتنے لوگ ہلاک ہو سکتے ہیں۔
ایسی تفصیلات جاپانی تاریخ سے غائب ہیں۔جاپان نے اپنی نئی نسل کو تاریخی حقائق کے بجائے قومی عظمت کی داستانیں سنائیں اور مظالم کو قومی مفاد کے نام پر چھپایا۔ یورپی سامراجی ممالک نے بھی اپنی کالونیوں کی آزادی کے وقت تاریخی دستاویزات کو یا تو جلا دیا یا اپنے ممالک میں منتقل کر دیا۔ آزادی کے بعد لکھی گئی تاریخ میں ایشیا اور افریقہ کی سامراجی مزاحمت کو نظر انداز کیا گیا اور حقائق کو مسخ کر کے پیش کیا گیا۔
مسخ شدہ تاریخ کو درست کرنا اس لیے مشکل ہے کہ متعلقہ دستاویزات یا تو موجود نہیں یا یورپی ممالک کے قبضے میں ہیں، جہاں تک ایشیا اور افریقہ کے ممالک کی رسائی نہیں۔ بدقسمتی سے ایشیا اور افریقہ کے ان ممالک میں، جہاں آمرانہ حکومتیں رہی ہیں، وہاں بھی تاریخ کو مسخ کیا گیا۔ آمروں نے اپنے ظلم و ستم کو قوم پرستی کے نام پر چھپایا اور مورخین نے ان واقعات کو مکمل طور پر بیان کرنے سے گریز کیا۔
جب تاریخ کو مسخ کر کے نصابی کتب میں شامل کیا جاتا ہے، تو نوجوان نسل تاریخی شعور سے محروم ہو جاتی ہے۔ وہ ماضی سے سبق سیکھنے کے بجائے گمراہی کا شکار ہوتی ہے۔ تاریخ کو درست کرنے کی ذمہ داری مورخین اور معاشروں پر عائد ہوتی ہے تاکہ آنے والی نسلیں حقائق سے آگاہ ہو سکیں اور ماضی کے تجربات سے سیکھ سکیں۔
ادارت: امتیاز احمد