انسانی سمگلنگ پر سخت اقداما ت کون کرے گا ؟؟؟
اشاعت کی تاریخ: 13th, February 2025 GMT
پاکستان کے مخدوش معاشی حالات ، بڑھتی ہوئی بے روزگاری نے نوجوان کی ایک کھیپ ایک عرصے سے یورپ اور دیگر ممالک میں ڈیرہ ڈالنے کی خواہش مند ہے ، وہ غیر قانونی سے طریقوں سے وہاں پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں اور معمولی ملازمتیںاور روزگار بھی غیر قانونی طریقوں سے ہی حاصل کرتے ہیں، حالیہ عرصے میں روزانہ ہی خبر آتی ہے غیر قانونی کاروبار کرنے والے پاکستان میں معصوم لوگوں سے جنہیں کے پاس کوئی تعلیم بھی نہیں ہے انہیں بڑی رقم کے عوض یورپی ممالک میںبہتر مستقبل کے سہانے خواب دکھا کر کشتوں پر روانہ کردیتے ہیں، یہ صورتحال گو کہ صرف پاکستا ن میں نہیں دیگر ممالک جہاں ملازمتیں مشکل ہوگئی ہیں وہاںکے نوجوان بھی سہانے خوابوں کی تعبیر کیلئے کوشاں ہیں ، انہیںبیرونی ملک کا جھانسہ دینے والے کا ایک مافیا ہے جنکی شاخیں ملک میں اور بیرون ملک ہیں پاکستان میں انسانی سمگلنگ ایک اہم مسئلہ ہے، جیسا کہ بہت سے دوسرے ممالک میں، سماجی، اقتصادی، سیاسی اور ثقافتی عوامل کے امتزاج کی وجہ سے ہے۔ پاکستان کی آبادی کا ایک بڑا حصہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کررہا ہے جسکی وجہ سے وہ یہ طریقہ اختیار کرتے ہیں، اور بیچ سمندر میں کشتی یا تو ڈوب جاتی ہے یا ڈبودی جاتی ہے ۔ معاشی مواقع کے لیے مایوسی اکثر افراد کو سمگلروں کا شکار کرنے کا باعث بنتی ہے جو بیرون ملک یا شہری مراکز میں بہتر ملازمتوں یا ذریعہ معاش کا وعدہ کرتے ہیں۔پاکستان میں خلیجی ممالک میںبھی نوکری کا جھانسہ دینے والے نہ صرف نوجوانوں بلکہ خواتین کو بھی آجروںکے ہاتھوں غیر واضح اور بد نیتی کے معاہدوں کے ذریعے روانہ کردیتے ہیں سعودی عرب اور خلیجی ممالک میں اکثر یہ شکایات سامنے آتی ہیں نوجوان خواتین کو بیرون ملک ٹیچر کے معاہدوں پر بھیج کر انہیںباہر لیجا کر گھر کی صفائی ستھرائی اور ’’خدامہ ‘‘ بنا لیا جاتاہے وہ گھر سے باہر نکل نہیںسکتیں کہ وہ اپنے سفارت خانوںقونصل خانوںمیں جاکر شکایت کرسکیں ، شکایت کر بھی دیں سفارت خانوں، قونصل خانوںکا عملہ بھی ’’ماشاء اللہ ‘‘ ہے وہاں انکی شنوائی نہیں ہوتی اگر ہو بھی جائے ایک طویل وقت درکار ہوتا ہے اسطرح کے معاملات کو حل کرنے میں زندہ انسانوں کی سمگلنگ کے علاوہ ایک مافیا پاکستان میں انسانی اعضاء فروخت کرنے کا بھی کاروبار کرتا ہے ، غربت میں اپنے بچوں کو مزدوری یا جبری شادیوں کے لیے بھی بھیجتے ہیںاور سمگلنگ میں حصہ ڈالتے ہیں۔ان سب معاملات کی وجوہات میں حکومتی نااہلی کے ساتھ ساتھ خواندگی کی کم شرح، خاص طور پر دیہی علاقوں میں، لوگوں کو ان کے حقوق اور سمگلنگ کے خطرات سے کم آگاہی ہے۔ سمگلر آگاہی کی اس کمی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے متاثرین کو روزگار، تعلیم یا شادی کے جھوٹے وعدوں سے دھوکہ دیتے ہیں۔پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس انسانی سمگلنگ سے مؤثر طریقے سے نمٹنے کے لیے اکثر وسائل، تربیت اور صلاحیت کی کمی ہے۔قانون نافذ کرنے والے اداروں اور سرکاری اداروں میں بدعنوانی سمگلروں کو معافی کے ساتھ کام کرنے کی اجازت دیتی ہے۔ ملک میںموجود مافیا بیرون ملک نوکریوںکا جھانسہ دیکر نوجوان خواتین کو بیرون ملک بھیج کر ان سے جسم فروشی جیسے مکروہ کام پر مجبور کرتے ہیں بیرون ملک زراعت، تعمیرات اور گھریلو کام جیسی صنعتوں میں سستی مزدوری کی بہت زیادہ مانگ ہے جو سمگلنگ کو ہوا دیتی ہے۔بچوں کو اکثر اینٹوں کے بھٹوں، قالین کی بُنائی اور دیگر شعبوں میں مزدوری کے لیے سمگل کیا جاتا ہے۔اگرچہ پاکستان میں انسانی سمگلنگ کے خلاف قوانین موجود ہیں، جیسے کہ افراد کی سمگلنگ کی روک تھام ایکٹ، 2018، جس پر عمل درآمد کمزور ہے۔ہمارے کرتا دھرتائوں کی کرسی کی لالچ اور لڑائی میں ان سنگین معاملات پر کوئی توجہ ہی نہیںمتاثرین اکثر انصاف تک رسائی سے محروم رہتے ہیں، اور سمگلروں کے خلاف قانونی چارہ جوئی بہت کم ہوتی ہے۔پاکستان انسانی سمگلنگ کے ایک وسیع علاقائی نیٹ ورک کا حصہ ہے، جس کے متاثرین کو مشرق وسطیٰ، یورپ اور ایشیا کے دیگر حصوں میں سمگل کیا جاتا ہے۔پاکستان اور امیر ممالک کے درمیان معاشی تفاوت غیر قانونی نقل مکانی کے لیے ترغیبات پیدا کرتا ہے، جس کا سمگلر فائدہ اٹھاتے ہیں۔انسانی سمگلنگ کی روک تھام کیلئے قوانین موجود ہیں FIAپر اسکی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے مگر بد قسمتی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ اسکے کارندے بھی اس میںملوث ہوتے ہیں، وزارت داخلہ جب FIA پر سختی کرتی ہے تو بجائے اسکے وہ اپنی ذمہ داری میں اضافہ کریں وہ خوامخواہ ان قانونی طور پر ملک سے جانے والوںکی شک کی بنیاد بناکر انہیں ہوائی اڈوںپر روکتی ہے تاکہ وزارت داخلہ پر عوام کا دبائو بڑھے اور سمگلنگ کے الزامات سے وہ بری الزمہ ہوجائیںتاہم، سمگلنگ کی بنیادی وجوہات کو حل کرنے، قانون کے نفاذ کو مضبوط بنانے اور کمزور آبادیوں کے تحفظ کے لیے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ انسانی سمگلنگ کا مقابلہ کرنے کے لیے حکومتی ایجنسیوں، سول سوسائٹی اور بین الاقوامی تنظیموں پر مشتمل ایک مربوط کوشش کی ضرورت ہے۔انسانی سمگلنگ کے دوران ہلاک ہونے والے پاکستانیوں کی تعداد کے بارے میں درست اعداد و شمار کا حصول جرم کی خفیہ نوعیت، کم رپورٹنگ اور ٹریکنگ کے جامع طریقہ کار کی کمی کی وجہ سے مشکل ہے۔ تاہم، گزشتہ برسوں میں ایسے متعدد واقعات رپورٹ ہوئے ہیں جو انسانی سمگلنگ کے شکار افراد کو درپیش خطرات کو اجاگر کرتے ہیں، بشمول ٹرانزٹ کے دوران، حراست میں، یا استحصال کی وجہ سے ہونے والی اموات۔بحری راستوںسے غیر قانونی انسانی سمگلنگ کی وجہ سے خطرناک راستوں (جیسے ایران، ترکی اور بحیرہ روم کے راستے) سے غیر قانونی طور پر یورپ جانے کی کوشش کرنے والے بہت سے پاکستانی سفر کے دوران ہلاک ہو چکے ہیں۔انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن (IOM) کے مطابق حالیہ برسوں میں پاکستان سمیت جنوبی ایشیا کے ہزاروں تارکین وطن بحیرہ روم کو عبور کرنے کی کوشش کے دوران ہلاک یا لاپتہ ہو چکے ہیں۔جون 2023 میں، ایک ماہی گیری کی کشتی جس میں 700 سے زائد تارکین وطن تھے، جن میں بہت سے پاکستانی بھی شامل تھے، یونان کے ساحل پر الٹ گئی۔ یہ حالیہ برسوں میں انسانی سمگلنگ کے سب سے مہلک واقعات میں سے ایک تھا۔اطلاعات کے مطابق جہاز میں 300 سے زیادہ پاکستانی سوار تھے، کاش ہمارے ارباب اقتدار اس مکروہ ترین جرم کے حوالے سے فوری توجہ دیں ۔ جس سے ہماری جگ ہنسائی بھی نہ ہو اور نوجوان کی محفوظ رہ سکیں۔
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: انسانی سمگلنگ کے پاکستان میں کرنے والے بیرون ملک سمگلنگ کی ممالک میں کی وجہ سے کرتے ہیں کے دوران کے لیے
پڑھیں:
معیشت، ڈرائیونگ فورس جو پاک افغان تعلقات بہتر کر رہی ہے
پاکستان کے ڈپٹی وزیراعظم اور وزیرخارجہ ایک روزہ دورے پر کابل پہنچے۔ افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی کے ساتھ انہوں نے ایک مشترکہ پریس ٹاک کی۔ سفارتی دوروں میں اگر مشترکہ بیان جاری کیا جائے، اس سے مراد دونوں ملکوں کا اتفاق رائے ہونے سے لیا جاتا ہے۔ الگ الگ پریس نوٹ جاری کرنے سے مراد ہوتی ہے کہ اتفاق رائے نہیں ہوا۔ مشترکہ پریس کانفرنس اتفاق رائے کے مثبت اظہار کی علامت سمجھی جاتی ہے۔
پاکستانی وفد کے استقبال کے لیے امیر خان متقی خود ائیر پورٹ نہیں آئے تھے۔ ڈپٹی وزیراعظم ملا عبدالغنی برادر نے اسحق ڈار سے طے شدہ ملاقات سے گریز کیا۔ رئیس الوزرا ملا حسن اخوند سے البتہ ان کی ملاقات ہو گئی۔
ڈار نے کابل میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے بہت اہم باتیں کی۔ ٹرانس افغان ریلوے پراجیکٹ پر کام شروع کرنے اعلان کیا۔ ازبکستان سے آنے والا ریلوے ٹریک خرلاچی (کرم ایجنسی) کے راستے پشاور سے مل جائے گا۔ افغانستان کو گوادر اور کراچی دونوں بندرگاہوں تک رسائی مل جائے گی۔
افغانستان کے لیے 1621 آئٹمز پر پاکستان 10 فیصد ڈیوٹی وصول کرتا تھا۔ اس لسٹ سے 867 آئٹم کو ڈیلیٹ کرنے کے ایک بڑے ریلیف کا بھی اعلان کیا گیا۔ پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدہ جو 2021 میں ختم ہو چکا ہے، اسے بھی اسی سال فائنل کرنے کا اعلان کیا گیا۔ خیبر پختون خوا حکومت افغان آئٹم پر 2 فیصد سیس ڈیوٹی عائد کرتی تھی اس کو کم کر کے ایک فیصد کر دیا گیا ہے۔ افغان تاجروں کو امپورٹ کے لیے زرضمانت جمع کرنا پڑتا تھا اس کا بھی خاتمہ کرکے بینک گارنٹی لینے کی افغان حکومت کی تجویز مان لی گئی ہے۔ این ایل سی کے علاوہ بھی 3 مزید کمپنیوں کو تجارتی سامان کی ترسیل میں شامل کرنے کی افغان تجویز بھی مان لی گئی ہے۔
پاکستان، افغانستان اور چین کا سہ ملکی فارمیٹ بحال کرنے کا بھی اعلان ہوا۔ دونوں ملکوں کی قائم کردہ جوائنٹ کو آرڈینیشن کمیٹی کی تعریف کرتے ہوئے اسحق ڈار نے سیاسی امور کے لیے بھی فوری طور پر ایک رابطہ کمیٹی بنانے کا اعلان کیا۔ افغان مہاجرین کی واپسی ان کے ساتھ زیادتیوں اور جائیداد کے معاملات کے حل کے لیے بھی ہیلپ لائن بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔
اس مشترکہ پریس ٹاک میں ہونے والے اعلانات کو دیکھا جائے تو زیادہ تر باتیں تجارتی اقتصادی حوالے سے کی گئی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ افغانستان کے وزیر صنعت و تجارت نورالدین عزیزی نے تعلقات بحالی کے لیے بہت محنت کی ہے۔ ایک ہی دن 16 اپریل کو پاکستان اور افغانستان کے اعلیٰ سطحی وفود کابل اور اسلام آباد پہنچے تھے۔ نورالدین عزیزی کی قیادت میں وفد پاکستان آیا تھا۔ افغانستان کے لیے پاکستان کے خصوصی نمائندے صادق خان ایک اعلیٰ سطحی وفد کے ساتھ کابل پہنچے ہیں۔
17 ماہ کے طویل وقفے کے بعد پاک افغان جوائنٹ کوآرڈینیشن کمیٹی کا اجلاس کابل میں ہو سکا تھا۔ امارت اسلامی افغانستان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے جے سی سی اجلاس کے موقع پر کہا کہ اس فورم نے ہمیشہ مسائل حل کیے ہیں۔ اس بار سیکیورٹی ایشوز، تجارت، ڈیورنڈ لائن پر ٹینشن ( ٹی ٹی پی، لوگوں کی آمد و رفت اور افغان مہاجرین ) کے ساتھ لوگوں کی آمد و رفت کو آسان بنانے پر بات چیت ہو گی۔
جے سی سی میں افغان وفد کی قیادت ملا عبدالقیوم ذاکر نے کی تھی۔ ذاکر امریکا اور اتحادیوں کے خلاف لڑائی کے دوران افغان طالبان کے ملٹری کمیشن کے سربراہ بھی رہے ہیں۔ ملا اختر منصور کے بعد طالبان کا نیا امیر بننے کا مضبوط امیدوار بھی سمجھا جا رہا تھا۔ عبدالقیوم ذاکر جے سی سی اجلاس میں افغانستان کی نمائندگی کے لیے ایک ہیوی ویٹ شخصیت ہیں۔ اس کا پتہ تب لگے گا جب آپ ان کا پروفائل دیکھیں گے، ان کا نام اور کام ایران بلوچستان امریکا اور شمالی افغانستان تک دکھائی دے گا۔
پاکستان افغانستان مہاجرین کی واپسی، ٹی ٹی پی اور دوسرے اختلافی امور کو سائیڈ پر رکھتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں۔ ان اختلافی امور کا حل ضروری ہے۔ معیشت وہ پوائنٹ ہے جہاں موجود امکانات دونوں ملکوں کو دوبارہ قریب لائے ہیں۔ پاکستان دہشتگردی کے ساتھ اپنے انداز میں نپٹنے کے لیے تیار ہے۔ پاک افغان باڈر پر اب ریموٹ کنٹرول چیک پوسٹیں قائم کی جا رہی ہیں۔ افغان طالبان حکومت مہاجرین کی واپسی کو برداشت کرے گی۔ معیشت اب وہ ڈرائیونگ فورس ہے جو بہت متنازعہ معاملات کو بھی غیر متعلق کرنے کی اہلیت رکھتی ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
وسی بابا نام رکھا وہ سب کہنے کے لیے جن کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔ سیاست، شدت پسندی اور حالات حاضرہ بارے پڑھتے رہنا اور اس پر کبھی کبھی لکھنا ہی کام ہے۔ ملٹی کلچر ہونے کی وجہ سے سوچ کا سرکٹ مختلف ہے۔ کبھی بات ادھوری رہ جاتی ہے اور کبھی لگتا کہ چپ رہنا بہتر تھا۔