پاکستان کے ترسیلات زر میں مسلسل اضافے کی وجوہات کیا ہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 13th, February 2025 GMT
وزارت خزانہ کی جانب سے مسلسل یہ دعویٰ سامنے آرہا ہے کہ سمندر پار پاکستانیوں کی جانب سے بھیجے جانے والے ترسیلات زر میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے جو پاکستان کے لیے ایک خوش آئند پہلو ہے لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ اس کی وجوہات ہیں کیا اور کیا اب بھی ایسی گنجائش موجود ہے جس سے ان میں مزید اضافہ ہو سکے؟
اس حوالے سے اورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹرز ایسوسی ایشن کے وائس پریزیڈنٹ محمد عدنان پراچہ کا کہنا ہے کہ ترسیلات زر میں اضافہ گزشتہ 4 ماہ سے دیکھا جا رہا ہے ان کا کہنا ہے کہ ترسیلات زر میں مزید اضافہ ہوگا اور یہ گاکل ائیر 2024-25 جون تک 35 ارب ڈالر پر پہنچ جائیں گے۔
محمد عدنان پراچہ کا کہنا ہے کہ اگلے ماہ سے رمضان کا بابرکت مہینہ شروع ہو رہا ہے اس میں ترسیلات زر زیادہ آتے ہیں پھر عید آئے گی مزید بڑھیں گے اور صرف جنوری کے مہینے میں ہماری کلوزنگ 3 ارب ڈالر پر ہوئی ہے تو آنے والے 3 چار ماہ میں یہ توقعہ ہے کہ ہم مالیاتی سال کے اختتام پر کلوزنگ 35 ارب ڈالر پر کر لیں گے۔
مزید پڑھیں: سمندر پار پاکستانیوں کی جانب سے ترسیلات زر میں نمایاں اضافہ، سعودی عرب سرفہرست
محمد عدنان پراچہ نے اسکی وجوہات یہ بتائیں کہ اوور سیز پاکستانیوں کا اعتماد بڑھ رہا ہے پاکستان پر اور وہ یہ بات تسلیم کر چکے کہ ہم نے سرمایہ پاکستان میں ہی لگانا ہے، انکا کہنا تھا کہ سمندر پار پاکستانیوں کے لیے اب سرمایہ لگانے کے لیے پلیٹ فارمز کھل رہے ہیں جو ایک سال پہلے نہیں تھے۔
محمد عدنان پراچہ کے مطابق اس وقت بھی 7 سے 8 ارب ڈالر ترسیلات زر میں اضافہ ہوسکتا ہے، سعودی عرب سے 25 سے 27 فیصد ترسیلات زر آرہی ہیں متحدہ عرب امارت سے 20 سے 21 فیصد آرہی ہے سب سے زیادہ سعودی عرب سے افرادی قوت ترسیلات زر بھیج رہے ہیں اور یہ 35 سے 37 فیصد جا سکتا ہے۔
محمد عدنان پراچہ کہتے ہیں کہ گلف ممالک پر توجہ دینے کے لیے ہم نے حکومت پاکستان کے سامنے سفارشات رکھی ہیں اگر ان پر عمل ہو جاتا ہے تو ترسیلات زر بڑھ جائیں گی دوسرا یہ کہ جن مسائل کا سامنا اس وقت ہماری افرادی قوت کو گلف ممالک میں جانے کے لیے کرنا پڑ رہا ہے ان کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔
مزید پڑھیں: جس نے بھی ترسیلات زر کے بائیکاٹ کا مشورہ دیا اس میں سمجھ کی کمی ہے، خواجہ آصف
محمد عدنان پراچہ کے مطابق ہمارے ترسیلات زر اصل میں تھی ہی یہی اس میں کمی واقعہ ہوگئی تھی اور اب بھی اس میں اضافے کی گنجائش موجود ہے، حوالہ ہنڈی کے خلاف کریک ڈاؤن سے اس میں بہتری آئی دوسری جانب ہم نے دیکھا کہ امریکی ڈالر اور پاکستانی روپیہ میں استحکام آیا ہے، اس سے قبل ڈالر اور پاکستانی روپے میں 5 روپے کا فرق آتا تھا جس کی وجہ سے غیر قانونی راستے کھلنے کے امکانات زیادہ ہوجاتے تھے جو اب نا ہونے کے برابر ہے اب ترسیلات زر بنکوں کے زریعہ آرہے ہیں جا کی وجہ سے یہ اپنی اصل حالت میں واپس آگئے ہیں۔
محمد عدنان پراچہ کہتے ہیں کہ اگر حکومت پاکستان اس وقت اپنی پالیسیاں بہتر بنا دے تو بہت بہتری کی گنجائش ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ 70 فیصد افرادی قوت مزدور ہے۔ ان کے لیے پراجیکٹس لانچ کیے جائیں ان کی آسانی کے لیے ایسا میکینزم ہو کہ وہ اپنے کمرے میں ایک کلک سے رقم پاکستان بھیج سکیں اور آدھے گھنٹے میں وہ رقم ان کے گھر والوں تک پہنچ جائے۔ اس کے ساتھ کم خرچ ہاؤسنگ اسکیمز اوورسیز پاکستانیوں کے لیے شروع کرنے کی ضرورت ہے ایسی سوسائیٹیز جس کی ضمانت حکومت پاکستان خود دے اور ان کے لیے ایسے مقامات دیکھے جائیں جن علاقوں سے زیادہ پاکستانی باہر جا رہے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پاکستان ترسیلات زر.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پاکستان ترسیلات زر ترسیلات زر میں ارب ڈالر کا کہنا کے لیے رہا ہے
پڑھیں:
کار مسلسل
وفاقی تحقیقاتی ایجنسی( ایف آئی اے) پیپلز پارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر کے خلاف انکوائری کررہا ہے۔ انھیں عید الفطر کی تعطیلات سے قبل طلب کیا گیا تھا اور 11اپریل کو دفتری اوقات کے بعد ایک سوالنامہ ارسال کیا گیا، بتایا جاتا ہے کہ کسی نامعلوم شخص کی درخواست پر اس انکوائری کا آغاز کیا گیا ہے۔
یہ سوالنامہ 12نکات پر مشتمل ہے،انھیں ہدایت کی گئی تھی کہ 17اپریل تک سوالنامہ کے جوابات جمع کرائیں۔ اس سوالنامے میں ان کے سینیٹر کی حیثیت سے اور بعد میں ہونے والی آمدنی کے بارے میں پوچھا گیا ہے۔ ایف آئی اے کے طریقہ کار سے واقف صحافیوں کا کہنا ہے کہ ایف آئی اے کے تحقیقاتی افسر اب ایک چارج شیٹ تیار کریں گے، پھر مزید کارروائی کے بارے میں پتہ چل جائے گا۔
فرحت اللہ بابر بنیادی طور پر انجنیئر ہیں۔ وہ 70ء کی دہائی میں سابقہ صوبہ سرحد حکومت کے محکمہ اطلاعات میں شامل ہوئے۔ جب ذوالفقار علی بھٹو بطور وزیراعظم صوبہ سرحد کے دورے پر پشاور آئے تو بھٹو صاحب نے صوبائی کابینہ میں تبدیلی کا فیصلہ کیا۔
احتیاط یہ کی گئی تھی کہ یہ خبر قبل از وقت افشا نہیں ہونی چاہیے اور شام کو پی ٹی وی کی خبروں میں یہ خبر شامل ہونی چاہیے۔ محکمہ اطلاعات کے اعلیٰ افسروں نے جونیئر افسر فرحت اللہ بابر کو گورنر ہاؤس بھیجا اور ہدایت کی کہ جلد سے جلد خبر کا ہینڈ آؤٹ تیار کر لیں۔ بابر صاحب نے یہ ہینڈ آؤٹ تیار کیا، یوں بھٹو صاحب ان کی صلاحیتوں کے معترف ہوئے۔
جنرل ضیاء الحق کے دور میں وہ سرکاری نوکری کو خدا حافظ کہہ کر سعودی عرب چلے گئے اور وہاں کئی سال گزارے۔ وہ جونیجو دور میں واپس پاکستان آگئے اور پشاور سے شائع ہونے والے معروف انگریزی کے مینیجنگ ایڈیٹر بن گئے۔
اس اخبار کے ایڈیٹر معروف صحافی عزیز صدیقی تھے۔ یہ جنرل ضیاء الحق کی آمریت کے آخری ایام تھے ۔ اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ پر عزیز صدیقی اور فرحت اﷲ بابر کو اس اخبار سے رخصت ہونا پڑا۔ فرحت اﷲ بابر پیپلز پارٹی کے اہم رہنماؤں میں شامل ہوگئے، وہ بے نظیر بھٹو حکومت کی پالیسی اور پلاننگ کمیٹی کے رکن رہے۔
بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد آصف زرداری صدر پاکستان کے عہدے پر فائز ہوئے، تو انھوں نے انھیں اپنا پریس سیکریٹری مقرر کیا۔ وہ پیپلز پارٹی کی جانب سے کئی دفعہ خیبر پختون خوا سے سینیٹ کے رکن رہے۔ انھوں نے خواتین، ٹرانس جینڈر اور مظلوم طبقات کے حقوق کے تحفظ کے لیے ہونے والی قانون سازی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
انھوں نے اطلاعات کے حصول کے قانون کی تیاری میں سرگرمی سے حصہ لیا۔ انسانی حقوق کے مقدمات کی پیروی بھی کی۔ وہ ایچ آر سی پیP کے بانی ارکان میں شامل ہیں اور کمیشن کے بنیادی ادارے کے منتخب رکن بھی ہیں۔ وہ اس ادارے کو فعال کرنے میں ہمیشہ متحرک رہے اور انھوں نے اپنے اس مقصد کے لیے کبھی کسی بڑی رکاوٹ کو اہمیت نہیں دی۔
فرحت اللہ بابر لاپتہ افراد کے حوالے سے آئین کے تحت دیے گئے انسانی حقوق کے چارٹر اور سول و پولیٹیکل رائٹس کنونشنز جس پر پاکستان نے بھی دستخط کیے ہیں کے تحت اس مسئلے کے لیے کبھی سینیٹ میں آواز اٹھاتے ہیں تو کبھی عدالتوں کی سیڑھیوں پر اور کبھی نیشنل پریس کلب کے سامنے بینر اٹھائے نظر آتے ہیں۔
گزشتہ دفعہ پیپلز پارٹی نے فرحت اللہ بابر کو سینیٹ کا ٹکٹ دیا تو بابر صاحب کے پاس انتخابی فارم کے ساتھ زرِ ضمانت جمع کرانے کے لیے رقم موجود نہیں تھی۔ ان کے چند دوستوں نے چندہ جمع کر کے زرِ ضمانت کی رقم جمع کرائی تھی۔
فرحت اللہ بابر نے ہمیشہ پیپلز پارٹی میں رہ کر مظلوم طبقات کے لیے آواز اٹھائی مگر پیپلز پارٹی کی قیادت کی خاموشی سے بہت سے پوشیدہ حقائق آشکار ہورہے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کو ہارڈ اسٹیٹ بنانے پر عمل درآمد شروع ہوچکا ہے ۔ فرحت اللہ بابر پاکستان کی سول سوسائٹی کا استعارہ ہیں۔ رئیس فروغ کا یہ شعر بابر صاحب کی شخصیت پر پورا اترتا ہے:
عشق وہ کارِ مسلسل کہ ہم اپنے لیے
کوئی لمحہ بھی پس انداز نہیں کرسکتے