Juraat:
2025-12-13@23:13:10 GMT

ریڈیو کا عالمی دن۔مواصلات کے انقلاب کی نمائندگی

اشاعت کی تاریخ: 13th, February 2025 GMT

ریڈیو کا عالمی دن۔مواصلات کے انقلاب کی نمائندگی

ڈاکٹر جمشید نظر

دنیا بھر میں ہر سال اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو کے زیر اہتمام 13 فروری کو ریڈیو کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد نہ صرف ریڈیو کی اہمیت اور افادیت کو اجاگر کرنا ہے بلکہ لوگوں میں اس کے استعمال کا شعور اجاگر کرتے ہوئے یہ بھی واضح کیا جاتا ہے کہ ریڈیوکس طرح مختلف ممالک کے درمیان ثقافتی کردار ادا کررہا ہے۔ریڈیو کا عالمی دن منانے کی ابتداء سن 2012 سے شروع ہوئی تھی حالانکہ ریڈیو کی ایجاد بہت پرانی ہے۔لفظ ریڈیو،ریڈیائی لہروں سے منسوب ہے۔ریڈیو ایک ایسی ٹیکنالوجی ہے جس کے ذریعے آواز کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کے لئے ریڈیائی لہروں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ریڈیو کے عالمی دن کے موقع پر بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ ریڈیواٹلی کے سائنس دان اور الیکٹریکل انجینئر گوگلیلمو مارکونی( (Guglielmo Marconi) کی ایجاد ہے۔آج کے دور میں تقریبا ہر کسی کے پاس موبائل فون ہے،موبائل فون رکھنے والے بھی یہ نہیں جانتے کہ ان کے پاس یہ جدید ٹیکنالوجی مارکونی کی مرہون منت ہے۔مارکونی ایک ایسا سائنس دان اور انجینئر تھا۔ 25اپریل 1874ء میں اٹلی کے مشہور شہر بولونیا میں پیدا ہونے والے گگلیلمومارکونی کو کم عمری سے ہی بجلی کے تجربات کرنے کا شوق تھا۔ جب وہ بیس برس کا ہوا تو اس نے سائنس دان” جیمزکلارک” کی ایک تحریر پڑھی جس میںجیمز کلارک نے دریافت کردہ وائرلیس لہروں کے بارے میں بتایا تھا۔اس تحریر کا مارکونی پر اتنا اثر ہوا کہ اس نے ان لہروں پر تجربات کرناشروع کردیئے دراصل وہ ریڈیائی لہروں یعنی تار کے بغیر ٹیلی گراف پیغام کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کے تصور کو حقیقت کا روپ دینا چاہتا تھا۔جب لوگوں کو اس کے تصورکا علم ہوا تو انھوں نے مارکونی کا تمسخر اڑانا شروع کردیا لیکن مارکونی مسلسل اپنے تجربات میں مصروف رہا اوربالآخر وہ ہوا کی لہروں پر اپنا پیغام دو میل کے فاصلہ تک پہنچانے میں کامیاب ہوگیا۔
اس کامیابی کے بعد جب مارکونی کواپنی نئی ایجاد پراٹلی میںکوئی خاص پذیرائی اور مددنہ ملی تو وہ لندن چلا گیا اور وہاں اپنے تجربات کو جاری رکھا جو مزید کامیاب ہوتے گئے اور مارکونی کو شہرت کی بلندیوں پرپہنچا دیا۔شہرت ملنے پراٹلی کی حکومت نے اسے واپس بلوالیا، مارکونی اپنے وطن واپس آگیا اور حکومت کے تعاون سے وہاں ریڈیائی لہروں کا ایک اسٹیشن قائم کیا۔پہلی جنگ عظیم میں اس اسٹیشن کے ذریعے بحری جہازوں کا پیغامات بھیجے جانے کا سلسلہ شروع ہوا۔1897ء میں مارکونی نے سمندر پار پہلا وائرلیس پیغام بھیجا۔ مارکونی نے مزید تجربات کرکے ریڈیائی لہروں کے ذریعے پیغامات بھیجنے کا فاصلہ بڑھانا شروع کردیا۔سن 1901ء میں مارکونی نے پہلا ٹرانزلانٹک ریڈیو سگنل نشر کیا اور وائرلیس پیغام بحراوقیانوس سے پار انگلستان سے کینیڈا بھیجنے میں کامیاب ہوگیا۔اس کے ریڈیائی سگنلز نے سمندری سفر کی تنہائی کو ختم کردیا تھا۔کہا جاتا ہے کہ مارکونی کے وائرلیس پیغام کی بدولت ٹائی ٹینک کے زندہ بچ جانے والے مسافروں کو ریسکیو کرنے میں مدد ملی تھی۔اس نئی ایجاد پرمارکونی کو 1915ء میں نوبیل انعام سے بھی نوازا گیا۔مارکونی کی ایجاد کی باقاعدہ شکل 1922ء میں سامنے آئی جب انگلینڈ میں ریڈیو براڈ کاسٹنگ کا سلسلہ شروع ہوا۔مارکونی کی تحقیق اور تجربات سے ثابت ہوا کہ وائر لیس کمیونیکیشن بھی ممکن ہے۔یہ بھی ایک عجیب اتفاق ہے کہ جب20 جولائی 1937ء کو اٹلی کے شہر روم میں نوبل انعام یافتہ سائنس دان گوگلیلمو مارکونی کی وفات ہوئی تو اس کے انتقال کی خبراسی کے ایجاد کردہ ریڈیو پر دنیا بھر میں سنی گئی ۔
موجودہ ترقی یافتہ دور میںبھی ریڈیو کی افادیت کم ہونے کی بجائے مزید بڑھی ہے ۔عالمی جنگوں سے لے کر عالمی وباؤں تک ریڈیو نے نا قابل فراموش کردار ادا کیا ہے خصوصا موجودہ عالمی وباء کورونا کے دور میں ریڈیو کے ذریعے دنیا بھر کے ممالک نے دور دراز کے علاقوں میںرہنے والے لوگوں کو ریڈیو کے ذریعے کورونا سے متعلق معلومات اور رہنمائی فراہم کی۔پاکستان میںایسے علاقے جہاں کسی اور میڈیا کی رسائی ممکن نہیں تھی وہاں ریڈیو پاکستان کے ذریعے لوگوں کو نہ صرف کورونا سے متعلق اپ ڈیٹ کیا جاتا رہا بلکہ طلباء کوتعلیم دی جاتی رہی اور صحت سے متعلق رہنمائی اور معلومات بھی بہم پہنچائی جاتی رہی ہے۔

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: ریڈیائی لہروں مارکونی کی مارکونی کو عالمی دن کے ذریعے جاتا ہے

پڑھیں:

غزہ، امن کا منظر نامہ دھندلا رہا ہے

غزہ میں جنگ بندی معاہدے کے بعد 62 ویں دن شدید موسم اور بارش نے خیموں میں قیام پذیر فلسطینیوں کی مصیبتیں مزید بڑھا دیں۔ المواصی میں پانی خیموں میں داخل ہوگیا، انسانی حالات مزید ابتر ہوگئے۔ دوسری جانب امریکی صدر ٹرمپ نے غزہ جنگ بندی کے دوسرے مرحلے کے آغاز کو موخرکردیا اورکہا کہ ’’ غزہ امن بورڈ‘‘ کا اعلان فی الحال روک دیا گیا ہے۔ میڈیا کی عالمی تنظیم رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز (آر ایس ایف) کی رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ غزہ میں اسرائیلی فوج نے 29 فلسطینی صحافیوں کو قتل کیا جو کہ اس سال دنیا بھر میں قتل ہونے والے صحافیوں کے مجموعی اعداد و شمار کا 43 فیصد بنتا ہے۔

غزہ کی سرزمین اس وقت انسانی المیے کی ایسی گواہ بن چکی ہے جس کی مثال جدید تاریخ میں کم ہی ملتی ہے۔ جنگ بندی کے اعلان کو دو ماہ سے زائد عرصہ گزر چکا ہے، مگر جس امن کی امید اس وقفے سے وابستہ کی گئی تھی وہ ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید دھندلا رہا ہے۔ حالات اس قدر بگڑ چکے ہیں کہ جنگ کے شعلوں سے بچ کر خیموں میں پناہ لینے والے فلسطینی اب بارش، سردی، بیماری اور بھوک کے دوسرے جہنم میں دھکیل دیے گئے ہیں۔ المواصی جیسے نسبتاً محفوظ سمجھے جانے والے علاقوں میں بارش کا پانی خیموں میں داخل ہو چکا ہے، جس نے نہ صرف رہائش کو ناممکن بنا دیا ہے بلکہ خوراک اور ادویات کی بچی کھچی فراہمی کو بھی شدید متاثر کیا ہے۔ غزہ کے لاکھوں بے گھر افراد کے لیے یہ موسم محض ایک موسمی تبدیلی نہیں بلکہ موت کا دوسرا چہرہ بن کر ابھرا ہے۔ شدید سردی، آلودہ پانی، دلدلی زمین، بیماریوں کے تیز رفتار پھیلاؤ اور خوراک کی کمی نے انسانی بحران کو اس حد تک بڑھا دیا ہے کہ عالمی ادارے اسے ’’ ناقابلِ تصور‘‘ اور ’’ناقابلِ قبول‘‘ قرار دے رہے ہیں۔

 جنگ بندی کے دعوئوں کے باوجود اسرائیلی فوج کی کارروائیاں رکی نہیں۔ معاہدے کے 62 ویں دن بھی مزید چار فلسطینیوں کو شہید کردیا گیا، اور مجموعی طور پر اس وقفے کے دوران 386 سے زیادہ افراد اپنی جان سے گئے۔ اس صورتحال سے واضح ہوتا ہے کہ جس چیز کو جنگ بندی کہا جا رہا ہے وہ در حقیقت ایک خطرناک فریب ہے۔ ہتھیاروں کی آواز بظاہر دھیمی پڑی ہے مگر فلسطینیوں کی قبروں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ دنیا کی اخلاقی ذمے داری ہے کہ وہ اس تضاد کو سمجھے اور اسے ایک ’’سیاسی اصطلاح‘‘ کے بجائے ’’انسانی تباہی‘‘ کے تناظر میں دیکھے۔دراصل فلسطینیوں کی زندگیوں کا معاملہ عالمی سیاست کے بڑے کھیل میں ایک قابلِ استعمال مہرے سے زیادہ کچھ نہیں۔

اقوامِ متحدہ میں امریکا کی سفیر کا یہ کہنا کہ ’’ٹرمپ کی سربراہی میں امن کونسل معاہدے پر عمل درآمد کی نگرانی کرے گی‘‘ دراصل ایک ایسا بیان ہے جس کی بنیاد پر کوئی فریق بھی حقیقی اطمینان محسوس نہیں کر سکتا۔ پچھلے کئی عشروں نے ثابت کردیا ہے کہ امریکا کی ’’نگرانی‘‘ اکثر طاقت کے پلڑے کو مزید جھکا دیتی ہے، نہ کہ انصاف کے توازن کو۔ عالمی برادری کو یہ سمجھنا ہوگا کہ امن صرف نعرے اور بریفنگ کی زبان میں قائم نہیں ہوتا، بلکہ عملی غیر جانب داری اور انسانی وقار کی پاسداری سے ہی ممکن ہو سکتا ہے۔اسی پس منظر میں اسرائیل نہ صرف جنگ کے قوانین بلکہ اطلاعات کی آزادی اور صحافت کے بنیادی اصولوں کو بھی مسلسل پامال کر رہا ہے۔

یہ حقیقت بھی انتہائی تشویش ناک ہے کہ غزہ پر اسرائیلی یلغار کے آغاز یعنی اکتوبر 2023 سے اب تک تقریباً 220 صحافی قتل کیے جا چکے ہیں۔ یہ مسلسل تیسرا سال ہے جب اسرائیل دنیا کے لیے سب سے خطرناک ملک ثابت ہوا ہے، جہاں صحافیوں کا قتل محض ’’حادثہ‘‘ نہیں بلکہ ایک منظم حکمتِ عملی کی صورت میں نظر آتا ہے۔ عالمی میڈیا اور حقوقِ انسانی کی تنظیمیں بارہا یہ مطالبہ کر چکی ہیں کہ صحافیوں کو جنگی نشانہ بنانے کو جنگی جرم قرار دیا جائے۔ مگر بدقسمتی سے طاقتور ملکوں کے سیاسی مفادات نے ہمیشہ انصاف کی راہ میں دیوار بن کر کھڑے رہنے کا کردار ادا کیا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ صحافیوں کے قتل پر اسرائیل کو جوابدہ ٹھہرایا جانا ضروری ہے، اگر دنیا اس قتلِ حقیقت پر بھی خاموش رہے تو آنے والی نسلیں اس عصر کو ایک ایسے دور کے طور پر یاد کریں گی جہاں طاقت نے سچ کو شکست دینے کی کوشش کی اور دنیا نے تماشائی بن کر یہ ظلم دیکھا۔

غزہ کے اسپتالوں اور رہائشی علاقوں پر حملے محض عسکری تنصیبات ’’سمجھنے‘‘ کی غلطی نہیں بلکہ گہری منصوبہ بندی کا نتیجہ ہیں۔ آر ایس ایف کی رپورٹ کے مطابق رواں سال 25 اگست کو جنوبی غزہ کے ایک اسپتال پر کیا جانے والا حملہ ’’سب سے خوفناک واقعہ‘‘ تھا جس میں پانچ صحافی ایک ہی دن میں جاں بحق ہوگئے۔ اس تمام منظر نامے میں اسرائیل کی جانب سے مسلسل یہ دعوے بھی کیے جا رہے ہیں کہ ’’حماس کو غیر مسلح کیا جائے گا۔‘‘ مگر حقیقت یہ ہے کہ جنگی جرائم، محاصروں، بھوک، بیماری اور مسموم حالات نے جس نسل کی پرورش کی ہے، وہ ہتھیاروں سے زیادہ مظلومیت کی تاریخ رکھتی ہے۔ دنیا کی طاقتیں یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ مزاحمت کا خاتمہ بمباری سے نہیں بلکہ انصاف سے ہوتا ہے۔ اور جب انصاف مسلسل غیر حاضر ہو تو مزاحمت نہ ختم ہوتی ہے نہ اس کی مثالیں مٹتی ہیں۔

غزہ کی موجودہ نسل نے اپنی زندگی صرف بمباری، محاصروں، بھوک، خوف اور بے گھر ہونے میں گزاری ہے۔ وہ دنیا کی ان پالیسیوں کو اچھی طرح سمجھتی ہے جن میں طاقتور ملکوں کے سیاسی اور معاشی مفادات انسانی زندگی سے زیادہ اہم ہیں۔ جب ایک پوری نسل اپنے اردگرد صرف ملبہ، جنازے اور ظلم دیکھتی ہے تو وہ بے حسی کا شکار نہیں ہوتی بلکہ اپنی شناخت دوبارہ تعمیر کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فلسطینی نوجوان مزاحمت کی نئی شکلیں اختیار کر رہے ہیں۔ یہ حقیقت عالمی برادری کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے کہ ظلم کے خلاف مزاحمت صرف اسلحہ نہیں بلکہ شعور، کلمہ سچ اور مسلسل جدوجہد سے بھی پروان چڑھتی ہے۔

دنیا کی تاریخ ایسے بے شمار واقعات سے بھری پڑی ہے جن میں انسانی ضمیر کا امتحان لیا گیا، مگر گزشتہ برسوں میں اور بالخصوص حالیہ مہینوں میں غزہ میں جاری تباہی نے اس امتحان کو ایک ایسے موڑ پر پہنچا دیا ہے جہاں اب خاموشی بھی جرم ہے اور لاتعلقی بھی ظلم کا ساتھ تصور ہوتی ہے۔ غزہ کے بچے، عورتیں، مرد، صحافی، معلم، ڈاکٹر اور عام شہری مسلسل بمباری، محاصرے، بھوک، پیاس اور بے گھر ہونے کے اذیت ناک مراحل سے گزر رہے ہیں۔ مگر اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ حقیقت یہ ہے کہ ظلم کا شکار صرف انسان نہیں بلکہ سچائی، انصاف، صحافت اور عالمی ضمیر بھی اس بربریت کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔غزہ کا مسئلہ محض فلسطینیوں تک محدود نہیں، یہ وہ آئینہ ہے جس میں پوری دنیا کی اخلاقی سمت، سیاسی ترجیحات اور انسانی قدریں واضح طور پر دکھائی دیتی ہیں۔ روزانہ مرنے والے بچوں کا سوال صرف فلسطین کا سوال نہیں، بلکہ یہ انسانیت کے اجتماعی ضمیر کا سوال ہے۔

کیا دنیا اپنی آنکھوں کے سامنے انسانیت کے قتلِ عام پر خاموش رہے گی؟ کیا عالمی ادارے، اقوامِ متحدہ سے لے کر انسانی حقوق کی تنظیموں تک، اپنی بے بسی یا بے عملی کو ’’غیر جانبداری‘‘ کا نام دیتے رہیں گے؟ یا پھر دنیا قومیت، نسل، مذہب اور جغرافیے سے بالاتر ہو کر انسان کی بنیادی حرمت کو مقدم رکھے گی؟

غزہ کا مسئلہ سب سے پہلے انصاف کا مسئلہ ہے۔ انصاف کا اصول یہ ہے کہ طاقتور اور کمزور دونوں کو یکساں حق دیا جائے، مگر زمین پر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ دنیا کا نظام اُس وقت تلخ سچائی بیان کرتا ہے جب عالمی عدالتیں صرف کمزور ممالک یا غیر ہم نوا ریاستوں کے خلاف تو سرگرم دکھائی دیتی ہیں، مگر جب ایک ایسی طاقت ظلم ڈھائے جو بڑی قوتوں کی حلیف ہو، اُس کے خلاف زبانیں گنگ اور قلم مفلوج ہوجاتے ہیں۔ غزہ میں لاکھوں انسانوں کو اجتماعی سزا دینا، بنیادی ضرورتوں کا محاصرہ، پانی اور خوراک کی بندش، اسپتالوں کی تباہی، پناہ گاہوں پر حملے، یہ سب کچھ بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزیاں ہیں، مگر انصاف کے علمبردار اداروں کی خاموشی خود ایک سوالیہ نشان بن چکی ہے۔

یہ معاملہ انسانیت کا بھی ہے۔ دنیا میں اگر کہیں بھی کوئی بچہ بھوک سے مرتا ہے، کوئی عورت ملبے تلے سسک رہی ہے، کوئی بیمار دوا کے بغیر جان دے رہا ہے، تو انسانیت کا دعویٰ رکھنے والی دنیا کو اُس کا دکھ محسوس کرنا چاہیے، لیکن غزہ کے معاملے میں دنیا کی اکثریت نے بچوں کی چیخوں کو پس منظر کا شور سمجھ کر نظر انداز کردیا۔ بعض ممالک نے تو یہ بے حسی اختیار کی کہ جنگی مشینری کو مزید ایندھن فراہم کرنے لگے۔ انسانیت کی حرمت کا تقاضا تھا کہ دنیا متحد ہو کر ظلم کو روکتی، مگر افسوس کہ اکثر طاقتیں سیاسی مفادات کی غلام بن کر رہ گئیں۔

غزہ کا مسئلہ صرف فلسطینیوں کا مسئلہ نہیں، یہ انصاف، انسانیت، صحافت، سچائی اور عالمی امن کا مسئلہ ہے۔ دنیا کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ کس طرف کھڑی ہے۔ مظلوم کے ساتھ یا طاقت کے نشے میں بدمست جارحیت کے ساتھ؟ اگر عالمی ضمیر نے اب بھی جاگنے سے انکار کیا تو تاریخ کے صفحات پر اس دور کی قیادت کے لیے صرف ایک ہی جملہ لکھا جائے گا:’’انھوں نے ظلم دیکھا، مگر خاموش رہے۔‘‘
 

متعلقہ مضامین

  • حیدر آباد، جئے سندھ محاذ کے احتجاجی مظاہرے کے باعث پولیس اہلکار الرٹ کھڑے ہیں جبکہ شاہراہ ریڈیو پاکستان کو ٹریفک کے لیے بند کردیا گیا
  • انقلاب منچہ کے کنوینیئر پر حملہ: بنگلہ دیشی حکومت کا ملزم کی گرفتاری پر 50 لاکھ ٹکا انعام
  • ڈان ٹی وی اور ریڈیو کو سرکاری اشتہارات کی بندش پر میڈیا تنظیموں کا شدید ردِعمل
  • وفاقی ملازمتوں میں خواتین کی نمائندگی صرف 5.8 فیصد
  • غزہ، امن کا منظر نامہ دھندلا رہا ہے
  • ڈھاکہ، انقلاب منج کے ترجمان پر قاتلانہ حملہ، چیف ایڈوائزر کی مذمت
  • بی این پی کے قائم مقام چیئرمین طارق رحمان کی انقلاب منچہ کے ترجمان پر فائرنگ کی مذمت
  • متحدہ عرب امارات میں 16ویں سر بنی یاس فورم، اسحاق ڈار پاکستان کی نمائندگی کریں گے
  • اقوامِ متحدہ کی ماحولیاتی اسمبلی میں پاکستان کی نمائندگی، مصدق ملک کا اہم خطاب
  • زاہدان میں پاسداران انقلاب کے قافلے پر حملہ، 3 اہلکار ہلاک