Jasarat News:
2025-04-22@11:10:01 GMT

عام آدمی پارٹی کا زوال۔ ٹوٹ گئے خواب

اشاعت کی تاریخ: 13th, February 2025 GMT

عام آدمی پارٹی کا زوال۔ ٹوٹ گئے خواب

تہلکہ ڈاٹ کام کے سیاسی بیورو میںغالباً 2011 میںکام کرتے ہوئے ایک بار ایڈیٹر ان چیف ترون تیج پال نے اپنے دفتر بلاکر ایک شخص سے متعارف کراتے ہوئے کہا کہ ان کے پاس انکم ٹیکس محکمہ کے حوالے سے کسی اسٹوری کا خاکہ ہے، ان سے بات کرکے دیکھو کہ کس طرح اسٹوری کو آگے بڑھایا جاسکتا ہے۔ یہ شخص اروند کیجری وال تھے، جنہوں نے انکم ٹیکس محکمہ سے جوائنٹ کمشنر کے عہدے سے استعفا دیکر سول سوسائٹی میں شمولیت کرکے کرپشن کے خلاف علم بغاوت بلند کیا ہوا تھا۔ میں ان دنوں خود انکم ٹیکس کے گرداب میں پھنسا ہوا تھا، اس لیے شاید ایڈیٹر کو لگا ہوگا کہ میں اس اسٹوری کو زیادہ بہتر سمجھ پائوں گا۔ میں کیجری وال کو اپنے چیمبر لے آیا، جو گریٹر کیلاش کے ایم بلاک میں ہی ذرا فاصلہ پر دوسری بلڈنگ میں تھا۔ خیر اسٹوری جو ان کے پاس تھی، اس پر مختلف وجوہات کی بنا پر کام نہیں ہوسکا۔ ملاقات کے بعد جب میں ان کو باہر چھوڑنے آیا تو انہوں نے کناٹ پلیس تک جانے کے لیے بس کا روٹ نمبر جاننا چاہا۔ میں تو ان کو ان کی گاڑی تک چھوڑنے کی نیت سے نیچے ساتھ آیا تھا، مگر اب ان کو بس اسٹاپ تک چھوڑنا پڑا۔ میں حیران و پریشان تھا کہ اس قدر ملائی والے انکم ٹیکس محکمہ میں اتنے اونچے عہدے پر رہنے والا شخص، جس کہ اہلیہ بھی سرکاری افسر ہے، وہ بسوں میں دھکے کھاتا پھرتا ہے۔ میں نے اب غور سے دیکھا تو وہ پائوں میں نائلون کی ہوائی چپل پہنے ہوئے تھے۔ اس کے دو سال بعد وہ دسمبر 2013 میں دارالحکومت دہلی کے وزیر اعلیٰ کے عہدے پر فائز ہوگئے اور اس سے قبل ان کی تنظیم انڈیا اگینسٹ کرپشن، جو بعد میں عام آدمی پارٹی یعنی عآپ میں تبدیل ہوگئی، نے اپنی سیاست سے پورے ملک کو مسحور کر کے پیغام دے دیا تھا کہ ایک متبادل سیاست کا وقت آچکا ہے۔ کانگریس، بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سمیت تمام روایتی پارٹیوں کی نیندیں حرام ہو چکی تھیں۔ ان کی پہلی مدت حکومت، جو بس دو ماہ سے کچھ کم وقت تک ہی رہی، کے دوران مجھے ایک بار دہلی کے صوبائی سیکرٹریٹ جانے کا اتفاق ہوا۔ گیٹ کے باہر حسب توقع لمبی لائن دیکھ کر میں پریس کارڈ دکھا کر لائن کراس کرنے کا سوچ ہی رہا تھا کہ قطار میں مجھے وزیر صحت ستندر جین اپنی باری کا انتظار کرتے ہوئے نظر آئے۔ اسی دوران پاس میں ہی ایک آٹو رکشہ ْرکا اور سماجی بہبود کی وزیر راکھی برلا اس میں سے برآمد ہوئی اور وہ بھی قطار میں شامل ہوگئی۔ ان کو قطار میں دیکھ کر مجھے پریس کے نام پر آگے جانے پر شرم محسوس ہوئی اور ان کے پیچھے ہی لائن میں لگ کر آگے جانے کے لیے باری کا انتظار کرنے لگا۔ نوزائیدہ عآپ اور وزیراعلیٰ کیجریوال نے سیکریٹریٹ کا حلیہ ہی بدل کر رکھ دیا تھا۔ وی وی آئی پی کلچر قصہ پارینہ بن چکا تھا۔ واقعی عام آدمی کی حکومت آچکی تھی۔ مگر ایک دہائی سے زیادہ عرصہ تک دہلی پر بھاری اکثریت کے ساتھ حکومت کرنے کے بعد ابھی حال ہی میں عوام نے اس پارٹی کو اقتدار سے بے دخل کر دیا۔ اس حد تک کہ کیجریوال سمیت کئی اعلیٰ لیڈران کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ ابتدائی چند دنوں کے بعد اس پارٹی نے متبادل سیاست کے بجائے روایتی سیاست کا اعادہ کرکے اپنے حامیوں خاص طور پر مڈل کلاس کو مایوس کردیا تھا۔ جس کا اس کو خمیازہ بھگتنا پڑا ہے۔ عآپ کا پہلا انتخابی امتحان 2013 کے دہلی اسمبلی انتخابات میں ہوا، جہاں اس نے حیران کن کامیابی حاصل کرتے ہوئے 70 میں سے 28 نشستیں جیت لیں۔ پندرہ سال سے مسلسل حکمران کانگریس کو محض چند سیٹوں تک محدود کر دیا گیا، جبکہ بی جے پی بھی اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ ایسے میں، عآپ نے کانگریس کی بیرونی حمایت سے حکومت بنا لی، مگر کیجریوال کی حکومت محض 49 دن ہی چل سکی۔ انہوں نے جن لوک پال یعنی محتسب بل کو اسمبلی کی منظوری نہ دینے کے سبب استعفا دے دیا۔ مگر اس اچانک استعفے کے باوجود عآپ کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوا۔ پارٹی نے خود کو روایتی سیاسی جماعتوں کے برعکس عام آدمی کی آواز کے طور پر پیش کیا اور گراس روٹس سطح پر متحرک کارکنوں، شفافیت اور سوشل میڈیا کے بہترین استعمال کے ذریعے اپنا اثر رسوخ بڑھایا۔ 2015 کے دہلی انتخابات میںعآپ نے تاریخی کامیابی حاصل کی اور 70 میں سے 67 نشستیں جیت کر اپوزیشن کو تقریباً مٹا دیا۔ اسی طرح 2020 میں ایک بار پھر عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کرکے 62 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی، جو اب 2025 کے انتخابات میں سمٹ کر 22 رہ گئی ہیں۔ عآپ کے ایک سابق سینئر رہنما میانک گاندھی کا کہنا ہے کہ پے در پے تاریخی کامیابیاں ہی بعد میں غرور کا سبب بنیں اور اسی نے پارٹی کے زوال کی بنیاد بھی رکھ دی۔ 2013 انتخابات کے موقع پر عام آدمی پارٹی نے سیاست کو بدعنوانی سے پاک کرنے نیز عام آدمی کو مہنگائی اور رشوت ستانی سے نجات دلانے کی غرض سے 18 وعدے کیے تھے۔ ان کے مطابق کسی بھی ایم ایل اے اور وزیر کی کار پر لال بتی استعمال نہیں ہوگی، انہیںاس صورت سرکاری رہائش گاہ نہیں دی جائے گی، اگر ان کے پاس ذاتی مکان ہے۔ حکومت بنانے کے بعد پندرہ دن کے اندر لوک پال یعنی احتساب بل پاس کیا جائے گا۔ محلہ کمیٹی کو فیصلہ سازی کا اختیار دینے کے لیے سوراج ایکٹ وضع کیا جائے گا، سوشل سیکورٹی فنڈ قائم کیا جائے گا، دہلی جل یعنی پانی بورڈ کی تشکیل نو کی جائے گی۔ کنٹریکٹ پر روزگار دینے کا سلسلہ ختم کیا جائے گا، دریائے یمنا کو صاف کیا جائے گا، ایسے کئی وعدے ہیں، جو پورے نہیں کیے گئے۔ ہاں یہ سچ ہے کہ عآپ کے اقتدار میں آتے ہی کیجری وال نے بجلی تقسیم کرنے والی کمپنیوں پر شکنجہ کس کے بجلی کی بلوں کو کم کروایا۔ محلہ کلینک کھولے اور سرکاری اسکولوں کو قدرے بہتر کرادیا۔ دہلی کو مکمل ریاست کا درجہ دینا، غیر قانونی کالونیوں کو قانونی طور پر جائز اور قانونی بنانا، ان کا انہدام روکنا اور دیہی اراضیوں کی تحویل پر پابندی لگانا وغیرہ بھی کئی ایسے وعدے ہیں، جو ایفا نہیں ہوسکے۔ مرکزی حکومت کے ساتھ ہمہ وقت ٹکرائو کی وجہ سے بھی متعدد وعدوں کو عملی جامہ نہیں پہنا سکے۔ کہاں یہ وعدہ کہ وزیروں کو سرکاری رہائش گاہ نہیں دی جائیگی، کہاں یہ کہ انتخابات میں تاریخی فتح کے فوراً بعد ہی کیجری وال نے دو جڑے ہوئے پانچ بیڈروم والے سرکاری ڈوپلیکس گھروں میں منتقل ہونے کا فیصلہ کیا اور پھر دوسری مدت کے دوران کورونا لاک ڈاون کی دوران وزیر اعلیٰ ہائوس پر کروڑوں روپے خرچ کیے۔ ان کے مخالفین کا کہنا ہے کہ صرف پردوں اور قالینوں پر پانچ کروڑ سے زائد کی رقم خرچ کی گئی۔
(جاری ہے)

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: انتخابات میں کیا جائے گا انکم ٹیکس کیجری وال کے بعد

پڑھیں:

کینالز تنازع پر ن لیگ پیپلزپارٹی آمنے سامنے، کیا پی ٹی آئی کا پی پی پی سے اتحاد ہو سکتا ہے؟

دریائے سندھ سے کینالز نکالنے کے معاملے پر پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن آمنے سامنے ہیں۔ جمعہ کو حیدر آباد میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے چئیرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے کہاکہ پانی کی تقسیم کا مسئلہ وفاق کو خطرے میں ڈال سکتا ہے، اسلام آباد والے اندھے اور بہرے ہیں، یہ نہ سننے کو تیار ہیں اور نہ ہی دیکھنے کے لیے تیار ہیں، ہم وزارتوں کو لات مارتے ہیں، کینالز منصوبہ کسی صورت منظور نہیں ہے۔

انہوں نے کہاکہ وفاقی حکومت فوری طور پر اپنا متنازع کینالز کا منصوبہ روکے، ورنہ پیپلز پارٹی ساتھ نہیں چل سکتی۔

یہ بھی پڑھیں متنازع کینالز منصوبہ: نواز شریف اور شہباز شریف کی پیپلزپارٹی کے تحفظات دور کرنے کی ہدایت

اس ساری صورتحال میں اگر پیپلز پارٹی حکومت کی حمایت سے دستبردار ہو جاتی ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی اکٹھی ہو سکتی ہیں؟ اور یہ ممکنہ اتحاد پی ٹی آئی کے لیے کم بیک کرنے میں کتنا مفید ثابت ہو سکتا ہے؟

کینالز کے معاملے پر اختلاف پیپلزپارٹی اور اسٹیبلشمنٹ میں ہوگا، ماجد نظامی

سیاسی تجزیہ کار ماجد نظامی نے کہاکہ پیپلز پارٹی اس وقت مشکل صورتحال سے اس لیے دوچار ہے کیونکہ 9 فروری کے بعد سے لے کر اب تک وہ وفاقی حکومت پر تنقید تو کرتے تھے، لیکن ساتھ شامل بھی تھے، لیکن اب معاملہ تھوڑا مختلف ہے کیوں کہ کینالز کے معاملے پر یہ اختلاف پیپلز پارٹی اور اسٹیبلشمنٹ میں ہوگا۔

انہوں نے کہاکہ اس کے علاوہ سندھ میں قوم پرستوں کے مؤقف کی وجہ سے بھی پیپلز پارٹی کو سیاسی طور پر مشکل کا سامنا ہو سکتا ہے، اس لیے وفاقی حکومت پر پیپلز پارٹی تنقید تو کررہی ہے، لیکن ان کے اصل مخاطب اسٹیبلشمنٹ کے افراد ہیں، کیونکہ کینالز جو خصوصاً پنجاب میں آئیں گی، وہ ماڈرن فارمنگ کے ایریاز کے لیے تشکیل دی جا رہی ہیں۔

’براہِ راست اسٹیبلشمنٹ کو مخاطب کرنا پیپلز پارٹی کے لیے ذرا مشکل ہے‘

انہوں نے سیاسی صورتحال پر بات کرتے ہوئے کہاکہ چونکہ سیاسی صورتحال پر براہِ راست اسٹیبلشمنٹ کو مخاطب کرنا پیپلز پارٹی کے لیے ذرا مشکل ہے، اس لیے وہ وفاقی حکومت پر تنقید کررہے ہیں، لیکن یہ معاملہ پیپلز پارٹی بمقابلہ اسٹیبلشمنٹ ہے، اس سے مسلم لیگ ن کا کوئی تعلق نہیں۔

ایک سوال کے جواب میں ماجد نظامی نے کہاکہ پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی کے درمیان اتحاد کا کوئی امکان نہیں، کیوں کہ نہروں کے معاملے پر پیپلزپارٹی کی یہ لڑائی مسلم لیگ ن سے نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ سے ہے۔

انہوں نے کہاکہ پاکستان میں کوئی ایسی حکومت تشکیل نہیں پا سکتی جس کو اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل نہ ہو، اس لیے پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کے اتحاد کا معاملہ ذرا مشکل نظر آتا ہے۔

کینالز کے معاملے پر پیپلزپارٹی اور ن لیگ کی نشست کامیاب نہیں ہوسکی، احمد بلال

تجزیہ کار احمد بلال نے کہاکہ سندھ تو پہلے سے ہی شور مچاتا آرہا ہے کہ انہیں پانی کم ملتا ہے، اگر اب ایسی صورت میں نہریں بھی نکلیں گی تو ان کے ساتھ زیادتی ہوگی، اسی لیے پیپلزپارٹی سمیت دیگر سیاسی جماعتیں باقاعدہ مہم چلا رہی ہیں۔

انہوں نے کہاکہ متنازع کینالز منصوبے کے حوالے سے پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان ہونے والی نشست کامیاب نہیں ہو سکی، جس کی وجہ سے یہ مسئلہ مزید بڑھتا جارہا ہے، اور بلاول بھٹو نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ اگر انہوں نے ساتھ چھوڑ دیا تو یہ حکومت نہیں چل سکے گی۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ پاکستان پیپلزپارٹی کبھی بھی مسلم لیگ ن کے ساتھ اتحاد نہیں کرےگی، ان کے مسلم لیگ ن کے ساتھ معاملات حل ہو جائیں گے، اس وقت جو کچھ ہورہا ہے یہ صرف ایک پریشر ہے۔

’پیپلزپارٹی حکومتی حمایت سے دستبردار ہوگئی تو مرکز میں انتخابات دوبارہ ہوں گے‘

انہوں نے مزید کہاکہ اگر پیپلز پارٹی حکومت سے علیحدگی اختیار کرتی ہے تو وفاق کی یہی صورتحال ہوگی کہ انتخابات دوبارہ ہوں گے، اور ایسی صورت میں مسائل مزید بڑھ سکتے ہیں کیوں کہ اس وقت ملک درست سمت میں گامزن ہو چکا ہے، اور معیشت ٹریک پر آگئی ہے۔

انہوں نے کہاکہ پاکستان کی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ یہ افورڈ نہیں کر سکتے کہ اس وقت دوبارہ سے سے انتخابات کروائے جائیں، بلاول بھٹو نے جلسے میں جو کہا یہ صرف بیان کی حد تک تھا۔

انہوں نے کہاکہ صدر مملکت آصف زرداری منجھے ہوئے سیاست دان ہیں، وہ جانتے ہیں کہ کیسے آگے بڑھنا ہے، کیسے پریشر ڈالنا ہیں اور مطالبات منوانے کے لیے کیا آپشن استعمال کرنے ہیں۔

نہروں کا معاملہ پیپلزپارٹی کے لیے اہمیت کا حامل ہے، رانا عثمان

سیاسی تجزیہ کار رانا عثمان نے بتایا کہ نہروں کا مسئلہ پیپلزپارٹی کے لیے نہایت اہمیت کا حامل ہے، چونکہ اس کا سارا ووٹ بینک سندھ میں ہے، اور وہاں پر ان کی حکومت بھی ہے۔

انہوں نے کہاکہ پانی کے معاملے پر سندھ کے عوام بہت جذباتی ہیں، کالا باغ ڈیم کے معاملے پر یہ چیز واضح بھی ہو چکی ہے، کچھ بھی ہو جائے پیپلزپارٹی نہریں نکالنے کے معاملے پر راضی نہیں ہو سکتی۔

رانا عثمان نے کہاکہ بلاول بھٹو کی جانب سے حکومت کا ساتھ چھوڑنے کی دھمکی ایک سیاسی پریشر ہے، وہ بخوبی جانتے ہیں کہ اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو جمہوریت کے لیے کیا خطرات ہوں گے۔

یہ بھی پڑھیں حکومت متنازع نہری منصوبہ روکے ورنہ ساتھ نہیں چل سکتے، بلاول بھٹو نے شہباز شریف کو خبردار کردیا

انہوں نے کہاکہ پیپلزپارٹی سمجھتی ہے کہ ملک اس وقت نئے انتخابات کا متحمل نہیں ہو سکتا، کیونکہ پاکستان کی معاشی صورتحال ہی ایسی ہے، اس لیے پیپلزپارٹی حکومت کی حمایت سے دستبردار نہیں ہوگی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews آصف زرداری بلاول بھٹو پی ٹی آئی پی پی پی اتحاد پیپلزپارٹی شہباز شریف عمران خان کینالز معاملہ مسلم لیگ ن نواز شریف وی نیوز

متعلقہ مضامین

  •   کینالز منصوبے پر پیپلزپارٹی کے تحفظات دور کرنے کیلئے مذاکراتی کمیٹی بنانے کا فیصلہ
  • تعلیم پر روزانہ 59 ہزار روپے خرچ کرنیوالی جاپانی گلوکارہ
  • پیپلز پارٹی کھیل بگاڑنا چاہتی ہے؟
  • شہباز خدا کا خوف کرو، کلمہ پڑھتے ہو اور 25 کروڑ عوام کے حق پر ڈاکہ ڈال کر بیٹھے ہو، محمود اچکزئی
  • اسلام آباد میں ریڈزون کو کنٹینرز لگا کر سیل کر دیا گیا، حکومت کا جماعت اسلامی سے رابطہ
  • خیبرپختونخواہ حکومت کا ٹرانسپلانٹ اور امپلانٹ سروسز مفت فراہم کرنے کا فیصلہ
  • وفاقی حکومت کسی وقت بھی گرسکتی: پیپلز پارٹی رہنما شازیہ مری
  • کینالز تنازع پر ن لیگ پیپلزپارٹی آمنے سامنے، کیا پی ٹی آئی کا پی پی پی سے اتحاد ہو سکتا ہے؟
  • کاروبار پر حملہ کرنے والوں سے سختی سے نمٹا جائے گا،طلال چوہدری
  • گندم کی فی من قیمت 4 ہزار مقرر کی جائے، لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر