نوجوانوں کا آئی ٹی میں بڑھتا رجحان
اشاعت کی تاریخ: 13th, February 2025 GMT
سیلانی ویلفیئر انٹرنیشنل ٹرسٹ کے بانی و چیئرمین مولانا بشیر فاروقی قادری کے مطابق سیلانی ٹرسٹ ملک بھر میں ایک کروڑ نوجوانوں کو آئی ٹی کی تعلیم سے آراستہ کرنے کے لیے پرعزم ہے اور ٹرسٹ نے میگا آئی ٹی ٹیسٹ کی تقریبات کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے جس کے دوران ہاکی اسٹیڈیم کراچی میں حال ہی میں ایک اور میگا آئی ٹی ٹیسٹ اور ایس ایم آئی ٹی پروگرام کے تحت انتظامات کے لیے منعقدہ تقریب میں سندھ کے گورنر نے بھی شرکت کی۔
جس میں سیلانی ٹرسٹ کے سربراہ مولانا بشیر فاروقی قادری نے کہا کہ ملک کی ترقی کا انحصار آئی ٹی کی تعلیم کے حصول میں ہے اور سیلانی ٹرسٹ اس سلسلے میں مصروف عمل ہے اور ٹرسٹ 2035 تک پاکستان کو ترقی یافتہ ملک بنانے کے لیے سرگرداں ہے جس کے تحت ہی ملک بھر میں آئی ٹی ٹیسٹ ہو رہے ہیں جہاں بلامعاوضہ ٹرسٹ آئی ٹی کی تعلیم دے رہا ہے اور حالیہ ٹیسٹ میں بھی دس ہزارنوجوانوں کے ٹیسٹ لیے گئے ہیں۔
موجودہ دور آئی ٹی کا دور ہے جس کی اہمیت کو پاکستان سے پہلے بھارت نے تسلیم کیا تھا جس کے تحت انٹرنیٹ کے سلسلے میں دنیا بھر میں ایک عالمی طاقت بن کر ابھرا ہے جس کے مقابلے میں آئی ٹی کی اہمیت کو دیر سے تسلیم کیا گیا جس کی وجہ سے ہم دنیا میں بہت پیچھے رہ گئے اور حکومتوں کی طرف سے آئی ٹی کی تعلیم پر دیر سے توجہ دی گئی۔ اب حکومت کی طرف سے انٹرنیٹ کی تعلیم دینے کے لیے جو اقدامات ہوئے وہاں ملک کے نجی اداروں نے بھی ملک کے بچوں کو آئی ٹی کی تعلیم کے حصول پر راغب کیا جن میں ملک میں ایک بہت بڑا فلاحی ادارہ سیلانی ویلفیئر انٹرنیشنل ٹرسٹ ہے جہاں بلا معاوضہ آئی ٹی کی تعلیم حاصل کرکے نوجوان میدان میں آنا شروع ہوگئے ہیں اور لاکھوں روپے ماہانہ کمانے لگے ہیں، جو کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔
آئی ٹی میں نوجوانوں کا رجحان جس طرح تیزی سے بڑھ رہا ہے اس لحاظ سے کمرشل ادارے بھی بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں اور من مانی فیسوں پر نوجوانوں کو آئی ٹی کی تعلیم دینے لگے ہیں مگر سیلانی ٹرسٹ کی انفرادیت یہ ہے کہ وہ نوجوانوں کو مفت میں آئی ٹی کی تعلیم دے رہا ہے بلکہ اس کی ترجیح ہی آئی ٹی کی تعلیم زیادہ سے زیادہ نئی نسل کو فراہم کرنا ہے۔ ملک بھر میں طلبا اور طالبات کو آئی ٹی کی جدید تعلیم دینے کے لیے سیلانی ٹرسٹ نے مختلف انتظامات کر رکھے ہیں جہاں آئی ٹی کی تعلیم کے حصول کے خواہش مند تعلیم حاصل کرنے میں مصروف ہیں۔
آئی ٹی کے تعلیم کا بڑھتا رجحان اب نئی نسل کی مجبوری بن چکا ہے اور لوگ آئی ٹی کی تعلیم کے سینٹروں کا رخ کر رہے ہیں جس کو دیکھ کر نوجوانوں کی مجبوری سے فائدہ اٹھانے کے لیے کمرشل اداروں نے منہ مانگی فیسوں پر آئی ٹی کی تعلیم دینا شروع کر دی ہے جن کا مقصد زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانا ہے اور ان کا اس سلسلے میں طریقہ معیاری نہیں۔سیلانی ویلفیئر انٹرنیشنل ٹرسٹ جو گزشتہ 20 سالوں سے زندگی کے 63 شعبوں پیدائش سے موت تک سہولیات فراہم کر رہا ہے جس کے تحت ملک بھر میں سیلانی کے ایک ہزار دسترخوانوں پر تین لاکھ غریبوں کو 3 وقت مفت کھانا کھلا رہا ہے۔
سوا لاکھ غریبوں کا مفت علاج 700 غریب بچیوں کو جہیز کی فراہمی اور ملک کے چار لاکھ غریب بچوں کو تعلیمی سہولیات کی فراہمی۔ سیلاب میں بے گھر ہو جانے والے متاثرین کے لیے دو سو گھروں کی تعمیر سیلانی ٹرسٹ کی خدمات کا حصہ ہیں۔سیلانی ٹرسٹ نے سب سے پہلے آئی ٹی کی اہمیت بڑھتے دیکھ کر نوجوانوں کو آئی ٹی کی مفت تعلیم فراہم کرنے کا آغاز کیا تھا جو کامیابی سے جاری ہے۔ سیلانی کے اس اقدام سے نوجوانوں کو مفت میں سہولیات حاصل ہوئیں اور آئی ٹی کی طرف اب ان کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے ۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: آئی ٹی کی تعلیم کے کو آئی ٹی کی سیلانی ٹرسٹ نوجوانوں کو ملک بھر میں ہے جس کے میں ایک رہا ہے کے لیے ہے اور کے تحت
پڑھیں:
سندھ کے تعلیمی اداروں میں کیا ہورہا ہے؟
سندھ کے تعلیمی اداروں میں اس وقت ابتر صورت حال ہے، محکمہ تعلیم کی اعلیٰ بیوروکریسی تعلیمی ترقی کے لیے منصوبہ بندی اختیارکرنے میں ناکام نظر آتی ہے، اگرچہ محکمہ تعلیم کے پاس وافر بجٹ ہے اور بین الاقوامی اداروں سے بھی سندھ کے محکمہ تعلیم کو امداد ملتی رہی ہے، لیکن حقائق ظاہر کرتے ہیں کہ سندھ کے حکومت کی نگرانی میں چلنے والے تعلیمی اداروں میں نظم وضبط کا فقدان ہے۔
اساتذہ اپنی ذمے داریاں ادا نہیں کر رہے ہیں اور طلبہ بھی تعلیم کے بجائے زیادہ تر غیرنصابی سرگرمیوں میں مصروف رہتے ہیں۔ یہ ایک تشویش ناک صورتحال ہے جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، سندھ کے دیہی علاقوں میں فقط سرکاری فائلوں پر تعلیمی ادارے موجود ہیں لیکن عملاً ان کا کوئی وجود نہیں ہے۔ اس طرح زیادہ تر تعلیمی بجٹ خرد برد کیا جاتا ہے اور قومی خزانے کو لوٹا جاتا ہے۔
خود حکومت کے ذرائع تسلیم کرتے ہیں کہ محکمہ تعلیم میں ہر سطح پر بدعنوانیاں موجود ہیں لیکن ان بدعنوانیوں کے خاتمے کے لیے موثر اقدامات نہیں کیے جا رہے ہیں۔ سندھ ایک ایسا صوبہ ہے جس کی یونیورسٹیوں میں بھی اعلیٰ تعلیم میں تحقیق کے پہلو کو نظر اندازکیا جا رہا ہے اور تعلیمی معیار پر توجہ نہیں دی جا رہی ہے۔
1973ء کے آئین کے آرٹیکل 25 اے کے تحت ملک میں 5 سے 16 سال کی عمرکے بچوں کو مفت لازمی تعلیم دینے کی حکومت پابند ہے۔ نومبر 2011میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے کابینہ سیکریٹریٹ نے میٹرک تک مفت اور لازمی تعلیم کے بل کی اتفاق رائے سے منظوری دی، اس بل کے تحت بچوں کو نہ پڑھانے والے والدین کو پانچ ہزار روپے اور اسکول میں داخل نہ کرنے کی بنیاد پر پانچ سو روپے روزانہ کی بنیاد پر جرمانہ عائد کیا جائے گا۔
کینیڈا کے ایک ادارے اور پاکستان کی ایک یونیورسٹی کے ٹیچر ایجوکیشن کے شعبے کے اشتراک عمل سے جو تحقیقی رپورٹ سندھ کے تعلیمی اداروں کی ابتر صورتحال کے متعلق منظر عام پر آئی ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ صوبے میں تعلیمی معیار زوال پذیر ہے اور اساتذہ بھی اپنی ذمے داریاں پوری نہیں کررہے ہیں۔
اس تحقیقی رپورٹ کے مطابق سندھ کے 70 فیصد پرائمری اسکولوں میں صرف 15 منٹ پڑھایا جاتا ہے۔ 20 فیصد اساتذہ 20 منٹ سے زائد اور 10 فیصد 5 منٹ سے بھی کم وقت تک پڑھاتے ہیں۔ اس تحقیق کے لیے سندھ کے بہت سے اضلاع کا انتخاب کیا گیا تھا۔
سروے کے نتائج مرتب کرنے والوں کا کہنا ہے کہ ان اضلاع کے طالب علموں کو تعلیم دینے پر اساتذہ کی توجہ نہیں ہے اور طلبہ بھی پڑھائی میں دلچسپی نہیں لے رہے ہیں۔ اساتذہ تنخواہیں اور مراعات وصول کرتے ہیں مگر وہ تدریسی ذمے داریاں ادا کرنے سے گریزکرتے ہیں۔ اس تحقیقی رپورٹ کے مطابق سندھ کے ان اضلاع میں بچوں کو عام طور پر تعلیمی اداروں میں نہیں بھیجا جاتا۔
اس طرح ان تعلیمی اداروں میں 46 فیصد طالب علم عموماً غیر حاضر رہتے ہیں اور تعلیم پر توجہ نہیں دیتے ہیں۔ رپورٹ مرتب کرنے والوں کی یہ بھی رائے ہے کہ اساتذہ کی تربیت کے لیے اصلاحات میں تسلسل نظر نہیں آرہا ہے۔ اس تحقیقی رپورٹ سے سندھ حکومت کے محکمہ تعلیم کی ناقص کارکردگی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے اور اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے لائحہ عمل طے کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ صوبے میں نہ صرف تعلیمی معیار بہتر ہوسکے بلکہ اساتذہ بھی اپنی تدریسی ذمے داریاں یکسوئی اور سنجیدگی سے ادا کریں۔
آج کے پاکستانی معاشرے میں تعلیم کو بنیادی اہمیت حاصل ہے اور مستقبل میں بھی تعلیم کا فروغ اقتصادی ترقی کے لیے ضروری ہے۔ حکومت کے تعلیم سے متعلق پالیسی ساز ادارے بلند و بانگ دعوے کرتے ہیں۔ تعلیمی معیارکو بڑھانے کے لیے اقدامات کے اعلان کیے جاتے ہیں۔
خوشنما الفاظ پر مشتمل تقاریرکی جاتی ہیں مگر عملاً سندھ میں تعلیمی معیارکی ترقی پر کوئی توجہ نہیں دی جا رہی ہے اور طالب علموں میں بھی تعلیم کے حصول کا جذبہ موجود نہیں ہے۔ جب اساتذہ کو اپنی تدریسی ذمے داریاں کا احساس نہیں ہے اور طالب علموں کو وہ مقررہ وقت تک پڑھانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ محکمہ تعلیم کا بجٹ منظورکرنے والے حکام خواب خرگوش میں کیوں مبتلا ہیں؟ اور کس لیے وہ نااہل اساتذہ کے خلاف کارروائی سے گریزکر رہے ہیں؟ حکومت اور اقوام متحدہ کے یونیسف ادارے کی طرف سے کرائے گئے مشترکہ سروے کے مطابق سندھ میں بچوں کو غیر انسانی حالات کا سامنا ہے، جوکہ بین الاقوامی معیار سے بہت کم ہے، اس غذائی قلت کی وجہ سے بچے مختلف ذہنی و جسمانی امراض میں پہلے ہی مبتلا ہیں۔ سندھ کے تعلیمی اداروں میں بچوں کے تعلیمی حقوق و مفادات کے تحفظ کے لیے جامع حکمت عملی طے کرنا بھی محکمہ تعلیم سندھ کی ذمے داری ہے۔