Express News:
2025-04-22@06:25:23 GMT

کوچۂ سخن

اشاعت کی تاریخ: 12th, February 2025 GMT

غزل
جو بچ گئی تھی زندگی فرقت کے نام ہو گئی
منزل پہ کیا پہنچنا تھا رستے میں شام ہوگئی
 دو پل کا اِک سکون تھا بے چینی پھر حیات کی
یہ بھی عجب کہانی تھی پل میں تمام ہو گئی
الفت سے تیری عمر کا مطلب سمجھ میں آ گیا
تیرے سبب سے زندگی ناقص سے تام ہو گئی
شوخی تو اُسکی دیکھیے محفل کے عین بیچ میں
جنبش وہ ایک چہرے کی طرزِ سلام ہو گئی
ساغر کے ایک دور کو سمجھے جو دورِ زندگی
گردش مرے نصیب کی گردشِ جام ہو گئی
محفل میں مجھ کو آنے کا جو سرسری سا کہہ دیا
اب وہ سمجھ  رہا  ہے کہ حجّت تمام ہوگئی
اُس بزم میں بھی بارہا ہم جا چکے ہیں دوستو
یارو جہاں پر خامشی خود اِک کلام ہو گئی
 ساجدؔ کہیں سے ایک بھی اچھی خبر نہ مل سکی
لگتا ہے تیری زندگی بھی اختتام ہو گئی
(شیخ محمد ساجد۔ لاہور)

غزل
جانے کیا اِسم بچھڑتے ہوئے پڑھ جاتا ہے
وہ جسے چھوڑ کے جاتاہے، وہ مر جاتا ہے
ہم ہیں کھنڈرات کے تہہ خانوں کی تصویروں سے
جو کوئی دیکھنے آتا ہے وہ ڈر جاتا ہے
آس کی پُوریں ہیں مسیحائی کے اُس درجے پر
گھاؤ جیسا بھی ہو چُھو لینے سے بھر جاتا ہے
یعنی چالیس برس حد ہے بلوغت کے لیے
یعنی اس عمر میںانسان سدھر جاتا ہے
سوچتا رہتا ہوں بستر پہ پڑا رات گئے
چاند مغرب کی طرف کون سے گھر جاتا ہے
یہ لڑائی ہے مفادات کی فیصل ؔصاحب
اِس میں دستار نہیں جاتی ہے ،سر جاتا ہے
(فیصل ندیم فیصل۔ لاہور)

غزل
ترے کرم سے مرا شعر لازوال ہے دوست
 کمال میرا نہیں ہے ترا کمال ہے دوست
 ہزار بار یہ سوچا مگر نہ سمجھا میں
 بہار میں بھی مرا جسم کیوں نڈھال ہے دوست 
تو ان اداؤں سے مشہور ہوگیا ورنہ
 تو ان اداؤں سے ہٹ کر بھی باکمال ہے دوست 
تجھے میں کیسے بتاؤں،مجھ ایسے شاعر کو
 ترے وجود سے بڑھ کر ترا خیال ہے دوست
 ہم ایک دوجے کے اربابؔ ہو نہیں سکتے
 وہ اور بات کہ یہ رابطہ بحال ہے دوست
( ارباب اقبال بریار۔ واہنڈو، گوجرانوالہ)

غزل
رقصاں رہی ہوائے شبِ غم چراغ پر 
چھایا رہا خیال کسی کا دماغ پر 
بانہوں میں سمٹی جاتی تھی دنیا کو بھول کر 
رکھتی نہیں تھی قرض وہ باقی فراغ پر 
رستوں میں بانجھ پن تھا، ہوا تند و تیز تھی 
منزل اضافی بوجھ تھی بجھتے چراغ پر
انگلی پہ کہکشاں کو گھمانے کے شوق میں
کتنے شہاب گر گئے اپنے ہی باغ پر 
سب لوگ چکھ رہے تھے جب آنکھوں سے تشنگی
میں نے بھی ہونٹ رکھ دیے اپنے ایاغ پر 
جیسے یہ تیر سیدھا لگا میرے دل کے پار 
 دشمن نے آنکھ رکھی ہوئی تھی سراغ پر
لاؤں گا خود کو ڈھونڈ کے اس در پہ پھر مقیمؔ
تھوڑا سا داغ اور لگاؤں گا داغ پر 
(رضوان مقیم۔ فیصل آباد)

غزل
حسد کی آگ میں ہر سو ہیں جلنے والے لوگ
کہاں ہیں موم کی صورت پگھلنے والے لوگ
زمیں کے کرب سے اب تک جو روشناس نہیں
بلندیوں سے وہی ہیں پھسلنے والے لوگ
ہمارے چہرے کی تصویر کھینچ کر رکھ لو
ہمیں ہیں ٹھوکریں کھا کر سنبھلنے والے لوگ
یہاں نہیں ہے گلابوں کا قدر داں کوئی
ہیں بات بات پہ پہلو بدلنے والے لوگ
مرے ضمیر کی قیمت لگانے آئے تھے
امیرِ شہر کے ٹکڑوں پہ پلنے والے لوگ
دکھانا چاہیے جوہر جہاں فصاحت کے
وہاں بھی بیٹھے ہیں اُردو نگلنے والے لوگ
تم اپنی بات لبوں کے حصار میں رکھنا
یہاں زباں سے ہیں آتش اگلنے والے لوگ
ہر ایک سمت گھٹا نفرتوں کی ہے خالدؔ
برائے نام ہیں الفت پہ چلنے والے لوگ
(خالد ندیم بدایونی۔ محلہ ناگران، شکیل روڈ، بدایوں، بھارت )

غزل
حشر کے دن ہی فیصلہ ہو گا
میں ترا اور تو مرا ہو گا
ایک دن یہ بھی سانحہ ہو گا
وہ کہیں اور ہنس رہا ہو گا
دیکھنا ہے کہ بے بسی کی حد
 پار کرنے کے بعد کیا ہو گا 
ایک دل میں تو دو نہیں ممکن
یا تو تُو ہوگا یا خدا ہو گا
بس یہی سوچتے کٹی ہے حیات
میں اگر مر گیا تو کیا ہو گا
آخری فیصلہ یہی ہے عمر
اب مجھے اُس کو بھولنا ہو گا
(محمد عمر۔ پشاور)

غزل
کسی کے دل کو دکھانا کمال ہے کہ نہیں
تمھیں بھی اس کا ذرا سا ملال ہے کہ نہیں
ترس رہی ہیں نگاہیں یہ دیکھنے کے لیے 
کہ تو بھی پہلے کے جیسا نڈھال ہے کہ نہیں
میں دے رہی ہوں تمھاری مثال دنیا کو
تمھارے پاس بھی میری مثال ہے کہ نہیں
خدا کا شکر کہ اس نے بھی مجھ سے پوچھ لیا 
تمھارے دل میں کسی کا خیال ہے کہ نہیں
میں دیکھنے کو چلی آئی دفعتاً خاموش
عمودؔ اس کے بھی لب پر سوال ہے کہ نہیں
(عمود ابرار احمد ۔کراچی)

غزل
درد و الم فراق و تنہائی ہے کہاں تک
ملتا نہیں کہیں بھی منزل ترا نشاں تک
لگتی ہیں قافلے میں اونٹوں کی جب قطاریں
چلتے رہے مسلسل صحرا میں سارباں تک
قصہ ٔدردِ دل اب سنتا نہیں ہے کوئی 
لفظوں کے کارواں بھی رکنے لگے زباں تک
دھوکہ دیا ہے تو نے صحرا میں آ کے مجھ کو
 ایسا خیال میرے آیا نہ تھا گماں تک 
افسردگی نے میری فرزان کی ہے چینی
 مایوس ہر گھڑی ہے مری تو کارواں تک 
سنتا نہیں ہے کوئی میرے دکھ کی داستان کو 
سنبھلا نہیں ہے مجھ سے میرا تو رازداں تک 
چل چھوڑ آج قصہ دل بھر گیا ہے میرا 
 قاصرؔ نہیں رہا اب میرا تو آشیاں تک
(قاصر ایاز میمن۔ تھرپارکر)

غزل
مرے ساتھ جب سے وہ رہنے لگے ہیں 
پرندے بھی تعظیم کرنے لگے ہیں 
تصوف کی باتیں وہ کرنے لگی جب 
تو بھٹکے ہوئے رہ پہ چلنے لگے ہیں
ہوئے خود سے کب بے نیاز اس قدر ہم 
یہ سب رنگ اس کے ہی چڑھنے لگے ہیں
مراسم جو تم نے بڑھائے ہیں ہم سے 
نئے دیپ آنکھوں میں جلنے لگے ہیں
تماشے میں دنیا کہ دنیا تماشہ 
اسی رنگ میں ہم بھی ڈھلنے لگے ہیں
اسے میں نے اتنا بگاڑا ہے ناصرؔ
مجھے لوگ اچھا سمجھنے لگے ہیں
(ناصر معروف۔ عمان)

غزل
یوں بھی کمرے کو پریشان کیے دیتا ہوں
اپنی تنہائی کو زندان کیے دیتا ہوں
روز اکتا کے نکل آتا ہوں تصویر سے میں
در و دیوار کو حیران کیے دیتا ہوں
گھر کے پیڑوں سے بنا لیتا ہوں دستے میں بھی
اپنی سائے کا یوں نقصان  کیے دیتا  ہوں
دھند سورج کے توسط سے  اتر جائے گی
میں چلو گھر کی ہی پہچان کیے دیتا ہوں
جنگ تعبیر کی خوابوں میں چھڑی رہتی ہے
اور آنکھوں کو میں میدان کیے دیتا ہوں
موت کے شہر میں آیا ہوں تو اس بار چلو
جسم کو روح کا مہمان کیے دیتا ہوں
میں نے جانا بھی نہیں ہوتا مگر پھر بھی نہالؔ
جانے کیوں جانے کا سامان کیے دیتا ہوں
(علی نہال۔ چنیوٹ)

غزل
سکونِ دل لٹائے جا رہا ہوں
میں اشکوں میں نہائے جا رہا ہوں
سبق کوئی تو لے گا اس کتھا سے
کتھا اپنی سنائے جا رہا ہوں
مہک اٹھے گا جس سے گلستاں یہ
میں ایسے گل کھلائے جا رہا ہوں
جو رشتے خار کی مانند تھے، میں
وہ رشتے بھی نبھائے جا رہا ہوں
جو پورے ہو نہیں سکتے کبھی بھی
وہ سپنے بھی سجائے جا رہا ہوں
وطن کی آبیاری گر ہے لازم
لہو اپنا پلائے جا رہا ہوں
یقیں تھا کہ اکیلے رہ نہ پاتا
میں ساگر میں سمائے جا رہا ہوں
(رجب علی ساگر ۔ ڈیرہ اسماعیل خان،پہاڑ پور)

سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔ 
انچارج صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘
 روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: جا رہا ہوں ہے کہ نہیں والے لوگ ہے دوست نہیں ہے لگے ہیں جاتا ہے ہو گئی

پڑھیں:

کیتھولک مسیحیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس 88 سال کی عمر میں وفات پا گئے

ویٹیکن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔21 اپریل ۔2025 )کیتھولک مسیحیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس 88 سال کی عمر میں وفات پا گئے ہیں وہ مارچ 2013 میں اس عہدے پر منتخب ہوئے تھے بطور پوپ فرانسس نے کیتھولک چرچ میں کئی اصلاحات متعارف کروائیں لیکن اس کے باوجود وہ روایت پسندوں میں کافی مقبول رہے. ویٹیکن سے جاری بیان کے مطابق فرانسس امریکہ سے تعلق رکھنے والے پہلے پوپ تھے 741 عیسوی میں شام میں پیدا ہونے والے گریگوری سوئم کے بعد وہ روم کے پہلے غیر یورپی بشپ تھے وہ سینٹ پیٹرز کے تخت پر بیٹھنے والے پہلے جے سیوٹ تھے روایتی طور پر جے سیوٹس کو شک کی نظر سے دیکھا جاتا تھا جے سیوٹس رومن کیتھولک پادریوں کا ایک گروہ ہے جنہیں ”سوسائٹی آف جیسس“ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے.

(جاری ہے)

برطانوی نشریاتی ادارے نے رپورٹ میں بتایا ہے کہ فرانسس کے پیشرو، بینیڈکٹ 600 سالوں میں پہلے پوپ تھے جو رضاکارانہ طور پر ریٹائر ہوئے تھے اور تقریباً ایک دہائی تک دونوں پوپ ویٹیکن میں رہے جب 2013 میں ارجنٹینا کے کارڈینل برگوگلیو پوپ بنائے گئے تو وہ اس وقت ان کی عمر70سال تھی. فرانسس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اصلاحات کے حامی تھے تاہم ویٹیکن بیوروکریسی میں اصلاحات کی کوششوں کو مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا جبکہ 2022 میں وفات پانے والے ان کے پیشرو پوپ بینیڈکٹ روایت پسندوں میں زیادہ مقبول رہے اپنے انتخاب کے فوراً بعد ہی فرانسس نے ظاہر کر دیا تھا کہ وہ چیزیں مختلف طریقے سے کریں گے انہوں نے کارڈینلز کا استقبال غیر رسمی طور پر کھڑے ہو کر کیا عمومی طور پر پوپ اپنے تخت پر بیٹھ کر کارڈینلز کا استقبال کرتے ہیں 13 مارچ 2013 کو پوپ فرانسس سینٹ پیٹرز سکوائر کو دیکھنے والی بالکونی میں نمدوار ہوئے اور انہوں نے اپنے لیے ایک نیا نام چنا جو 13ویں صدی کے مبلغ اور جانوروں سے محبت کرنے والے اسیسی کے سینٹ فرانسیس کو خراجِ تحسین تھا.

انہوں نے پوپ کی لیموزین کے بجائے دیگر کارڈینلز کو لے جانے والی بس میں سفر کرنے پر اصرار کیا انہوں نے ایک ارب 20 کروڑ افراد کے لیے ایک اخلاقی معیار مقرر کر دیاجارج ماریو برگوگلیو 17 دسمبر 1936 میں ارجنٹینا کے شہر بیونس آئرس میں پیدا ہوئے ان کے والدین اپنے آبائی ملک اٹلی میں فاشزم سے بھاگ کر آئے تھے نمونیا کے حملے کی وجہ سے انہیں آپریشن کروانا پڑا جس میں انکے پھیپڑوں کا ایک حصہ نکالنا پڑا نمونیا کے اس حملے کے بعد ا نہیںزندگی بھر انفیکشن کا خطرہ رہا بطور کیمسٹ گریجویشن مکمل کرنے سے قبل نوجوان برگوگلیو نے نائٹ کلب میں باﺅنسر اور فرش صاف کرنے کا کام کیا انہوں نے ایک مقامی فیکٹری میں ایستھر بیلسٹرینو کے ساتھ مل کر کام کیا جنہوں نے ارجنٹائن کی فوجی آمریت کے خلاف مہم چلائی تھی انہوں نے فلسفے کی تعلیم حاصل کی اور لٹریچر اور سائیکالوجی پڑھاتے رہے ایک دہائی کے بعد ان کی تقرری ہوئی جس کے بعد انہوں نے تیزی سے ترقی حاصل کی اور 1973 میں وہ ارجنٹینا کے صوبائی سربراہ بن گئے.

انہوں نے 2005 میں ابتدائی طور پر پوپ بننے کی کوشش کی 1992 میں انہیں بیونس آئرس کا معاون بشپ مقرر کیا گیا اور بعد ازاں وہ آرچ بشپ بنا دیے گئے 2001 میں پوپ جان پال دوئم نے انہیں کارڈینل مقرر کیا اور انہوں نے چرچ کی سول سروس کیوریا میں متعدد عہدے سنبھالے وہ ایک سادہ مزاج شخص کی حیثیت سے مشہور ہوئے اور سینیئر پادریوں کو ملنے والی مراعات لینے سے اجتناب کیا وہ اکانومی کلاس میں سفر کرتے اور وہ اپنے مرتبے کے مطابق سرخ اور جامنی لباس پہننے کے بجائے عام پادریوں والا کالے رنگ کا چوغہ پہنتے.

ان کا کہنا تھا کہ اسلام کو شدت پسندی جوڑنا درست نہیں اوراگر میں اسلامی شدت پسندی کی بات کروں گا تو مجھے کیتھولک شدت پسندی کی بھی بات کرنی پڑے گی ایک ہسپانوی زبان بولنے والے لاطینی امریکی کے طور پر انہوں نے امریکی حکومت کی جانب سے کیوبا سے تعلقات بحال کرنے کی کوششوں میں ثالث کا بھی کردار ادا کیا .

متعلقہ مضامین

  • کیتھولک مسیحیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس 88 سال کی عمر میں وفات پا گئے
  • کتاب ہدایت
  • امریکا کے ساتھ اختلافات حل کرنے والے فریقین کا احترام ہے، چین
  • 34 سال سے درانتی بنانے والے ہنر مند کی کہانی
  • بی جے پی عدلیہ کی توہین کرنے والے اپنے اراکین پارلیمنٹ کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتی، جے رام رمیش
  • ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی معمولی جرم نہیں، اجتماعی سلامتی کے لیے خطرہ ہے: شرجیل میمن
  • نہروں کے منصوبے کیخلاف سندھ متحد ہے ، پیچھے ہٹنے والے نہیں،وزیراعلیٰ
  • نہروں کے منصوبے کیخلاف سندھ متحد ہے، پیچھے ہٹنے والے نہیں،وزیراعلیٰ
  • پی ٹی آئی کے جھنڈے سے بنے کپڑے پہن کر اڈیالہ جیل پہنچنے والے کارکن کو حراست میں لے لیا گیا 
  • پی ٹی آئی کے جھنڈے سے بنے کپڑے پہن کر اڈیالہ جیل پہنچنے والے کارکن کو حراست میں لے لیا گیا