Daily Ausaf:
2025-04-22@18:55:09 GMT

مہذب قومیں تاریخ سے سیکھتی ہیں

اشاعت کی تاریخ: 12th, February 2025 GMT

ماضی آئینہ کی طرح ہوتا ہے ۔ جس میں جھانک کر قومی حلیہ سلجھایا جاتا ہے ۔ تاریخی نشانات ، حیرت انگیز فن تعمیر ، تہذیبوں کے آثار اچھے یا برے ماضی کے عکاس ہوتے ہیں ۔ مہذب قومیں اپنی تاریخ اور ورثہ محفوظ اور زندہ رکھتی ہیں ۔ اپنے ماضی کے عروج و زوال کی علامات اور معلومات کو مٹنے نہیں دیتیں ۔ ارتقائی سفر ، کاوشوں ، قربانیوں، ناکامیوں اور کامیابیوں کی اپنی روداد اگلی نسلوں تک پہنچاتی ہیں ۔ اس طرح اپنے ماضی سے نہ صرف جڑت رکھتے ہیں بلکہ بہتر مستقبل کے لئے مشعل راہ بھی بناتے ہیں ۔ اچھی روایات اور حکمت عملی کو اپناتے ہیں ۔ ناکامی اور رسوائی کا سبب بننے والی حماقتوں سے گریز کرتے ہیں۔ تب ہی تو تاریخ کو سب سے بڑا استاد مانا جاتا ہے ۔ اس سے سبق سیکھا جاتا ہے ۔ شرط یہ ہے کہ اس کے دامن میں چھپے حقائق و واقعات کو سنجیدگی سے سمجھا جائے ۔ اس کی روشنی میں اپنی منزل کی راہیں متعین کی جائیں ۔ ہر گام پہ راہنمائی لے کر درست رخ منزل برقرار رکھی جائے ۔ اس لئے ماضی کی تاریخ اور اس کے نشانات کو محفوظ اور پبلک کے لئے قابل رسائی رکھنا بڑا اہم ہے ۔
یوں تاریخی تفصیلات اپنے قومی درسی نصاب میں زندہ رکھ سکتے ہیں۔ نسل در نسل ، سینہ بہ سینہ اپنے ماضی کی عظمتوں اور ہزیمتوں سے قوم کو آگاہ رکھ سکتے ہیں ۔ جس سے ان کے علمی خزانے اور حد نظر میں اضافہ ہوتا ہے ۔ ان کی بصیرت میں پختگی اور وسعت پیدا ہوتی ہے ۔ انسان کی علم و آگاہی اور سکھلائی میں حواس خمسہ کا کلیدی رول ہے ۔ ہر ایک کی اپنی مخصوص و محدود افادیت اور فعالیت ہے ۔ تاہم حس مشاہدہ سب سے اہم ہے جس کے ذریعے انسان سب سے زیادہ سیکھتا ہے ۔ ایک چیز جس کو کتابی لیکچر کے ذریعے طلبا یا قاری کو سمجھانے میں کئی ماہ لگ جاتے ہیں اگرعملی طور پر اس کو دیکھا جائے تو شائد چند منٹوں میں سمجھ آ جائے ۔ مثال کے طور قلعہ روہتاس کے مقام ، محل وقوع، طرز تعمیر اور تاریخ کو کتابوں کے ذریعے سمجھنے اور ازبر کرنے میں کافی محنت اور وقت درکار ہوتا ہے ۔ پڑھتے ہوئے قاری اس کے خدو خال کوصرف چشم تصور سے دیکھ کر فرض کر رہا ہوتا ہے ۔ استاد بے شک اس کے ایک ایک حصے کو باریک بینی سے بیان کرے ، اس کا نقشہ کھینچے ، لیکن کچھ روز ذہن کے پردے پہ محفوظ رہنے کے بعد وہ خود بخود محو ہو جاتا ہے ۔ اس کو یاد کر نے کے لئے ذہن پہ زور دینا پڑتا ہے یا پھر واپس کتاب کے دریچوں میں جھانکنا پڑتا ہے ۔ دوسری طرف اگر عملی طور پر قلعہ روہتاس کا دورہ کیا جائے ، جائزہ لیا جائے اور نظارہ کیا جائے تو اسکا ذرہ ذرہ برسوں یاد رہتا ہے ۔اسی لئے تو کہتے ہیں مشاہدے سے سیکھنا سب سے آسان اور موثر ہوتا ہے ۔ اسی حقیقت کے پیش نظر سمجھدار قومیں اپنے قومی ورثے ، پرانی تاریخی عمارتوں اور آثار کو محفوظ رکھتی ہیں ۔ عجائب گھر اور لائبریریوں کو قائم کرتی ہیں ۔ جن سے نئی نسلیں مستفید ہو کر اپنی علمی استعداد اور صلاحیتیں بڑھاتی ہیں ۔ باقی ملکوں کی مانند ہمارے ملک میں بھی محکمہ آثار قدیمہ موجود ہے ۔ جس کی بدولت بہت ساری بڑی بڑی تاریخی عمارات ، باغات، کھنڈرات اور قلعے اصلی حالت میں محفوظ ہیں۔ لیکن یہ بڑے گنے چنے سے ہیں ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ مذہب ، مسلک اور تعصب سے بالا تر ہو کر تاریخی ورثے یا آثار قدیمہ کے زمرے میں آنے والے تمام آبجیکٹس کو محفوظ کیا جاتا ۔ مگر ایسے نہیں ہوا ۔ میرا آبائی قصبہ بڑا تاریخی ہے ۔ تقسیم سے پہلے ہندوں کی کثیر تعداد یہاں آباد تھی ۔ مالی طور پر وہ مسلمانوں سے زیادہ آسودہ اور خوشحال تھے ۔ ان کے بڑے چوبارے تھے۔جن کا بڑا دلکش فن تعمیر تھا ۔جس کی مغلیہ طرز تعمیر سے کافی مماثلت تھی ۔ چند بڑے بڑے مندر اور گردوارے بھی تھے ۔ ایک بازار تھا جس کے دونوں اطراف سرخ اینٹوں سے بنی بلند عمارتیں تھیں ، جن کے نیچے دکانیں تھیں ۔ میرا گھر گائوں ایک کنارے جبکہ پرائمری سکول دوسرے کنارے واقع تھا ۔ سکول آتے جاتے ہمیں اس بازار سے گزرتے ، پرانی رہائشی ، تجارتی ، مذہبی اور درسی عمارت کو دیکھتے جاتے ۔ اپنے بڑوں سے ان بارے پوچھتے تو وہ اس کی تفصیلات بتاتے تو بہت اچھا لگتا ۔ وقت گزرنے اور نئی نسل کی آمد کے بعد حالات اور مزاج بدل گئے ۔
جدت پسندی اور مادہ پرستی کی خو نے قومی ورثے کی حامل ان عمارات اور آثار کوبھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔ ماضی کی ہماری شاندار تاریخی کی علامتیں گمنامی کی قبر میں چلی گئیں ۔ اب ہمیں اپنے بچوں کو بتانا پڑتا ہے کہ یہاں ایک چار منزلہ مغلیہ انداز کا چوبارہ ہوتا تھا ۔ جس کا فن تعمیر انسان کو حیرت زدہ کر دیتا تھا ۔ کیونکہ تب انسان نے اتنی سائنسی اور تکنیکی ترقی نہیں کی ہوئی تھی ۔ آج کے تیز بچے پوچھتے ہیں کہ اس کو محفوظ کیوں نہیں کیا ، جس کا جواب تو نہیں ہوتا بس شرمندگی اورافسوس ہی ہوتا ہے ۔ ہم منیر نیازی کی طرح ہمیشہ دیر کر دیتے ہیں ۔ بلا سوچے سمجھے جذبات کی رو یا لا علمی میں قیمتی اثاثے اور نشانات مٹا دیتے ہیں ۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے ہمیں ان کی تاریخی اہمیت کا علم ہے نہ مستقبل میں اس کی ممکنہ افادیت کا کوئی تصور ہے ۔ ترقی یافتہ قومیں اور کامیاب معاشرے ماضی سے سیکھ کر مستقبل کا لائحہ عمل طے کرتے ہیں ۔ اپنی غلطیوں کا ازالہ اور صلاحیتوں کو مزید بہتر بناتے ہیں ۔ ہمیں بھی چاہئے کہ بچوں کو ابتدائی دور طالب علمی ہی سے قومی ورثے کی اہمیت سے آگاہ کیا جائے ۔ تاکہ بڑے ہو کر ایک با شعور شہری بن کر ایک مہذب معاشرے کی تشکیل کا جزو بنیں ۔ اگرچہ دور دراز کے دیہاتوں اور گاوں میں زمانہ قدیم کی زیادہ تر عمارتیں منہدم ہو چکی ہیں ۔ بڑے شہروں اور قصبوں میں اب بھی وہ کافی تعداد میں کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں ۔ گرے بیروں کا اب بھی کچھ نہیں بگڑا ، ان کی تعمیر نو کر کے ہم اپنی شاندار ماضی کی تاریخ کو نئی روح اور رنگ بخش سکتے ہیں ۔ جس سے نہ صرف ہماری نئی نسل علمی استفادہ کرے گی بلکہ سیاحت کے حوالے سے بھی مفید ثابت ہو گی ۔ آئیں مل کر اس کاوش کو متحرک اور کامیاب کر کے قومی فرض کی ادائیگی میں اپنا حصہ ڈالیں ۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: کو محفوظ ماضی کی جاتا ہے ہوتا ہے

پڑھیں:

دبئی میں پراپرٹی کی تاریخی فروخت و فروخت، 3 ماہ میں 38 ارب ڈالر کے سودے

دبئی میں پراپرٹی کی تاریخی فروخت و فروخت، 3 ماہ میں 38 ارب ڈالر کے سودے WhatsAppFacebookTwitter 0 20 April, 2025 سب نیوز

یو اے ای (آئی پی ایس )متحدہ عرب امارات کی ریاست دبئی کی پراپرٹی مارکیٹ نے 2025 کی پہلی سہ ماہی میں تاریخی خریدو فرخت کی۔ سال کے ابتدائی 3 ماہ میں مجموعی طور پر 45474 پراپرٹی سودے ہوئے جن کی مالیت 142.7 ارب درہم (تقریبا 38 ارب امریکی ڈالر سے زائد) رہی۔

دبئی کے رئیل اسٹیٹ کے اعداد و شمار کے مطابق پراپرٹی کی تعداد اور مالیت گزشتہ سال کی اسی مدت کے مقابلے میں بالترتیب 22 فیصد اور 30 فیصد اضافے کو ظاہر کرتی ہے۔دبئی میں تیار شدہ پراپرٹی (گھر فلیٹ عمارت) کے شعبے نے اب تک کی بہترین کارکردگی دکھائی جہاں 87.5 ارب درہم (تقریبا 25 ارب امریکی ڈالر) مالیت کے 20034 سودے ہوئے۔یہ سودے گزشتہ دو سالوں کے ابتدائی تین ماہ کے موازنے میں 21 فیصد اور مالیت میں 34 فیصد اضافے کو ظاہر کرتے ہیں۔دبئی کی پراپرٹی مارکیٹ میں زیر تعمیر (آف پلان) پراپرٹیز کی فروخت کا غلبہ رہا

تمام سودوں کا 56 فیصد رہی۔25440 آف پلان سودے 55.2 ارب درہم (تقریبا 15.7 ارب امریکی ڈالر ) کی مالیت کے رہے جو 2024 کے ابتدائی تین ماہ کے مقابلے میں 24 فیصد اضافے کو ظاہر کرتے ہیں۔تعمیرات کے شعبے سے وابستہ ماہرین کہتے ہیں کہ دبئی میں تیار شدہ پراپرٹیز کی فروخت کا اضافہ ظاہر کرتا ہے کہ بڑھتے ہوئے کرایوں کی وجہ سے رہائشی افراد گھر خریدنے پر زیادہ غور کر رہے ہیں۔ابوظبی کی پراپرٹی مارکیٹ نے بھی غیر معمولی تبدیلی کا مظاہرہ کیا جہاں تیار شدہ پراپرٹیز کی فروخت میں 9 فیصد اضافہ ہوا اور ان کی مالیت 75 فیصد بڑھ کر 9.6 ارب درہم (تقریبا 2.7 ارب امریکی ڈالر ) تک پہنچ گئی۔

متعلقہ مضامین

  • شہریوں کیلیے بڑی سہولت؛ ملکی تاریخ میں پہلی بار انڈر پاس صرف 35  روز میں تعمیر ہوگا
  • شہریوں کیلیے بڑی سہولت؛ ملکی تاریخ میں پہلی بار انڈر پاس صرف 35 روز میں تعمیر ہوگا
  • نیئر اعجاز کا بیوی کے سامنے ماضی کی محبتوں کے ذکر پر دو ٹوک مؤقف
  • اسلام آباد میں تاریخ رقم: 35 روز میں انڈر پاس کی تعمیر کا آغاز
  • نئے پوپ کا انتخاب کیسےکیا جاتا ہے؟
  • امرود
  • حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
  • سولر پینلز کو ژالہ باری میں کیسے محفوظ رکھا جائے؟ طریقے جانیں
  • دبئی میں پراپرٹی کی تاریخی فروخت و فروخت، 3 ماہ میں 38 ارب ڈالر کے سودے
  • مغربی سامراجی قوتوں نے تاریخ کو کیسے مسخ کیا؟