اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین۔12 فروری 2025)وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثناءاللہ کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے 2ججز ہر معاملے پر خط لکھ دیتے ہیں ان کیخلاف ریفرنس بنایا جا سکتاہے،دو سینئر ججز کی وجہ سے سپریم کورٹ میں معاملات نہیں چل رہے، وہ ہر معاملے میں خط لکھتے ہیں اور بائیکاٹ کرتے ہیں،آج نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان ججز کا خط میڈیا کو پہلے مل جاتا ہے اس عمل کو کہیں نہ کہیں مس کنڈکٹ سے جوڑا جا سکتا ہے۔

چیف جسٹس آف پاکستان ایک ذمہ دار انسان ہیں۔ چیف جسٹس کی غیرجانبدارکوچیلنج نہیں کیا جا سکتا۔انہوں نے کہا کہ اس ساری صورت حال میں اگر کسی نے اپنے آپ کو غیرجانبدار اورعلیحدہ رکھا تو وہ صرف چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی ہیں اگر وہ سمجھتے ہیں کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں نئے جج کو لانے کی ضرورت ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ ان کی صوبدید پر ہمیں اعتراض نہیں کرنا چاہیے۔

(جاری ہے)

سپریم کورٹ کے جج کا ہائیکورٹ میں تبادلہ نہیں ہوسکتا۔ موجودہ بینچ پی ٹی آئی کے کہنے پربنا ہے۔ ہم آئینی عدالت چاہتے تھے لیکن تحریک انصاف اور جے یو آئی کے مطالبے پرآئینی بنچ بنا۔ سینیارٹی کے اصول کوپامال نہیں کیا گیا۔ آرٹیکل 200 میں لکھا ہے اسے پڑھنا چاہیے۔ اس میں کیوں ججز ٹرانسفرز سے متعلق یہ اختیار دیا گیا ہے؟ آئین چیف جسٹس کو ٹرانسفر کی اجازت دیتا ہے۔

گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثناءاللہ کا مزید کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمان نے بھی ووٹ دیا تھا۔ مولانافضل الرحمان بہت بڑی شخصیت ہیں۔ مولانافضل الرحمان کسی کے ساتھ بھی نہیں کھڑے ہوئے۔ میں اس حق میں ہوں کہ مولانامشترکہ اپوزیشن کاحصہ بنیں۔ اگر مولانا فضل الرحمان مشترکہ اپوزیشن کا حصہ بنیں گے تو وہاں بھی ڈھنگ کی بات ہوگی۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ آئی ایم ایف وفد کے ساتھ چیف جسٹس پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی کی معمول کی ملاقات تھی۔ یہ ملاقات اپریل یا ستمبرمیں طے تھی جو کسی وجہ سے نہیں ہوسکی اور اب ہو رہی ہے۔ معاملے کو بلاجواز اہمیت دی جارہی ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ جو معاہدہ ہوا ہے اس میں باقاعدہ یہ چیزیں شامل ہیں۔ہم ڈیفالٹ سے نکل گئے ہیں، مشکل سے نکل رہے ہیں۔ پاکستان کومعاشی طورپرمستحکم ہونے کیلئے2سال چاہئیں۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی رہنماءسلمان اکرم راجا اپنے سیاسی ایجنڈے کو سامنے رکھ کر بات کرتے ہیں تو جو مرضی کہیں وہ انہیں حق ہے لیکن معاملہ یہ ہے کہ کیا آئین میں یہ بات ہے کہ ٹرانسفرکی وجہ بیان کی جائے؟۔
.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے سپریم کورٹ چیف جسٹس

پڑھیں:

ججز ٹرانسفر سینیارٹی کیس: رجسٹرار سپریم کورٹ کا جواب جمع

—فائل فوٹو

ججز ٹرانسفر سینیارٹی کیس میں رجسٹرار سپریم کورٹ نے جواب جمع کرا دیا۔

رجسٹرار سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ صدر ہائی کورٹ جج کو اس کی رضا مندی سے دوسری ہائی کورٹ منتقل کر سکتا ہے، صدر آرٹیکل 200 کی شق ایک کے تحت جج کو دوسری ہائی کورٹ منتقل کر سکتا ہے۔

ججز سینیارٹی کیس، ایڈووکیٹ جنرلز کو مشاورت کے بعد جواب جمع کرانے کا حکم

سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز سنیارٹی کیس کی آج کی عدالتی کارروائی کا حکم نامہ جاری کردیا۔

رجسٹرار نے کہا کہ صدر چیف جسٹس پاکستان اور دونوں ہائی کورٹس کے چیف جسٹسز سے مشاورت کے بعد جج کو منتقل کرسکتا ہے، وزارتِ قانون و انصاف نے یکم جنوری کو چیف جسٹس پاکستان سے مشاورت کی۔

سپریم کورٹ کے رجسٹرار نے کہا کہ مشاورت/اتفاقِ رائے چیف جسٹس پاکستان کی طرف سے یکم جنوری کو فراہم کیا گیا۔

متعلقہ مضامین

  • اسلام آباد ہائیکورٹ میں 3 ججز کے تبادلے کیخلاف کیس کی سپریم کورٹ میں سماعت
  • ناانصافی ہو رہی ہو تو اُس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں: سپریم کورٹ
  • ناانصافی ہو رہی ہو تو اُس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں، سپریم کورٹ
  • ہائیکورٹ کے پاس تمام اختیارات ہوتے ہیں،ناانصافی پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں،سپریم کورٹ کے صنم جاوید کی بریت فیصلے کیخلاف پنجاب حکومت کی اپیل پرریمارکس
  • جسٹس منصور علی شاہ نے قائم مقام چیف جسٹس پاکستان کے عہدے کا حلف اٹھالیا
  • جسٹس منصور علی شاہ نے قائمقام چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے کا حلف اٹھالیا
  • جسٹس منصور علی شاہ 21 اپریل کو بطور قائم مقام چیف جسٹس سپریم کورٹ حلف اٹھائیں گے
  • ججز کے تبادلے چیف جسٹس کی مشاورت سے ہوئے، رجسٹرار سپریم کورٹ کا جواب
  • ججز ٹرانسفر سینیارٹی کیس: رجسٹرار سپریم کورٹ کا جواب جمع
  • انتخابات میں دھاندلی کیخلاف درخواست: پی ٹی آئی کی اضافی دستاویزات سپریم کورٹ میں جمع