غزہ کو خریدنے نہیں جا رہے، صرف انتظام سنبھالیں گے: ڈونلڈ ٹرمپ
اشاعت کی تاریخ: 12th, February 2025 GMT
واشنگٹن(نیوز ڈیسک) اردن کے شاہ عبداللہ نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے وائٹ ہاؤس میں ملاقات کی۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اردن کے شاہ عبداللہ کا استقبال کیا، دونوں رہنماؤں کے درمیان غزہ جنگ بندی پر تبادلہ ہوا۔
ٹرمپ نے کہا ہم غزہ کو بہت صحیح طریقے سے چلائیں گے، ہم اسے خریدنے نہیں جا رہے ہیں، صرف انتظام سنبھالیں گے، فلسطینی کسی اور جگہ محفوظ طریقے سے رہیں گے جو غزہ میں نہیں ہے، مجھے 99 فیصد یقین ہے کہ ہم مصر کے ساتھ بھی ملکر کام کر سکیں گے، اردن اور مصر پناہ گزینوں کو اپنے ملک میں لیں، فلسطینیوں کو غزہ واپسی کا حق نہیں ہوگا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ غزہ کو امریکی انتظامیہ کے ماتحت لیں گے، اسرائیل سے مغربی کنارے کا الحاق بھی ہوگا، اردن اور مصر میں کچھ جگہ فلسطینی رہ سکتے ہیں، یقین نہیں حماس یرغمالیوں کی رہائی کیلئے ہفتے کی ڈیڈ لائن پر پورا اترے گی۔
دوسری جانب شاہ عبداللہ کا کہنا تھا کہ خطے میں امن اور خوشحالی کے خواہاں ہیں، ٹرمپ کی حمایت ان ہی مقاصد کے حصول کیلئے کریں گے، ہمیں وہ کرنا ہے جو ہمارے اور سب کے مفاد میں ہو، ہمیں ابھی مصر کی طرف سے آنے والے منصوبے کا انتظار کرنا چاہیے۔
امریکی صدر سے ملاقات کے بعد اردن کے شاہ عبداللہ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ٹرمپ سے ملاقات میں غزہ سے فلسطینیوں کی نقل مکانی کو مسترد کرنے کا اعادہ کیا، دو ریاستی حل کی بنیاد پر امن کا حصول ہی علاقائی استحکام کو یقینی بنانے کا راستہ ہے۔
شاہ عبداللہ کا کہنا تھا کہ ٹرمپ امن پسند ہیں انہوں نے غزہ جنگ بندی یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔غزہ جنگ بندی برقرار رکھنے کیلئے امریکا اور اسٹیک ہولڈرز کی طرف دیکھتے ہیں۔
واضح رہے کہ ٹرمپ نے اردن اور مصر کو پناہ گزینوں کو نہ لینے پر امداد بند کرنے کی دھمکی دی تھی۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: شاہ عبداللہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ
پڑھیں:
امریکہ کے نائب صدر کا دورہ بھارت اور تجارتی امور پر مذاکرات
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 21 اپریل 2025ء) امریکی نائب صدر جے ڈی وینس آج پیر کی صبح نئی دہلی پہنچے جن کی شام کے وقت بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ ملاقات متوقع ہے۔ اس ملاقات میں دیگر اہم امور کے ساتھ ہی دو طرفہ تجارتی معاہدے پر بات چیت توجہ مرکوز رہنے کا امکان ہے۔
امریکی نائب صدر وینس اپنی اہلیہ کے ساتھ بھارت آئے ہیں، جو بھارتی نژاد ہیں اور ان کا تعلق ریاست آندھرا پردیش سے ہے۔
صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی انتظامیہ میں اس دورے کو اہم سمجھا جا رہا ہے، یاد رہے کہ یہ امریکہ اور چین کے درمیان بڑھتی ہوئی تجارتی جنگ کے درمیان ہو رہا ہے۔بھارتی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ یہ دورہ "فریقین کو دو طرفہ تعلقات میں پیش رفت کا جائزہ لینے کا موقع فراہم کرے گا" اور ملاقات کے دوران دونوں رہنما "باہمی دلچسپی کی علاقائی اور عالمی امور کی پیش رفت پر خیالات کا تبادلہ کریں گے۔
(جاری ہے)
"امریکی ادارے کا بھارتی خفیہ ایجنسی 'را' پر پابندی کا مطالبہ
وزیر اعظم مودی کے ساتھ ہونے والی بات چیت میں فروری میں مودی کے دورہ امریکہ کے دوران طے پانے والے دو طرفہ ایجنڈے کی پیش رفت پر توجہ مرکوز کرنے کا امکان ہے۔ اس ایجنڈے میں دو طرفہ تجارت میں "انصاف پسندی" اور دفاعی شراکت داری میں توسیع جیسے امور شامل ہیں۔
بھارتی وزارت خارجہ کا کہنا ہے، "ہم بہت مثبت ہیں کہ یہ دورہ ہمارے دو طرفہ تعلقات کو مزید فروغ دے گا۔"
بھارت کے لیے اہم کیا ہے؟امریکہ بھارت کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ امریکی حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برس دونوں ممالک کی باہمی تجارت 129 بلین ڈالر تک پہنچ گئی تھی، جس میں بھارت کے حق میں 45.7 بلین ڈالر کا سرپلس ہے۔
مودی ان پہلے عالمی رہنماؤں میں شامل ہیں، جنہوں نے دوسری بار اقتدار سنبھالنے کے بعد صدر ٹرمپ سے ملاقات کی تھی۔ بھارتی حکومت نے امریکہ سے برآمد کی جانے نصف سے زیادہ اشیا پر ٹیرف میں کمی کرنے کی تجویز بھی پیش کی ہے۔
ٹرمپ کا بڑے پیمانے پر عالمی ٹیرف کا اعلان، پاکستان بھی متاثر
مودی اور ٹرمپ کے درمیان اچھے تعلقات کا ذکر عام بات ہے، البتہ امریکی صدر نے بھارت کو "ٹیرف کا غلط استعمال کرنے والا" اور "ٹیرف کنگ" تک کہا ہے۔
ٹرمپ نے بھارتی درآمدات پر 26 فیصد ٹیرف کا اعلان کیا ہے، جس پر فی الوقت 90 دنوں تک کے لیے روک لگی ہوئی ہے اور اس سے بھارتی برآمد کنندگان کو عارضی راحت بھی ملی ہے۔
امریکی نائب صدر وینس اس ماہ بھارت کا دورہ کریں گے
وینس کے دورہ بھارت کے ساتھ سے نئی دہلی کو اس بات کی امید ہے کہ 90 دن کے وقفے کے اندر ہی ایک تجارتی معاہدہ ہو جائے گا۔
بھارت رواں برس کواڈ سربراہی اجلاس کی میزبانی کرنے والا ہے اور وینس کے دورے کو اس طرح بھی دیکھا جا رہا ہے کہ اس سے بھارت میں ٹرمپ کی میزبانی کا راستہ بھی ہموار ہو سکتا ہے۔ کواڈ میں امریکہ، بھارت، جاپان اور آسٹریلیا شامل ہیں۔
ادارت رابعہ بگٹی