بنیادی سہولیات سے محروم کراچی کا پسماندہ علاقہ جو گولڈ میڈلسٹس پیدا کر رہا ہے
اشاعت کی تاریخ: 12th, February 2025 GMT
بلدیہ ٹاؤن کراچی میں پانی بجلی اور گیس جیسی بنیادی ضروریات تک کا فقدان ہے لیکن گزشتہ چند برسوں میں اس علاقے نے باکسنگ کی دنیا میں اپنا ایک منفرد مقام حاصل کر لیا ہے۔
ہوٹل پر پراٹھے بنانے والے نوجوان آغا کلیم نے اس علاقے میں باکسنگ کے کھیل کو گلی محلے تک پہنچانے کے بعد عالمی سطح پر نہ صرف پاکستان کا جھنڈا بلند کیا بلکہ لاتعداد میڈلز بھی اپنے نام کیے۔
آغا کلیم کی بین الاقوامی سطح پر کامیابیوں کا بلدیہ ٹاؤن پر اثر براہ راست ہوا جہاں ان کی دیکھا دیکھی نوجوان باکسنگ کے کھیل طرف راغب ہوئے۔
یہ بھی پڑھیں: ویڈیوز سے سیکھ کر عالمی باکسنگ مقابلے جیتنے والے انجینیئر ریحان اظہر
علاقے میں آغا کلیم نے باکسنگ کلب کا آغاز کیا جہاں زیادہ تعداد ان کھلاڑیوں کی ہے جو فیس نہیں دے سکتے لیکن کھیل سیکھنا چاہتے ہیں اور سیکھ بھی رہے ہیں۔
اس باکسنگ کلب نے نہ صرف لڑکوں بلکہ لڑکیوں کے لیے بھی یکساں مواقع پیدا کیے اور یہی وجہ ہے کہ اس پسماندہ علاقے سے تعلق رکھنے والی سرکاری اسکول کی 10 ویں جماعت کی طالبہ رابعہ نے آذربائیجان میں ہونے والے مقابلوں میں گولڈ میڈل جیت کر ملک کا نام روشن کیا ہے۔
رابعہ کا کہنا ہے کہ انہیں باکسنگ کا بیحد شوق تھا جس کو پورا کرنے کے لیے اس کلب اور ہمدرد لوگوں نے اپنا کردار ادا کیا۔
مزید پڑھیے: عامر خان کو اسلام آباد میں باکسنگ اکیڈمی دوبارہ کھولنے کی اجازت مل گئی
ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک پسماندہ علاقہ ہے اور یہاں سے نوجوان اٹھ کر بین الاقوامی سطح پر ملک کی نمائندگی کرتے ہیں لیکن یہاں ایک تو بنیادی سہولیات کا فقدان ہے اور دوسرے کھیل کی جانب بھی کسی کی توجہ نہیں ہے۔
رابعہ نے کہا کہ اگر ہمیں حکومتی سطح پر پذیرائی ملنی شروع ہوجائے تو یہاں ہر گھر میں ٹیلنٹ موجود ہے جو ہر سطح پر ملک کا نام روشن کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
باکسر آغا کلیم باکسنگ گولڈ میڈل بلدیہ ٹاؤن اور باکسنگ کا جنون بلدیہ ٹاؤن کراچی رابعہ باکسر.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: باکسر ا غا کلیم بلدیہ ٹاؤن کراچی رابعہ باکسر بلدیہ ٹاؤن
پڑھیں:
پیپلز پارٹی کھیل بگاڑنا چاہتی ہے؟
ارادہ تو یہ تھا کہ پاکستان کے وزیر خارجہ کے دَورۂ کابل پر کچھ تفصیلی اظہارِ خیال کروں گا۔ دَورے سے مگر کچھ ایسی بڑی خبر نکلی ہی نہیں کہ اِس پر بالتفصیل کلام کیا جائے ۔
جناب اسحاق ڈار نے وزارت کی دو ٹوپیاں پہن رکھی ہیں۔وہ ہمارے وزیر خارجہ بھی ہیں اور نائب وزیر اعظم بھی ۔ کہا جاتا ہے کہ وہ اگر نون لیگی صدر کو عزیز نہ ہوتے تو شائد وہ یہ دو کلغیاں سر پر سجانے میں کامیاب نہ ہو سکتے ۔
ماضی میں وہ وزارتِ خزانہ کے معاملات چلاتے رہے ہیں ۔ اُن کی مہارت اور درک بھی معاشیات میں زیادہ سمجھی جاتی رہی ہے ۔ اِس بار مگر جب اُنہیں وزارتِ خارجہ کا قلمدان تھمایا گیا تو بہت سے لوگوں کو حیرت و استعجاب نے آ لیا۔ پچھلے ایک سال سے مگر اسحاق ڈار صاحب دونوں عہدے نبھا رہے ہیں ۔ کس شعبے میں اُن کا طرۂ امتیاز بلند ہو رہا ہے، مطلق طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا ۔
ہمارے وزیر خارجہ، جناب اسحاق ڈار، 19اپریل کی صبح کابل پہنچے اور19اپریل کی شام ہی اپنے وطن واپس آ گئے ۔ جناب شہباز شریف کی کابینہ کے ایک وزیر مملکت نے کہا ہے کہ اسحاق ڈار کو بہت پہلے کابل پہنچنا چاہیے تھا ۔ ذرا تاخیر سے وہ کابل پہنچے ہیں ، مگر پہنچے تو سہی ۔ پی ڈی ایم کی پہلی ڈیڑھ سالہ حکومت ( جس کے سربراہ بھی شہباز شریف صاحب ہی تھے) میں وزیر خارجہ ، بلاول بھٹو زرداری صاحب، افغانستان کے دارالحکومت نہیں پہنچ سکے تھے ۔
اِس پر بے حد اور لاتعداد قیاس آرائیاں کی گئیں اور آٹے کی کئی چڑیاں بھی اُڑانے کی کوششیں کی گئیں ۔ اِس سے قبل بانی پی ٹی آئی کی ساڑھے تین سالہ حکومت میں وزیر خارجہ ، شاہ محمود قریشی ، کابل گئے تھے ، مگر وہ دَورہ بھی لاحاصل اور بے ثمر ہی رہا کہ افغان طالبان نے پاکستان مخالف اپنا پرنالہ ہٹانے سے انکار کر دیا تھا ۔ مگر اتنا ضرور ہُوا تھا کہ شاہ محمود قریشی کا افغان عبوری حکومت کے عبوری وزیر خارجہ نے کابل ائر پورٹ پر استقبال کیا تھا۔اِس بار، بد قسمتی سے، مگر یہ منظر بھی سامنے نہ آسکا۔ اسحاق ڈار دراصل افغانستان کی طالبان عبوری حکومت کے وزیر خارجہ، ملا امیر خان متقی، کی دعوت پر کابل گئے تھے ، لیکن ہمارے وزیر خارجہ کے کابل پہنچنے پر(مبینہ طور پر) افغان وزیر خارجہ ویلکم کہنے کے لیے ائر پورٹ پر موجود نہیں تھے ۔ کیا اِسے سفارتی آداب کے منافی رویہ نہیں کہا جانا چاہیے ؟
اسحاق ڈار کے دَورئہ کابل کے نتیجے میں جو نکات سامنے آئے ہیں، ان میں سے چندایک یہ ہیں:(1)کسی ملک کی سرزمین دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونی چاہیے (2)خطّے کی ترقی کے لیے مل کر کام کیا جائیگا (3) دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی سامان کے نقل و حمل پر تبادلہ خیال کیا گیا (4) طورخم بارڈر پر آئی ٹی سسٹم کو جلد بحال کیا جائے گا (5) افغان مہاجرین ( پاکستان سے افغانستان واپسی) بارے 4اصولی فیصلے ہُوئے ہیں ۔
اِن نکات میں سے پاکستانی عوام کو عمومی طور پر کیا دلچسپی ہو سکتی ہے ؟ ہاں ہم سب پاکستانی عوام اسحاق ڈار کے دَورئہ کابل سے یہ اُمیدیں لگائے بیٹھے تھے کہ افغان مقتدر طالبان اپنے ہاں پناہ یافتہ دہشت گرد تنظیم ٹی ٹی پی ، جو پاکستان اور پاکستانیوں کو لاتعداد نقصانات پہنچا چکی ہے، کو نتھ ڈالنے کے لیے کیا کیا وعدے وعید کرتے ہیں ۔
اِس بارے مگر کوئی نکتہ یا وعدہ منصئہ شہود پر نہیں آ سکا ہے ۔ رہا یہ وعدہ کہ ’’ پاکستان اور افغانستان اپنی اپنی سر زمین دہشت گردوں کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے‘‘ تو یہ وعدہ افغان طالبان نے تین ، ساڑھے تین سال قبل دوحہ مذاکرات میں امریکا اور عالمی برادری کے بڑوں کے سامنے بھی کیا تھا۔
پچھلے چار برسوں میں افغان طالبان نے مگر اِس وعدے کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دی ہیں ، یوں کہ ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کو اپنی سرزمین پر پاکستان کے خلاف پناہ بھی دیے رکھی اور ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کو افغانستان سے مسلّح تیار ہو کر پاکستان پر بار بار حملہ آور ہونے کی اجازت بھی دی ۔ اب اگر افغان طالبان نے ایک بار پھر اپنی سرزمین کو دہشت گردی کے لیے استعمال نہ کرنے کا وعدہ کر لیا ہے تو کون جانے اِس پر کتنا اور کہاں تک عمل ہوگا؟ دیکھنا یہ ہے کہ آیا پاکستان کے عوام افغانستان کے سوراخ سے ایک بار پھر ڈسے تو نہیں جائیں گے؟
اسحاق ڈار ابھی کابل ہی میں تھے کہ پاکستان میں یہ خبر ہر طرف پھیل گئی کہ وفاقی وزیر مملکت برائے مذہبی امور، جناب کھیل داس کوہستانی، پر کسی گروہ نے حملہ کر دیا ہے ۔ خدا کا شکر ہے کہ وزیر موصوف حملے میں بخیریت رہے ۔
وزیر موصوف کا خود کہنا ہے: ’’ مَیں ٹھٹھہ سے سجاول کی جانب جارہا تھا کہ شہر کے درمیان ایک سندھی قوم پرست جماعت کے کارکنان نے اچانک حملہ کر دیا۔ اُن کے ہاتھوں میں پارٹی جھنڈے بھی تھے ۔وہ کینالز کی تعمیر کے خلاف نعرے بازی کررہے تھے۔‘‘ وزیر اعظم ، جناب شہباز شریف، سمیت وفاقی حکومت کے تقریباً تمام وزرا نے بیک زبان اِس حملے کی مذمت کی ہے ۔ مذمت کی بھی جانی چاہیے تھی ۔ مذمتی آوازوں میں سب سے بلند آواز وزیر اطلاعات ، جناب عطاء اللہ تارڑ، کی ہے ۔ اُن کی آواز سب سے اونچی ہونی بھی چاہیے تھی کہ وہ حکومتِ وقت کے مرکزی ترجمان ہیں ۔
اِس حملے کو معمولی خیال نہیں کرنا چاہیے ۔ یہ حملہ جہاں ایک وفاقی وزیر پر حملہ ہے، وہیں یہ وفاق پر بھی حملہ کہا جانا چاہیے ۔ پورے ملک میں اِس پر لے دے ہو رہی ہے ۔ پچھلے چند ایک ماہ سے پیپلز پارٹی ، جو کئی حکومتی معاملات میں وفاق کی شریکِ کار بھی ہے، نے مبینہ6نہروں کی تعمیر کے خلاف شہباز حکومت کے خلاف احتجاجی طوفان اُٹھا رکھے ہیں۔
دو روز قبل پیپلز پارٹی کے چیئرمین، جناب بلاول بھٹو زرداری ، نے مجوزہ 6نہروں کے خلاف ایک زبردست اور اشتعال انگیز تقریر کی تھی ۔ بلاول بھٹو صاحب دبئی میں12روزہ قیام و آرام کے بعد سیدھے حیدرآباد، سندھ، اُترے اور ایک جلسے سے خطاب کیا ۔ موصوف نے اپنے مذکورہ خطاب میں شہباز شریف کی حکومت کو کھلی دھمکی یوں دی :’’ اگر نہروں کا منصوبہ نہ روکا تو حکومت کے ساتھ نہیں چل سکتے ۔‘‘
مجوزہ نہروں کے خلاف جو اشتعال انگیز بیانات بلاول بھٹو زرداری مسلسل داغ رہے ہیں، پیپلز پارٹی کے سبھی اہم ترین لیڈرز بھی یہی زبان اور اسلوب اختیار کیے ہُوئے ہیں ۔ پچھلے دنوں صدرِ مملکت ، جناب آصف علی زرداری، نے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہُوئے بھی، مبینہ طور پر، مذکورہ نہروں کے خلاف بیان دیا تھا ۔ کیا پیپلز پارٹی وفاقی حکومت کو بلڈوز کرنا چاہتی ہے؟ کیا ایسا اقدام خود پیپلز پارٹی کے پاؤں میں کلہاڑی مارنے کے مترادف نہیں ہوگا؟ خاص طور پر ایسے پس منظر میں جب نون لیگی حلقوں میں بین السطور یہ بات بھی کہی جارہی ہے کہ صدرِ مملکت مذکورہ نہروں کی تعمیر بارے مثبت اشارے بھی دے چکے ہیں ۔
یہ درست ہے کہ نون لیگ وفاقی حکومت سے لطف اندوز ہو رہی ہے مگر وفاقی حکومت میں پیپلز پارٹی کے اسٹیکس بھی کم نہیں ہیں ۔ صدر صاحب اور سینیٹ کے چیئرمین پیپلز پارٹی کے ہیں ۔ قومی اسمبلی کے ڈپٹی چیئرمین بھی پیپلز پارٹی کے ہیں اور پنجاب، کے پی کے اور بلوچستان کے گورنرز بھی پیپلز پارٹی کے ہیں ۔ ایسے میں مجوزہ نہروں کی بنیاد پر بلاول بھٹو کی شہباز حکومت کو دھمکی دراصل خود پیپلز پارٹی کے مفادات پر کاری ضرب کے مترادف ہے ۔ پُر اسرار اور ناقابلِ فہم بات مگر یہ ہے کہ اِسکے باوصف پیپلز پارٹی ایسے حساس موقع پر کھیل کیوں بگاڑنا چاہتی ہے؟مزید حیرانی کی بات ہے کہ ایسے پُر آزمائش موقع پر نون لیگی صدر، جناب نواز شریف، لندن جا بیٹھے ہیں۔