چیف جسٹس پاکستان کا سینیارٹی پر مؤقف، جسٹس ڈوگر کی مجوزہ تقرری پر بے یقینی
اشاعت کی تاریخ: 12th, February 2025 GMT
اسلام آباد:
سینیارٹی سے متعلق 4 ججوں کے موقف کی چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی کی جانب سے توثیق کے بعد جسٹس سرفراز ڈوگر کی بطور چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ تقرری بے یقینی کا شکار ہو گئی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے 5ججوں کے مطابق جسٹس ڈوگر کی بطور جج حلف برداری کے بعد ان کی سینیارٹی کا تعین حلف کی تاریخ کی بنیاد پر ہونا چاہیے، اس لیے سینیارٹی میں پہلے حلف اٹھانے والے ججوں سے جونیئر ہوں گے۔
سپریم کورٹ کو4 سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس اطہر من اللہ چیف جسٹس کے نام خط میں سینیارٹی سے متعلق اسلام آباد ہائیکورٹ کے پانچ ججوں کے موقف کی تائید کر چکے ہیں۔
میڈیا سے گفتگو میں چیف جسٹس آفریدی نے کہا کہ وہ اصولی طور پر سنیارٹی سے متعلق چاروں سینئر ججوں کے موقف سے اتفاق کرتے ہیں۔ تاہم سنیارٹی کا فیصلہ جوڈیشل فورم نے کرنا ہے۔
ذرائع کے مطابق رواؓں ماہ جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں دو ارکان جسٹس جمال مندوخیل اور پاکستان بار کونسل کے رکن اختر حسین نے بھی اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججوں کی سنیارٹی کے معاملے پر تشویش کا اظہار کیا تھا، انہوں نے جسٹس عامر فاروق کی سپریم کورٹ میں تعیناتی سے بھی اختلاف کیا۔
15 رکنی جوڈیشل کمیشن آف پاکستان اگلے چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ کرے گا، جس کیلئے 8 ووٹ درکار ہوں گے، حکومت کے اب تک چھ ووٹ ہیں، حکومت کے ہر اقدام کی تائید کرنیوالے جسٹس امین الدین خان اگر نامزد حکومتی امیدوار کی توثیق کرتے ہیں تب بھی ایک مزید ووٹ کی ضرورت ہو گی۔
اسلام آباد بار کونسل کے نمائندے ذوالفقار عباسی کا ووٹ جسٹس ڈوگر کو ملنے کا امکان نہیں۔ ایک سینئر وکیل کے مطابق جسٹس ڈوگر کو اسلام آبادہائیکورٹ لانیوالی حکومت ہر قیمت پر ان کی بطور چیف جسٹس تقرری یقینی بنانے کی کوشش کرے گی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اسلام ا باد ہائیکورٹ جسٹس ڈوگر چیف جسٹس ججوں کے
پڑھیں:
ناانصافی ہو رہی ہو تو اُس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں: سپریم کورٹ
ویب ڈیسک : صنم جاوید کی 9 مئی مقدمے سے بریت کے خلاف کیس کی سماعت میں سپریم کورٹ کے جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے ہیں کہ اگر ناانصافی ہو تو اس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں۔
سپریم کورٹ میں 9 مئی مقدمات میں صنم جاوید کی بریت کے فیصلے کے خلاف پنجاب حکومت کی اپیل پر سماعت ہوئی، جس میں حکومتی وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ صنم جاوید کے ریمانڈ کیخلاف لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر ہوئی۔ ریمانڈ کیخلاف درخواست میں لاہور ہائیکورٹ نے ملزمہ کو مقدمے سے بری کردیا۔
صوبہ بھر میں انفورسمنٹ سٹیشن قائم کرنے کا فیصلہ، وزیراعلیٰ پنجاب کی زیر صدارت خصوصی اجلاس
جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے کہ ان کیسز میں تو عدالت سے ہدایات جاری ہوچکی ہیں کہ 4 ماہ میں فیصلہ کیا جائے۔ اب آپ یہ مقدمہ کیوں چلانا چاہتے ہیں؟ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ ہائی کورٹ نے اپنے اختیارات سے بڑھ کر فیصلہ دیا اور ملزمہ کو بری کیا۔
جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ میرا اس حوالے سے فیصلہ موجود ہے کہ ہائیکورٹ کے پاس تمام اختیارات ہوتے ہیں۔ اگر ہائیکورٹ کو کوئی خط بھی ملے کہ ناانصافی ہورہی تو وہ اختیارات استعمال کرسکتی ہے۔ اگر ناانصافی ہو تو اس پر آنکھیں بند نہیں کی جاسکتیں۔
واٹس ایپ کا ویڈیو کالز کیلئے فلٹرز، ایفیکٹس اور بیک گراؤنڈز تبدیل کرنے کا نیا فیچر
وکیل پنجاب حکومت نے کہا کہ ہائیکورٹ سوموٹو اختیارات کا استعمال نہیں کرسکتی، جس پر جسٹس صلاح الدین نے ریمارکس دیے کہ کریمنل ریویژن میں ہائی کورٹ کے پاس تو سوموٹو کے اختیارات بھی ہوتے ہیں۔
صنم جاوید کے وکیل نے بتایا کہ ہم نے ہائیکورٹ میں ریمانڈ کے ساتھ بریت کی درخواست بھی دائر کی تھی۔
جسٹس اشتیاق ابراہیم نے استفسار کیا کہ آہپ کو ایک سال بعد یاد آیا کہ ملزمہ نے جرم کیا ہے؟ جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ شریک ملزم کے اعترافی بیان کی قانونی حیثیت کیا ہوتی ہے آپ کو بھی معلوم ہے۔ اس کیس میں جو کچھ ہے بس ہم کچھ نہ ہی بولیں تو ٹھیک ہے۔
لاہور؛ بین الاصوبائی گینگ کا سرغنہ مارا گیا
جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس میں کہا کہ ہائی کورٹ کا جج اپنے فیصلے میں بہت آگے چلا گیا۔ لاہور ہائیکورٹ کے جج نے غصے میں فیصلہ دیا۔ بعد ازاں عدالت نے مقدمے کی سماعت غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کردی۔
Ansa Awais Content Writer