امریکا ، ایک اور جج نے پیدایشی شہریت کیخلاف ٹرمپ کا حکم روک دیا
اشاعت کی تاریخ: 12th, February 2025 GMT
واشنگٹن (انٹرنیشنل ڈیسک) امریکا میں ایک اور جج نے پیدایشی شہریت کے خلاف ٹرمپ کا حکم نامہ روک دیا ۔ ٹرمپ کا یہ حکم ان کی امیگریشن سے متعلق پالیسی میں غیر معمولی اہمیت کا حامل تھا۔ یہ حکم نامہ ان لوگوں کے بچوں کی پیدائشی شہریت کا حق ختم کرنے کے لیے جاری کیا گیا تھا جو خود تو غیر قانونی طور پر امریکا میں مقیم ہیں لیکن ان کے بچوں کو امریکا میں پیدائش کی صورت میں امریکی شہریت مل جاتی تھی۔ اس متنازع فیصلے پر امریکا میں کئی شعبوں کی طرف سے شور اٹھا تھا۔ خبررساں اداروں کے مطابق امریکن سول لبرٹیز یونین نامی تنظیم کی طرف سے دائر کی گئی درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ٹرمپ کا حکم آئین کے خلاف ہے۔ یہ امریکا کو بنیادی آئینی اقدار سے توڑ دینے کی کوشش ہے۔ درخواست کے بعد نیو ہیمپشائر میں امریکی ڈسٹرکٹ جج جوزف این لاپلانٹے نے صدارتی حکم کو روک دینے کا فیصلہ سنا یا ۔ یہ فیصلہ گزشتہ ہفتے سیاٹل اور میری لینڈ کے ججوں کے ایسے ہی فیصلوں کے بعد آیا ہے۔میری لینڈ کی عدالت میں سماعت کے دوران جج ڈیبورا بورڈ مین نے کہا کہ شہریت کے قیمتی حق سے انکار ناقابل تلافی نقصان کا باعث بنے گا۔ سپریم کورٹ پیدائشی شہریت کے حق کا تحفظ کرتی ہے، ملک کی کسی بھی عدالت نے کبھی صدر کی تشریح کی توثیق نہیں کی ہے۔ واشنگٹن کے ایک وفاقی جج نے بھی جنوری میں جاری کیے گئے ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈر پر 14 روز کا حکم امتناع جاری کردیا تھا۔ دوسری جانب ٹرمپ انتظامیہ نے ایگزیکٹو آرڈر سے متعلق فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے کا اعلان کیا ہے۔ واضح رہے غیر ملکیوں کے بچوں کو امریکا میں پیدا ہونے کی وجہ سے شہریت امریکی آئین کی چودہویں ترمیم کی وجہ سے ملتی ہے جس کا اطلاق 1868 ء سے چلا آرہا ہے۔ امریکا میں ایک بڑی خانہ جنگی کے بعد یہ ترمیم آئی تھی۔ امریکا دنیا کے ان 30 ممالک میں سے ایک ہے جن میں پیدائشی بنیاد پر شہریت کا حق تسلیم کیا جاتا ہے۔ یہ حق عام طور پر میکسیکو ، کینیڈا اور اسرائیلیوں کے بچوں کو ملتا رہا ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: امریکا میں ٹرمپ کا کے بچوں کا حکم
پڑھیں:
ٹرمپ کی ناکام پالیسیاں اور عوامی ردعمل
اسلام ٹائمز: ایسا لگتا ہے کہ اگر موجودہ رجحان جاری رہا تو امریکہ افراط زر کے ساتھ کساد بازاری کے دور میں داخل ہو جائے گا۔ ایک تشویشناک منظر نامہ جسے ماہرین اقتصادیات 1970ء کی دہائی کی "جمود" کی طرف واپسی کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ان مسائل کی وجہ سے نہ صرف ٹرمپ کی مقبولیت میں تیزی سے کمی آئی ہے بلکہ دنیا کے ساتھ امریکہ کے تعلقات بھی متاثر ہوئے ہیں اور بلا شبہ عالمی سطح پر خدشات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ان حالات میں امریکہ کو عظیم بنانا ایک ناقابل حصول خواب لگتا ہے۔ تحریر: آتوسا دینیاریان
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے من پسند پالیسیوں پر انحصار کرتے ہوئے دنیا کے بیشتر ممالک خصوصاً چین کے خلاف ٹیرف کی ایک وسیع جنگ شروع کی ہے، اس طرزعمل کے نتائج نے موجودہ امریکی معیشت پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں اور عوام کے عدم اطمینان میں اضافہ ہوا ہے۔ حالیہ مہینوں میں ریاستہائے متحدہ میں معاشی حالات خراب ہوئے ہیں اور حالیہ مہینوں میں ٹرمپ کے فیصلوں کی وجہ سے امریکی صارفین کے لیے قیمتوں میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ وہ تحفظ پسند پالیسیوں کو نافذ کرکے اور چین اور دیگر ممالک کے خلاف تجارتی محصولات میں اضافہ کرکے "عظیم امریکی خواب" کے نظریے کو بحال کر رہے ہیں۔ لیکن عملی طور پر ان پالیسیوں کی وجہ سے مہنگائی میں اضافہ، معاشی ترقی کی رفتار میں کمی اور وسیع پیمانے پر عدم اطمینان پیدا ہوا ہے۔
ٹرمپ کی مقبولیت میں کمی:
اس وقت صرف 44% امریکی ان کے معاشی انتظام سے مطمئن ہیں اور اگر یہ سلسلہ جاری رہتا ہے تو ان کی مقبولیت کا گراف مزید نیچے آئے گا۔
افراط زر اور بڑھتی ہوئی قیمتیں:
افراط زر کی شرح 3% تک پہنچ گئی ہے، جبکہ فیڈرل ریزرو کا ہدف 2% ہے۔ یہ وہ علامات ہیں، جو کسی ملک میں کساد بازاری کو دعوت دینے کے مترادف سمجھی جاتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں ترقی کی رفتار رک جاتی ہے اور سست اقتصادی ترقی کا سایہ منڈلانے لگتا ہے۔ تجارتی پالیسی کے عدم استحکام کی وجہ سے سرمایہ کار طویل مدتی سرمایہ کاری سے گریز کرنے لگتے ہیں۔
بڑے پیمانے پر احتجاج:
ٹرمپ کی اقتصادی پالیسیوں کے خلاف ہزاروں امریکیوں نے مختلف شہروں میں مظاہرے کیے ہیں۔ یہ مظاہرے متوسط طبقے اور محنت کشوں کی ان پالیسیوں سے عدم اطمینان کی عکاسی کرتے ہیں، جو دولت مند اور بڑی کارپوریشنز کے حق میں ہیں۔ ادھر فیڈرل ریزرو کے چیئرمین جیروم پاول نے خبردار کیا ہے کہ نئے ٹیرف مہنگائی اور سست اقتصادی ترقی کو بڑھا سکتے ہیں۔ اگرچہ ٹرمپ کے معاشی فیصلے ظاہری طور پر امریکی معاشی حالات کو بہتر بنانے اور ملکی پیداوار کو سپورٹ کرنے کے دعوے کے ساتھ کیے گئے تھے، لیکن عملی طور پر وہ مسابقت میں کمی، قیمتوں میں اضافے، معاشی ترقی میں سست روی اور مارکیٹ میں عدم استحکام کا باعث بنے ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ اگر موجودہ رجحان جاری رہا تو امریکہ افراط زر کے ساتھ کساد بازاری کے دور میں داخل ہو جائے گا۔ ایک تشویشناک منظر نامہ جسے ماہرین اقتصادیات 1970ء کی دہائی کی "جمود" کی طرف واپسی کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ان مسائل کی وجہ سے نہ صرف ٹرمپ کی مقبولیت میں تیزی سے کمی آئی ہے بلکہ دنیا کے ساتھ امریکہ کے تعلقات بھی متاثر ہوئے ہیں اور بلا شبہ عالمی سطح پر خدشات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ان حالات میں امریکہ کو عظیم بنانا ایک ناقابل حصول خواب لگتا ہے۔