Express News:
2025-04-22@06:04:25 GMT

انصاف کا گلا گھونٹنے کی ایک اورکوشش

اشاعت کی تاریخ: 12th, February 2025 GMT

یہ دنیا عجیب جگہ ہے۔ ایک طرف طاقتور ممالک ہیں جو انصاف کے نام پر جنگیں مسلط کرتے ہیں، پابندیاں لگاتے ہیں، حکومتیں گراتے ہیں اورکمزور قوموں کے سروں پر بم برساتے ہیں۔ دوسری طرف وہی ممالک جب خود کسی عدالت کے کٹہرے میں آتے ہیں تو انصاف کا مذاق اڑاتے ہیں، قوانین کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیتے ہیں اور عدالتوں کو دبانے کے لیے ہر ممکن حربہ استعمال کرتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا حالیہ فیصلہ جس میں انھوں نے بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) پر اقتصادی پابندیاں عائد کی ہیں، اسی دہرے معیارکی تازہ ترین مثال ہے۔

یہ فیصلہ اس وقت آیا جب بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) نے اسرائیلی وزیرِاعظم بنجمن نیتن یاہو اور ان کے سابق وزیرِ دفاع یوآو گیلنٹ کے خلاف جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم میں ملوث ہونے کے الزام میں وارنٹ گرفتاری جاری کیے۔ فلسطین کی زمین جو برسوں سے خون میں لت پت ہے جہاں ہر روز بچوں کے لاشے اٹھائے جاتے ہیں جہاں گھروں کو راکھ بنا دیا جاتا ہے اور جہاں انسانیت ہر لمحہ سسکتی ہے وہاں اگر کسی نے انصاف کے لیے آواز اٹھائی تو وہ بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) تھی، لیکن انصاف کے اس چراغ کو بجھانے کے لیے امریکا ایک بار پھر اپنی طاقت کا استعمال کر رہا ہے۔

یہ کوئی نئی بات نہیں۔ امریکا اور اس کے اتحادی ہمیشہ سے عالمی قوانین کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرتے آئے ہیں۔ جب بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) نے 2021 میں اسرائیل کے خلاف جنگی جرائم کی تحقیقات کا آغازکیا تھا تو تب بھی دباؤ بڑھایا گیا۔ جب اس سے پہلے افغانستان میں امریکی فوج کے جنگی جرائم پر تحقیقات کی بات ہوئی تو سابق پراسیکیوٹر فاتو بنسودا پر پابندیاں لگا دی گئیں اور اب جب بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) نے ہمت کر کے نیتن یاہو کے خلاف وارنٹ جاری کیے ہیں تو امریکا نے عدالت کے وجود کو ہی چیلنج کردیا ہے۔ یہ محض اتفاق نہیں کہ اس فیصلے سے پہلے نیتن یاہو اور ٹرمپ کے درمیان ملاقات ہو چکی تھی۔

بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) ایک ایسی عدالت ہے جسے 2002 میں عالمی سطح پر جنگی جرائم نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرائم کی تحقیقات اور ان کے مجرموں کو سزا دینے کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ اس کا ہیڈکوارٹر ہالینڈکے شہر دی ہیگ میں واقع ہے۔ 125 ممالک اس کے رکن ہیں مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ امریکا اور اسرائیل ان ممالک میں شامل نہیں۔

وہ اس عدالت کو مانتے ہی نہیں مگر جب یہ ان کے خلاف کوئی فیصلہ سناتی ہے تو اسے تباہ کرنے کے درپے ہو جاتے ہیں۔ یہ وہی امریکا ہے جو روس پر بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) کے وارنٹ کی حمایت کرتا ہے، یوکرین کے خلاف جرائم پر آواز بلند کرتا ہے مگر جب یہی عدالت فلسطین کے معصوم شہریوں پر ہونے والے ظلم کے خلاف کوئی کارروائی کرتی ہے تو اس کے خلاف اعلانِ جنگ کردیتا ہے۔

 ٹرمپ نے جو حکم جاری کیا ہے وہ محض ایک قانونی کارروائی نہیں بلکہ عالمی انصاف پر ایک سنگین حملہ ہے۔ اس کے تحت بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) کے پراسیکیوٹرز اور ججوں پر معاشی پابندیاں لگائی جا سکتی ہیں، ان کے بینک اکاؤنٹس منجمد کیے جا سکتے ہیں اور انھیں امریکا میں داخل ہونے سے روکا جا سکتا ہے۔ یہاں تک کہ ان کے اہلِ خانہ کو بھی نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ یہ وہی امریکا ہے جو انسانی حقوق کے نام پر دنیا بھر میں پابندیاں لگاتا ہے مگر جب انصاف کی تلوار اس کے قریبی اتحادیوں پر چلنے لگتی ہے تو انصاف کو ہی ختم کرنے کے درپے ہو جاتا ہے۔

یہ فیصلہ صرف بین الاقوامی فوجداری عدالت کے لیے نہیں بلکہ پوری دنیا کے لیے ایک خطرناک مثال ہے، اگر عالمی عدالتوں کو اس طرح دبایا جائے گا تو کل کوئی بھی ملک کوئی بھی ظالم حکمران کسی بھی جرم کے بعد یقین سے کہہ سکے گا کہ اسے کوئی ہاتھ نہیں لگا سکتا۔

یہ فیصلہ ایک پیغام ہے کہ دنیا میں صرف طاقت کا راج ہے قانون اور انصاف محض کاغذی باتیں ہیں، اگر بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) کے جج اور پراسیکیوٹر اس دباؤ میں آ گئے تو پھر اس عدالت کا وجود صرف ایک علامت رہ جائے گا، ایک ایسی علامت جو صرف کمزور ممالک کے خلاف استعمال ہو گی جب کہ طاقتور ممالک کے جرائم کو ہمیشہ کے لیے نظرانداز کردیا جائے گا۔

 ابھی اقوامِ متحدہ کا اجلاس ہونے والا ہے جہاں بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) پر ہونے والے دباؤ پر بحث ہوگی۔ یہ اجلاس اہم ہوگا کیونکہ اگر عالمی برادری نے اس وقت خاموشی اختیارکی تو پھر عالمی انصاف کا تصور محض ایک خواب بن کر رہ جائے گا، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اقوامِ متحدہ خود ان بڑی طاقتوں کے اثر سے آزاد نہیں۔ کیا وہ بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) کے ساتھ کھڑے ہوں گے؟ کیا وہ اسرائیلی جرائم پر پردہ ڈالنے کی امریکی کوششوں کو مسترد کریں گے؟ یا پھر یہ اجلاس بھی محض بیانات مذمتوں اورکھوکھلے دعووں تک محدود رہے گا؟

 ٹرمپ کا یہ فیصلہ محض ایک کاغذی حکم نامہ نہیں۔ یہ عالمی عدالتی نظام کے لیے ایک کھلا چیلنج ہے۔ یہ ایک سوال ہے کہ آیا دنیا میں واقعی انصاف ممکن ہے یا پھر عدل کا ترازو ہمیشہ طاقتورکے ہاتھ میں رہے گا، اگر آج اس فیصلے کو چیلنج نہ کیا گیا تو کل بین الاقوامی فوجداری عدالت صرف ایک علامتی ادارہ بن کر رہ جائے گا جہاں مقدمے صرف افریقی ممالک کے آمروں پہ چلیں گے جہاں صرف کمزور ریاستوں کے رہنما جیل جائیں گے اور جہاں طاقتور ممالک کے سربراہ کھلے عام جنگی جرائم کر کے بھی دندناتے پھریں گے۔

یہ دنیا عجیب جگہ ہے۔ یہاں عدالتیں تو بنتی ہیں مگر انصاف کے ترازو کا پلڑا ہمیشہ طاقتور کے حق میں جھک جاتا ہے۔ آج اگر بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) کو کمزورکردیا گیا تو کل کوئی بھی عالمی عدالت ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کی ہمت نہیں کرے گی۔ پھر صرف جنگیں ہوں گی تباہی ہو گی اور وہی پرانی کہانی دہرائی جائے گی، طاقتور حکومتیں فیصلے کریں گی کمزور ممالک تباہ ہوں گے اور انصاف کی کتابیں صرف لائبریریوں میں پڑی رہ جائیں گی جہاں انھیں پڑھنے والا بھی کوئی نہ ہوگا۔

 بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) پر دباؤ ڈالنے کی امریکی کوششوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ عالمی طاقتیں انصاف کو اپنے سیاسی اور جغرافیائی مفادات کے تابع رکھنا چاہتی ہیں، اگر بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) کو واقعی عالمی سطح پر ایک غیر جانبدار ادارہ بنانا ہے تو اسے ایسے دباؤ کے خلاف مضبوط موقف اختیارکرنا ہوگا۔ یہ عدالت صرف کمزور ممالک کے خلاف کارروائیاں کرنے کے لیے نہیں بنی تھی بلکہ اس کا اصل مقصد تمام مجرموں چاہے وہ کسی بھی قوم نسل یا عہدے سے تعلق رکھتے ہوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانا ہے۔

یہ بھی قابل غور ہے کہ بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) کے فیصلوں پر عمل درآمد کروانا عالمی برادری کی اجتماعی ذمے داری ہے، اگر امریکا جیسے طاقتور ممالک اس عدالت کو غیر مؤثر بنانے میں کامیاب ہوگئے تو یہ عالمی انصاف کے لیے ایک بہت بڑا دھچکا ہوگا۔ اس سے نہ صرف عدالتی نظام کی ساکھ متاثر ہوگی بلکہ یہ ان ظالم حکمرانوں کے لیے کھلی چھوٹ ہوگی جو جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف مظالم میں ملوث ہیں۔

عالمی برادری خاص طور پر یورپی یونین اور اقوامِ متحدہ کو اس مسئلے پر واضح اور مضبوط موقف اپنانا ہوگا، اگر امریکا اور اس کے اتحادی بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) کو کمزورکرنے کی کوششوں میں کامیاب ہو گئے تو پھر عالمی قوانین صرف کتابوں میں رہ جائیں گے اور عملی طور پر دنیا میں طاقتور ہی انصاف کا تعین کریں گے جب کہ کمزور ہمیشہ ظلم کا شکار ہوتے رہیں گے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: بین الاقوامی فوجداری عدالت طاقتور ممالک جنگی جرائم انصاف کے ممالک کے یہ فیصلہ انصاف کا کے لیے ا جائے گا کے خلاف اور ان

پڑھیں:

 نیشنل پولیس اکیڈمی کی بین الاقوامی معیار کے مطابق مکمل تنظیم نو کی جا رہی ہے، وزیر داخلہ

وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی سے اقوامِ متحدہ کے انڈر سیکریٹری جنرل برائے امن مشنز جنرل جین پیر لاکروا نے ملاقات کی۔

رپورٹ کے مطابق وفاقی وزیر داخلہ نے وزارت داخلہ آمد پر اقوام متحدہ کے انڈر سیکرٹری جنرل برائے امن مشنز جنرل جین پیر لاکروا کا خیر مقدم کیا، وزیر مملکت داخلہ طلال چوہدری، سیکرٹری داخلہ محمد خرم آغا اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے ایڈوائزر فیصل شاہکار بھی اس موقع پر موجود تھے۔

ملاقات میں پاکستان اور اقوام متحدہ کے امن مشنز کے مابین تعاون بڑھانے پر تبادلہ خیال کیا، محسن نقوی نے کہا کہ پاکستان ہمیشہ اقوام متحدہ کے امن مشنز کا بھرپور حامی رہا ہے۔ عالمی امن کیلئے اپنا بھر پور کردار جاری رکھیں  گے، پاکستانی فوج اور پولیس کے افسران نے کئی امن مشنز میں بھر پور مہارت سے کامیاب کردار ادا کیا ہے۔

محسن نقوی نے کہا کہ کئی برس بعد پاکستانی پولیس افسران یواین میں دوبارہ فرائض سرانجام دینا شروع کر رہے ہیں، اس وقت  پاکستانی افسران مختلف امن مشنز میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں، آئندہ بھی اقوام متحدہ کے امن مشنز  کے لئے ہر ممکن معاونت فراہم کریں گے۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ  فخر ہے کہ اقوام متحدہ کی پولیس کی سربراہی اس وقت پاکستان پولیس سروس کے ایک افسر کر رہے ہیں، اقوام متحدہ کے امن مشنز کو موثر بنانے کیلئے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال انتہائی ضروری ہے۔

وزیر داخلہ محسن نقوی نے یو این کو نیشنل پولیس اکیڈمی میں امن مشنز کے لئے ریجنل کورسز کرانے کی پیشکش کی اور کہا کہ نیشنل پولیس اکیڈمی کی بین الاقوامی معیار کے مطابق مکمل تنظیم نو کی جا رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس ادارہ میں پولیس افسران کی تربیت و استعدادکار  بڑھانے کے لئے  تمام جدید و معیاری سہولتوں کی فراہمی  یقینی کو یقینی بنایا جا رہا ہے، اقوام متحدہ کی جینڈر پالیسی کے تحت خواتین کو پاکستان کی پولیس سروس میں یکساں مواقع فراہم کئے جا رہے ہیں۔

انڈر سیکرٹری جنرل برائے امن مشنز جنرل جین پیر لاکروا نے پاکستانی پولیس افسران کی یو این میں دوبارہ بحالی پر وفاقی وزیرداخلہ محسن نقوی کی ذاتی کاوشوں کو سراہا اور کہا کہ اقوام متحدہ امن مشنز مشکل حالات میں بھی امن کیلئے برسر پیکار ہیں۔

 

متعلقہ مضامین

  • بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کی طالبہ کا گرلز ہاسٹل میں قتل
  • پنجاب بارکونسل میں دو روزہ بین الاقوامی مصالحت و ثالثی ٹریننگ کا آغاز
  • چینی، بھارتی طلبا کی ویزا قوانین پر ٹرمپ کے خلاف قانونی جنگ
  • انصاف کی لٹیا ڈبو دی گئی ہے اور اب قبر کھودی جارہی ہے، شیخ رشید احمد
  • سوشل میڈیا پر مشہور ہونے کیلئے فوڈ چین پر حملہ کیا: ملزمان کا عدالت میں بیان
  • انصاف کی لٹیا ڈبو دی گئی ہے، اب قبر کھودی جارہی ہے ، شیخ رشید
  • انصاف کی لٹیا ڈبو دی گئی ہے، اب قبر کھودی جارہی ہے : شیخ رشید
  • انصاف کی لٹیا ڈبو دی گئی ہے، اب قبر کھودی جارہی ہے ، شیخ رشید
  •  نیشنل پولیس اکیڈمی کی بین الاقوامی معیار کے مطابق مکمل تنظیم نو کی جا رہی ہے، وزیر داخلہ
  • پاکستان آرمی ٹیم اسپرٹ مقابلے؛ آرمی چیف جنرل عاصم منیر  کی خصوصی شرکت