Islam Times:
2025-04-22@06:27:10 GMT

عقیدہ مہدویت، چراغِ امید مگر کیسے؟

اشاعت کی تاریخ: 12th, February 2025 GMT

عقیدہ مہدویت، چراغِ امید مگر کیسے؟

اسلام ٹائمز: عقیدہ مہدویت اسلامی تعلیمات کا ایک بنیادی ستون ہے، جس میں یہ یقین شامل ہے کہ آخری زمانے میں ایک نجات دہندہ، یعنی امام مہدی علیہ السلام ظہور فرمائیں گے۔ وہ دنیا کو عدل و انصاف سے اس طرح بھر دیں گے، جس طرح کہ وہ ظلم و جبر سے بھری ہوئی ہوگی۔ یہ عقیدہ ایک ایسے مستقبل کی نوید دیتا ہے، جہاں برائی کی بجائے بھلائی کا راج ہوگا، ظلم کے بجائے انصاف کا نظام قائم ہوگا اور ناامیدی کے بجائے یقین اور سکون کی فضا ہوگی۔ یہی تصور انسان کو امید اور رجاء کے راستے پر گامزن کرتا ہے۔ تحریر: محمد حسن جمالی

دنیا کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو آپ کو ہر دور میں ایسے ادوار ملیں گے، جب ظلم، ناانصافی، جبر اور فساد نے انسانیت کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ طاقتور کمزوروں پر مسلط ہوگئے، انصاف کے دروازے بند ہوگئے اور معاشرے میں اندھیرا چھا گیا۔ ایسے حالات میں مظلوم دلوں کے لیے امید کی ایک کرن ہمیشہ زندہ رہی ہے، جس نے انہیں مایوسی کے اندھیروں میں جینے کا حوصلہ دیا۔ اسلام میں اس امید کا سب سے روشن چراغ "عقیدہ مہدویت" ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آخر یہ عقیدہ امید کا چراغ کیسے بن جاتا ہے۔؟ یہ سوال صرف ایک عقیدتی نظریئے کے بارے میں نہیں ہے، بلکہ ایک ایسی حقیقت کے بارے میں ہے، جو انسان کے دل و دماغ، روح اور زندگی کے تمام پہلوؤں کو متاثر کرتی ہے۔ مہدویت صرف ایک عقیدہ نہیں بلکہ انسان کی فطری امیدوں، آرزوؤں اور خوابوں کا ایک مکمل فلسفہ ہے۔ یہ ایک ایسا نظریہ ہے، جو ہمیں ناامیدی کے گہرے اندھیروں میں بھی روشنی کی کرن دکھاتا ہے اور یہ یقین دلاتا ہے کہ اندھیرا کتنا ہی گہرا کیوں نہ ہو، سورج ضرور طلوع ہوگا۔

عقیدہ مہدویت اسلامی تعلیمات کا ایک بنیادی ستون ہے، جس میں یہ یقین شامل ہے کہ آخری زمانے میں ایک نجات دہندہ، یعنی امام مہدی علیہ السلام ظہور فرمائیں گے۔ وہ دنیا کو عدل و انصاف سے اس طرح بھر دیں گے، جس طرح کہ وہ ظلم و جبر سے بھری ہوئی ہوگی۔ یہ عقیدہ ایک ایسے مستقبل کی نوید دیتا ہے، جہاں برائی کی بجائے بھلائی کا راج ہوگا، ظلم کے بجائے انصاف کا نظام قائم ہوگا اور ناامیدی کے بجائے یقین اور سکون کی فضا ہوگی۔ یہی تصور انسان کو امید اور رجاء کے راستے پر گامزن کرتا ہے۔ امام مہدیؑ کا تصور محض ایک روایتی عقیدہ نہیں بلکہ ایک جیتا جاگتا نظریہ ہے، جو دلوں کو جلا بخشتا ہے اور انسان کو ناامیدی کی دلدل سے نکال کر جدوجہد کی راہ پر ڈالتا ہے۔

یہ عقیدہ ہمیں یہ درس دیتا ہے کہ اگرچہ دنیا میں ظلم کے اندھیرے گہرے ہوسکتے ہیں، لیکن وہ ہمیشہ کے لیے نہیں۔ آخرکار حق کی روشنی ہر اندھیرے کو مٹا دیتی ہے۔ یہ عقیدہ مظلوموں کے لیے ایک سہارا ہے، ظالموں کے لیے تنبیہ ہے اور ہر حق پرست انسان کے لیے چراغِ راہ ہے۔ یہ ہمیں یقین دلاتا ہے کہ دنیا میں ظلم و ستم کے نظام کو دوام نہیں اور ایک دن ضرور ایسا آئے گا کہ انصاف اور عدل کا بول بالا ہوگا۔ انسانی فطرت یہ ہے کہ وہ مشکلات اور مصائب کے دوران کسی نہ کسی امید کے سہارے زندہ رہتا ہے۔ جب حالات ناسازگار ہوں، انصاف دب جائے اور طاقتور کمزوروں پر ظلم کریں تو انسان کے دل میں مایوسی کے سائے گہرے ہونے لگتے ہیں۔ ایسے میں عقیدہ مہدویت یہ پیغام دیتا ہے کہ یہ تاریکی ہمیشہ کے لیے نہیں ہے۔ وہ انسان کو یہ یقین دلاتا ہے کہ ہر ظالم کا انجام برا ہوگا اور حق و عدل کی فتح یقینی ہے۔

یہی امید انسان کو ٹوٹنے سے بچاتی ہے اور اسے حوصلہ دیتی ہے کہ وہ ظلم کے خلاف کھڑا ہو، خواہ حالات کتنے ہی مشکل کیوں نہ ہوں۔ امام مہدیؑ کے ظہور کا یقین مظلوموں کے دلوں میں تسلی بخشتا ہے کہ ان کی صدائیں رائیگاں نہیں جا رہیں اور انصاف کا دن قریب ہے۔ یہ عقیدہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ جو قومیں اپنی امیدوں کو زندہ رکھتی ہیں، وہ کبھی شکست نہیں کھاتیں۔ تاریخ میں ایسے بے شمار واقعات ہیں، جہاں کمزور ترین افراد نے صرف اپنی امید اور ایمان کے سہارے عظیم طاقتوں کو شکست دی۔ مہدویت کا چراغ بھی اسی امید کا استعارہ ہے، جو ظلم و جبر کے طوفانوں میں بھی بجھتا نہیں بلکہ مزید روشن ہو جاتا ہے۔

بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ عقیدہ مہدویت صرف منفعل "انتظار" کا نام ہے، جبکہ ایسا ہرگز نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک فعال انتظار کا درس دیتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ صرف ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنے کے بجائے اپنی ذات اور معاشرے کی اصلاح کے لیے جدوجہد کی جائے۔ جب انتظار کا حقیقی مفہوم یہ ہے تو تمام منتظرینِ امام کو اپنے آپ سے یہ پوچھنا ضروری ہے کہ کیا ہم اپنے کردار کو بہتر بنا رہے ہیں۔؟ کیا ہم انصاف، سچائی اور دیانت کو فروغ دے رہے ہیں؟ کیا ہم ظلم کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں۔؟ کیا ہم معاشرتی اصلاح اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم ہیں۔؟ امام مہدیؑ کے سچے منتظر وہی ہیں، جو اپنی زندگیوں میں عدل و انصاف کو اپناتے ہیں اور معاشرے میں بہتری کے لیے سرگرم رہتے ہیں۔

انتظار کا مطلب صرف مستقبل کی امید نہیں بلکہ موجودہ حالات میں بہتری کے لیے کوشش کرنا ہے۔ حضرت علی علیہ السلام کا فرمان ہے کہ "ظلم کے خلاف خاموش رہنے والا بھی ظالم کے جرم میں شریک ہوتا ہے۔ عقیدہ مہدویت صرف مکتبِ تشیع کا عقیدہ نہیں، بلکہ یہ ایک عالمی پیغام ہے۔ امام مہدی علیہ السلام پوری انسانیت کے نجات دہندہ ہیں، چاہے وہ کسی بھی نسل، مذہب یا قوم سے تعلق رکھتے ہوں۔ یہ عقیدہ انسانیت کو فرقہ واریت، تعصب اور نفرت سے نکال کر اخوت، بھائی چارے اور یکجہتی کی راہ دکھاتا ہے۔ دنیا کے تمام مذاہب میں کسی نہ کسی صورت میں ایک نجات دہندہ کے آنے کا تصور پایا جاتا ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ انسانی فطرت نجات اور امید کے عقیدے سے جڑی ہوئی ہے۔ عقیدہ مہدویت ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ انسانیت ایک مشترکہ منزل کی طرف گامزن ہے، جہاں بھائی چارہ اور انصاف غالب ہوگا، عقیدہ مھدویت ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ انسانیت کا سفر کسی ایک قوم یا ملت تک محدود نہیں بلکہ یہ پوری دنیا کے لیے ہے۔

امام مہدیؑ کا ظہور ایک عالمی انقلاب کی نوید ہے، جو صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے امید کی روشنی ہے۔ جب انسان کو یہ یقین ہو کہ اس کی جدوجہد رائیگاں نہیں جائے گی اور ایک دن دنیا میں عدل کا سورج طلوع ہوگا تو وہ سخت سے سخت حالات میں بھی حوصلہ نہیں ہارتا۔ امام مہدیؑ کے ظہور کا انتظار ہمیں مسلسل ایک بہتر انسان، بہتر معاشرہ اور بہتر دنیا کی تشکیل کے لیے متحرک رکھتا ہے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: "جو شخص امام مہدیؑ کے ظہور کا منتظر ہو اور اس دوران حق کے لیے جدوجہد کرے، وہ گویا امام کے ساتھ جہاد میں شریک ہے۔" یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ انتظار محض ایک نظریاتی حالت نہیں بلکہ ایک عملی جدوجہد کا نام ہے۔ اگر ہم سچے معنوں میں منتظر امام مھدی بننا چاہتے ہیں تو ہمیں نہ صرف دعا کرنی ہوگی بلکہ اپنے کردار، رویئے اور معاشرتی اقدامات کے ذریعے اس عظیم مقصد کے لیے زمین ہموار کرنی ہوگی۔ یقیناً روشنی کبھی نہیں بجھتی، جب تک دل میں امید کا چراغ روشن ہو۔ عقیدہ مہدویت انسانیت کے لئے چراغ امید ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: عقیدہ مہدویت علیہ السلام نجات دہندہ نہیں بلکہ کے بجائے انسان کو یہ عقیدہ امید کا یہ یقین دیتا ہے کیا ہم ظلم کے کے لیے ہے اور میں یہ

پڑھیں:

مغربی سامراجی قوتوں نے تاریخ کو کیسے مسخ کیا؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 20 اپریل 2025ء) اس کی ایک واضح مثال 1861ء سے 1865ء تک جاری رہنے والی امریکی خانہ جنگی ہے۔ مورخین اس کے اسباب پر منقسم ہیں۔ ایک گروہ کا ماننا ہے کہ یہ جنگ غلامی کے خاتمے کے لیے لڑی گئی، جبکہ دوسرا گروہ اسے یونین کے تحفظ سے جوڑتا ہے۔ تیسرے گروہ کی رائے ہے کہ شمالی ریاستیں، جو صنعتی ترقی کی راہ پر تھیں، جنوبی ریاستوں کے زرعی کلچر اور غلامی پر مبنی معیشت کو ختم کرنا چاہتی تھیں۔

جنوبی ریاستوں کے بڑے زمیندار، جن کی دولت غلاموں کی محنت سے حاصل شدہ زرعی پیداوار پر منحصر تھی، غلامی کو جائز قرار دیتے تھے۔ وہ دعویٰ کرتے تھے کہ افریقی غلاموں کو ان کے ''پسماندہ معاشروں‘‘ سے نکال کر امریکہ میں آباد کیا گیا، جہاں انہیں عیسائیت قبول کروا کر ''نجات اور معاشی استحکام‘‘ دیا گیا۔

(جاری ہے)

جب کوئی تاریخی واقعہ متنازع ہو جاتا ہے، تو ہر گروہ اپنے موقف کے دفاع کے لیے نئے تاریخی مآخذ تلاش کرتا ہے یا موجودہ مآخذ کی نئی تشریحات پیش کرتا ہے۔

اس عمل سے تاریخ کا دائرہ کار وسیع ہوتا ہے اور نئے خیالات اسے تازگی عطا کرتے ہیں۔ تاہم یہ عمل تاریخ کو مسخ کرنے کا باعث بھی بن سکتا ہے۔

یورپی سامراجی ممالک نے اپنی نوآبادیاتی تاریخ کو بہت حد تک مسخ کیا ہے۔ انہوں نے مقامی باشندوں کا استحصال کیا، ان کا قتل عام کیا اور ان کی دولت لوٹ لی لیکن ان مظالم کا تذکرہ ان کی تاریخی کتابوں میں شاذ و نادر ہی ملتا ہے۔

اس کے برعکس، وہ اپنی نوآبادیاتی تاریخ کو فخر کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے ایشیا اور افریقہ کی ''پسماندگی‘‘ کو ختم کر کے انہیں ''مہذب‘‘ بنایا۔

اسی طرح، جن یورپی ممالک نے غلاموں کی تجارت کی، انہوں نے افریقہ سے غلاموں کو جہازوں میں بھر کر امریکہ کی منڈیوں میں فروخت کیا اور کریبین جزائر میں ان سے شکر اور کافی کی پیداوار کروائی۔

ان مظالم کی تفصیلات ان کی تاریخ سے غائب ہیں۔

تاریخ کا ارتقاء کیسے ہوتا ہے؟

وہ فخر سے بتاتے ہیں کہ 1830ء کی دہائی میں برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک نے غلامی کا خاتمہ کیا اور وہ اسے اپنی مذہبی و اخلاقی اقدار کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ لیکن یہ دعویٰ حقیقت سے دور ہے۔ غلامی کا خاتمہ مذہبی یا اخلاقی وجوہات کی بجائے تکنیکی ترقی کی وجہ سے ہوا۔

جب مشینوں نے غلاموں کی محنت سے زیادہ پیداوار دینا شروع کی تو غلام معاشی بوجھ بن گئے۔ نتیجتاً، انہیں آزاد کیا گیا لیکن آزادی کی قیمت بھی غلاموں سے ہی وصول کی گئی۔ مالکان نے دعویٰ کیا کہ غلام ان کی ملکیت ہیں، اس لیے انہیں آزادی کے بدلے چار سے پانچ سال تک بغیر معاوضے کے کام کرنا پڑا۔ یورپی ممالک نے غلاموں کی نسلوں سے لی گئی محنت کا کوئی معاوضہ ادا کرنے پر غور نہیں کیا اور غلامی کے کاروبار کو جرم قرار دینے سے گریز کیا۔

یورپی سامراج نے اپنی غربت کم کرنے کے لیے افریقہ میں کالونیاں قائم کیں۔ سیسل روڈز (وفات: 1902ء) نے موجودہ زمبابوے اور جنوبی افریقہ میں مقامی لوگوں کی زمینوں پر قبضہ کر کے برطانوی غریبوں کو آباد کیا۔ جرمنی نے نمیبیا اور ہرارے میں نابا قبائل کو ختم کر کے جرمن آباد کاروں کو بسایا۔ اس طرح، یورپی ممالک نے ''اپنی غربت ختم کر کے افریقیوں کو غریب‘‘ بنا دیا لیکن ان کی تاریخ ان جرائم پر خاموش ہے۔

تاریخ کو مسخ کرنے کا عمل قوم پرستی اور وطن پرستی کے نام پر بھی کیا گیا۔ 1937ء میں جاپان نے چین پر حملہ کیا اور نانجِنگ سمیت کئی شہروں میں لوٹ مار اور قتل عام کیا۔ نانجِنگ میں شہریوں کا قتل، خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی اور منچوریہ میں آبادی کا خاتمہ جاپانی بربریت کی واضح مثالیں ہیں۔

عالمگیر تاریخ

جاپان نے فلپائن اور کوریا میں بھی یہی مظالم دہرائے، جہاں کوریائی خواتین کو ''کمفرٹ ویمن‘‘ کے نام سے جنسی غلامی کا نشانہ بنایا گیا۔

لیکن دوسری عالمی جنگ کے بعد جاپانی مورخین نے قوم پرستی کے نام پر ان مظالم کو نظرانداز کیا۔ نانجنگ کے قتل عام کو تاریخی طور پر تسلیم نہیں کیا گیا، حالانکہ تصاویر اور شواہد موجود ہیں، جن میں شہریوں کی لاشیں سڑکوں پر بکھری نظر آتی ہیں۔

کچھ جاپانی فوجیوں نے فخریہ طور پر اپنی ڈائریوں میں لکھا کہ انہوں نے شہریوں کو قطار میں کھڑا کر کے یہ دیکھا کہ ایک گولی سے کتنے لوگ ہلاک ہو سکتے ہیں۔

ایسی تفصیلات جاپانی تاریخ سے غائب ہیں۔

جاپان نے اپنی نئی نسل کو تاریخی حقائق کے بجائے قومی عظمت کی داستانیں سنائیں اور مظالم کو قومی مفاد کے نام پر چھپایا۔ یورپی سامراجی ممالک نے بھی اپنی کالونیوں کی آزادی کے وقت تاریخی دستاویزات کو یا تو جلا دیا یا اپنے ممالک میں منتقل کر دیا۔ آزادی کے بعد لکھی گئی تاریخ میں ایشیا اور افریقہ کی سامراجی مزاحمت کو نظر انداز کیا گیا اور حقائق کو مسخ کر کے پیش کیا گیا۔

مسخ شدہ تاریخ کو درست کرنا اس لیے مشکل ہے کہ متعلقہ دستاویزات یا تو موجود نہیں یا یورپی ممالک کے قبضے میں ہیں، جہاں تک ایشیا اور افریقہ کے ممالک کی رسائی نہیں۔ بدقسمتی سے ایشیا اور افریقہ کے ان ممالک میں، جہاں آمرانہ حکومتیں رہی ہیں، وہاں بھی تاریخ کو مسخ کیا گیا۔ آمروں نے اپنے ظلم و ستم کو قوم پرستی کے نام پر چھپایا اور مورخین نے ان واقعات کو مکمل طور پر بیان کرنے سے گریز کیا۔

جب تاریخ کو مسخ کر کے نصابی کتب میں شامل کیا جاتا ہے، تو نوجوان نسل تاریخی شعور سے محروم ہو جاتی ہے۔ وہ ماضی سے سبق سیکھنے کے بجائے گمراہی کا شکار ہوتی ہے۔ تاریخ کو درست کرنے کی ذمہ داری مورخین اور معاشروں پر عائد ہوتی ہے تاکہ آنے والی نسلیں حقائق سے آگاہ ہو سکیں اور ماضی کے تجربات سے سیکھ سکیں۔

ادارت: امتیاز احمد

متعلقہ مضامین

  • پوپ فرانسس کے انتقال کے بعد ویٹیکن میں کیا کچھ ہوگا اور نئے پوپ کا انتخاب کیسے کیا جائے گا؟
  • پوپ فرانسس کے انتقال کے بعد نیا پوپ کون ہوگا؛ انتخاب کیسے کیا جائے گا ؟
  • یوکرین اور روس میں رواں ہفتے ہی معاہدے کی امید، ٹرمپ
  • کوفہ، گورنر سندھ کامران ٹیسوری کی حضرت علی علیہ السلام کے گھر ’’دار امام علی‘‘ پر حاضری
  • نجف، گورنر سندھ کامران ٹیسوری کی حضرت علی علیہ السلام کے گھر ’’دار امام علی‘‘ پر حاضری
  • مغربی سامراجی قوتوں نے تاریخ کو کیسے مسخ کیا؟
  • ایسٹر امید کی علامت اور خوشیاں بانٹنے کا تہوار ہے: محسن نقوی
  • ایسٹر تجدید اور امید کی علامت ، صدرمملکت اور وزیراعظم  کی  مسیحی برادری کو مبارکباد
  • لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے، جنید اکبر
  • وزن کم کرنے کی نئی دوا ٹائپ 2 ذیابیطس کے مریضوں کے لیے امید کرن