Express News:
2025-04-23@00:25:02 GMT

جوڈیشل کمیشن کا اجلاس

اشاعت کی تاریخ: 12th, February 2025 GMT

26 ویں آئینی ترمیم اب آئین پاکستان کا باقاعدہ حصہ ہے۔ جیسے آئین پاکستان کے باقی آرٹیکلز اور شقوں پر عمل کرنا لازمی ہے، ایسے ہی 26ویں آئینی ترمیم سے جو شقیں آئین میں شامل کی گئی ہیں، ان پر عمل کرنا لازم ہے۔ اگر کسی کو 26ویں آئینی ترمیم پسند نہیں، اس کی کچھ شقوں سے اتفاق نہیں کرتے، تب بھی یہ آئین کا حصہ ہیں، انھیں تسلیم کرنا لازم ہے ،جب تک آئین موجود ہے، تب تک یہ ترمیم بھی موجود ہے۔

بہت سے لوگوں کے نزدیک آئین میں کچھ باتیں غلط ہیں، وہ آئین کے کچھ آرٹیکلز اور شقوں سے اختلاف بھی کرتے ہیں۔ لیکن ان کا اختلاف ذاتی ہے ، اس کی کوئی قانونی اہمیت نہیں ہے کیونکہ آئین کی ان شقوں کو کسی کی پسند یا نا پسند پر تبدیل یا ختم نہیں کیا جا سکتا۔ آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ میں آئین کے اس حصہ کے تو حق میں ہوں، اسے مانتا ہو، لیکن اس حصہ سے اختلاف رکھتا ہوں، لہٰذا اس حصے کو نہیں مانتا۔ ماننا ہے تو پورآئین ماننا ہے۔

بہر حال سپریم کورٹ میں ججز کی تعیناتی کے لیے جو طوفان تھا ، اس کی موجودگی میں سپریم کورٹ میں چھ نئے ججز کی تعیناتی ہو گئی ہے۔جوڈیشل کمیشن کا اجلاس منعقد ہوا، اس نئے ججز کی تعیناتی کا اعلان کر دیا گیا۔ اجلاس سے پہلے نئی تعیناتیاں رکوانے کے لیے سپریم کورٹ کے چار ججز نے بھی جوڈیشل کمیشن کو ایک خط لکھا۔ خبر کے مطابق یہ خط جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں غور کے لیے پیش کیا گیا، خط لکھنے والے دو ججز بھی اجلاس میں موجود تھے، ان کے خط اور دلائل پر ووٹنگ کرائی گئی۔

جوڈیشل کمیشن کے اکثریتی ارکان نے ججز کی تعیناتی کو موخر کرنے کا مطالبہ مسترد کر دیا۔ میں سمجھتا ہوں جب یہ خط جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں زیر غور آگیا اور اس پر ووٹنگ ہو گئی تو انصاف کے تقاضے پورے ہو گئے۔ اکثریتی ارکان نے جب مطالبہ مسترد کر دیا تو پھر میں سمجھتا ہوں اجلاس کے بائیکا ٹ کا کوئی جواز نہیں تھا۔

جہاں تک بیرسٹر گوہر اور بیرسٹر علی ظفر کے بائیکاٹ کا تعلق ہے تو وہ سیاسی بائیکاٹ ہے، میں اسے آئین کے تناظر میں نہیں دیکھتا۔ سیاسی جماعتوں کے اپنے مفادات ہوتے ہیں۔ ان کی سیاسی ضروریات ہوتی ہیں، ان کے بائیکاٹ کو ان کی سیاسی ضروریات اور سیاسی مفادات کے تناظر میں ہی دیکھا جانا چاہیے۔ لیکن دو ججز اور تحریک انصاف کا اکٹھا بائیکاٹ کرنا بھی کوئی اچھی بات نہیں۔ لوگ ماضی کی عدلیہ بحالی تحریک کی بہت مثالیں دیتے ہیں۔ لیکن یہ غلط مثالیں ہیں۔

تب تمام عدلیہ متحد تھی۔ آج ایسا نہیں ہے ، جو جج خط لکھ رہے ہیں، وہ اقلیت میں ہیں، ججز کی اکثریت ان کے ساتھ نہیں ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز نے بھی ججز کی تعیناتی پر خط نہیں لکھا، ان کا اپنا سنیارٹی کا معاملہ ہے، اس کے علاوہ کسی بھی دوسرے ہائی کورٹ سے کسی جج نے کوئی خط نہیں لکھا ہے۔ سپریم کورٹ کے اکثریتی ججز نے بھی کوئی خط نہیں لکھا ہے۔ صرف چار جج سپریم کورٹ کے اکثریتی ججز کی نمایندگی نہیں کرتے ہیں۔

اسی طرح وکلاء کی اکثریت بھی 26ویں آئینی ترمیم اور ججز کی تعیناتیوں کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہے۔ ان تعیناتیوں سے پہلے سپریم کورٹ بار کے صدر نے چیف جسٹس پاکستان سے ملاقات کی۔ جوڈیشل کمیشن کے اجلاس والے دن ملک میں متعدد بڑی بارز نے بھی ان تعیناتیوں کی حمایت میں پریس ریلیز جاری کیے۔ تا ہم لاہور بار اور اسلام آباد ہائی کورٹ بار کی جانب سے اس موقع پر جوڈیشل کمیشن کے اجلاس کے خلاف لانگ مارچ اور احتجاج کی کال دی گئی تھی۔ چند وکلا سپریم کورٹ تک پہنچے بھی، ان کی تعداد کم تھی، اس لیے جوڈیشل کمیشن کا اجلا س رک نہیں سکا۔

جب عدلیہ بحالی تحریک میں لانگ مارچ کیا گیا تو نواز شریف نے اسے کامیاب بنایا تھا۔ حامد خان گروپ اس کا کریڈٹ ضرور لیتا ہے۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ اگر نواز شریف خود نہ نکلتے تو ممکن نہیں تھا۔ اب بھی وکلا کی تحریک اسی لیے ناکام ہے ایک تو وکلا میں بھی بہت بڑی تقسیم ہے۔ صرف دو بارز کے سر پر تو وکلا کی تحریک نہیں چلائی جا سکتی، اگر ہزاروں وکیل پہنچ جاتے۔تو شاید کام بن جاتا۔ اقلیت کبھی اکثریت پر غالب نہیں آسکتی۔ جیسے جوڈیشل کمیشن کے اقلیتی ارکان جوڈیشل کمیشن کی کارروائی نہیں روک سکتے۔

یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ سپریم کورٹ میں ججز کی تعیناتی سے قبل تقریباً سب ہائی کورٹس میں ججز کی نئی تعیناتیاں بھی ہوئی ہیں۔ ان تعیناتیوں کے لیے جوڈیشل کمیشن کے اجلاس بھی ہوئے ہیں، ان میں نامزدگیاں بھی ہوئی ہیں۔ حال ہی میں لاہور ہائی کورٹ میں نوایڈیشنل ججز کی تعیناتی ہوئی ہے۔ لیکن تب نہ تو وکلا نے احتجاج کیا۔ اور نہ ہی اس جوڈیشل کمیشن کے اجلاس کا بائیکاٹ کیا گیا۔

صرف سپریم کورٹ کی نامزدگیوں یاتعیناتیوں پر ہی بائیکاٹ اور احتجاج کیوں ہوا؟ کیا 26ویں آئینی ترمیم کے تحت ہائی کورٹ میں ججز کی تعیناتیاں قبول ہیں اور سپریم کورٹ میں قبول نہیں؟ کیوں؟ یہ کیا منطق ہے۔ آپ کو ہائی کورٹس کی حد تک ترمیم قبول ہے۔ لیکن سپریم کورٹ کی حد تک قبول نہیں۔ یہ منطق کیسے قبول کی جا سکتی ہے۔

بہر حال اب مجھے یہ سب چائے کی پیالی میں طوفان کی مانند ہی لگتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ ہم نے رائی کا پہاڑ بنایا ہوا تھا۔26ویں آئینی ترمیم کی قبولیت سب طرف نظر آرہی ہے۔ وکلا کے اندر بھی اس کے لیے بہت قبولیت نظر آئی ہے۔ ججز کے اندر بھی اس کے لیے بہت قبولیت نظر آئی ہے۔ سیاسی میدان میں اس کی قبولیت آج بھی موجود ہے۔ ویسے تو اب کوئی خطرہ نہیں۔ لیکن اگر عدلیہ اس کو ختم کرنے کی کوشش کرتی تو پھر بھی یہ پارلیمنٹ سے دوبارہ منظور ہو جاتی اور وہ دوبارہ منظور کرنے میں کوئی دیر نہ لگاتی۔

کچھ دوستوں کا سوال ہے کہ کیا خط و کتابت بند ہو جائے گی۔ مجھے نہیں لگتا، البتہ کم ضرور ہو جائے گی۔ اس کا پہلا مرحلہ ختم ہوگیا ہے۔ بلکہ ناکام ہو گیا ہے۔ خط و خطابت کے وہ نتائج نہیں نکلے جس کی متوقع تھی۔ ان خطوط سے جو رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کی گئی، وہ بھی نہیں ہو سکا۔ وکلا بھی متحرک نہیں ہوئے، سارے ججز بھی ساتھ نہیں آئے۔ اس لیے اب دوبارہ کسی مناسب موقع کا انتظار کیا جائے گا۔ ابھی بائیکاٹ کا موسم شروع ہو گیا ہے۔ ہمیں بائیکاٹ کا سیزن انجوائے کرنا چاہیے۔ جیسے خطوط کا موسم انجوائے کیا گیا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: جوڈیشل کمیشن کے اجلاس 26ویں ا ئینی ترمیم ججز کی تعیناتی سپریم کورٹ میں میں ججز کی ہائی کورٹ کیا گیا کورٹ کے گیا ہے نے بھی کے لیے

پڑھیں:

بیرسٹر گوہر سنی اتحاد کونسل میں شامل ہونے کے بعد پی ٹی آئی کے چیئرمین کیسے بن سکتے ہیں؟.الیکشن کمیشن

اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔22 اپریل ۔2025 )الیکشن کمیشن کے ممبر خیبر پختونخوا جسٹس ریٹائرڈ اکرام اللہ نے ریمارکس دیے کہ بیرسٹر گوہر سنی اتحاد کونسل میں شامل ہوئے، پھر چیئرمین پی ٹی آئی کیسے بن گئے؟ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے انٹرا پارٹی الیکشن کیس کی سماعت کے دوران پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو پارٹی کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا اختیار نہیں، نہ ہی انٹرا پارٹی الیکشن میں بے ضابطگی پر کمیشن جماعت کو ریگولیٹ کر سکتا ہے.

(جاری ہے)

تحریک انصاف انٹرا پارٹی الیکشن کیس کی سماعت چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں بینچ نے کی پی ٹی آئی کے وکیل عزیز بھنڈاری نے دلائل دیے کہ لاہور ہائی کورٹ نے انٹرا پارٹی کیس میں الیکشن کمیشن کو فیصلے سے روکا ہے جس پرچیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ الیکشن کمیشن فائنل آرڈر پاس نہیں کرے گا. دوران سماعت الیکشن کمیشن کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) لا نے کہا کہ کوئی بھی پارٹی انٹرا پارٹی الیکشن کرانے کی پابند ہوتی ہے، پی ٹی آئی 2021 میں انٹرا پارٹی الیکشن کرانے کی پابند تھی، پی ٹی آئی نے نیشنل کونسل کی عدم موجودگی میں جنرل باڈی سے آئین منظور کروایا، کیا پارٹی آئین میں جنرل باڈی ہے؟انہوں نے کہا کہ انتظامی ڈھانچے کی عدم موجودگی میں فنانشل اکاﺅنٹ کسی تصدیق کے بغیر ہیں.

درخواست گزار اکبر ایس بابر نے استدعا کی کہ پی ٹی آئی کے فنڈز منجمد کیے جائیں، انتظامی ڈھانچے کے بغیر انتخابات کیسے ہوئے؟ سلمان اکرم راجہ کو سیکریٹری جنرل بنانا غیر آئینی ہے الیکشن کمیشن کے ممبر کے پی جسٹس ریٹائرڈ اکرام اللہ نے ریمارکس کہا کہ بیرسٹر گوہر سنی اتحاد کونسل میں شامل ہوئے، پھر پی ٹی آئی کے چیئرمین کیسے بن سکتے ہیں؟ چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے دلائل دیے کہ انٹرا پارٹی الیکشن کی تفصیلات پارٹی ویب سائٹ پر موجود ہیں.

ممبر سندھ نثار درانی نے کہا کہ پی ٹی آئی نے الیکشن تو کروائے تاہم خلاف قانون ہوئے پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے حکم پر 23 نومبر کو الیکشن کرائے گئے لیکن کمیشن نے الیکشن تسلیم ہی نہیں کیا آئین پاکستان 90 روز میں جنرل الیکشن کا کہتا ہے کیا وہ کرائے گئے؟. وکیل نے کہا کہ اگر انٹرا پارٹی الیکشن نہ کروائے جائیں تو کیا پارٹی ختم ہو جاتی ہے؟ اگر یہ فیصلہ پہلے ہی ہو چکا ہے تو پھر چلے جاتے ہیں انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو انٹرا پارٹی الیکشن میں بے ضابطگی پر سیاسی جماعت ریگولیٹ کرنے اور پارٹی معاملات میں مداخلت کا اختیار ہی نہیں الیکشن کمیشن نے وکلا کے دلائل مکمل ہونے پر کیس کی سماعت ملتوی کر دی.

متعلقہ مضامین

  • آئین پاکستان 90 روز میں جنرل الیکشن کا کہتا ہے کیا وہ کرائے گئے؟
  • سینیٹ اجلاس ہنگامہ آرائی کی نذر، چیئرمین سینیٹ نے ثانیہ نشتر کا استعفیٰ قبول کیا اور معاملہ الیکشن کمیشن کو بھجوا دیا
  • پی ٹی آئی گِدھوں کے قبضے میں ہے، اثاثے اور اکاؤنٹس منجمد کیے جائیں، اکبر ایس بابر
  • بیرسٹر گوہر سنی اتحاد کونسل میں شامل ہونے کے بعد پی ٹی آئی کے چیئرمین کیسے بن سکتے ہیں؟.الیکشن کمیشن
  • پی ٹی آئی گِدھوں کے قبضے میں ہے، اثاثے اور اکاونٹس منجمد کیے جائیں، اکبر ایس بابر
  • پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخاب پر فیصلہ ہو چکا، حتمی فیصلہ جاری نہیں کرینگے:چیف الیکشن کمشنر
  • 190 ملین پاؤنڈز کیس؛ اپیلیں مقرر کرنے سے متعلق ڈپٹی رجسٹرار سے پالیسی طلب
  • پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخاب؛ فیصلہ ہوچکا، فائنل آرڈر پاس نہیں کریں گے، چیف الیکشن کمشنر
  • سندھ: سول ججز اور جوڈیشل مجسٹریٹس کی بھرتیوں کا کیس، فیصلہ محفوظ
  • چیف جسٹس ایس سی او جوڈیشل کانفرنس کیلئے آج چین جائیں گے