کراچی:

عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) سندھ کے صدر شاہی سید نے کہا ہے کہ ڈمپرز اور ہیوی ٹرانسپورٹ کراچی کی ترقی میں اہم کردار ادا کررہا ہے۔

شاہی سید نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا کہ ڈمپرز و دیگر ہیوی ٹرانسپورٹ کا شہر کراچی کی تعمیر وترقی میں اہم کردار ہے ، ہیوی ٹرانسپورٹ کا شہر میں داخلہ بند کرنا مسئلے کا حل نہیں، حکمران مسئلے کا حل نکالیں تاکہ حادثات کو روکا جاسکے،  قیمتی جانوں کے ناقابل تلافی نقصان سے بھی  بچ جائیں اور ڈمپرز و دیگر ہیوی ٹرانسپورٹ کراچی کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار جاری رکھ سکیں۔

انہوں کہا  کہ بعض عناصر مسئلے کو سیاسی بیانیہ اور لسانیت کا رنگ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے ، کراچی ہم سب کا ہے کسی کو کراچی کے حالات خراب کرنے کی اجازت نہیں دی جائیگی۔

 شاہی سید نے کہا کہ قانونی طور پر  کسی شہری کو کسی گاڑی کے کاغذات یا اس کے ڈرائیور کے لائسنس کی جانچ پڑتال کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے،  یہ اختیار صرف متعلقہ سرکاری اداروں کو حاصل ہے۔

انہوں کہا کہ وزیر اعلی سندھ ،  آئی جی سندھ، وزیر داخلہ، وزیر ٹرانسپورٹ اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے ومتعلقہ حکام بالا سازشوں کا نوٹس لیں،کراچی کا امن برقرار اور ٹرانسپورٹرز کو تحفظ فراہم کیا جائے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: شاہی سید کراچی کی

پڑھیں:

پیکر کردار مثالی لوگ

حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ اچھی بات دین اسلام کی گمشدہ میراث ہے ۔کیوں نہ ہو کہ اللہ کے آخری نبی حضرت محمد ﷺ انسانوں کے اخلاق سنوارنے کے لئے ہی تو مبعوث فرمائے گئے تھے ۔پوری انسانیت آج بھی میرے نبی آخرالزمان ﷺ کے جادہ اخلاق پر چل کر ہی دنیا و آخرت کی کامیابیوں اور کامرانیوں سے ہمکنار ہوسکتی ہے کہ اس کے سوا کوئی اور راستہ نہیں جو انسانیت کی بھلائی اور فلاح کا ہو۔عمر رفتہ کی ساٹھویں دہائی میں اچانک سے کسی صالح اور پیکر حسن اخلاق دوست کا مل جانا کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں اس پر مستزاد یہ کہ وہ ایک درد مند مسیحا بھی ہو ۔ڈاکٹر محمد بلال ماہر اطفال ہیں، ایک عمر آئرلینڈ بسر کرنے کے بعد پاکستان آئے ہیں یہاں آنا اور یہاں کا ہورہنا بھی جان جوکھوں سے کم نہیں وہ ذہنی اور جسمانی سطح پر ہی نہیں روحانی سطح پر بھی یہاں کے ماحول سے لڑتے بھڑتے مہ وسال بسر کرنے میں لگے ہیں ۔
یہاں کی فضا ان کے مزاج کے لئے ساز گارنہ سہی مگر وہ بہرصورت نبرد آزماہیں اور ہارنے والے نہیں لگتے ۔انہوں نے ہمسایہ ملک کے ایک ریٹائرڈ افسر(جو صدر ڈاکٹر عبدالکلام کے دور میں ان کے سیکرٹری تھے) کے ایک ٹی وی انٹر ویو کے کچھ حصے انگریزی میں مجھے مرحمت فرمائے ہیں جنہیں اپنے حلقہ احباب تک پہنچانا ایک فرض اور قرض گردانتا ہوں ، کہ شائد رلادینے والے اس انٹر ویو کا خلاصہ ہمارے ارباب بست و کشاد میں بھی کوئی ایسا جذبہ بیدار کردے ۔یہ تحریر شائد کچھ لوگوں کے لئے دہرائی ہوئی ہو مگر پھر دہرائی جانے کے قابل ہے کہ ایسی ہستیاں صدیوں بعد پیدا ہوتی ہیں ،جن کے واقعات ہر بار سننے کے لائق ہوتے ہیں ۔ دنیا کے ہر ملک کے سربراہ ملکوں ملکوں دورے کرتے ہیں اور یہ ایک دیرینہ روایت رہی ہے کہ جس ملک بھی جاتے ہیں اس ملک کی طرف سے انہیں بیش قیمت تحائف پیش کئے جاتے ہیں ۔ڈاکٹر عبدالکلام کو بھی بیرونی دوروں پر تحائف دیئے جاتے اور وہ لینے سے انکار نہ کرتے کہ یہ ان کے ملک کے وقارکا تقاضا تھا،مگر وطن واپسی پر وہ ان تحائف کی تصاویر کھنچواتے ،فہرست بنواتے اور انہیں راشٹرپتی بھون کے آرکائیوز میں جمع کروادیتے ۔حتیٰ کہ صدارتی محل چھوڑتے وقت بھی ایک پنسل تک اپنے ساتھ نہیں لے گئے۔2002 ء میں رمضان المبارک آیا تو روایت کے مطابق افطار پارٹی کی تیاریاں ہونے لگیں ،ڈاکٹر کلام نے اپنے سیکرٹری مسٹر نائرسے کہا ’’ہم ان لوگوں کو کیوں کھلائیں جوپہلے ہی کھاتے ہیں‘‘ معلوم ہوا کہ اس پر 22لاکھ روپے خرچ اٹھے گا،ڈاکٹر صاحب نے حکم دیا کہ یہ رقم یتیم خانوں میں کھانا ،کپڑے اور کمبل دینے پر لگا دی جائے۔ مزید یہ کہ اپنے ذاتی بچت سے ایک لاکھ روپے کا چیک دیا اور کہا ’’کسی کو نہ بتانا‘‘۔ ڈاکٹر کلام جی حضورکہنے والوں کے سخت خلاف تھے ،ایک بار چیف جسٹس کی موجودگی میں ڈاکٹر صاحب نے رائے دی اور مسٹر نائر سے پوچھا ’’تم متفق ہو ؟‘‘ مسٹر نائر بولے ’’نہیں سر میں متفق نہیں ہوں‘‘ چیف جسٹس ششدر رہ گئے ۔ڈاکٹر کلام بعد میں وجہ پوچھتے اور اگر دلیل میں وزن ہوتا تو99 فیصد اپنی رائے بدل لیتے۔ڈاکٹر کلام نے اپنے پچاس کے قریب رشتہ داروں کو دہلی بلوایا،ایک نجی بس کا انتظام کیا ،جس کا کرایہ خود ادا کیا ۔تمام اخراجات کا حساب ہوا، دو لاکھ روپے اور وہ بھی اپنی جیب سے ادا کئے ،حتی کہ اپنے بڑے بھائی کے ایک ہفتہ تک کمرے میں قیام کا کرایہ بھی دینا چاہا۔مگر عملے نے کہا ’’سریہ تو حد ہوگئی‘‘ جب مسٹر کلام کی مدت صدارت ختم ہوئی ،ہر ملازم نے آکرالوداع کہا۔ مسٹر نائر کی اہلیہ کی ٹانگ ٹوٹی ہوئی تھی ۔ڈاکٹر کلام نے خبر سنی تو اگلے دن ان کے گھر پہنچے ،ان کی اہلیہ کی مزاج پرسی کی اور کچھ وقت ساتھ گزارا ۔مسٹر نائر کہتے ہیں ’’دنیا کے کسی ملک کا صدر سرکاری ملازم کے گھر یوں نہیں آتا‘‘ ڈاکٹر عبدالکلام کی کل ملکیت 6پتلون ( 2ڈی آر ڈی آو کی یونیفارم )4 قمیص (ڈی آر ڈی کی یونیفارم ) 3سوٹ ،2500کتب 1فلیٹ(عطیہ کردیا) 1پدم شری۔1۔پدم بھوشن ۔1بھارت رتن۔16 ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں۔1۔ویب سائٹ 1۔ٹیوٹراکائونٹ۔1ای میل آئی ڈی۔نہ کوئی گاڑی ،نہ زیور،نہ زمین ،نہ بنک بیلنس۔حتیٰ کہ اپنی آخری 8سال کی پنشن بھی گائوں کی ترقی کے لئے دے دی۔

متعلقہ مضامین

  • فلم ’جوش‘ میں کاجول اور عامر خان نے شاہ رخ کیساتھ کام کرنے سے کیوں منع کردیا تھا؟
  • سی پیک نے پاکستان کی معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے، قیصر احمد شیخ
  • پاکستان روانڈا کی ترقی کرتی معشیت میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے، وزیر خارجہ اسحاق ڈار
  • افغانستان پولیو ختم کرنے کیلئے پاکستان سے بہتر کوششیں کررہا ہے، مصطفی کمال
  • افغانستان پولیو ختم کرنے کیلئے پاکستان سے بہتر کوششیں کررہا ہے، مصطفیٰ کمال
  • مسیحی برادری کا پاکستان کی تعمیر و ترقی میں قابل تحسین کردار ہے: سرفراز بگٹی
  • مسیحی برادری نے ہمیشہ ملکی ترقی میں نمایاں کردار ادا کیا، صدر مملکت کا ایسٹر پر پیغام
  • معاشی ترقی اور اس کی راہ میں رکاوٹ
  • پیکر کردار مثالی لوگ
  • دنیا زراعت میں آگے نکل گئی ہم قیمتی وقت کا ضیاع کرتے رہے، وزیراعظم شہباز شریف