Express News:
2025-04-22@14:31:00 GMT

چمپیئنز ٹرافی کی تاریخ میں سرفہرست 10 بلے باز کون ہیں؟

اشاعت کی تاریخ: 11th, February 2025 GMT

DUBAI:

انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) چمپیئنزٹرافی 2025 کا انعقاد پاکستان میں ہونے جا رہا ہے، جس کے لیے تیاریاں عروج پر پہنچ چکی ہیں، قذافی اسٹیڈیم لاہور اور نیشنل اسٹیڈیم کراچی کا بین الاقوامی طرز کی تعمیر نو کے بعد افتتاح کر دیا گیا ہے اور توقع ہے کہ یہ ایونٹ یادگار ہوگا۔

چمپیئنز ٹرافی کے اب تک ہونے والے ٹورنامنٹ میں بیٹرز کی جانب چند یادگار اننگز کھیلی گئیں اور انہوں نے اپنی شان دار کارکردگی کے ذریعے ریکارڈ قائم کردیا ہے۔

چمپیئنزٹرافی کی تاریخ میں غیرمعمولی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے 5 بلے بازوں کی اننگز کا جائزہ پیش ہے؛

کرس گیل (ویسٹ انڈیز)

کرس گیل نے 2002 سے 2013 کے چمپیئنز ٹرافی کے 17 میچ کھیلے اور 52.

73 کی شان دار اوسط کے ساتھ 791 رنز بنائے، جس میں 3 سنچریاں اور ایک نصف سنچری شامل ہے۔

کرس گیل بلند و بالا چھکوں اور بے رحم بیٹنگ کے لیے مشہور تھے، اسی نسبت سے ویسٹ انڈیز کے لیے وہ گیم چینجر ثابت ہوتے تھے اور چمپیئنز ٹرافی کی تاریخ میں سب سے زیادہ رنز بنانے والے بلے باز ہیں۔

چمپیئنز ٹرافی کی تاریخ میں کرس گیل کی بڑی اننگز میں 2006 میں جنوبی افریقہ کے خلاف تھی، جہاں انہوں نے 135 گیندوں کا سامنا کرکے ناقابل شکست 133 رنز بنائے تھے۔

گیل کی اس شان دار اننگز کی بدولت جنوبی افریقہ جیسی مضبوط ٹیم کو سیمی فائنل میں شکست ہوئی تھی۔

انہوں نے گروپ میچ میں انگلینڈ کے خلاف ایک انتہائی اہم میچ میں بھی آؤٹ ہوئے بغیر 101 رنز کی اننگز کھیلی تھی اور ٹیم کی پیش قدمی یقینی بنائی تھی۔

باؤلرز پر اپنی دہشت جمانے والے گیل کی شان دار بیٹنگ کی وجہ سے ہی ویسٹ انڈیز نے 2004 میں انگلینڈ کو فائنل میں شکست دے کر چمپیئنز ٹرافی اپنے نام کی تھی۔

مہیلا جے وردھنے (سری لنکا)

سری لنکا کے سابق مایہ ناز بلے باز مہیلا جے وردھنے نے 2000 سے 2013 کے دوران چمپیئنز ٹرافی کے 22 میچز کھیلے اور 21 اننگز میں 41.22 کی اوسط سے 742 رنز بنا کر دوسری پوزیشن اپنے نام کرلی ہے۔

خوب صورت انداز میں بیٹنگ کرنے والے جے وردھنے نے اس ریکارڈ میں کوئی سنچری نہیں بنائی تاہم سری لنکا کے لیے کئی اہم مواقع پر اپنی ذمہ دارانہ بیٹنگ سے ریکارڈز قائم کیے اور ٹیم کو فتوحات بھی دلائیں اور چمپیئنز ٹرافی میں سری لنکن ٹیم کی ریڑھ کی ہڈی کہلائے جاتےتھے۔

چمپیئنزٹرافی میں 742 رنز بنا کر وہ خود اس ٹورنامنٹ کے کامیاب ترین بلے بازوں میں سے ایک ثابت کرچکے ہیں، ان کی بہترین اننگز میں 2006 کی چمپیئنزٹرافی کے سیمی فائنل میں نیوزی لینڈ کے خلاف تھی جہاں انہوں نے 113 گیندوں پر 77 رنز بنا کر ٹیم کو ایک مسابقتی مجموعے تک پہنچایا تھا۔

سری لنکا اور بھارت کو 2002 کی چمپیئنز ٹرافی کا مشترکہ فاتح قرار دیا گیا تھا اور اس ٹورنامنٹ میں بھی انہوں نے بہترین اننگز کھیلی تھیں اور ادھورے فائنل میں بھی قیمتی 77 رنز بنائے تھے تاہم بارش کی نذر ہونے پر فائنل نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوا تھا۔

شیکھر دھون (بھارت)

بھارت کے بائیں ہاتھ سے بیٹنگ کرنے والے شیکھر دھون نے بھی چمپیئنز ٹرافی میں چند یادگار اننگز کھیلیں اور 701 رنز بنا کر سرفہرست بلے بازوں میں اپنا نام درج کروا دیا ہے۔

شیکھر دھون نے 2013 سے 2017 کے دوران چمپیئنز ٹرافی کے صرف دو ٹورنامنٹس میں 10 میچز کھیلے اور 77.88 کی غیرمعمولی اوسط کے ساتھ 701 رنز بنائے، جس میں 3 سنچریاں اور دو نصف سنچریاں شامل ہیں۔

ان کی شان دار بیٹنگ کی بدولت بھارت نے 2013 کی چمپینز ٹرافی جیت لی تھی، اس ٹورنامنٹ میں انہوں نے 94 گیندوں پر 114 رنز کی زبردست اننگز جنوبی افریقہ کے خلاف تھی اور آؤٹ ہوئے بغیر 102 رنز ویسٹ انڈیز کے خلاف بنائے تھے۔

شیکھر دھون اپنی اس غیرمعمولی کارکردگی کی بدولت 2013 اور 2017 کی چمپیئنز ٹرافی کے ٹاپ اسکورر رہے تھے اور بھارت کی ٹیم کے لیے صرف بہترین اوپنر ہی نہیں بلکہ جیت کی بنیاد رکھ کر آخر تک لے کر چلنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔

4-کمار سنگاکارا (سری لنکا)

سری لنکا کے سابق کپتان اور مایہ ناز بیٹر کمار سنگاکارا نے اپنی ٹیم ورلڈ کپ کے فائنل تک پہنچایا اور ٹیسٹ کرکٹ میں بھی کئی ریکارڈز بنائے، اسی طرح چمپیئنز ٹرافی میں بھی انہوں نے یادگار اننگز کھیلی ہیں۔

کمارسنگاکارا نے 2000 سے 2013 کے دوران 22 میچوں کی 21 اننگز میں 37.94 کی اوسط سے ایک سنچری اور 4 نصف سنچریوں کی مدد سےمجموعی طور پر 683 رنز بنائے۔

انگلینڈ کے خلاف چمپیئنز ٹرافی 2013 کے ایک میچ میں 135 گیندوں پر آؤٹ ہوئے بغیر 134 رنز کی اننگز سب سے بڑی باری تھی اور اس کے نتیجے میں سری لنکا نے 294 رنز کا ایک بڑا ہدف حاصل کرلیا تھا۔

کمارسنگا کارا نے مسلسل 5 چمپیئنز ٹرافی کے ایونٹس میں حصہ لیا، جس میں 2002 کا ٹورنامنٹ بھی شامل تھا، جس میں سری لنکا مشترکہ طور پر چمپیئن قرار پایا تھا۔

سارو گنگولی

بھارت کی کرکٹ کامیاب کپتانوں میں سے ایک ساروگنگولی نے اپنی ٹیم کو اکیسویں صدی کے آغاز میں نئے طرز میں متعارف کروانے میں قائدانہ کردار ادا کیا، وہ اپنی ٹیم کو عالمی چمپیئن نہ بنا سکے لیکن چمپیئنز ٹرافی میں ایک دفعہ کامیاب ٹھہراسکے۔

گنگولی نے 1998 سے 2004 کے دوران چمپیئنز ٹرافی کے 13 میچز کی 11 اننگز میں 73.88 کی غیرمعمولی اوسط کے ساتھ 665 رنز بنائے اور تاریخ کے سرفہرست 5 بیٹرز میں جگہ بنائی، اس دوران انہوں نے 3 سنچریاں اور 3 نصف سنچریاں بنائیں۔

چمپیئنزٹرافی میں سب سے زیادہ 3 سنچریاں بنانے کا ریکارڈ بھی کرس گیل اور شیکھر دھون کے ساتھ مشترکہ طور پر ان کے پاس ہے۔

گنگولی کی چمپئنزٹرافی میں یادگار اننگز 2000 کے سیمی فائنل میں جنوبی افریقہ کے خلاف 142 گیندوں پر 141 رنز کی اننگز تھی، جس کی بدولت بھارت فائنل تک رسائی کرنے میں کامیاب ہوگیا تھا۔

بھارت کے سابق کپتان نے 2002 کے ایڈیشن میں انگلینڈ کے خلاف آؤٹ ہوئے بغیر 117 بھی بنائے تھے، جو ان کی ٹیم کو سری لنکا کےخلاف فائنل میں جگہ یقینی بنانے میں بنیاد ثابت ہوئے تھے۔

گنگولی کی غیرمعمولی کارکردگی کی بدولت بھارت دو مرتبہ چمپیئنز ٹرافی کے فائنل تک پہنچا اور ان کی بیٹنگ اوسط 73.88 خود ایک ریکارڈ ہے۔

جیکس کیلس (جنوبی افریقہ)

جنوبی افریقہ کے جیکس کیلس نے 17 اننگز میں 46.64 کی اوسط سے 653 رنز بنائے اور ایک میچ میں سب سے بڑا اسکور 113 رنز تھا۔

راہول ڈریوڈ (بھارت)

بھارت کے چٹان کے لقب سے مشہور راہول ڈریوڈ بھی چمپیئنز ٹرافی میں سب سے زیادہ رنز بنانے والے سرفہرست 10 بیٹرز میں شامل ہیں، انہوں نے 15 اننگز میں 48.23 کی اوسط سے 627 رنز بنائے اور ان کا بڑا اسکور 76 رنز تھا۔

رکی پونٹنگ (آسٹریلیا)

رکی پونٹنگ نے چمپینز ٹرافی کی 18 اننگز میں 39.53 کی اوسط سے 593 رنز بنائے اور ایک اننگز میں سب سے بڑا اسکور آؤٹ ہوئے بغیر 111 رنز تھا۔

شیونرائن چندرپال (ویسٹ انڈیز)

ویسٹ انڈیز کے شیونرائن چندرپال نے چمپیئنز ٹرافی میں مجموعی طور پر 16 اننگز میں 587 رنز بنائے اور 53.36 کی اوسط اس ریکارڈ میں ایک میچ میں بڑا اسکور 74 رنز تھا۔

سنتھ جے سوریا(سری لنکا)

سری لنکا کے طویل عرصے تک کپتان رہنے والے سنتھ جے سوریا نے چمپیئنز ٹرافی میں 20 اننگز میں 29.77 کی اوسط سے 536 رنز بنائے، جس میں ناقابل شکست 102 رنز سب سے بڑا انفرادی اسکور تھا۔

کرکٹ کی تاریخ میں اپنا نام درج کروانے والے ان کھلاڑیوں نے اپنی انفرادی بیٹنگ سے ٹیم کو فتوحات سے ہم کنار کیا اور ٹائٹل کی دوڑ میں بہترین کارکردگی دکھائی۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ٹرافی کی تاریخ میں چمپیئنز ٹرافی میں چمپیئنز ٹرافی کے جنوبی افریقہ کے آؤٹ ہوئے بغیر رنز بنائے اور یادگار اننگز اننگز کھیلی سری لنکا کے ویسٹ انڈیز کی اوسط سے بڑا اسکور گیندوں پر فائنل میں بنائے تھے کے دوران انہوں نے کی اننگز کی بدولت کے خلاف میں بھی رنز تھا کے ساتھ کرس گیل نے اپنی میچ میں ٹیم کو رنز کی کے لیے

پڑھیں:

پاکستان اور افغانستان: تاریخ، تضاد اور تعلقات کی نئی کروٹ

پاکستان اور افغانستان، دو ہمسائے جنہیں فطرت نے جوڑا، مگر تاریخ اور سیاست نے اکثر جدا رکھا۔ یہ محض دو ممالک نہیں، بلکہ دو تہذیبوں، دو قوموں، دو مشترکہ دکھوں کی داستان ہے۔ ایک وہ، جو کبھی دروازہ کھول کر مہمان نوازی کرتا رہا؛ دوسرا وہ، جو ہر بار بدلتے نظام میں خود کو محفوظ رکھنے کے لیے دوسروں پر شک کرتا رہا۔ مگر اب وقت آ چکا ہے کہ ہم ان تعلقات کو نئی آنکھ سے دیکھیں،ایک ایسی نگاہ جو صرف ماضی کی گرد نہ دیکھے، بلکہ مستقبل کی روشنی تلاش کرے۔

برصغیر کی تقسیم کے بعد پاکستان جب ایک آزاد ریاست کے طور پر ابھرا، تو افغانستان واحد ملک تھا جس نے اقوامِ متحدہ میں اس کی رکنیت کی مخالفت کی۔ مخالفت کی بنیاد ڈیورنڈ لائن تھی، وہ تاریخی لکیر جو 1893 میں برطانوی ہند اور افغان امارت کے درمیان کھینچی گئی، اور جو آج بھی پاکستان کی مشرقی سرحدوں پر ایک سیاسی ارتعاش بن کر موجود ہے۔ پاکستان اسے بین الاقوامی قانون کی روشنی میں تسلیم شدہ سرحد سمجھتا ہے، جبکہ افغانستان کی بیشتر حکومتیں، اور اب طالبان قیادت بھی، اسے ایک استعماری زخم تصور کرتی ہیں۔

پاکستانی مؤقف واضح اور قانونی بنیاد پر قائم ہے۔ اقوام متحدہ سمیت بیشتر عالمی ادارے ڈیورنڈ لائن کو ایک جائز سرحد مانتے ہیں۔ مگر افغانستان کی پشتون قوم پرستانہ سوچ، اور ‘پشتونستان’ کے خواب نے ان تعلقات میں بداعتمادی کا وہ بیج بویا، جو نصف صدی بعد بھی لہلہا رہا ہے۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں قوم پرست تحریکوں کی پشت پناہی، سردار داؤد خان کی حکومت کے دوران بلوچ مزاحمت کاروں کو تربیت دینے جیسے اقدامات، کابل کی مداخلت پسندی کی روشن مثالیں ہیں۔

مزید پڑھیں: پاکستان اور افغانستان کا کابل ملاقات میں ہونے والے فیصلوں پر جلد عملدرآمد پر اتفاق

1979 سے 1989 تک سوویت یلغار کے خلاف جنگ میں پاکستان نے جو کردار ادا کیا، وہ محض اسٹریٹجک ڈیپتھ کا مظہر نہیں بلکہ ایک قومی قربانی کا باب ہے۔ تین ملین سے زائد افغان مہاجرین کو پناہ دینا، ہزاروں مدارس میں تعلیم وقیام، یہ وہ بوجھ ہے جس کی قیمت آج بھی پاکستان چکا رہا ہے۔ 2001 کے بعد، جب طالبان کو اقتدار سے ہٹا کر کرزئی اور اشرف غنی کی حکومتیں لائی گئیں، تو توقع تھی کہ کابل پاکستان کا شکر گزار ہو گا۔ مگر اس کے برعکس، وہی کابل اسلام آباد کو خطے میں خرابی کی جڑ سمجھنے لگا۔

پاکستان پر الزام لگایا گیا کہ وہ طالبان کی پناہ گاہ ہے، افغانستان میں عدم استحکام کی وجہ پاکستان کو قرار دیا گیا، جبکہ بھارت کی موجودگی اور افغانستان کی داخلی بدانتظامی کو نظرانداز کیا گیا۔ پاکستان نہ صرف دہشتگردی کے خلاف جنگ کا ہراول دستہ رہا، بلکہ 80 ہزار سے زائد قربانیاں دے کر، 150 ارب ڈالر سے زائد کا معاشی نقصان سہہ کر، خود دہشتگردی کا سب سے بڑا شکار بنا۔ یہ وہ حقائق ہیں جن پر عالمی برادری اکثر خاموش رہی، اور افغانستان نے مسلسل الزام تراشی کی روش اپنائی۔

2021 میں طالبان کی واپسی ایک موقع تھا کہ پاکستان اور افغانستان تعلقات میں نئی جہت پیدا کریں۔ مگر افسوس، طالبان نے ڈیورنڈ لائن کو سرحد ماننے سے انکار کیا، اور تحریک طالبان پاکستان (TTP) کے ساتھ اپنی قربت کو کم کرنے سے گریز کیا۔ 2022 کے بعد پاکستان میں دہشتگردانہ حملوں میں جو اضافہ ہوا، اُس کے واضح سراغ افغان سرزمین کی طرف جاتے ہیں۔

مزید پڑھیں: افغان مہاجرین کی باعزت واپسی، اپنی سرزمین ایک دوسرے کیخلاف استعمال نہیں ہونے دینگے، پاکستان افغانستان کا اتفاق

افغان مہاجرین کے حوالے سے پاکستان پر جو الزامات لگائے جاتے ہیں، ان کا بھی ایک تناظر ہے۔ پاکستان اس وقت بھی 30 لاکھ کے قریب افغان مہاجرین کا میزبان ہے، جن میں لاکھوں بغیر کاغذات کے مقیم ہیں۔ پاکستان کی سیکیورٹی ایجنسیوں نے بارہا یہ نشاندہی کی ہے کہ ٹی ٹی پی اور دیگر گروہ انہی مہاجر کیمپوں میں پناہ لیتے ہیں۔ اس پس منظر میں اگر پاکستان ایک واضح پالیسی کے تحت مہاجرین کی واپسی کا عمل شروع کرتا ہے، تو اسے سیاسی انتقام قرار دینا انصاف نہیں۔

تجارتی سطح پر بھی دونوں ممالک کے درمیان متعدد پیچیدہ مسائل موجود ہیں۔ 2010 میں طے پانے والا افغانستان-پاکستان راہداری تجارت معاہدہ (APTTA) بظاہر دوطرفہ اقتصادی تعاون کا ایک اہم سنگِ میل تھا، جس کے تحت افغان تاجروں کو کراچی اور گوادر کی بندرگاہوں کے ذریعے اپنی اشیاء عالمی منڈیوں تک پہنچانے کی سہولت دی گئی۔ تاہم، اس جیسے معاہدوں کی بارہا خلاف ورزی، واہگہ کے راستے بھارت تک رسائی کا تنازع، اور سرحدی چوکیوں پر کرپشن اور بدسلوکی کے الزامات ،یہ تمام ایسے امور ہیں جنہیں افغان فریق اپنی جائز شکایات کے طور پر پیش کرتا ہے۔ پاکستان کا مؤقف ہے کہ بھارت سے افغان تجارت کو بعض اوقات ایک اسٹریٹیجک دباؤ کے آلے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، جو پاکستان کے قومی سلامتی واقتصادی مفادات سے متصادم ہو سکتا ہے۔

پانی کا تنازع ایک خاموش مگر شدید حساس معاملہ ہے۔ کابل دریا پاکستان کے لیے آبی زندگی کی حیثیت رکھتا ہے۔ افغانستان کی جانب سے ڈیم سازی اور پانی کے بہاؤ کو محدود کرنے کی کوششوں کو اگر بروقت نہ روکا گیا، تو یہ تنازع آئندہ دہائیوں میں ایک نیا سنگین بحران بن سکتا ہے۔ پاکستان دہائیوں سے اس موضوع پر مذاکرات کی اپیل کر رہا ہے، مگر کابل کی جانب سے سنجیدگی کی کمی رہی ہے۔

مزید پڑھیں: اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیے بغیر افغانستان سے بات چیت سود مند نہیں ہوگی، بیرسٹر سیف

اس سب کے باوجود، امید کی کچھ کرنیں باقی ہیں۔ 2024 میں دونوں ممالک کے درمیان تجارت میں 84 فیصد اضافہ ہوا۔ اگر یہی رجحان برقرار رہا، تو یہ معاشی تعاون دوطرفہ اعتماد سازی میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ دونوں فریقوں نے سرحدی روابط کو بہتر بنانے، اور مشترکہ تجارتی انتظامات پر بات چیت کا عندیہ دیا ہے۔

حل کیا ہے؟

پہلا قدم: ایک مستقل، فعال، اور بااختیار پاک-افغان رابطہ کمیٹی کا قیام، جو صرف بحران کے وقت نہیں بلکہ مسلسل رابطے میں رہے۔

دوسرا قدم: عوامی سطح پر ثقافتی اور علمی تبادلے، جن میں نوجوان، اساتذہ، اور علما شامل ہوں۔

تیسرا قدم: دہشت گردی کے خلاف مشترکہ انٹیلیجنس اور آپریشنل تعاون، جس میں طالبان کو بھی اپنے وعدے پورے کرنا ہوں گے۔

چوتھا قدم: افغان مہاجرین کی باعزت واپسی کے لیے ایک بین الاقوامی فریم ورک۔

پانچواں قدم: کابل دریا پر ایک باقاعدہ آبی معاہدہ، جس میں دونوں فریق کی ضروریات اور خدشات شامل ہوں۔

مزید پڑھیں:  اسحاق ڈار کا پہلا دورہ افغانستان، اہم کیا ہے؟

پاکستان اور افغانستان کو اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے کہ وہ ایک دوسرے کے ہمسائے ہی نہیں، بلکہ جغرافیائی تقدیر کا حصہ ہیں۔ دشمنی یا بداعتمادی کا تسلسل نہ صرف دونوں قوموں کو نقصان پہنچائے گا، بلکہ پورے خطے میں ترقی اور امن کی راہ روک دے گا۔ پاکستان کی ریاست، افواج اور عوام نے بارہا ثابت کیا ہے کہ ہم امن کے خواہاں ہیں لیکن اس امن کی قیمت قومی سلامتی پر سودے بازی نہیں ہو سکتی۔

اب فیصلہ کابل کو کرنا ہے، وہ پاکستان کے ساتھ ایک باعزت تعلق چاہتا ہے یا مسلسل بداعتمادی کا اسیر رہنا چاہتا ہے۔ تاریخ نے ہر اُس قوم کو یاد رکھا ہے جس نے تعلقات کو عزت، وقار اور حقیقت پسندی کی بنیاد پر استوار کیا۔ اب وقت ہے کہ افغانستان بھی یہی انتخاب کرے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اسلام اباد افغانستان بھارت پاکستان ٹی ٹی پی ڈیورنڈ لائین طالبان کابل

متعلقہ مضامین

  • پی ایس ایل ‘کراچی کنگز نے پشاور زلمی کو2وکٹوں سے ہرادیا 
  • اسلام آباد میں تاریخ رقم: 35 روز میں انڈر پاس کی تعمیر کا آغاز
  • عالمی تنازعات، تاریخ کا نازک موڑ
  • پشاور زلمی کا کراچی کنگز کو جیت کیلئے 148 رنز کا ہدف
  • سونے کی قیمت میں آج بھی بڑا اضافہ، نرخ نئی تاریخ ساز سطح پر پہنچ گئے
  • رانی مکھرجی کی فلم ’مردانی 3‘ کب ریلیز ہوگی؟ تاریخ سامنے آگئی
  • پاکستان اور افغانستان: تاریخ، تضاد اور تعلقات کی نئی کروٹ
  • نئی تاریخ رقم، ویرات کوہلی نے ڈیوڈ وارنر کا ریکارڈ توڑ دیا
  • چمپئن ٹرافی میں انجری:اسلام آباد یونائیٹڈ کے آسٹریلوی آل را ئو نڈر پی ایس ایل 10 سے باہر
  • اناڑی ڈرائیور کو گاڑی دیتے نہیں، ایٹمی ملک حوالے کر دیا، احسن اقبال: قوم امیج بہتر بنائے، خواجہ آصف