پرتگال کے دارالخلافے لزبن میں اسماعیلی برادری کے روحانی پیشوا پرنس رحیم آغا خان پنجم کی امامت کی تاریخی تخت نشینی کی تقریب منعقد ہوئی، تقریب میں پرنس رحیم آغا خان پنجم نے باقاعدہ طور پر اپنے عہدے کا حلف اٹھایا۔

یہ بھی پڑھیں: پرنس کریم آغا خان کے انتقال کے بعد پرنس رحیم الحسینی جانشین نامزد

لزبن میں اسماعیلی جماعت کی تاریخ کا ایک اہم لمحہ رقم ہوا، جب مولانا شاہ رحیم الحسینی حاضر امام نے شیعہ اسماعیلی مسلمانوں کے 50ویں امام کے طور پر امامت کے منصب پر فائز ہونے کے بعد تخت نشینی کی رسم ادا کی۔

حاضر امام پرنس رحیم آغاخان  نے عالمی جماعت کی جانب سے وفاداری کے عہد کو نہایت شفقت سے قبول کیا، جو اسماعیلی لیڈرز انٹرنیشنل فورم کے چیئرمین اور ہر ملک کی اسماعیلی کونسل کے صدور نے ان کی خدمت میں پیش کیا۔

تاریخ میں پہلی بار، دنیا بھر میں موجود بے شمار اسماعیلی افراد نے اس تقریب میں شرکت کے لیے جماعت خانوں میں براہ راست نشریات کے ذریعے اس یادگار موقع کا حصہ بننے کی سعادت حاصل کی۔

یہ بھی پڑھیں: پرنس کریم آغا خان کی آخری رسومات پرتگال میں ادا کردی گئیں، تدفین کل مصر میں ہوگی

گلگت بلتستان کے گورنر اور وزیر اعلیٰ نے یوم امامت پر مبارک باد پیش کی اور پرنس رحیم آغا خان پنجم کی یوم امامت کے موقع پر گورنر گلگت بلتستان سید مہدی شاہ اور وزیر اعلیٰ حاجی گلبر خان نے گلگت بلتستان اور دنیا بھر کی اسماعیلی کمیونٹی کو دلی مبارکباد پیش کی ہے۔

’پرنس رحیم آغا خان کی قیادت ایک نئے دور کا آغاز ہے‘

گورنر مہدی شاہ نے اپنے پیغام میں کہا کہ پرنس رحیم آغا خان کی قیادت ایک نئے دور کا آغاز ہے، جو ترقی، امن اور بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دے گی۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ آغا خان ڈیولپمنٹ نیٹ ورک (AKDN) کے ذریعے جاری ترقیاتی منصوبے مزید وسعت اختیار کریں گے اور گلگت بلتستان کے عوام کو فائدہ پہنچے گا۔

’پرنس رحیم آغا خان اپنے والد پرنس کریم آغا خان  کے مشن کو آگے بڑھائیں گے‘

وزیراعلیٰ حاجی گلبر خان نے بھی اس موقع پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پرنس رحیم آغا خان اپنے والد پرنس کریم آغا خان  کے مشن کو آگے بڑھائیں گے اور گلگت بلتستان سمیت دنیا بھر میں تعمیر و ترقی اور فلاح انسانیت کے لیے کام کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال پرنس رحیم آغا خان سے ہونے والی ملاقات میں ان کی شخصیت اور وژن انتہائی متاثر کن پایا اور امید ظاہر کی کہ وہ محروم اور پسماندہ علاقوں کی ترقی کے لیے مزید اقدامات کریں گے۔

گورنر اور وزیر اعلیٰ نے دعا کی کہ پرنس رحیم آغا خان کی امامت میں دنیا بھر میں ترقی، خوشحالی اور بین المذاہب ہم آہنگی کو مزید فروغ ملے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

we news اسماعیلی برادری پرنس رحیم آغا خان پرنس رحیم خان آغا 5 پرنس کریم آغا خان تخت نشین گلگت بلتستان.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اسماعیلی برادری گلگت بلتستان

پڑھیں:

فلسطین : بندر کی بلا طویلے کے سر ( حصہ پنجم )

گذشتہ مضمون میں جائزہ لیا گیا کہ جب یورپی یہودیوں کی حالتِ زار پر زبانی کلامی ترس کھانے والے مغربی ممالک نے عملاً اپنے دروازے ان یہودیوں پر بند کر دیے تو نازی جرمنی نے پہلے تو ان یہودیوں کو مڈغاسگر اور سائبیریا میں دھکیلنے کے منصوبوں پر غور کیا۔ جب جون انیس سو اکتالیس میں نازی جرمنی نے سوویت یونین پر حملہ کر دیا تو ابتدائی فتوحات کے بعد جرمن منصوبے بکھرنے لگے اور وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ تیزی سے بدلتے جنگی حالات میں لاکھوں یہودیوں کو یورپ سے باہر دھکیلنا عملاً مشکل ہے تب یہودیوں ’’ ادنی نسلوں‘‘ اور نازی مخالفین کے تیز رفتار صنعتی صفائے کا فیصلہ کیا گیا۔

یکم ستمبر انیس سو انتالیس کو پولینڈ اور متصل بالٹک ریاست لتھوینیا پر قبضے اور بعد ازاں بیلا روس اور یوکرین میں گسٹاپو اور ایس ایس کے قاتل دستوں اور مقامی نازی نواز ملیشیاؤں کو مزاحمت کاروں ، کیمونسٹوں اور یہودیوں کی نسلی صفائی کے لیے بے دریغ استعمال کیا گیا مگر فائرنگ اسکواڈز کے ذریعے اجتماعی ہلاکتوں اور لاشوں کو اجتماعی قبروں میں دفن کرنے کا طریقہ جرمن معیار کے مطابق سست رفتار تھا۔

چنانچہ دسمبر انیس سو اکتالیس میں پولینڈ کے علاقے چیلمنو میں قائم پہلے نسل کش کنسنٹریشن کیمپ میں ایسے ٹرکوں کو استعمال کیا گیا جن میں زائیکلون بی زہریلی گیس سے اجتماعی ہلاکت کے چیمبرز نصب کیے گئے تھے۔مگر ان موبائل گیس چیمبرز کی تعداد محدود تھی اور بیک وقت ان ٹرکوں میں چالیس پچاس بدقسمت ہی ٹھونسے جا سکتے تھے۔

چنانچہ بیس جنوری انیس سو بیالیس کو برلن کے قریب جھیل وانسی کے کنارے ایک پرشکوہ عمارت میں لگ بھگ دو گھنٹے کا انتظامی اجلاس ہوا جس میں تمام متعلقہ اداروں اور وزارتوں کے کلیدی افسروں نے شرکت کی تاکہ ایسے مربوط منصوبے کو حتمی شکل دی جا سکے جس کی مدد سے لاکھوں نازی مخالفوں اور یہودیوں کو متعدد مراکز میں عارضی طور پر رکھا جا سکے۔ان میں سے اکثر مراکز مقبوضہ پولینڈ میں قائم ہوئے۔ان میں نہ صرف مقامی پولش یہودیوں کو جمع کیا گیا بلکہ سوویت یونین اور مشرقی یورپ کے دیگر مقبوضہ علاقوں سے منتقل کیے جانے والے یہودیوں کو بھی رکھا گیا۔

ان مراکز سے انھیں مال گاڑیوں میں بھر بھر کے نسل کش کنسنٹریشن کیمپوں تک بھیجنا نسبتاً آسان تھا۔ان کیمپوں میں موت کی ٹرین سے اتارے گئے مسافروں کی فوری چھانٹی ہوتی۔مضبوط جسم والے قیدیوں کو جبری مشقت اور دیگر خطرناک کاموں پر لگا دیا جاتا۔اگر وہ پھر بھی زندہ بچ جائیں تو آخر میں انھیں بھی قتل کر دیا جاتا ( نازی نظریے کے مطابق بصورتِ دیگر وہ رہائی کے بعد اپنے جیسی مزید کمتر نسل پیدا کرتے )۔

 جو لوگ ( عورتیں ، بچے ، بوڑھے ، بیمار اور معذور ) مشقت کے قابل نہ ہوتے انھیں فوراً موت کے حوالے کر دیا جاتا۔

وانسی کانفرنس کے بعد جبری مشقت کے لیے مقبوضہ علاقوں کے طول و عرض اور خود جرمنی کے اندر بیسیوں بیگار کیمپ قائم کیے گئے۔وہاں سے جرمن کمپنیوں کو صحت مند غلام فراہم کیے جاتے تاکہ جنگی صنعت کاری میں افرادی قوت کی قلت نہ ہو۔

 چیلمنو نسل کش کیمپ ( دسمبر اکتالیس تا جنوری پینتالیس ) میں گیس چیمبرز کے کامیاب تجربے کے بعد وانسی کانفرنس کے انتظامی فیصلوں کے نتیجے میں اگلے چند ماہ کے دوران پانچ مزید نسل کش کیمپ پولینڈ میں قائم کیے گئے۔بلجچ کیمپ مارچ تا دسمبر انیس سو بیالیس آپریشنل رہا۔سوبی بور کیمپ ( مئی بیالیس تا اکتوبر تینتالیس ) ، تریبلانکا کیمپ ( جولائی بیالیس تا اگست تینتالیس ) ، میڈانک کیمپ ( ستمبر انیس سو بیالیس تا جولائی انیس سو چوالیس ) اور سب سے بڑا کیمپ آشوٹز برکناؤ جو وانسی کانفرنس کے دو ماہ بعد مارچ انیس سو بیالیس میں فعال ہوا۔اگلے تین برس ( تا جنوری انیس سو پینتالیس ) تب تک صنعتی پیمانے کی قتل گاہ بنا رہا جب تک نازیوں کو پیچھے دھکیلنے والی سوویت فوج نے آشوٹز کے قیدیوں کو آزاد نہیں کروا لیا۔

بتایا جاتا ہے کہ ان نسل کش کیمپوں کے گیس چیمبرز میں لگ بھگ تین برس کے دوران تیس لاکھ انسانوں کو دھکیلاگیا۔ان میں سے دس لاکھ کو آشوٹز کے گیس چیمبرز میں ہلاک کیا گیا۔قیدیوں کو گیس چیمبرز میں بھیجنے سے پہلے یہ بتا کر تن کے کپڑوں سمیت تمام سامان رکھوا لیا جاتا کہ بیرکوں میں منتقلی سے پہلے انھیں جراثیم کش پانی سے ’’ غسل ‘‘ دیا جائے گا۔

مرنے والوں میں صرف یہودی نہیں بلکہ سلاوک اور جپسی بھی شامل تھے کیونکہ یہ دونوں نسلیں نازی نظریے کے مطابق جرمن آریا نسل کے مقابلے میں کمتر تھیں۔نازیوں کے تخمینے کے مطابق سوویت یونین سے پرتگال تک یہودیوں کی کل آبادی ایک کروڑ گیارہ لاکھ تھی۔مگر نازیوں کو ان میں سے ستر فیصد تک گرفت کا موقع نہ مل سکا۔

میڈانک پہلا نسل کش کیمپ تھا جہاں جولائی انیس سو چوالیس میں سوویت فوجی دستے پہنچے۔ تریبلانکا جبری مشقت کے لیے قائم سب سے بڑا کیمپ تھا۔اسے جنگ کے خاتمے سے ایک ماہ قبل اپریل انیس سو پینتالیس میں مغربی اتحادی دستوں نے آزاد کروایا۔ آزاد قیدیوں میں سے اکثریت کو نہیں معلوم تھا کہ وہ اس وقت کہاں ہیں اور اب وہ کہاں آباد ہوں گے۔ان میں سے ہزاروں قیدی خراب صحت ، لاغری اور متعدی بیماریوں میں مبتلا ہونے کے سبب آزاد فضا میں بھی اگلے چند ماہ ہی زندہ رہ پائے۔

کیا مغربی اتحادیوں کو نسل کش نازی کیمپوں کا علم جنگ کے اختتامی دنوں میں ہوا یا ابتدا سے ہی معلوم تھا ؟ یہودی ذرائع کا کہنا ہے کہ کچھ نسل کش کیمپوں سے چند قیدی کامیابی سے فرار ہوئے اور ان کے ذریعے معلوم ہوا کہ موت کے کیمپوں میں کیا ہو رہا ہے۔یہ تفصیلات برطانوی و امریکی سفارتی و عسکری حلقوں تک پہنچائی گئیں۔مگر عسکری حکمتِ عملی مرتب کرنے والے اس انسانی المئے کو الگ سے دیکھنے کے بجائے نازیوں کی اجتماعی شکست کی حکمتِ عملی سے جوڑ کر دیکھتے رہے۔

جرنیلوں کی دلیل یہ تھی کہ اگر ان نسل کش کیمپوں پر بمباری بھی کی جائے تب بھی زیادہ جانی نقصان قیدیوں کا ہی ہو گا۔لہذا بہتر حل یہی ہے کہ نازی حکومت کے تیز رفتار فوجی زوال پر پوری توجہ مرکوز کی جائے۔

اگلے مضمون میں اکہتر برس قبل جرمن قابضین کے خلاف وارسا کے یہودیوں کی ناکام مزاحمت (اپریل تا مئی انیس سو تینتالیس ) کا تذکرہ ہو گا جس کا تاریخ میں بہت مثبت انداز میں چرچا ہوتا ہے۔بالکل ایسی ہی مزاحمت جب کل کے مظلوموں اور آج کے غاصبوں کے خلاف فلسطینیوں بالخصوص اہلِ غزہ نے کی تو اسے دھشت گردی قرار دے کر اسی سفاکی سے کچلا گیا جو سفاکی نازیوں نے دکھائی۔        (جاری ہے)

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)

متعلقہ مضامین

  • فلسطین : بندر کی بلا طویلے کے سر ( حصہ پنجم )
  • ویزر اعلیٰ گلگت بلتستان نے کراچی میں جی بی کے باشندوں کے ساتھ ناخوشگوار واقعے کا نوٹس لے لیا
  • آغا راحت نے پورے گلگت بلتستان کے عوام کی ترجمانی کی ہے، عطاء اللہ
  • بالائی خیبر پختونخوا،کشمیر،گلگت بلتستان میں آج بارش کا امکان
  • آج بروز پیر بالائی خیبر پختونخوا،کشمیر،گلگت بلتستان میں آج بارش کا امکان
  • کشمیر، گلگت بلتستان میں بارش، کراچی ہیٹ ویو کی لپیٹ میں
  • وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی کل گلگت بلتستان کا دورہ کرینگے
  • وزیر اعلیٰ کے مشیر کا بیان خطے کے سیاسی و سماجی ماحول پر ایک سنگین سوال ہے، شیعہ علماء کونسل گلگت
  • ایم کیوایم کا گلگت بلتستان انتخابات میں بھرپور حصہ لینے کا فیصلہ
  • گلگت بلتستان میں گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران بارشوں کا سلسلہ جاری