UrduPoint:
2025-04-22@01:20:16 GMT

آئی ایم ایف کی تجویز پر پاکستان سول سرونٹس ایکٹ میں ترمیم

اشاعت کی تاریخ: 11th, February 2025 GMT

آئی ایم ایف کی تجویز پر پاکستان سول سرونٹس ایکٹ میں ترمیم

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 11 فروری 2025ء) بین الاقوامی مالیاتی فنڈ آئی ایم ایف کے گورننس اور کرپشن ڈائیگنوسٹک اسیسمنٹ کے تکنیکی مشن نے پاکستان کے فیڈرل بورڈ آف ریونیو سے کہا ہے کہ ملک میں پایا جانے والا کرپشن، غیر ضروری بیورو کریسی، کمزور کاروباری ڈھانچہ اور مختلف مفادات رکھنے والے گروپوں کی حکومتی معاملات میں مداخلت دراصل اس ملک کی سماجی اور اقتصادی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔

آئی ایم ایف نے اسلام آباد حکومت کو تجویز پیش کی ہے کہ وہ آئی ایم ایف کے ساختیاتی معیارات (اسٹرکچرل بینچ مارک کے تقاضے ) کی تعمیل کرے۔ اس کے لیے پاکستان کو سول سرونٹس ایکٹ میں ترمیم کرنا ہوگی، جس کے تحت گریڈ سترہ سے اوپر کے تمام سرکاری ملازمین کے لیے سالانہ اثاثہ جات کی تفصیلات ظاہر کرنا لازمی ہوگا۔

(جاری ہے)

کون سا ملک سب سے زیادہ اور کون سب سے کم بدعنوان ہے؟

حکومت نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے اتفاق کیا ہے کہ قانون میں ترمیم کے بعد اعلیٰ سطحی سرکاری عہدے دار نہ صرف اپنے اثاثے بلکہ وہ اثاثے بھی جو ان کے خاندان کے افراد بالواسطہ طور پر رکھتے ہیں انہیں ظاہر کریں اور ان کی وضاحت پیش کی جائے۔

یہ معلومات عوامی طور پر قابلِ رسائی ہوں گی، تاہم نجی معلومات کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے ریعے مناسب اقدامات کیے جائیں گے۔

نئے قرض کے لیے آئی ایم ایف کی تمام شرائط پوری ہیں، پاکستان

پاکستان میں کافی عرصے سے یہ بحث جاری ہے کہ سرکاری ملازمین کے اثاثوں کو ظاہر کیا جانا چاہیے تاکہ اگر ان کے پاس آمدن سے زائد اثاثے پائے جائیں تو انہیں جوابدہ ٹھہرایا جا سکے۔

پاکستان میں سیاستدان پہلے ہی سالانہ بنیادوں پر اپنے اثاثے ظاہر کرنے کے پابند ہیں، لیکن قانون سازوں کی طرح سرکاری ملازمین کے لیے ایسا کوئی قانون موجود نہیں تھا جو انہیں ہر سال اپنے اثاثے ظاہر کرنے کا پابند بناتا۔

پاکستان، ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل بدعنوانی انڈکس کی 140 ویں پوزیشن پر قائم

قانون ساز اور معاشی ماہرین اس اقدام کی حمایت کرتے ہوئے بعض اہم معاملات پر اپنے تحفظات کا اظہار بھی کر رہے ہیں، جن میں عملدرآمد کا طریقہ کار، تحقیقات کی صلاحیت، اور قوانین و طریقہ کار میں موجود وہ خامیاں شامل ہیں جو بدعنوان عناصر کو اپنے ناجائز اثاثے جائز ثابت کرنے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔

اصلاحات آئی ایم ایف کے حکم پر ہی کیوں؟

قانون سازوں نے خاص طور پر ایک اور اہم سوال اٹھایا ہے کہ پاکستان کو ہر اچھا کام آئی ایم ایف کی ہدایت پر ہی کیوں کرنا پڑتا ہے، اور وہ خود سے ایسے فیصلے کیوں نہیں کرتا، حالانکہ یہ اقدامات ملک سے بتدریج بدعنوانی کے خاتمے کے لیے ناگزیر ہیں۔

سینیٹر پلواشہ بہرام، جو پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھتی ہیں اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و ٹیکنالوجی کی چیئرپرسن بھی ہیں، کہتی ہیں،''سرکاری ملازمین کے لیے اثاثوں کی تفصیلات ظاہر کرنا ایک اچھا قدم ہے۔

سیاستدان اپنی تفصیلات جمع کراتے ہیں، تو سرکاری ملازمین کو بھی ایسا کرنا چاہیے۔ سوال یہ ہے کہ ہر معاملے میں ہمیں آئی ایم ایف ہی کیوں ہدایت دیتا ہے؟ ہم خود ایسے فیصلے کیوں نہیں کرتے۔‘‘

ٹرانسپیرنسی کا نیا کرپشن انڈکس: حکومت کے خلاف تنقید کا طوفان

پاکستان میں یہ بحث بھی جاری ہے کہ ملک میں جڑوں تک پھیلی بدعنوانی کے خاتمے کا مؤثر طریقہ کیا ہونا چاہیے؟ کیا صرف قوانین بنانے کی ضرورت ہے یا کوئی اور مسئلہ بھی موجود ہے جس پر توجہ دی جانی چاہیے؟ بعض حلقوں کا ماننا ہے کہ صرف قوانین بنا دینے سے کرپشن ختم نہیں ہو سکتی، بلکہ ایک مؤثر عملدرآمد اور تحقیقات کا نظام نہ ہونے کی وجہ سے بدعنوانی پر قابو پانا مشکل ہو رہا ہے۔

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سینیٹر کامران مرتضی کا کہنا ہے، ''بدعنوانی پورے معاشرے میں سرایت کر چکی ہے، اسے صرف قوانین بنا کر ختم نہیں کیا جا سکتا۔ اعتقادات میں اصلاح ضروری ہے اور ایک مؤثر تحقیقات کا نظام بھی درکار ہے۔ مختلف ادوار میں حکومتوں نے نیب کو ایک متنازع ادارہ بنا دیا، حالانکہ یہ کسی حد تک کرپشن کی تحقیقات کی صلاحیت رکھتا تھا۔

‘‘ کامران مرتضی بھی یقین رکھتے ہیں کہ پاکستان کو یہ کام خود کرنے چاہییں نہ کہ آئی ایم ایف کے کہنے پر۔سیاست خدمت خلق یا طاقت اور دولت کا منافع بخش کاروبار؟

جب ایکشن نہیں لینا تو اثاثے ڈکلیئر کرنے سے کیا ہو گا؟

چند ماہرین کا ماننا ہے کہ جب آمدن سے زائد اثاثے رکھنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی تو قانون کیا کر سکتا ہے؟ اس کی ایک اہم مثال جنرل باجوہ کے اثاثے ہیں، جن کی مالیت وسیع پیمانے پر شائع ہونے والی میڈیا رپورٹس کے مطابق دس ارب سے زائد بتائی جاتی ہے۔

تاہم، حکومت نے یہ تحقیقات کرنے کی بجائے کہ انہوں نے اتنے بڑے اثاثے کیسے بنائے، اُن ایف بی آر حکام کے خلاف کارروائی کی جو ان کے اثاثوں کی معلومات لیک کرنے میں ملوث پائے گئے۔

آئی ایم ایف اضافی بیل آوٹ پیکج اسی ماہ ممکن، پاکستانی وزیر

ایف بی آر کے سابق سینئر رکن شاہد اسد کا کہنا ہے کہ پاکستان میں قوانین صرف کمزور طبقے کے لیے بنائے جاتے ہیں، جبکہ یہ بااثر افراد کو چھوتے تک نہیں۔

انہوں نے کہا،''جو لوگ اربوں لوٹتے ہیں، وہ کبھی پکڑے نہیں جاتے۔ کیا کسی نے جنرل باجوہ سے یہ پوچھا کہ ایک سادہ پس منظر رکھنے کے باوجود انہوں نے اتنی بڑی جائیداد کیسے بنائی؟‘‘

کچھ ماہرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ نظام میں اتنی خامیاں ہیں جو بدعنوان عناصر کو اپنے اثاثے جائز ثابت کرنے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔ معروف ماہر معاشیات قیصر بنگالی کہتے ہیں،''لوگ اپنے اثاثے آسانی سے جائز ثابت کر لیتے ہیں، چاہے وہ کرپشن سے ہی بنے ہوں۔

وہ کہتے ہیں کہ یہ بیرون ملک مقیم بھائی کا تحفہ ہے یا کسی اور بہانے کا سہارا لیتے ہیں۔ مثال کے طور پر، جنرل مشرف کا فارم ہاؤس بھی ایک تحفہ قرار دیا گیا تھا۔ آخر طاقتور لوگوں کو اتنے تحفے کیوں ملتے ہیں؟‘‘

نیا پاکستانی بجٹ: جون 2025 تک 13 ٹریلین روپے آمدنی کا ہدف

انہوں نے مزید کہا کہ بدعنوانی روکنے کے لیے ایک بین الاقوامی معاہدہ ہونا چاہیے، کیونکہ لوگ ناجائز کمائی کو بیرون ملک منتقل کر دیتے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا، ''پاکستان کو دیگر ممالک کے ساتھ ایسے معاہدے کرنے چاہییں کہ اگر کوئی شخص کسی بھی ملک میں ایک مخصوص حد سے زیادہ رقم منتقل کرے تو وہ ملک اس سے ٹیکس کی تفصیلات اور دولت کے قانونی ذرائع کی وضاحت طلب کرے۔‘‘

اگرچہ بہت سے لوگ قوانین پر عملدرآمد کے حوالے سے تحفظات رکھتے ہیں، لیکن کچھ اسے ایک مثبت قدم سمجھتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ اگر اثاثے ظاہر کرنے کا کوئی قانون ہی نہیں ہوگا تو اس پر عملدرآمد کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ سینیٹر پلواشہ بہرام کہتی ہیں، ''کارروائی اپنی جگہ، مگر کم از کم قانون تو بن رہا ہے، جو ایک اچھا قدم ہے۔ آہستہ آہستہ نظام مزید بہتر ہوگا اور ناجائز دولت رکھنے والوں کو قانون کے دائرے میں لایا جا سکے گا۔‘‘.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے سرکاری ملازمین کے ئی ایم ایف کے پاکستان میں ا ئی ایم ایف آئی ایم ایف پاکستان کو اپنے اثاثے انہوں نے کے لیے ا کرنے کا

پڑھیں:

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکی محکمہ خارجہ کی از سرِ نو تشکیل کی تجویز

ٹرمپ انتظامیہ کے ایک مجوزہ ایگزیکٹو آرڈر کے مسودے کے مطابق، محکمہ خارجہ (State Department) میں نمایاں کمی اور از سرِ نو تشکیل کی تجویز دی گئی ہے۔ بلومبرگ کے مطابق، اس 16 صفحات پر مشتمل مسودے کی کاپی امریکی سفارتکاروں میں گردش کر رہی ہے۔

اگر یہ تبدیلیاں نافذ کر دی گئیں تو 1789 میں قیام کے بعد سے محکمہ خارجہ کی یہ سب سے بڑی تنظیمِ نو ہوگی۔ حکام کے مطابق، یہ مسودہ دنیا بھر کے سفارتکاروں کو بھیجا گیا ہے۔ امریکی وزیرِ خارجہ مارکو روبیو نے اتوار کے روز ایک پوسٹ میں ان اطلاعات کو ’جھوٹی خبر‘ قرار دیا۔

مجوزہ حکمنامے کے تحت درجنوں شعبے اور محکمے ختم کر دیے جائیں گے، جن میں ماحولیاتی تبدیلی، پناہ گزینوں، جمہوریت، افریقی امور اور اقوامِ متحدہ سے رابطے کے لیے کام کرنے والا ’بیورو آف انٹرنیشنل آرگنائزیشنز‘ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ کینیڈا میں سفارتی سرگرمیوں میں بھی نمایاں کٹوتی کی جائے گی۔

مزید پڑھیں: ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف امریکا میں 700 مقامات پر ہزاروں افراد کے مظاہرے

یہ تجاویز ٹرمپ انتظامیہ کی اُس پالیسی کا تسلسل ہیں جس کے تحت امریکا کے کثیرالملکی عالمی نظام میں کردار کو کمزور کیا جا رہا ہے، وہ نظام جس کی تعمیر میں امریکا نے خود کلیدی کردار ادا کیا تھا۔

تبدیلیوں کے تحت، محکمہ خارجہ کو 4 علاقائی بیوروز میں تقسیم کیا جائے گا، جو انڈو پیسیفک، لاطینی امریکا، مشرقِ وسطیٰ اور یوریشیا پر مشتمل ہوں گے۔ افریقہ کے صحرائے اعظم کے جنوب میں واقع کئی غیر ضروری سفارتخانوں اور قونصل خانوں کو بند کرنے کی تجاویز بھی شامل ہے۔ مجوزہ مسودے کے مطابق یہ تبدیلیاں یکم اکتوبر تک نافذ کی جائیں گی۔

نیویارک ٹائمز کے مطابق مسودے کی پہلی بار خبر سامنے آئی لیکن امریکی سفارتخانے نیروبی کے ترجمان نے اس پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔ یہ واضح نہیں کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس حکمنامے کے تمام نکات پر دستخط کریں گے یا نہیں۔ افریقہ میں موجود ایک سینئر اہلکار کے مطابق، محکمہ خارجہ میں اصلاحات سے متعلق جو معلومات گردش کر رہی ہیں وہ ممکنہ طور پر اس مسودے میں تجویز کردہ حد تک وسیع نہیں ہوں گی۔

مزید پڑھیں: ٹرمپ ضمانت دیں وہ پہلے کی طرح جوہری معاہدے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے، ایران

اسی دوران، محکمہ خارجہ کے ملازمین نے ریڈٹ کے ایک فورم پر اس حکم نامے کے نفاذ کے حوالے سے شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے۔ ایک صارف نے لکھا کہ مجھے شک ہے کہ یہ مسودہ دراصل ایک چال ہے تاکہ جب اس سے کم سخت اصلاحات متعارف کرائی جائیں تو ہم خوشی خوشی انہیں قبول کرلیں۔

افریقہ اور کینیڈا کے امور میں تبدیلیاں

حکمنامے کے تحت بیورو آف افریقن افیئرز، کلائمٹ کے لیے خصوصی ایلچی، بیورو آف انٹرنیشنل آرگنائزیشنز، اور آفس آف گلوبل ویمنز ایشوز سمیت متعدد اہم شعبے ختم کر دیے جائیں گے۔ دستاویز کے مطابق، کینیڈا سے سفارتی تعلقات کی نگرانی ایک محدود ٹیم کرے گی جو ’نارتھ امریکن افیئرز آفس ‘ (NAAO) کے تحت کام کرے گی اور اوٹاوا میں امریکی سفارتخانے کا حجم نمایاں طور پر کم کیا جائے گا۔

مزید برآں، سفارتی عملے کو علاقائی بنیادوں پر تعینات کیا جائے گا، اور انہیں اپنی پیشہ ورانہ زندگی کے دوران اسی علاقے میں خدمات انجام دینا ہوں گی۔ جو سفارتکار اس نظام کا حصہ نہیں بننا چاہیں گے، ان کے لیے 30 ستمبر تک رضاکارانہ ریٹائرمنٹ کا موقع دیا جائے گا۔ نیا فارن سروس امتحان بھی متعارف کرایا جائے گا جس میں امیدواروں کی صدارتی خارجہ پالیسی سے ہم آہنگی کو مدِنظر رکھا جائے گا۔

مزید پڑھیں: صدر ٹرمپ نے سرکاری اداروں میں بھرتیوں پر پابندی مزید 3 ماہ کے لیے بڑھا دی

اس کے علاوہ، دنیا بھر کے ہونہار طلبہ کے لیے معروف فلبرائٹ اسکالرشپ پروگرام کو محدود کرکے صرف قومی سلامتی سے متعلق ماسٹرز ڈگری پروگراموں تک محدود کر دیا جائے گا، جہاں مینڈرین چینی، روسی، فارسی اور عربی جیسی زبانوں میں مہارت رکھنے والے کورسز کو ترجیح دی جائے گی۔ ہاورڈ یونیورسٹی (واشنگٹن) سے منسلک فیلوشپس بھی ختم کرنے کی تجویز دی گئی ہے، جو ٹرمپ انتظامیہ کی ڈائیورسٹی، ایکوئٹی اور انکلوژن (DEI) پالیسیوں کی واپسی کی علامت ہے۔

نئے منصوبے کے تحت ’بیورو آف ہیومینیٹیرین افیئرز‘ ان تمام اہم فرائض کو سنبھالے گا جو ماضی میں یو ایس ایڈ (USAID) ادا کرتا تھا، جسے حالیہ مہینوں میں بند کرکے محکمہ خارجہ کے ماتحت کر دیا گیا ہے۔ حکمنامے میں مزید کہا گیا ہے کہ تمام عہدوں اور ذمہ داریوں کے لیے صدرِ امریکا کی تحریری منظوری لازم ہوگی۔

محکمہ خارجہ کی ویب سائٹ کے مطابق اس وقت ادارے میں قریباً 13 ہزار فارن سروس آفیسرز، 11 ہزار سول سروس ملازمین، اور دنیا بھر میں 270 سے زائد سفارتی مشنز پر 45 ہزار مقامی عملہ خدمات انجام دے رہا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

امریکا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ امریکی محکمہ خارجہ بلومبرگ نیو یارک ٹائمز

متعلقہ مضامین

  • افرادی قوت کے اثاثے کی بے قدری
  • غیرقانونی مائننگ نہیں ہونے دوں گا،وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا  علی امین گنڈاپور
  • علی امین گنڈاپور نے خیبرپختونخوا مائنز اینڈ منرل ایکٹ پر سوشل میڈیا بیانیہ اڑا دیا
  • 26 ویں آئینی ترمیم کے بعد مزید کسی ترمیم کی ضرورت نہیں: اعظم نذیر تارڑ
  • نئی ترمیم لانے کی فی الحال کوئی تجویز نہیں: وزیرِ قانون اعظم نذر تارڑ
  • نظام کی بہتری کے لیے 26 ویں ترمیم کی گئی، ضرورت ہوئی تو مزید قانون سازی کریں گے، وزیر قانون
  • امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکی محکمہ خارجہ کی از سرِ نو تشکیل کی تجویز
  • فیکٹ چیک: کیا سابق چینی وزیر اعظم نے واقعی سزائے موت کی تجویز دی؟
  • 57 سال کے میرے اثاثے
  • جائیداد کی کم قیمت لگاکر ٹیکس بچانے والوں کیلئے بری خبر