افغانستان کو چینی برآمد میں سالانہ 25 کروڑ 67 لاکھ 60 ہزار ڈالرز اضافہ
اشاعت کی تاریخ: 11th, February 2025 GMT
سالانہ بنیادوں پرافغانستان کو چینی برآمد میں 25 کروڑ 67 لاکھ 60 ہزار ڈالرز اضافہ ہوا۔
ذرائع وزارت تجارت کے مطابق جولائی تا جنوری افغانستان کو چینی برآمد 26 کروڑ 26 لاکھ 80 ہزار ڈالر رہی۔ گزشتہ سال اس عرصےمیں افغانستان کو چینی کی برآمد محض 59 لاکھ 30 ہزار ڈالرز تھی۔
ذرائع کے مطابق افغانستان کو پاکستانی برآمدات میں سب سے زیادہ حصہ چینی کا ہے۔ گزشتہ 10 ہفتے کے دوران چینی کی اوسط قیمت 21 روپے 26 پیسے فی کلو بڑھی ہے۔ ملک میں چینی کی قیمت 160 روپے فی کلو تک ہے۔ وفاقی حکومت نے 2024 میں چینی کی برآمد کی اجازت دی تھی۔ جولائی تا اکتوبر ساڑھے 7 لاکھ میٹرک ٹن چینی برآمد کرنے کی منظوری دی گئی تھی۔ اکتوبر میں 5لاکھ میٹرک ٹن چینی برآمد کرنے کی منظوری دی گئی تھی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: افغانستان کو چینی چینی برآمد چینی کی
پڑھیں:
دہائیوں پرانے کیسز میں تازہ گرفتاریوں سے عوامی بے چینی میں اضافہ ہوا ہے، میرواعظ عمر فاروق
میرواعظ کشمیر کا کہنا ہے کہ ہزاروں کشمیری نوجوان جیلوں میں دہائیوں سے قید ہیں، جس سے ان کے خاندانوں کو بے پناہ تکلیف اور مشکلات کا سامنا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ میرواعظ کشمیر مولوی محمد عمر فاروق نے دہائیوں پرانے کیسز کے سلسلے میں کشمیر بھر میں تازہ گرفتاریاں انجام دینے پر تشویش کا اظہار کیا۔ میرواعظ عمر فاروق نے کہا کہ ان گرفتاریوں نے ان خاندانوں میں گہری بے چینی اور غیر یقینی کی صورتحال پیدا کر دی ہے جو سمجھتے تھے کہ ان کا ماضی اب پیچھے رہ چکا ہے اور وہ ایک نئی زندگی گزار رہے ہیں۔ ایک عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے میرواعظ کشمیر نے کہا کہ لوگ 1990ء کی دہائی کے کیسز میں اچانک کارروائیوں سے پریشان ہیں۔ عوام میں ان گرفتاریوں پر گہری تشویش پائی جا رہی ہے، ایسے کیسز جو دہائیوں پرانے واقعات سے متعلق ہیں۔ میرواعظ عمر فاروق نے گرفتاریوں کی وجہ سے گرفتار شدہ افراد کے اہل خانہ کی کیفیت بیان کرتے ہوئے کہا کہ یہ صورتحال خاص طور پر ان افراد اور ان کے خاندانوں کے لئے شدید تشویش کا باعث بن گئی ہے جنہوں نے طویل عرصے پہلے اپنے ماضی سے خود کو دور کر لیا تھا۔
میرواعظ عمر فاروق کا یہ بیان دو سینیئر علیحدگی پسند رہنماؤں کی 29 سالہ قدیم کیس میں گرفتاری کے پیس منظر میں سامنے آیا ہے۔ دو دن قبل سیکورٹی ایجنسیز نے جموں کشمیر لبریشن فرنٹ (JKLF) رہنما اور سابق عسکریت پسند جاوید احمد میر اور سینیئر علیحدگی پسند کارکن شکیل احمد بخشی کو 1996ء کے تشدد کے ایک کیس کے سلسلے مہیں گرفتار کر لیا۔ یہ کیس جولائی 1996ء کا ہے جب دونوں ملزمان سمیت سات دیگر افراد پر یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ وہ سرینگر میں فوت ہوئے ایک دہشتگرد کمانڈر ہلال بیگ کے جنازے کو ایک بڑے جلوس کی صورت میں برآمد کر رہے تھے، جس دوران احتجاج، فساد اور پولیس کے ساتھ جھڑپیں ہوئی تھیں۔ ان سات افراد پر عوام کو تشدد بڑھکانے اور انہیں پولیس پر پتھر پھیکنے کے لئے مائل کرنے کی پاداش میں رنبیر پنل کوڈ، غیر قانونی سرگرمیوں (روک تھام) ایکٹ اور آرمز ایکٹ کے تحت مقدمات درج کئے گئے تھے۔
پولیس کی جانب سے درج کیس میں کے مطابق، ان (سات افراد) نے ایک ہجوم کو اکسایا، اشتعال دلایا، جس کے نتیجے میں ناز کراسنگ پر سیکورٹی اہلکاروں کے ساتھ جھڑپیں ہوئیں، جس میں پولیس اہلکار زخمی ہوئے اور عوامی املاک کو نقصان پہنچا۔ اس کیس میں درج بعض ملزمان اب فوت ہوچکے ہیں، جن میں حریت کانفرنس کے سابق چیئرمین سید علی گیلانی، عبدالغنی لون اور محمد یعقوب وکیل شامل ہیں۔ دو دیگر ملزمان، شبیر احمد شاہ اور نعیم احمد خان اس وقت تہاڑ جیل میں دہشت گردی کی مالی معاونت کے کیسز میں بند ہیں۔
جاوید میر 1980ء کی دہائی کے اواخر میں محمد یاسین ملک (جو اس تہاڑ جیل عمر قید کی سزا کاٹ رہا ہے) کے ساتھ جے کے ایل ایف کے اولین کارکنان میں شامل تھے اور سینیئر عسکری کمانڈروں میں شمار ہوتے ہیں۔ جاوید میر کو 1994ء میں بھارت کی بارڈر سکیورٹی فورس (BSF) نے گرفتار کیا تھا اور جیل سے چھوٹنے کے بعد انہوں نے بھی یاسین ملک کی طرح تشدد کا راستہ ترک کرکے آزادی پسند سیاست میں شمولیت اختیار کی تھی۔ ایک اہلکار نے کہا کہ 1996ء کے کیس کو "مفرور ملزمان کو الزامات کا سامنا اور انصاف فراہم کرنے" کے لئے دوبارہ کھولا گیا۔
میرواعظ عمر فاروق کا کہنا ہے کہ نئی گرفتاریوں سے کشمیری عوام میں بے چینی بڑھ رہی ہے، جو پہلے ہی طویل قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں۔ ہزاروں کشمیری قیدی جیلوں میں برسوں، کچھ تو دہائیوں سے قید ہیں، جس سے ان کے خاندانوں کو بے پناہ تکلیف اور مشکلات کا سامنا ہے۔ میرواعظ عمر فاروق کے مطابق گرفتاریوں کا یہ نیا سلسلہ لوگوں کے دکھ اور غم میں مزید اضافہ کر رہا ہے۔ انہوں نے کشمیر سے باہر کشمیری شہریوں کو جیلوں میں بند رکھنے سے پیدا ہونے والی انسانی اور قانونی پیچیدگیوں پر پھر سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایسی تدابیر اکثر عدالت کی کارروائیوں میں تاخیر کا سبب بنتی ہیں اور خاندانوں کے لیے ملاقاتوں کا عمل انتہائی محدود ہو جاتا ہے۔ میراعظ عمر فاروق نے کہا کہ یہ انسانیت کے بنیادی اصولوں اور قدرتی انصاف کے خلاف ہے۔