پولیو کے خاتمے میں مشکلات بڑھ گئیں
اشاعت کی تاریخ: 11th, February 2025 GMT
پولیو کے خاتمے میں مشکلات بڑھ گئی ہیں، کراچی میں انسداد پولیو مہم کا ہدف پورا نہ ہو سکا۔نیشنل ایمرجنسی آپریشن سینٹر کے ذرائع کے مطابق انسداد پولیو مہم کے ہدف کا حصول مشکل ہو گیا ہے، کراچی میں سال کی پہلی انسداد پولیو مہم کے دوران 2 لاکھ 90 ہزار 89 بچے ویکسین پینے سے محروم رہ گئے۔ذراٸع این ای او سی کے مطابق مہم کے دوران 92 ہزار 628 والدین نے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے سے انکار کر دیا، اور ایک لاکھ 97 ہزار 461 بچوں تک رساٸی ممکن نہ ہو سکی۔مہم کے دوران 21 لاکھ 94 ہزار 899 گھرانوں میں پولیو کے قطرے پلانے کا ہدف مقرر کیا گیا تھا، لیکن 19 لاکھ 18 ہزار 966 گھروں تک رسائی ممکن ہو سکی۔ذرائع کا کہنا ہے کہ والدین کے عدم تعاون سے پولیو کے خاتمے میں مشکلات میں اضافہ ہو گیا ہے، انکاری کیسز بڑھنے کی وجہ سے پولیو مہم پر تحفظات پیدا ہو گئے ہیں، بتایا جا رہا ہے کہ والدین کی کونسلنگ کا کوئی نظام موجود نہیں ہے، اور پولیو ورکرز کو بھی سہولتیں میسر نہیں۔پولیو ورکرز کو طویل پیدل سفر کرنا پڑتا ہے، اور معاوضہ بھی انتہائی کم دیا جاتا ہے، پولیو مہم کے عملے کو کھانے اور سفری اخراجات خود کرنے ہوتے ہیں۔ اگر پولیو حکام مؤثر مہم چاہتے ہیں تو تھکا دینے والے اس کام میں خواتین ورکرز کو ریلیف اور مراعات دینی ہوں گی، تاکہ کارکردگی بہتر ہو سکے۔ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ پولیو وائرس کے خاتمے کے لیے صرف ویکسین ہی کافی نہیں ہے، بلکہ سینیٹیشن کے بہتر نظام کی بھی ضرورت ہے، اور سب سے بڑھ کر عوام کو پینے کا صاف پانی فراہم کرنا ہوگا، اس کے بغیر پاکستان سے پولیو کا خاتمہ مشکل ہے۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: پولیو مہم کے خاتمے پولیو کے مہم کے
پڑھیں:
کوٹری بیراج پر پانی کی قلت 30 فیصد ہو گئی
---فائل فوٹودریائے سندھ میں پانی کا بحران شدت اختیار کر گیا ہے۔
دریائے سندھ میں پانی کی شدید کمی کے باعث کوٹری بیراج پر پانی کی قلت 30 فیصد تک جا پہنچی۔
محکمہُ ابپاشی کے اعداد و شمار کے مطابق کوٹری بیراج کے اپ اسٹریم میں پانی کی آمد 4600 کیوسک جبکہ ڈاؤن اسٹریم میں محض 190 کیوسک اخراج کیا جا رہا ہے۔
موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات کے باعث ملک میں بارش 40 فیصد تک کمی ہوئی ہے۔
2023ء کے اپریل میں کوٹری بیراج اپ اسٹریم میں پانی کی آمد 8900 کیوسک اور 2024ء کے اپریل میں 5000 کیوسک ریکارڈ کی گئی تھی۔
یہ اعداد و شمار ہر سال پانی کم سے کم ہونے کی نشاندہی کر رہے ہیں۔
محکمہُ آبپاشی کا کہنا ہے کہ پانی کی قلت کے باعث زرعی مقاصد کے لیے پانی دستیاب نہیں ہے، صرف پینے کا پانی دستیاب ہے۔
محکمہُ زراعت کا کہنا ہے کہ پانی کی کمی کے اثرات فصلوں پر بھی مرتب ہونا شروع ہو گئے ہیں۔
خریف کے سیزن میں سندھ کے اندر گزشتہ 5 سال کے دوران پونے 5 سے سوا 6 لاکھ ہیکٹر پر کپاس کی فصل کاشت کی گئی ہے۔
اسی طرح 2 لاکھ 79 ہزار سے 2 لاکھ 95 ہزار ہیکٹر پر گنے کی فصل کاشت کی گئی، 7 لاکھ 8 ہزار سے 8 لاکھ 11 ہزار ہیکٹر تک چاول کی فصل کاشت کی گئی ہے۔
ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ سندھ میں پانی کی قلت جاری رہی تو سندھ کی زراعت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔
محکمہُ آبپاشی، زراعت اور آبادگاروں کو امید ہے کہ بارشیں ہونے کی صورت میں صورتِ حال بہتر ہو جائے گی۔