پاکستان میں رہنا مستقل لڑائی ہے، عدلیہ، پارلیمنٹ، ایگزیکٹو سب زمین بوس ہوچکے،جسٹس محسن کیانی
اشاعت کی تاریخ: 11th, February 2025 GMT
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے ایک کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ پاکستان میں رہنا مستقل لڑائی ہے 24 ، 25 کروڑ لوگ ہیں لڑائی کرنے والے زیادہ بچنے والے کم ہیں، عدلیہ ، پارلیمنٹ ، ایگزیکٹو سب کچھ collapse کر چکے ہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں فیڈرل پبلک سروس کمیشن (ایف پی ایس سی) کو سی ایس ایس 2024 کے نتائج جاری کرنے سے پہلے نئے امتحانات سے روکنے کی درخواست پر سماعت ہوئی، جسٹس محسن اختر کیانی نے کیس کی سماعت کی۔
چیئرمین ایف پی ایس سی لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ اختر نواز ستی عدالت کے سامنے پیش ہوئے،
درخواست گزار حمزہ جاوید و دیگر اپنے وکیل علی رضا ایڈووکیٹ کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوئے۔ سی ایس ایس 2024 کے امتحانات میں شریک ہونے والے طلبہ کی بڑی تعداد کمرہ عدالت میں موجود تھی۔
عدالت نے استفسار کیا کہ آپ کب چیئرمین بنے ہیں ؟ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ اختر نواز ستی نے جواب دیا کہ 9 اکتوبر 2024 کو چارج لیا ہے ، جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا کہ یہ بتائیں آپ کو معاملہ بھیجا گیا کہ آپ اپنے اینگل سے اس کو دیکھیں،3761 ایسے امیدوار ہیں جو 2024 کے امتحانات میں بھی شریک تھے اب 2025 کے امتحانات میں بھی ہیں۔
چیئرمین ایف پی ایس سی نے کہا کہ مجھے 5 منٹ دیں میں ایف پی ایس سی کا موقف آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں ،عدالت نے درخواست گزاروں کا ایف پی ایس سی کے پاس بھیجے ، ہم نے درخواست گزار کی درخواست مسترد کی کیونکہ 2025 کے امتحانات کے بعد بھی درخواست گزاروں کے پاس چانس ختم نہیں ہوں گے ، ایک درخواست گزار پہلے ہی تمام چانسز ختم کر چکا وہ متاثر ہی نہیں۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے سوال کیا کہ کوئی نتائج آپ نے کبھی دئیے ہیں جو اگلے امتحان کے بعد دئیے گئے ہوں۔
چیئرمین ایف پی ایس سی نے جواب دیا کہ نہیں ایسا کبھی نہیں کیا ، 2024 کے امتحانات کے نتائج کا انتظار کرنے والے3761 امیدوار جو ابھی کے امتحانات بھی دینے جا رہے ہیں ان میں زیادہ سے زیادہ repeater ہیں، 88 ہال ملک بھر میں بک کیے جا چکے ہیں تمام متعلقہ پیپرز بھی بھیجے جا چکے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: جسٹس محسن اختر کیانی ایف پی ایس سی کے امتحانات
پڑھیں:
صنم جاوید کی بریت کیخلاف درخواست پر سماعت ملتوی
رہنما پی ٹی آئی صنم جاوید کی بریت کے فیصلے کیخلاف درخواست پر سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے جسٹس ہاشم کاکڑنے ریمارکس دیے کہ شریک ملزم کے اعترافی بیان کی قانونی حیثیت کیا ہوتی ہے، اس کیس میں جو کچھ ہے بس ہم کچھ نہ ہی بولیں تو ٹھیک ہے۔
9 مئی مقدمات میں رہنما پی ٹی آئی صنم جاوید کی بریت کے فیصلے کیخلاف پنجاب حکومت کی اپیل پر جسٹس ہاشم کاکڑ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے سماعت کی۔
وکیل پنجاب حکومت نے عدالت کو بتایا کہ صنم جاوید کے ریمانڈ کیخلاف لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر ہوئی، ریمانڈ کیخلاف درخواست میں لاہور ہائیکورٹ نے ملزمہ کو مقدمے سے بری کردیا۔
یہ بھی پڑھیں: مریم نواز کا صنم جاوید کیخلاف ایکشن، بریت کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا
جسٹس ہاشم کاکڑ کا کہنا تھا کہ ان کیسز میں تو عدالت سے ہدایات جاری ہوچکی ہیں کہ 4 ماہ میں فیصلہ کیا جائے، انہوں نے پنجاب حکومت کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ اب یہ مقدمہ کیوں چلانا چاہتے ہیں۔
جس پر وکیل پنجاب حکومت نے کہا کہ ہائیکورٹ نے اپنے اختیارات سے بڑھ کر فیصلہ دیتے ہوئے ملزمہ کو بری کیا، جسٹس ہاشم کاکڑ بولے؛ میرا اس حوالے سے فیصلہ موجود ہے کہ ہائیکورٹ کے پاس تمام اختیارات ہوتے ہیں۔
جسٹس ہاشم کاکڑ کے مطابق اگر ہائیکورٹ کو کوئی خط بھی ملے کہ ناانصافی ہورہی تو وہ اختیارات استعمال کرسکتی ہے، اگر ناانصافی ہو تو اس پر آنکھیں بند نہیں کی جاسکتیں۔
مزید پڑھیں: صنم جاوید طیبہ راجا کے ساتھ ہونے والے جھگڑے پر کھل کر بول پڑیں
وکیل پنجاب حکومت کا موقف تھا کہ ہائیکورٹ سوموٹو اختیارات کا استعمال نہیں کرسکتی، جسٹس صلاح الدین نے اس موقع پر ریمارکس دیے کہ کرمنل ریویژن میں ہائیکورٹ کے پاس تو سوموٹو کے اختیارات بھی ہوتے ہیں۔
جسٹس اشتیاق ابراہیم بولے؛آپ کو ایک سال بعد یاد آیا کہ ملزمہ نے جرم کیا ہے، کیا پتا کل کو آپ میرا یا کسی کا نام بھی 9 مئی مقدمات میں شامل کردیں۔
عدالت نے مقدمے کی سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
9 مئی جسٹس ہاشم کاکڑ سپریم کورٹ سوموٹو صنم جاوید لاہور ہائیکورٹ