UrduPoint:
2025-04-22@11:29:10 GMT

ٹرمپ نے اسٹیل، ایلومینیم پر 25 فیصد محصولات عائد کر دیں

اشاعت کی تاریخ: 11th, February 2025 GMT

ٹرمپ نے اسٹیل، ایلومینیم پر 25 فیصد محصولات عائد کر دیں

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 11 فروری 2025ء) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے وعدے پر عمل کرتے ہوئے اسٹیل اور ایلومینیم کی تمام طرح کی درآمدات پر "بغیر کسی استثناء یا کسی چھوٹ کے" 25 فیصد اضافی محصولات کا اعلان کر دیا ہے۔

امریکی صدر ٹرمپ نے اوول آفس میں ایگزیکٹو آرڈرز پر دستخط کرتے ہوئے کہا، "آج میں اسٹیل اور ایلومینیم پر اپنے ٹیرف کو آسان بنا رہا ہوں۔

یہ 25 فیصد ہے، بغیر کسی استثناء یا چھوٹ کے۔"

ٹرمپ نے بین الاقوامی فوجداری عدالت کو ’غیر قانونی‘ قرار دے کر پابندیاں لگا دیں

ان کا مزید کہنا تھا کہ ایسا کرتے ہوئے وہ انتخابی مہم کے دوران درآمدات پر محصولات عائد کرنے کے اپنے وعدے کو پورا کر رہے ہیں اور یہ دوسرے ممالک کی طرف سے امریکی برآمدات پر عائد کردہ محصولات سے مماثلت رکھتی ہیں۔

(جاری ہے)

ٹرمپ نے اس بات کی جانب بھی اشارہ کیا کہ وہ آٹوموبائلز، فارماسیوٹیکلز اور کمپیوٹر چپس پر اضافی محصولات عائد کرنے پر بھی غور کریں گے۔

نئی امریکی پابندیاں 'غیر قانونی' اور 'غیر منصفانہ'، ایران

امریکہ کو دوبارہ امیر بنانے کا منصوبہ

درآمدات پر انحصار کرنے والے امریکی کاروباروں نے اس پر خدشات کا اظہار کیا ہے، تاہم ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ان کے یہ منصوبے ملکی پیداوار کو فروغ دیں گے۔

انہوں نے متنبہ کیا کہ کسی کو بھی کوئی استثنیٰ حاصل نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ "یہ ایک بڑی بات ہے، یہ امریکہ کو دوبارہ امیر بنانے کا آغاز ہے۔"

ٹرمپ اور کم میں دوستی سے جنوبی کوریا کو الگ تھلگ پڑنے کا خدشہ

انہوں نے مزید کہا کہ "ہماری قوم کو اس بات کی ضرورت ہے کہ اسٹیل اور ایلومینیم امریکہ میں بنائے جائیں، غیر ملکی زمینوں پر نہیں۔

"

جب صدر سے یہ پوچھا گیا کہ کیا محصولات میں اضافہ صارفین کے لیے قیمتوں میں اضافے کا سبب نہیں بنے گا، تو انہوں نے کہا، "بالآخر یہ سستا ہو گا۔ یہ ہماری عظیم صنعتوں کے لیے امریکہ واپس آنے کا وقت ہے۔۔۔۔ یہ بہت سی دیگر صنعتوں میں سے پہلی ہے۔"

امریکہ اسٹیل میں دنیا کا سب سے بڑا درآمد کنندہ ہے اور کینیڈا، برازیل نیز میکسیکو کو اس کے تین بڑے سپلائرز کے طور پر شمار کیا جاتا ہے۔

روس اور امریکہ کے مابین یوکرین کے معاملے پر رسہ کشی

یورپی یونین محصولات کا جواب کے لیے تیار

فرانس نے یورپی یونین کے ساتھ تجارتی جنگ کے خلاف امریکہ کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یورپی یونین رکن ممالک پر عائد محصولات کا جواب دینے کے لیے تیار ہے۔

فرانسیسی وزیر خارجہ ژاں نوئل باروٹ نے کہا، "جب ہمارے مفادات کے دفاع کی بات آتی ہے تو اس میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہے۔

"

ٹرمپ کی عائد کردہ پابندیاں: بین الاقوامی فوجداری عدالت کی طرف سے مذمت

انہوں نے ایک مقامی میڈیا ادارے سے بات چیت میں کہا کہ یورپی یونین وہی طریقہ اختیار کرے گی جو ٹرمپ کی گزشتہ مدت کے دوران کیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا، "یقیناً یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے سن 2018 میں یہ پہلے بھی کیا تھا۔"

انہوں نے کہا کہ اس "وقت بھی ہم نے اس کا ہو بہو جواب دیا تھا۔

یورپی یونین کے ساتھ تجارتی جنگ میں داخل ہونے میں کسی کو دلچسپی نہیں ہے۔" ٹیرف کا بدلہ ٹیرف ہے، شولس

جرمن چانسلر اولاف شولس کا کہنا ہے کہ ٹیرف سے متعلق ٹرمپ کی دھمکیوں پر تفصیل سے تبصرہ کرنا فی الوقت قبل از وقت ہو گا۔ تاہم انہوں نے کہا کہ سادہ اصول یہ ہے کہ ٹیرف کا بدلہ ٹیرف ہے۔

انہوں نے پیر کے روز مشرقی جرمنی کے شہر شورین میں سوشل ڈیموکریٹ انتخابی مہم کے ایک پروگرام میں کہا، "جو کوئی بھی محصولات عائد کرتا ہے اسے بدلے میں جوابی محصولات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

"

شولس نے مزید کہا کہ "یہ واضح ہے کہ جب یہ ہم تک باضابطہ طور پر پہنچے گا، تو یورپی یونین کے طور پر ہم اسے بہت قریب سے دیکھیں گے۔"

انہوں نے کہا کہ موجودہ غیر یقینی صورتحال کے درمیان اس پر کچھ اور کہنا درست نہیں ہے، تاہم انہوں نے کہا کہ جب اس پر موقف مستحکم ہو جائے گا، تو یورپی یونین کے لیے اس معاملے پر "واضح" اور پختہ پالیسی کا مظاہرہ کرنا اہم ہو گا۔

ص ز/ ج ا (اے ایف پی، اے پی، روئٹرز)

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے محصولات عائد کر انہوں نے کہا کہ یورپی یونین کے محصولات کا کرتے ہوئے نہیں ہے کے لیے

پڑھیں:

ٹرمپ کی ناکام پالیسیاں اور عوامی ردعمل

اسلام ٹائمز: ایسا لگتا ہے کہ اگر موجودہ رجحان جاری رہا تو امریکہ افراط زر کے ساتھ کساد بازاری کے دور میں داخل ہو جائے گا۔ ایک تشویشناک منظر نامہ جسے ماہرین اقتصادیات 1970ء کی دہائی کی "جمود" کی طرف واپسی کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ان مسائل کی وجہ سے نہ صرف ٹرمپ کی مقبولیت میں تیزی سے کمی آئی ہے بلکہ دنیا کے ساتھ امریکہ کے تعلقات بھی متاثر ہوئے ہیں اور بلا شبہ عالمی سطح پر خدشات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ان حالات میں امریکہ کو عظیم بنانا ایک ناقابل حصول خواب لگتا ہے۔ تحریر: آتوسا دینیاریان

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے من پسند پالیسیوں پر انحصار کرتے ہوئے دنیا کے بیشتر ممالک خصوصاً چین کے خلاف ٹیرف کی ایک وسیع جنگ شروع کی ہے، اس طرزعمل کے نتائج نے موجودہ امریکی معیشت پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں اور عوام کے عدم اطمینان میں اضافہ ہوا ہے۔ حالیہ مہینوں میں ریاستہائے متحدہ میں معاشی حالات خراب ہوئے ہیں اور حالیہ مہینوں میں ٹرمپ کے فیصلوں کی وجہ سے امریکی صارفین کے لیے قیمتوں میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ وہ تحفظ پسند پالیسیوں کو نافذ کرکے اور چین اور دیگر ممالک کے خلاف تجارتی محصولات میں اضافہ کرکے "عظیم امریکی خواب" کے نظریے کو بحال کر رہے ہیں۔ لیکن عملی طور پر ان پالیسیوں کی وجہ سے مہنگائی میں اضافہ، معاشی ترقی کی رفتار میں کمی اور وسیع پیمانے پر عدم اطمینان پیدا ہوا ہے۔

ٹرمپ کی مقبولیت میں کمی:
اس وقت صرف 44% امریکی ان کے معاشی انتظام سے مطمئن ہیں اور اگر یہ سلسلہ جاری رہتا ہے تو ان کی مقبولیت کا گراف مزید نیچے آئے گا۔

افراط زر اور بڑھتی ہوئی قیمتیں:
افراط زر کی شرح 3% تک پہنچ گئی ہے، جبکہ فیڈرل ریزرو کا ہدف 2% ہے۔ یہ وہ علامات ہیں، جو کسی ملک میں کساد بازاری کو دعوت دینے کے مترادف سمجھی جاتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں ترقی کی رفتار رک جاتی ہے اور سست اقتصادی ترقی کا سایہ منڈلانے لگتا ہے۔ تجارتی پالیسی کے عدم استحکام کی وجہ سے سرمایہ کار طویل مدتی سرمایہ کاری سے گریز کرنے لگتے ہیں۔

بڑے پیمانے پر احتجاج:
 ٹرمپ کی اقتصادی پالیسیوں کے خلاف ہزاروں امریکیوں نے مختلف شہروں میں مظاہرے کیے ہیں۔ یہ مظاہرے متوسط ​​طبقے اور محنت کشوں کی ان پالیسیوں سے عدم اطمینان کی عکاسی کرتے ہیں، جو دولت مند اور بڑی کارپوریشنز کے حق میں ہیں۔ ادھر فیڈرل ریزرو کے چیئرمین جیروم پاول نے خبردار کیا ہے کہ نئے ٹیرف مہنگائی اور سست اقتصادی ترقی کو بڑھا سکتے ہیں۔ اگرچہ ٹرمپ کے معاشی فیصلے ظاہری طور پر امریکی معاشی حالات کو بہتر بنانے اور ملکی پیداوار کو سپورٹ کرنے کے دعوے کے ساتھ کیے گئے تھے، لیکن عملی طور پر وہ مسابقت میں کمی، قیمتوں میں اضافے، معاشی ترقی میں سست روی اور مارکیٹ میں عدم استحکام کا باعث بنے ہیں۔

ایسا لگتا ہے کہ اگر موجودہ رجحان جاری رہا تو امریکہ افراط زر کے ساتھ کساد بازاری کے دور میں داخل ہو جائے گا۔ ایک تشویشناک منظر نامہ جسے ماہرین اقتصادیات 1970ء کی دہائی کی "جمود" کی طرف واپسی کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ان مسائل کی وجہ سے نہ صرف ٹرمپ کی مقبولیت میں تیزی سے کمی آئی ہے بلکہ دنیا کے ساتھ امریکہ کے تعلقات بھی متاثر ہوئے ہیں اور بلا شبہ عالمی سطح پر خدشات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ان حالات میں امریکہ کو عظیم بنانا ایک ناقابل حصول خواب لگتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • امریکہ کی جانب سے یکطرفہ غنڈہ گردی کی عالمی قیمت
  • ٹرمپ کی ناکام پالیسیاں اور عوامی ردعمل
  • ٹرمپ انتظامیہ چین سے تجارتی تعلقات محدود کرنے کے لیے مختلف ممالک پر دباﺅ ڈال رہی ہے.بیجنگ کا الزام
  • امریکہ اپنے تمام تجارتی شراکت داروں پر اندھا دھند محصولات عائد کر رہا ہے، چینی وزارت تجارت
  • امریکہ کے اندھا دھند محصولات کے اقدامات غلط ہیں،یونیڈو
  • چین پر محصولات عائد کرنے سے پیداہونے والے بحران پر وائٹ ہاؤس ایک ٹاسک فورس تشکیل دے گا
  • امریکہ میں ٹرمپ انتظامیہ کے خلاف سینکڑوں مظاہرے
  • تعلیم، آئی ٹی دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری کی پیشکش، سازگار ماحول مہیا کر رہے ہیں: مریم نواز
  • مریم نواز شریف سے یورپی یونین کے پارلیمانی وفد برائے جنوبی ایشیا کی ملاقات
  • یورپی یونین کیساتھ دوستی کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں،وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز