Nai Baat:
2025-04-22@14:11:51 GMT

کثیرالملکی بحری مشق امن2025ء

اشاعت کی تاریخ: 11th, February 2025 GMT

کثیرالملکی بحری مشق امن2025ء

سمندر کئی صدیوں سے انسانوں کی معاشی ضروریات کو پورا کرنے میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ ابتداء میں تو سمندر میں چھپے قدرتی خزانوں سے انسان لاعلم تھا لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، دنیا کے پھیلاؤ میں اضافہ ہوا، ممالک دنیاکے نقشے پر اُبھرے، سائنس نے ترقی کی تو سمندری افادیت بھی عیاں ہوتی گئی۔ اقوام عالم کو یہ احساس ہونے لگا کہ سمندر میں چھپے خزانے اُن کی معاشی ضروریات کو پورا کرنے کے علاوہ ملکی آمدن کا ذریعہ بھی ہیں۔ سمندروں پر برتری قائم کرنے اور سمندری خزانوں پر قبضہ جمانے کے لیے طاقت کا استعمال شروع ہو گیا۔ اس کے علاوہ سمندوں کو دفاع اور حفاظت کے لیے استعمال کیا جانے لگا ۔ جہاں سمندر قدرت کی بے پناہ نعمتوں سے مالا مال ہیں وہاں سمندروں کو بہت سے خطرات لاحق ہیں۔ ان خطرات میںبحری قزاقی، غیر قانونی نقل و حرکت، سمندری دہشت گردی اورانسانی اسمگلنگ جیسے خطرات شامل ہیں۔ دنیا کی 80 فی صد تجارت سمندروں کے ذریعے ہوتی ہے اور اس تجارت کو یہ خطرات لاحق ہیں۔اِن خطرات سے مؤثر انداز سے نمٹنا اور سمندری تجارتی راستوں کو محفوظ بنانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اگر سمندری ماحول پُر امن ہو تو دنیا کے تمام انسان قدرت کے اس بیش بہا قیمتی نعمت سے مستفید ہو سکتے ہیں۔ سمندری وسائل کا منصفانہ استعمال ہوگا، سمندری اُمور پر تحقیق ہوگی، سمندری راستوں سے مال کم لاگت میں ایک ملک سے دوسرے ملک تک پہنچایاجا سکے گا، خطے میں خوشحالی اور ترقی آئے گی اور خاص طور پر سمندر اور اُن میں چھپے خزائن کو محفوظ اور دیرپا بنایا جائے گا – یہ سب کچھ اُس وقت ہی ممکن ہوسکے جب سمندروں کو لاحق خطرات کا ادراک ہوگا اور تمام قومیں ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ایک متفقہ سوچ کے ساتھ کاوشیں کریں گیں۔

اقوام ِعالم اور خطے کی بحری اقوام کو ایک جگہ اکھٹا کرنے کے لیے ایک پلیٹ فارم کی ضرورت تو لازم ہے ۔دنیا کی اس ضرورت کوپاکستان نے پورا کیا ہے۔ پاکستان ہمیشہ سے امن و سلامتی کا خواہاں رہا ہے اور اس سلسلے میں کئی اقدامات اٹھائے گئے ہیں اور کئی کثیرالملکی اتحادوں میں شمولیت اختیار کی گئی۔ اقوام متحدہ کے امن مشن میں پاکستان کی افواج کے کردار اور قربانیوں کو دنیا قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ اس کے علاوہ دنیامیں آنے والی قدرتی آفات میں پاکستان کی امدادی سرگرمیوں کا اعتراف بھی عالمی سطح پر کیا جاتا ہے۔پاکستان کی مسلح افواج پاکستان کی سفیر بن کر پاکستان کے حقیقی تشخص کو اُجاگر کرنے میں کوشاں ہیں۔

قدرت نے پاکستان کوسمندر جیسی عظیم نعمت سے نوازا ہے ۔ پاکستان کا سمندری علاقہ مختلف پہلوئوں سے اہمیت کا حامل ہے ۔ساحل سمندر اور سمندری حدود کی نگرانی کی ذمہ داری پاکستان بحریہ کی ہے۔پاکستان بحریہ ایک باصلاحیت فوج ہے ۔یہ فوج نہ صرف بحری سرحدوں کی نگہبانی کو یقینی بناتی ہے بلکہ ملکی اقتصادیات کو مضبوط بنانے میں سمندرکی اہمیت اور اس سے جُڑے معاشی فوائد سے بھی بخوبی واقف ہے۔پاکستان نیوی بلیو اکانومی کے بارے میں آگہی کے فروغ میں بھی پیش پیش نظر آتی ہے ۔

سمندری وسائل سے فائدہ اُٹھانے کے لیے سمندروں میں امن کا قیام اور سمندری تجارت کامکمل تحفظ از حد ضروری ہے۔ اس کے علاوہ بحری تجارت کو درپیش چیلنجز سے مؤثر انداز میں نمٹنا بھی عصر ِ حاضر کی ضرورت ہے۔بحری آلودگی اور سمندری حیات کو لاحق خطرات بھی ایک بہت بڑا چیلنج ہیں ۔ اسی طرح موسمیاتی تبدیلی بھی میرین ایکوسسٹم میں بگاڑ پیدا کررہی ہے۔ مفادات کے تحفظ اور برتری کو قائم کرنے کی عالمی مسابقت نے کئی میری ٹائم مسائل کو جنم دیا ہے ۔ان تما م مسائل اور چیلنجز سے نمٹنے کے لیے دنیا بھر کی بحری اقوام کا یکجا ہونا اور متفقہ لائحہ عمل کی تشکیل وقت کا تقاضا ہے۔پاکستان نیوی نے اس ضرورت کا ادراک کیا اور سال 2007کو امن مشقوں کے سلسلے کی پہلی مشق منعقد کر کے سمندروں پر امن کے قیام کے قومی عزم کا اظہار کیا۔

کثیرالملکی بحری مشق امن ہر دو سال بعدکراچی اور بحیرہ عرب میںمنعقد کی جاتی ہے ۔اس مشق میں دنیا بھر سے عالمی بحری افواج، بحری اُمور کے ماہرین،عالمی مبصرین اور تجزیہ نگار شریک ہوتے ہیں۔ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کی بحری افواج اپنے جہازوں، ایئرکرافٹ،اسپیشل سروس گروپ، میرینزاور دھماکہ خیز مواد کو ناکارہ بنانے والی ٹیموں کے ساتھ اس مشق میں شریک ہوتی ہیں۔امن مشقوں کے مقاصد عالمی نوعیت کے ہیں جن سے عالمی برادری کو فائدہ حاصل ہوتا ہے، سمندر میں امن قائم ہوتا ہے۔اس مشق میں شریک بحری افواج کے درمیان تعاون کے ذریعے بحری سلامتی اور استحکام کو بہتر بنایا جاتا ہے۔ بحری قزاقی، دہشت گردی، اسمگلنگ، اور غیر قانونی تجارت جیسے مشترکہ خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک متفقہ پلیٹ فارم مہیا کیا جاتا ہے۔مشترکہ تربیت اور تعاون کو فروغ دے کر بین الاقوامی ہم آہنگی کو بہتر بنایا جاتا ہے۔سمندروں پر قیام ِ امن کے لیے اتحاد اور تعاون کے ذریعے سمندری قیام ِ امن کا پیغام دیا جاتا ہے۔
امن مشق دو مرحلوں میں منعقد کی جاتی ہے ۔ہاربر فیز کے دوران ورکشاپس، سیمینارز،اسپیشل سروس گروپ کی مشقیںاور ثقافتی تقریبات منعقد کی جاتی ہیں تاکہ باہمی افہام و تفہیم کو بڑھایا جا سکے۔سمندر مرحلہ(سی فیز) عملی بحری مشقوں پر مبنی ہوتا ہے، ان میںبحری قزاقوں کے خلاف کارروائیاں، سرچ اینڈ ریسکیو آپریشنز، گولہ باری کی مشقیں اور بحری جنگی حکمت عملی شامل ہے۔امن مشق علاقائی اور عالمی بحری سلامتی میں تعاون کے ذریعے بہتری لاتی ہے۔اس مشق میں شریک بحری افواج اپنی حکمت عملیوں، تکنیکوں، اور تجربات کا تبادلہ کرتی ہیں جوبحری قزاقی، اسمگلنگ، اور دہشت گردی کے خلاف ان کی صلاحیتوں کو مضبوط کرتی ہیں۔یہ مشقیں مختلف ممالک کے درمیان اعتماد اور خیرسگالی کو فروغ دیتی ہے، جن میں بڑی طاقتیں اور چھوٹے ممالک شامل ہوتے ہیں۔کم ترقی یافتہ بحری افواج جدید بحری ٹیکنالوجی اور عملی حکمت عملیوں سے آگاہی حاصل کرتی ہیں۔مشترکہ کارروائیوں کی تربیت مشترکہ آپریشنز کرنے کی صلاحیتوں میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔ان مشقوں کے انعقاد سے علاقائی امن کو بھی فروغ حاصل ہوتا ہے۔

سال 2007میںامن مشقوں کے سلسلے کی پہلی مشق میں عالمی افواج کی حوصلہ افزاء شرکت کے نتیجے میںپاکستان نے مشق کے اس سلسلے کو ہر دو سال بعد منعقد کرنے کا فیصلہ کیا اور اس طرح بحیرہ عرب میں سال2013,2011,2009میں بالترتیب دوسری، تیسری اور چوتھی امن مشق کا انعقاد کیا گیا۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ہر مشق میں شریک بحری افواج کی تعداد میں اضافہ ہی ہوتا گیا اور پاکستان کے اس اقدام کو عالمی سطح پر خوب پذیرائی حاصل ہوئی۔
امن مشقوں کے سلسلے کی پانچویں مشق امن 2017، 10تا 14فروری کوبحیرہ عرب میں منعقد ہوئی جس میں 36سے زائد عالمی بحری افواج کے جہازوں ، ایئر کرافٹ، ہیلی کاپٹرز ، اسپیشل آپریشنز فورسز/دھماکہ خیز مواد کو ناکارہ بنانے والی ٹیمیںاور میرینز کے ساتھ ساتھ 65سے زائدعالمی مبصرین شریک ہوئے۔ امن مشق 2019میں آسٹریلیا، اٹلی،امریکہ،برطانیہ،پولینڈ،ترکی، چائنا،سری لنکا ، عمان اور ملائیشیاکے جہازوں، ایئرکرافٹ اور اسپیشل آپریشن فورسز و دھماکہ خیز مواد کو ناکارہ بنانے والی ٹیموں نے شرکت کی۔اسی طرح امن 2021میں بیالیس ممالک کی بحری افوا ج کے جہازوں، ایئرکرافٹ، اسپیشل آپریشن فورسز و دھماکہ خیز مواد کو ناکارہ بنانے والی ٹیموں اور مبصرین نے حصہ لیا۔امن2023مشق کی خاص بات یہ تھی اس مشق کے دوران پہلی پاکستان انٹرنیشنل میری ٹائم نمائش نمائش اور کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔
امن مشقوں کے سلسلے کی نویں مشق امن2025اس سال فروری میں منعقد ہو رہی جس میںدنیا بھر سے پچاس سے زائد ممالک کی بحری افواج اپنے اثاثوں کے ساتھ شرکت کریں گی۔ اس کے علاوہ مبصرین، میری ٹائم ماہرین اور تجزیہ نگا ر بھی اس مشق میں شریک ہوں گے۔ اس مشق کی منفرد خصوصیت پہلی مرتبہ امن ڈائیلاگ کا انعقاد ہے ۔ امن ڈائیلاگ کے دوران بحری افواج ، کوسٹ گارڈز اور ڈیفنس فورسز کے سربراہان علاقائی اور عالمی میری ٹائم سیکیورٹی پر تبادلہ خیال کریں گے اور عصر ِ حاضرکے بحری چیلنجز سے نمٹنے کے لیے مؤثر حل تلاش کریں گے۔

اس مشق کے دوران قائم ہونے والی اعتماد سازی یقینا عالمی بحری امن خصوصاً بحرِہند میں امن و سلامتی کے حوالے سے مثبت اثرات مرتب کرے گی۔امن مشقوں میں عالمی بحری افواج کی بھر پور شرکت اس امر کی دلیل ہے کہ اقوامِ عالم خطے میں قیام امن کے سلسلے میں کی جانے والی پاکستان کی کاوشوںکو ثمر آور مانتی ہے۔اس مشق کے مسلسل انعقاد سے جہاں بحری امن و استحکام کے حصول کے لئے متفقہ سوچ کے قیام اور عالمی کاوشوں کو یکجا کرنے کا ایک بہترین پلیٹ فارم مہیا ہوا وہاںپاکستان کے حقیقی تشخص کو اُجاگر کرنے میں بھی یہ مشقیں مدد گار ثابت ہوئی ہیں۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: امن مشقوں کے سلسلے کی اس مشق میں شریک اس کے علاوہ پاکستان کی بحری افواج ہے پاکستان عالمی بحری اور سمندری چیلنجز سے میری ٹائم کے دوران کے ذریعے ہوتا ہے کی بحری نے والی جاتا ہے کے ساتھ اور اس کے لیے مشق کے

پڑھیں:

عالمی تنازعات، تاریخ کا نازک موڑ

روس اور یوکرین نے ایک دوسرے پر صدر ولادیمیر پوتن کی طرف سے اعلان کردہ ایسٹرکی ایک روزہ جنگ بندی کی خلاف ورزی کا الزام لگایا ہے۔ فریقین نے کہا کہ اس دوران سیکڑوں حملے کیے گئے ہیں۔ اس سے قبل رواں ہفتے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے یہ بیان سامنے آیا تھا کہ یوکرین اور روس کے مابین جنگ بندی مذاکرات کا وقت آن پہنچا ہے۔

 روس، یوکرین جنگ چوتھے برس میں داخل ہوچکی ہے، جس میں60ہزار سے زاید یوکرینی اور روسی شہری اور فوجی ہلاک، جب کہ یوکرین میں شہرکے شہرکھنڈرات میں تبدیل ہوچُکے ہیں۔ اس جنگ کے نتیجے میں دنیا میں مہنگائی کا ایک طوفان آیا۔ غریب ممالک کے عوام تو اِس تباہی میں پِسے ہی لیکن امیر ممالک کے شہری بھی توانائی، خوراک اور دوسری اشیائے صَرف کی آسمان سے چُھوتی قیمتوں سے اب تک نجات نہیں پاسکے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ رواں ہفتے روس اور یوکرین کے درمیان امن معاہدے کے لیے پرامید ہیں۔صدر ٹرمپ نے اپنی سوشل میڈیا ویب سائٹ ٹروتھ سوشل پر لکھا کہ ’’اگر جنگ بندی ہوجاتی ہے تو دونوں ممالک کے لیے امریکا کے ساتھ بڑے تجارتی مواقع دستیاب ہوں گے۔‘‘ تاہم انھوں نے ان امن مذاکرات کی تفصیلات نہیں بتائیں جنھیں امریکا جنوری میں ان کے صدارت سنبھالنے کے بعد سے آگے بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔

صدر ٹرمپ کی جانب سے روس کے ساتھ جنگ ختم کرنے کے لیے مذاکرات شروع کرنے کے فیصلے کے بعد یورپی طاقتیں بھی شامل ہونے کی کوشش کررہی ہیں۔ دوسری جانب ٹرمپ کی امن کی کوششوں کو جھٹکا لگا ہے،کیونکہ روسی صدر ولادیمیر پوتن نے مکمل جنگ بندی کی تجویزکو مسترد کردیا ہے۔ دراصل ٹرمپ یوکرین کے مسئلے سے جان چھڑانا چاہتے ہیں، وہ روس کے ساتھ اسٹرٹیجک شراکت داری بحال کرنا چاہتے ہیں، اور وہ نہیں چاہتے کہ یوکرین جیسا ’چھوٹا مسئلہ‘ ان کی راہ میں رکاوٹ بنے۔

عالمی امور کے ماہرین کے مطابق، روس، یوکرین جنگ میں توانائی کی ڈیمانڈ، سپلائی اور قیمتوں نے بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان بھی بری طرح متاثر ہوا ، آئی ایم ایف کے قرضوں کے مسلسل پروگرام اِسی جنگ کی براہِ راست مہربانی ہے۔ جب روس نے جنگ کے بعد تیل اورگیس کی سپلائی پر پابندی لگائی، تو یورپی ممالک تڑپ اُٹھے۔

یوکرین کا بیشتر رقبہ سرسبز و شاداب ہے۔ اس میں کوئی ایسا بڑا پہاڑ نہیں جو برف پوش ہو۔یہاں برف باری تو ہوتی ہے لیکن اس کی وجہ سطح سمندر سے بلندی ہے جیسا کہ براعظم ایشیاء کے بعض ملکوں میں ہم دیکھتے ہیں۔ یوکرین کے پہاڑی سلسلے کم بلند ہیں، زیادہ علاقہ میدانی ہے۔ اس کی مٹی اتنی زرخیز ہے کہ اس میں اگنے والی گندم پاکستان سمیت دوسرے ملکوں کو بھی برآمد کی جاتی ہے۔ پاکستان کا رقبہ تقریباً ساڑھے تین لاکھ مربع میل ہے اور ہماری آبادی 24کروڑ نفوس سے زیادہ ہے جبکہ یوکرین کا رقبہ تقریباً اڑھائی لاکھ مربع میل ہے اور اس کی آبادی ساڑھے تین کروڑ ہے اور وہ تین برس سے دنیاکی دوسری بڑی سپرپاور (روس) سے نبرد آزما ہے۔

اس کی اسلحہ ساز فیکٹریاں بھی دن رات چل رہی ہیں اور دوسرے ممالک بھی اس کو دھڑا دھڑ اسلحہ برآمد کررہے ہیں۔ اب تک طرفین کے لاکھوں سولجرز اور سویلینز اس جنگ کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں، لیکن یوکرین کو نیٹو ممالک کی طرف سے جو اسلحہ اور گولہ بارود فراہم ہو رہا ہے، یوکرینی سولجرز اس کو استعمال کرکے روس کو بھی اتنا ہی جانی نقصان پہنچا چکے ہیں جتنا روس، یوکرین کو پہنچا چکا ہے ، یعنی چوٹ برابرکی ہے۔ جنگوں میں صرف گولہ بارود اور چھوٹے بڑے ہتھیار ہی کام نہیں آتے۔ ان ہتھیاروں کے باعث ماحول کی جو تباہی دیکھنے کو ملتی ہے، وہ حیرت انگیز بھی ہے اور حسرت ناک بھی۔جیسا کہ باور کیا جا رہا ہے، امریکی صدر ٹرمپ کی مداخلت سے یہ روس یوکرین تنازعہ شاید آنے والے چند ہفتوں میں ختم ہو جائے، لیکن توپوں، ڈرونوں، بارودی سرنگوں اور میزائلوں سے جو بربادی اس سرزمین کا مقدر بن چکی ہے وہ آنے والے کئی برسوں تک بھی برقرار رہے گی۔ یوکرین، روس کے بعد، یورپ کا سب سے بڑا ملک ہے۔

اس پر جو بربادی اس جنگ کی وجہ سے وارد ہو چکی اس کے اثرات شاید آنے والے کئی عشروں تک بھی برقرار رہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد جرمنی، پولینڈ اور اردگرد کے ممالک میں چھے برسوں میں جو تباہی مچی، اس کو امریکا نے دو تین برسوں ہی میں ختم کردیا تھا، لیکن اگر یوکرین میں یہ جنگ بند بھی ہوگئی تو اس کی زمین، اس کی بندرگاہوں بحیرہ اسود اور بحیرہ آزوف اور اس کی آب و ہوا کی تباہی کو معمول پر آنے کے لیے کئی برس درکار ہوں گے۔ آج یوکرین کے میدان ہائے جنگ کا حال یہ ہے کہ وہاں کی زمینوں میں توپوں کے گولوں سے پڑنے والے گڑھوں کی تعداد، لاتعداد ہو چکی ہے، تمام فضا زہرآلود ہے اور بارود کی بُو یوکرین کے طول و عرض میں پھیل چکی ہے۔

صدر ٹرمپ کے اقدامات، بیانیے اور مطالبات کو جوڑیں تو ایک پریشان کن منظر ابھرتا ہے۔ وہ احساس جوکبھی قومی ذمے داری کو نبھانے یا اس عالمی نظام برقرار رکھنے یا اس کی مرمت کے لیے تھا، جس کے قیام میں کبھی امریکا اور برطانیہ نے مدد کی، اب مکمل طور پر ختم ہو چکا ہے۔ روایتی اتحادیوں اور اتحادوں سے وفاداری ختم ہوچکی۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور عالمی تجارتی تنظیم جیسے اداروں کی مفلوج حالت، عالمی معیشت کے زوال کو تیزکر رہی ہے۔ صدر ٹرمپ ایک نئے دورکا آغاز دیکھ رہے ہیں جہاں ہر ملک اپنی بقا کی جنگ خود لڑے گا۔ اس تصور میں پرانے بین الاقوامی نظام کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔ بریٹن ووڈز سسٹم کو فرسودہ بوجھ سمجھا جا رہا ہے اور طاقت کو علاقائی اثر و رسوخ کے دائروں میں دوبارہ تقسیم کیا جا رہا ہے۔ اس منطق کے تحت گرین لینڈ اور پانامہ امریکا کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں جب کہ یوکرین کو روس کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اسی دوران یورپ،کینیڈا اور میکسیکو اب معاشی حریف سمجھے جاتے ہیں۔

اگر تجارتی معاہدے ایسے شرائط پر نہ ہو سکیں جو مکمل طور پر امریکا کے حق میں ہوں، تو پھر جوابی محصولات کے لیے تیار رہیں۔ اس نئے عالمی انتشار کو کارآمد بنانے کے لیے پوتن کو بحال کرنا ضروری ہے اور روس کو دوبارہ بین الاقوامی نظام میں شامل کرنا ہوگا۔ پابندیاں ختم کرنی ہوں گی، اور معاہدے کرنے ہوں گے۔وسیع تر تناظر میں، دنیا پہلے ہی دو مخالف کیمپوں میں بٹ رہی ہے۔ مغرب کے مقابلے میں چین، جسے بڑھتی ہوئی تعداد میں ریاستوں کی حمایت حاصل ہے، جو کھلم کھلا اس نازک عالمی نظام کو مسترد کر رہی ہیں جسے ہم نے طویل عرصے سے یقینی سمجھ رکھا تھا، اگر یورپ اور امریکا ایک پیج پر نہ ہوئے، جب چین ٹیکنالوجی، معیشت اور عسکری برتری کے لیے امریکا کو چیلنج کر رہا ہے، تو یہ خارج از امکان نہیں کہ دنیا ایک بار پھر جنگ کی دہلیز پر پہنچ جائے۔

ہم تاریخ کے ایک نازک موڑ کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ جتنی دیر ہم امریکا میں جاری اس خطرناک سیاسی تجربے سے نظریں چراتے رہیں گے، اتنا ہی کم وقت ہمارے پاس اس کا جواب دینے کے لیے باقی بچے گا۔ ایک عالمی طاقت کی جانب سے بین الاقوامی معاملات پر توجہ نہ دینے کا ایک نتیجہ یہ بھی نکل سکتا ہے کہ باقی دنیا کے تنازعات اسی طرح برقرار رہیں اور ان کی شدت میں اضافہ ہوتا جائے جیسا کہ غزہ میں حماس اور اسرائیل کی جنگ جو فی الحال ایک معاہدے کے تحت جنگ بندی پر منتج ہوئی تھی لیکن اسرائیل کی جانب سے اس معاہدے کی پاسداری نہیں کی گئی۔ اسرائیلی مغویوں کی رہائی میں کچھ تاخیر ہونے کی وجہ سے اسرائیل نے غزہ پر پھر بمباری شروع کر دی ہے، وہاں یہ کیسے ممکن ہوگا کہ معاہدے پر عملدرآمد کے حوالے سے معاملات تھوڑے بھی آگے پیچھے ہوئے تو اسرائیلی قیادت آپے سے باہر نہیں ہو جائے گی؟

دوسری جانب اسرائیل اور ایران کے تعلقات میں بھی کشیدگی پہلے سے زیادہ پائی جاتی ہے اور ٹرمپ ایران کے بارے میں کیا خیالات رکھتے ہیں یہ بھی سب پر واضح ہے، چنانچہ اگر خدانخواستہ اسرائیل اور ایران کے مابین غزہ یا لبنان کے تنازع اور شام کی جنگ کو لے کر اختلافات بڑھے تو امریکی صدر خاموش تماشائی کے سوا کوئی اور کردار ادا نہیں کرسکیں گے، البتہ صدر ٹرمپ یوکرین کی جنگ بند کرانے میں سرگرم کردار ادا کرنے کی ضرور کوشش کریں گے، وجہ یہ ہے کہ اس جنگ کی وجہ سے امریکی معیشت براہ راست متاثر ہو رہی ہے۔

یہ جنگ یوکرین کے نیٹو میں شامل ہونے یا نہ ہونے کے تنازع پر شروع ہوئی تھی جبکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا خیال ہے کہ امریکا کو نیٹو اتحاد سے نکل جانا چاہیے۔ امریکا کے نیٹو اتحاد سے نکلنے کا مطلب یہ ہے کہ نیٹو کا خاتمہ ، جب نیٹو تنظیم موجود ہی نہیں ہوگی یا مکمل غیر فعال ہو جائے گی تو اس کو وسعت دینے کی بنیاد پر شروع ہونے والی جنگ کے جاری رہنے کا بھی کوئی جواز باقی نہیں رہے گا۔ لگتا یہی ہے کہ ٹرمپ دور میں بھی بین الاقوامی تنازعات کا ’اسٹیٹس کو‘ برقرار رہے گا۔

متعلقہ مضامین

  • خاموش طاقت، نایاب معدنیات کی دوڑ
  • برطانوی طیارہ بردار جہاز بحر ہند اور بحر الکاہل میں جنگی گروپ کی قیادت کرے گا
  • امن مشقوں کی گونج: پاکستان سری لنکا بحری اشتراک پر بھارت بوکھلاہٹ کا شکار 
  • عالمی تنازعات، تاریخ کا نازک موڑ
  • پاک سری لنکا بحری مشق کی منسوخی سے متعلق بھارتی میڈیا کی بےبنیاد خبریں بے نقاب
  • کراچی ہیٹ ویو کی لپیٹ میں ہے، سمندری ہوائیں بحال ہونا شروع ہوگئیں، محکمہ موسمیات
  • ’’امن 2025‘‘مشقوں کی گونج؛ پاک سری لنکا بحری اشتراک پر بھارت بوکھلاہٹ کا شکار
  • چینی بحریہ نے غیر قانونی طور پر علاقائی پانیوں میں داخل ہو نے والے فلپائنی جہاز کو سمندری حدود سے باہر نکال دیا
  • عالمی چلینجز اور سماجی تقسیم کو ختم کرنے کیلیے علامہ اقبال کی تعلیمات مشعل راہ ہیں، وزیراعظم
  • چین کی بحری، لاجسٹکس اور جہاز سازی کے شعبوں کو ہدف بنانے کے امریکی اقدامات کی سخت مخالفت