کسی جنگل میں ایک ’’خرگوش‘‘ کی آسامی نکلی۔ ایک بے روزگار اور حالات کے مارے ریچھ نے بھی اس کیلئے درخواست جمع کرا دی۔اتفاق سے کسی خرگوش نے درخواست نہیں دی تو اسی ریچھ کو ہی خرگوش تسلیم کرتے ہوئے ملازمت دیدی گئی۔ملازمت کرتے ہوئے ایک دن ریچھ نے محسوس کیا کہ جنگل میں ریچھ کی ایک آسامی پر ایک خرگوش کام کر رہا ہے اور اسے ریچھ کا مشاہرہ اور ریچھ کی مراعات مل رہی ہیں۔ ریچھ کو اس نا انصافی پر بہت غصہ آیا کہ وہ اپنے قد کاٹھ اور جثے کے ساتھ بمشکل خرگوش کا مشاہرہ اور مراعات پا رہا ہے جبکہ ایک چھوٹا سا خرگوش اس کی جگہ ریچھ ہونے کا دعویدار بن کر مزے کر رہا ہے۔ ریچھ نے اپنے دوستوں اور واقف کاروں سے اپنے ساتھ ہونے والے اس ظلم و زیادتی کے خلاف باتیں کیں، سب دوستوں اور بہی خواہوں نے اسے مشورہ دیا کہ وہ فوراً اس ظلم کے خلاف جا کر قانونی کارروائی کرے۔ریچھ نے اسی وقت جنگل کے ڈائریکٹر کے پاس جا کر شکایت کی، ڈائریکٹر صاحب کو کچھ نہ سوجھی، کوئی جواب نہ بن پڑنے پر اس نے شکایت والی فائل جنگل انتظامیہ کو بھجوا دی۔ انتظامیہ نے اپنی جان چھڑوانے کیلیئے چند سینئر چیتوں پر مشتمل ایک کمیٹی بنا دی۔ کمیٹی نے خرگوش کو نوٹس بھجوا دیا کہ وہ اصالتاً حاضر ہو کر اپنی صفائی پیش کرے اور ثابت کرے کہ وہ ایک ریچھ ہے۔دوسرے دن خرگوش نے کمیٹی کے سامنے پیش کر اپنے سارے کاغذات اور ڈگریاں پیش کر کے ثابت کر دیا کہ وہ دراصل ایک ریچھ ہے۔کمیٹی نے ریچھ سے غلط دعویٰ دائر کرنے پر پوچھا کہ کیا وہ ثابت کر سکتا ہے کہ وہ خرگوش ہے؟ مجبوراً ریچھ کو اپنے تیار کردہ کاغذات پیش کر کے ثابت کرنا پڑا کہ وہ ایک خرگوش ہے۔کمیٹی نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ سچ یہ ہے کہ خرگوش ہی ریچھ ہے اور ریچھ ہی دراصل خرگوش ہے۔ اس لیے کسی بھی رد و بدل کے بغیر دونوں فریقین اپنی اپنی نوکریوں پر بحال اپنے اپنے فرائض سر انجام دیتے رہیں گے۔ ریچھ نے کسی قسم کے اعتراض کے بغیر فوراً ہی کمیٹی کا فیصلہ تسلیم کر لیا اور واپسی کی راہ لی۔ریچھ کے دوستوں نے کسی چوں و چراں کے بغیر اتنی بزدلی سے فیصلہ تسلیم کرنے کا سبب پوچھا تو ریچھ نے کہا: میں بھلا چیتوں پر مشتمل اس کمیٹی کے خلاف کیسے کوئی بات کر سکتا تھا اور میں کیونکر ان کا فیصلہ قبول نہ کرتا کیونکہ کمیٹی کے سارے ارکان چیتے دراصل گدھے تھے، جبکہ ان کے پاس یہ ثابت کرنے کیلئے کہ وہ چیتے ہیں باقاعدہ ڈگریاں اور کاغذات بھی تھے۔ یہی حال ہمارے ملک کا ہے اور یہی ہمارے خود ساختہ آقاؤں کا ہے۔ یہی حال ہماری اسٹیبلشمنٹ کا ہے۔۔ یہی حال ہمارے وزیروں مشیروں کا ہے۔ یہی حال ہمارے بیورو کریٹوں کا ہے۔ یہی حال ہماری اشرافیہ کا ہے۔۔۔۔ یہی حال ہمارے نام نہاد مذہبی پیشواؤں کا ہے۔ یہی عکاسی کئی سال پہلے فاروق قیصر عرف انکل سرگم، کی دل کو چھوتی ہوئی ایک مشہور نظم ’’اللہ میاں‘‘ جسے ان کے ٹی پروگرام میں ان کا مشہور کردار رولا سنایا کرتا تھا، نے کی تھی۔۔ یہ نظم آج بھی حسبِ حال ہے:
میرے پیارے اللہ میاں
دل میرا حیران ہے
میرے گھر میں فاقہ ہے
اس کے گھر میں نان ہے
میں بھی پاکستان ہوں
اور وہ بھی پاکستان ہے
میرے پیارے اللہ میاں
لیڈر کتنے نیک ہیں
ہم کو دیں وہ صبر کا پھل
خود وہ کھاتے کیک ہیں
میرے پیارے اللہ میاں
یہ کیسا نظام ہے؟
فلموں میں آزادی ہے
ٹی وی پر اسلام ہے
میرے پیارے اللہ میاں
میری آنکھ کیوں چھوٹی ہے؟
اس کی آنکھ میں کوٹھی ہے
میری آنکھ میں روٹی ہے
میرے پیارے اللہ میاں
تیرے راز بھی گہرے ہیں
ان کے روزے سحری والے
میرے آٹھ پہرے ہیں
میرے پیارے اللہ میاں
روزہ کھلوانے کی ان کو
دعوت ملے سرکاری ہے
میرا بچہ روزہ رکھ کر
ڈھونڈتا پھرے افطاری ہے
میرے پیارے اللہ میاں
یہ کیسا وٹہ سٹہ ہے؟
این ٹی ایم کا سر ہے ننگا
پی ٹی وی پہ ڈوپٹہ ہے
(این ٹی ایم پہلا نجی چینل تھا)
میرے پیارے اللہ میاں
بادل مینہ برسائے گا
اس کا گھر دُھل جائے گا
میرا گھر بہہ جائے گا
میرے پیارے اللہ میاں
چاند کی ویڈیو فلمیں دیکھ کر
اس کا بچہ سوتا ہے
میرا بچہ روٹی سمجھ کر
چاند کو دیکھ کے روتا ہے
میرے پیارے اللہ میاں
یہ کیسی بدنظمی ہے
میرا پیٹ تو خالی ہے
اس کو کیوں بدہضمی ہے
میرے پیارے اللہ میاں
یہ کیسی ترقی ہے؟
ان کی قبریں تک ہیں پکی
میری بستی کچی ہے…
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: پیش کر
پڑھیں:
باطنی بیداری کا سفر ‘شعور کی روشنی
گزشتہ ایک صدی میں انسانیت ایک خاموش تبدیلی سے گزری ہے۔ سچا روحانی علم، جو کبھی اخلاص والے دلوں میں چھپا ہوتا تھا، اب مادی حرص و ہوس کے نیچے دفن ہو گیا ہے۔ دین اور روحانیت کے علمبردار علما، مشائخ اور مبلغین اکثر اس علم کو دولت، شہرت اور اقتدار کے لیے استعمال کرنے لگے۔
تزکیہ نفس، ذکر، اور باطنی سچائی کی دعوت اب سیاسی و مالی مفادات کی نذر ہو چکی ہے۔
حدیث ‘ ’’ایسا وقت آئے گا جب لوگ صرف اپنے پیٹ کی فکر کریں گے، دین ان کے لیے مال کا ذریعہ ہوگا، ان کا قبلہ ان کی خواہشات ہوں گی، اور وہ قرآن پڑھیں گے مگر اس پر عمل نہیں کریں گے۔
جب سچے ذکر اور باطنی بیداری کا چراغ بجھنے لگا، تب آئی ٹی اور مصنوعی ذہانت (AI) جیسے نئے علوم نے دنیا میں جگہ لی شاید ہمیں یہ یاد دلانے کے لیے کہ ہم نے کیا کھو دیا، اور دوبارہ نظام، ترتیب، اور ربانی حکمت کی طرف لوٹنے کا وقت ہے۔
روحانی علم کی آلودگی۔ اخلاص، جو کبھی دین و تصوف کی روح تھی، اب لالچ، شہرت اور طاقت کے ہاتھوں ماند پڑ گئی ہے۔ اکثر مبلغین اور اداروں نے دین کو تجارت بنا دیا ہے۔
حقیقی تصوف، جو کبھی صرف اہلِ دل کے سینوں میں چھپا ہوتا تھا، اب رسموں اور نعروں فتوئوں میں بدل گیا ہے۔علم بغیر عمل کے دیوانگی ہے، اور عمل بغیر علم کے بیکار ہے۔
امام غزالی، احیاء العلوم۔ روح کی کھوئی ہوئی حقیقت ‘ لطائف کا علم‘ جو انسان کے اندر موجود روحانی مراکز کی نشاندہی کرتا ہے صدیوں تک خفیہ طور پر استاد سے شاگرد تک منتقل ہوتا رہا۔
ذکر، مجاہدہ، اور سچائی کے ذریعے یہ لطائف بیدار ہوتے ہیں اور اللہ کی قربت کی راہیں کھولتے ہیں۔مگر آج یہ علم یا تو چھپا لیا گیا ہے یا بیچا جا رہا ہے۔
جس نے اپنے نفس کو پہچانا، اس نے اپنے رب کو پہچانا۔
حدیث ‘اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے‘ نور پر نور۔ اللہ جسے چاہے اپنے نور کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ (سورۃ النور، 24:35)
آئی ٹی اور AI ‘ واپسی کی ایک نشانی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کے پیچھے جو نظریہ ہے، وہ مسلمان سائنسدانوں کی تحقیق پر مبنی ہے۔
الگوردم ‘ کا تصور محمد بن موسی الخوارزمی سے آیا، جو ایک مومن مسلمان ریاضی دان تھے۔ہمیں سچائی کو جہاں سے بھی ملے، قبول کرنے میں شرم محسوس نہیں کرنی چاہیے۔
الکندی‘یاد رکھیں: ٹیکنالوجی بذاتِ خود نہ حرام ہے نہ حلال اصل چیز نیت اور استعمال ہے۔
کچھ علماء AI اور IT کو کفر یا بدعت کہتے ہیں، مگر خود سوشل میڈیا، آئی فون، اور لیپ ٹاپ پر دن رات سرگرم ہوتے ہیں۔یہ ریاکاری ہے، دین نہیں۔
جبکہ سچے طالبانِ حق جدید علم کو اخلاص اور حکمت سے استعمال کرتے ہیں۔ ان کے لیے یہ علم علمِ نافع ہے جیسا کہ حضور ﷺ نے فرمایا:علم حاصل کرو ماں کی گود سے قبر تک۔
حدیث‘ تم میں سے بہترین وہ ہے جو علم سیکھے اور دوسروں کو سکھائے۔ (صحیح بخاری)
اللہ والے مخلصین ایسے لوگ پوری حکمت اور فراست سے لیس ، کمپاس، GPS اور روحانی WiFi رکھتے ہیں جو انہیں رب سے جوڑ دیتا ہے۔
لطائف دل کی روشنی‘ تصوف کے مطابق، انسان کے اندر کئی لطائف ہیں جو روحانی ترقی کی منزلیں طے کرواتے ہیں۔ لطیفہ قلب‘ ذکر کا مقام۔ لطیفہ روح ‘الہام و وحی کا مرکز۔ لطیفہ سر ‘ دل کی گہرائیوں کا راز۔ لطیفہ خفی و اخفی ‘ باطنی اسرار کی انتہا۔
مولانا روم فرماتے ہیں:تم کمرے کمرے پھر رہے ہو اس ہار کو تلاش کرنے کے لیے جو تمہارے گلے میں پہلے ہی ہے۔
تمہارا کام محبت کی تلاش نہیں، بلکہ ان رکاوٹوں کو ختم کرنا ہے جو تم نے اس کے خلاف کھڑی کی ہیں۔
طالبِ حق کے نام پیغام۔ اے سچے طالب!یہ راہ تیرے لیے ہے۔ نہ ان کے لیے جو دنیا چاہتے ہیں، بلکہ ان کے لیے جو قربِ الہی کے خواہاں ہیں۔
دل کی طرف لوٹ،باطن کو بیدار کر،اس نور کو جگا،جو اللہ نے تیرے اندر رکھا ہے۔خبردار! دلوں کا سکون صرف اللہ کے ذکر میں ہے۔ (سور ۃالرعد، 13:28؟)
آئو، ذکر کو اپنا ساتھی بنائو،لطائف کو روشن کرو،اور رب کی طرف بڑھو۔
اللہ ھو ۔ ھو کا ورد کرو پھر دیکھو دل میں اللہ کی محبت ا نور افضل الذکر لاا لہ ا لا اللہ۔