WE News:
2025-04-22@07:32:39 GMT

خدا کی لاٹھی اور اندھے کا لٹھ

اشاعت کی تاریخ: 11th, February 2025 GMT

دنیا سمجھتی ہے کہ امریکا اسے نہیں سمجھتا، امریکا سمجھتا ہے کہ دنیا دراصل اسے نہیں سمجھتی۔ بظاہر یہ اتنا بڑا مسئلہ نہیں، آسان حل یہ ہے کہ آمنے سامنے بیٹھ کر ایک دوسرے کو سمجھ سمجھا لو، مگر یہ اتنا ہی آسان ہوتا تو پھر تو کوئی مسئلہ ہی نہ رہتا۔

سابق وزیرِ خارجہ میڈلین آلبرائیٹ کے بقول ’امریکا ہر اعتبار سے اس وقت بلندی پر ہے، جہاں تم ہم دیکھ سکتے ہیں کوئی نہیں دیکھ سکتا‘۔

اس ایک فقرے کو آپ تکبر سمجھ لیں، احساسِ برتری سمجھیں، خود شناسی یا کم شناسی یا پھر چھچھورپن، مگر بلندی سے ہر طرف دیکھنے کا بس اتنا نقصان ہے کہ نیچے والے آپ کو بونے نظر آتے ہیں۔ آپ اسی دھوکے میں رہتے ہوئے ان بونوں کے بارے میں حکمتِ عملی بناتے ہیں اور جب آپ ان کے مدِمقابل ہوتے ہیں تب کھلتا ہے کہ یہ تو بونے نہیں شاید میری سوچ بونی ہے۔

تاریخ میں بہت دور جانے کی کیا ضرورت، اس کور چشمی نے امریکا کو ویتنام، افغانستان اور عراق میں پھنسایا اور اب چینی اس برترانہ غلط فہمی کے منہ پر تھوک رہے ہیں۔

ایران پچھلے 45 برس سے امریکا کے حلق میں مستقل کانٹا ہے، خود امریکی ساحل سے صرف 70 میل پرے کے کیوبا کو پچھلے 70 برس سے لگام ڈالنے کی کوششیں آج تک ہورہی ہیں، مگر فیدل کاسترو اور ان کے بعد آنے والے اس لمحے تک واشنگٹن کو شہادت کی کھڑی انگلی مسلسل دکھا رہے ہیں۔

پچھلے ڈھائی سو برس سے امریکا یہی فیصلہ نہیں کر پارہا کہ اسے دنیا پر چھانا ہے یا اپنے خول میں سمٹ کے رہنا ہے۔ کبھی دورہ پڑتا ہے تو بزعمِ خود آزاد دنیا کا محافظ بن جاتا ہے، کبھی اس سنتری گیری سے تنگ آ کے کہتا ہے کہ بھاڑ میں جائے دنیا، سب سے پہلے امریکا۔ آج کے بعد ہم اپنے براعظم تک محدود رہیں گے۔ اور پھر معاً خیال آتا ہے کہ اس خلا کو کہیں چین، روس، انڈیا اور یورپی یونین نہ پُر کرلیں تو ہڑبڑا کے دوبارہ بوٹ کس لیتا ہے۔

اب آپ دیکھیے کہ کینیڈا اور میکسیکو ایک ماہ پہلے تک سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ انہیں کبھی وائٹ ہاؤس سے ابے تبے کے لہجے میں کلام کرنا پڑےگا۔

دونوں ممالک کی معیشتیں امریکا سے جڑی ہوئی ہیں۔ شاید اسی لیے ٹرمپ کو ان سے بدتمیزی کرنے کا خیال آیا۔ بھلا جس سپر پاور کو اس کے ہمسائے نہ سمجھ پا رہے ہوں تو باقی دنیا خاک سمجھے گی۔ اور جس طاقت ور اسٹیبلشمنٹ کو یہ بنیادی بات سمجھ میں نہ آرہی ہو کہ کوئی لفنگا بھی کم از کم اپنے محلے میں شرافت سے رہتا ہے۔ ایسی ہلکی اسٹیبلشمنٹ کو دیگر بنیادی تہذیبی مبادیات کیسے سمجھائی جا سکتی ہیں۔

کسی بھی یورپی بالخصوص برطانوی پڑھے لکھے سے بات کرلیں، وہ یہ تو تسلیم کرےگا کہ امریکا پہلوان ہے، مگر ایسا پہلوان جس کی کھوپڑی بقیہ جسامت کے تناسب میں چھوٹی محسوس ہوتی ہے۔ چنانچہ یورپ لحیم شہیم امریکا سے مادی اور اسٹریٹیجک فوائد حاصل کرنے کے باوجود اسے ایک مستند مدبر کا درجہ دینے سے ہمیشہ ہچکچاتا آیا ہے۔ پہلوان جی کو اکثر بعد میں احساس ہوتا ہے کہ ان کے دوست بھی انہیں ماموں بنا رہے ہیں۔

امریکا کو شاید یہ بھی دیر میں ٹپائی دے کہ اسرائیل اپنی تاریخی دشمنیاں کتنے آرام سے امریکا کے کھاتے میں ڈال کر کیپیٹل ہل کی کانگریسی گائے مسلسل دوہ رہا ہے۔ اس عاشقی میں عزتِ سادات اب تک نہیں تو کل تک یقیناً جائے گی۔

ٹرمپ کا پہلی بار صدر بننا تو یوں سمجھ میں آتا تھا کہ ایک عام امریکی واشنگٹن میں قلعہ بند اسٹیبلشمنٹ کے روایتی گورننس ڈھانچے سے اکتا چکا تھا اور اپنے جیسے کسی باہرلے کو آزمانا چاہتا تھا۔

مگر ٹرمپ کے پہلے چار برس چکھنے کے بعد بائیڈن کی شکل میں دوبارہ روایتی اسٹیبلشمنٹ کا دامن پکڑنا اور اس سے پھر مایوس ہو کر پھر ٹرمپ کو صدر چننا خود امریکی سماج کی ذہنی بے سمتی کے بارے میں بہت کچھ بتا رہا ہے۔ یہ وہی سماج ہے جو چند عشرے پہلے تک صدارتی امیدواروں کی ذاتی اخلاقی سطح کو خوردبینی نگاہ سے دیکھنے کا عادی تھا۔

اس تناظر میں زرا سوچیے کہ بدلے امریکی سماج کا چنیدہ صدر دنیا کی سب سے طاقتور ریاست کو کہاں پہنچا سکتا ہے اور اس ریاست کے اوپر تلے ہونے سے باقی دنیا کو کیسے کیسے جھٹکے سہنے پڑ سکتے ہیں۔

گورننس کا موجودہ عالمی نظام بھلے کتنا ہی ناقص اور غیر منصفانہ ہو مگر یہ ٹوٹا پھوٹا نظام بھی کچھ بنیادی ستونوں پر کھڑا ہے اور اس میں علاقائی سالمیت اور بنیادی انسانی حقوق کے تھوڑے بہت احترام کی امید اور گنجائش اب بھی باقی ہے۔

امریکا اگر کل کلاں گرین لینڈ اور پاناما کینال پر بزور قبضہ کر لیتا ہے، کینیڈا اور میکسیکو کو اپنی شرائط پر گھٹنوں کے بل جھکا دیتا ہے، غزہ کو فلسطینیوں سے خالی کروا لیتا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ناپسندیدہ ذیلی اداروں سے لاتعلقی اختیار کرلیتا ہے۔ عالمی ماحولیاتی اہداف کو سائنسدانوں کا پھیلایا ہوا جھوٹ قرار دے کر مسترد کردیتا ہے۔ دفاعی بجٹ جو پہلے ہی دیگر پانچ بڑے ممالک کے مجموعی فوجی بجٹ سے بھی زیادہ ہے اسے مسلسل بڑھاتا رہتا ہے تو سوچیے کیسی دھماچوکڑی مچے گی۔

ایسی نئی دنیا میں تائیوان کا تحفظ امریکا کس منہ سے کرے گا۔ جاپان، جنوبی کوریا، آسٹریلیا امریکا کی ایٹمی چھتری کی مضبوطی پر کب تک یقین کر پائیں گے۔ یورپ دفاعی، اقتصادی و سیاسی امور میں بے جا امریکی عمل دخل سے جان چھڑانے کی کوششیں تیز کیوں نہیں کرےگا اور یہی یورپ امریکی مفادات کو افریقہ اور ایشیا میں محفوظ بنانے کے بجائے ابھرتے ہوئے چین سے برابری کی بنیاد پر سودے بازی سے کیوں باز رہے گا۔ روس اگر پورے یوکرین کو بھی نگل لے تو کون انگلی اٹھائے گا۔ اور اسی طرح آزاد کشمیر سمیت پورے شمالی علاقے پر دعوے کو عملی جامہ پہنانے کا خیال بھارت کو سنجیدگی سے کیوں نہیں ستائے گا؟

مشرقِ وسطیٰ میں امریکا نواز حکومتیں کیوں امریکا کی جانب بقائی نگاہوں سے دیکھیں گی، ان حکومتوں اور اسرائیل کے خلاف نفرت سے بھری جنتا موجودہ نظام اکھاڑ پھینکنے سے کیوں ہچکچائے گی؟

سوچیے ٹیرف کی جاری جنگ میں اگر ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن شہید ہو جاتی ہے۔ اقوامِ متحدہ کے اداروں کو نشانہ بنانے کے سبب مرکزی تنظیم ہی معذور ہو جاتی ہے۔ عالمی عدالت انصاف اور انٹرنیشنل کرمنل کورٹس کے فیصلوں کے احترام کے بجائے خود ان اداروں کو ہی ہر غصیلی طاقت جوتے کی نوک پر رکھ لیتی ہے تو پھر چاروں طرف کتنے ہٹلر دندنا رہے ہوں گے؟

علمِ سیاسیات کے برہمنوں کا کہنا ہے کہ ایک بائی پولر دنیا ہمیشہ یونی پولر دنیا کے مقابلے میں متوازن ہوتی ہے، لیکن اگر دنیا کے سب سے طاقتور ملک کی لگام کسی بائی پولر کے ہاتھ میں آجائے تو یہ مسخرے پن کا نہیں گھمبیر سنجیدگی اختیار کرنے کا مقام ہے۔

بے شک خدا کی لاٹھی بے آواز ہے مگر اندھے کے لٹھ سے خدا بچائے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وسعت اللہ خان

وسعت اللہ خان معروف پاکستانی صحافی، کالم نگار اور تجزیہ کار ہیں

wenews اسٹیبلشمنٹ امریکا اندھے کا لٹھ جوبائیڈن خدا کی لاٹھی دنیا ڈونلڈ ٹرمپ وسعت اللہ خان وی نیوز یورپ.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اسٹیبلشمنٹ امریکا جوبائیڈن دنیا ڈونلڈ ٹرمپ وسعت اللہ خان وی نیوز یورپ اور اس

پڑھیں:

پوپ فرانسس… ایک درد مند انسان

جب دنیا کی سپر پاورز خاموشی کی دبیز چادر اوڑھے غزہ کی مٹی پر بکھرے معصوم بچوں کے جسموں سے نظریں چرا رہی ہوں، جب عالمِ اسلام کے حکمران بے حسی کی چپ میں اپنی کرسیوں کو مضبوطی سے تھامے بیٹھے ہوں ، ایسے میں ایک بوڑھا پادری جس کے جسم پر بیماریوں کے نشان ہیں، جسے بار بار اسپتال لے جایا جاتا ہے، وہ اپنی تھرتھراتی آواز میں انسانیت کا مقدمہ لڑتا ہے، وہ پوپ فرانسس ہے۔ ویٹیکن کے عالی شان محل میں رہنے والا لیکن دل سے فقیروں کا ساتھی، زبان سے مظلوموں کی آواز اور عمل سے ایک نئی روایت کا آغازکرنے والا۔

اس نے کہا کہ جو کچھ غزہ میں ہو رہا ہے، وہ جنگ نہیں قتلِ عام ہے۔ یہ انسانیت کے خلاف جرم ہے۔ یہ الفاظ کسی جلے ہوئے کیمپ میں پناہ گزین کسی فلسطینی کے نہیں تھے، نہ ہی یہ کسی انقلابی شاعر کے قلم سے نکلے مصرعے تھے۔ یہ ایک ایسے مذہبی ادارے کے سربراہ کے الفاظ تھے جو صدیوں سے طاقتوروں کے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ یہ ویٹیکن کے اندر سے آنے والی وہ صدا تھی جو صدیوں کے جمود کو توڑ رہی تھی۔

پوپ فرانسس کا اصل نام خورخے ماریو بیرگولیو ہے۔ وہ ارجنٹینا کے شہر بیونس آئرس میں پیدا ہوا۔ کیتھولک چرچ کے روایتی مزاج سے ہٹ کر وہ پوپ بننے کے بعد پہلی بار چرچ کی فضاؤں میں ایک ایسی روشنی لے کر آیا جس نے اسٹیبلشمنٹ کے اندھیروں میں لرزش پیدا کر دی۔ اُس نے ویٹیکن کی دولت جاہ و جلال اور طاقت کی دنیا کو خیر باد کہہ کر عام انسانوں کے درمیان بیٹھنا پسند کیا۔ اس نے چرچ کے نچلے طبقوں، پسے ہوئے لوگوں اور باہر دھکیلے گئے انسانوں کی آواز بننے کو اپنا منصب سمجھا۔

وہ ایک ایسی دنیا کا داعی ہے جہاں عقیدے کی بنیاد پر نہیں بلکہ انسانیت کی بنیاد پر فیصلے ہوتے ہیں۔ اس نے ہم جنس پرست افراد کے لیے نرم الفاظ استعمال کیے، اس نے موسمیاتی بحران کو ایک مذہبی اور اخلاقی مسئلہ قرار دیا، وہ مہاجرین کے ساتھ بیٹھا، ان کے پاؤں دھوئے ان کے بچوں کو گود میں لیا اور کہا کہ مذہب صرف عبادت نہیں یہ عمل ہے، یہ انصاف ہے۔ اس نے دنیا کو بتایا کہ گرجا ہو یا مسجد جب تک وہ ظلم کے خلاف آواز نہ اٹھائیں، وہ خاموشی کے مجرم ہیں۔

جب وہ پوپ منتخب ہوا تو اس نے اپنا لقب’’ فرانسس‘‘ رکھا جو سینٹ فرانسس آف اسّیسی کی یاد میں تھا، وہ درویش پادری جو فقیری میں جیتا تھا، پرندوں سے بات کرتا تھا اور جنگ کے خلاف کھل کر بولتا تھا۔ پوپ فرانسس نے اسی روایت کو اپنایا۔ اس نے ویٹیکن کے محلات میں رہنے سے انکار کیا، ایک چھوٹے سے کمرے میں قیام کیا، عام گاڑی استعمال کی اور قیمتی جوتوں، گھڑیوں اور زیورات سے گریزکیا۔ اس نے نہ صرف کہا بلکہ عمل سے دکھایا کہ مذہب کی اصل طاقت اخلاقی سچائی میں ہے نہ کہ شان و شوکت میں۔

پھر جب فلسطین کی زمین پر بمباری ہوئی، جب اسپتالوں کو نشانہ بنایا گیا، جب بچوں کے جسم ملبے تلے دب گئے تو پوپ فرانسس نے اپنے سادہ سے دفتر سے وہ بات کہی جو بڑے بڑے صدر نہ کہہ سکے۔ اس نے کہا ’’ یہ جنگ نہیں، یہ قتلِ عام ہے۔ یہ انسانیت کی توہین ہے۔‘‘

جب مغربی میڈیا اسرائیل کے بیانیے کو آگے بڑھا رہا تھا جب یورپی حکومتیں دفاعِ اسرائیل کو اپنا حق سمجھ رہی تھیں،جب عالمی ادارے بے بسی کی تصویر بنے ہوئے تھے، تب اس نے انسانیت کی طرفداری کا علم اٹھایا۔وہ چاہتا تو خاموش رہ سکتا تھا۔

وہ کہہ سکتا تھا کہ یہ ایک پیچیدہ تنازع ہے کہ ہم فریق نہیں بن سکتے کہ ہمیں غیر جانبدار رہنا چاہیے، لیکن اس نے غیرجانبداری کو منافقت قرار دیا۔ اس نے کہا کہ ظلم کے وقت خاموش رہنا ظالم کا ساتھ دینا ہے۔ یہ وہ تعلیم ہے جو ہر مذہب دیتا ہے لیکن کم ہی لوگ اس پر عمل کرتے ہیں۔

ہم مسلم دنیا میں اکثر خود کو مظلوموں کا وکیل سمجھتے ہیں لیکن جب وقت آتا ہے تو ہماری زبانیں سوکھ جاتی ہیں۔ ہم اپنے تجارتی معاہدے اپنے خارجہ تعلقات اور اپنی کرسیوں کو مظلوموں کے خون پر ترجیح دیتے ہیں۔ پوپ فرانسس ہمیں آئینہ دکھاتا ہے۔ وہ ہمیں بتاتا ہے کہ مذہب کا اصل جوہر کیا ہے۔ وہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اگر ہم ظالم کے خلاف کھڑے نہیں ہوتے تو ہمارا ایمان محض رسم ہے روح نہیں۔

پوپ فرانسس کی اپنی صحت بھی ان دنوں کمزور ہے۔ اسے کئی بار سانس لینے میں دشواری کا سامنا ہوا ،اسپتال میں داخل کیا گیا، آپریشن ہوئے لیکن جیسے ہی وہ اسپتال سے باہر نکلا ،اس نے دنیا کے زخموں کو اپنی صحت پر ترجیح دی۔ وہ پھر سے کیمروں کے سامنے آیا اور کہا کہ ہمیں غزہ کے بچوں کے لیے دنیا کے مظلوموں کے لیے اور انسانیت کے لیے آواز بلند کرنی چاہیے۔

انھیں زندہ رہنا چاہیے کیونکہ ان جیسے مذہبی رہنما کی دنیا کو ضرورت ہے۔ اس لیے نہیں کہ وہ ایک مذہبی رہنما ہے بلکہ اس لیے کہ وہ ضمیر کی آواز ہے۔ ایسی آوازیں اب کم رہ گئی ہیں۔ ایسی آوازیں جو نہ رنگ دیکھتی ہیں نہ قوم نہ مذہب نہ سرحد۔ جو صرف انسان دیکھتی ہیں اور جو ہر انسان کے لیے انصاف مانگتی ہیں۔

اس دنیا میں جہاں ہر دوسرا مذہبی پیشوا سیاست دانوں کا ترجمان بنا ہوا ہے، جہاں روحانیت طاقت کی غلامی بن چکی ہے، وہاں پوپ فرانسس ایک مختلف روایت کا پرچم بردار ہے۔ وہ جس سوچ کا حامی ہے، اس میں وہ تنہا نہیں ہے مگر وہ سوچ بہت سوں کی نہیں ہے۔

وہ جو ویٹیکن کی دیواروں سے نکل کر مہاجر کیمپوں میں جاتا ہے، وہ جو عبادت گاہوں سے نکل کر میدانِ سچ میں آتا ہے، وہ جو خاموشی کو توڑتا ہے۔اس کی زندگی اس کی زبان اس کا طرزِ قیادت ہمیں بتاتا ہے کہ انسانیت اب بھی زندہ ہے اگر ہم اسے سننا چاہیں اگر ہم اسے اپنانا چاہیں۔ہم سب کے لیے اور خاص طور پر ہمارے مذہبی رہنماؤں کے لیے پوپ فرانسس کی زندگی ایک سبق ہے۔ وہ سبق جو ہمیں مذہب کی اصل روح سے جوڑتا ہے اور بتاتا ہے کہ اگر دل زندہ ہو تو ضمیر بولتا ہے اور جب ضمیر بولتا ہے تو دنیا کی خاموشی ٹوٹتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ریاست کا حصہ ہیں، عقل کے اندھے آئین پڑھیں: عمر ایوب 
  • امریکی ٹیرف مذاکرات میں پاکستان سمیت دنیا کے دیگر ممالک خوشامد سے باز رہیں، چین کا انتباہ
  • توڑ پھوڑ کرنیوالے پاکستانی طلبہ ڈی پورٹ ہوں گے، امریکی ترجمان
  • سینئر امریکی عہدیدار کی امریکا، ایران جوہری مذاکرات میں 'بہت مثبت پیش رفت' کی تصدیق
  • یونیورسٹیوں میں توڑ پھوڑ کرنیوالے پاکستانی طلبہ ڈی پورٹ ہوں گے، امریکی ترجمان
  • امریکا کے یمن پر تازہ حملے، مزید شہری جاں بحق، جوابی کارروائی میں امریکی ڈرون تباہ
  • امریکی سپریم کورٹ نے وینزویلا کے باشندوں کی جبری ملک بدری روک دی
  • پوپ فرانسس… ایک درد مند انسان
  • تبدیل ہوتی دنیا
  • ٹرمپ انتظامیہ شام پر عائد پابندیوں میں نرمی پر غور کر رہی ہے،امریکی اخبار