تیز گرد آلود آندھی کے بعد ہلکی بارش ہو رہی تھی۔ آسمانی بجلی کی خوفناک کڑک سے ڈر کر زمینی بجلی خاصی دیر سے غائب تھی۔ یو پی ایس کی سہولت نہیں تھی۔ اتنے میں سرگودھا سے وہ مزدا آخر کار آ ہی گیا جس پر میرا کچھ فرنیچر آنا تھا۔ کل رات بھی اس کے انتظار میں کٹی تھی اور آج کا دن بھی۔ میں نے اپنے رات کے گھریلو لباس اور مشکوک قسم کے حلیے میں گیٹ کھولا۔ مزدا اندر آیا۔ ساتھ آنے والوں نے مجوزہ کمرے میں ساز و سامان درست کیا۔ موبائل فونز کی روشنی میں انہیں کھانا کھلایا اور چائے پلائی۔ چک نمبر 52 عرف نواب دے چک نزد جھال چکیاں سرگودھا کا نوجوان ڈرائیور باہر کھلے میں بچھی لکڑی کی رنگین پایوں والی بان کی چارپائی پر میرے پاس بیٹھ کر سگریٹ پر سگریٹ پیتا رہا۔ اسے واپس سرگودھا بھی پہنچنا تھا۔
کسی کڑوے سگریٹ کے سر بہ فلک دھواں دھار سْوٹوں کے درمیان تقریباً بغیر کسی وقفے کے ہمارے درمیان یہ مزے کا مکالمہ ہوا۔ آغاز نوجوان ڈرائیور نے مجھ سے مئودبانہ سوال کر کے کیا:
بزرگو‘ ڈرائیوری کب سے کر رہے ہیں؟
ہو گئے ہوں گے کوئی بیس پچیس سال۔
ماشاء اللہ‘ صرف لائٹ یا ہیوی بھی؟
نہیں‘ صرف لائٹ۔
پہلے کہیں اور نوکری بھی کی ہے یا شروع سے یہیں کام کر رہے ہیں؟
شروع سے یہیں لگا ہوا ہوں۔
آٹھ گھنٹے کی ڈیوٹی ہے یا رات بھی انہی کے پاس رہتے ہیں؟
ڈیوٹی چوبیس گھنٹے کی ہے۔
مالک اچھے ہی ہوں گے‘ ورنہ اس عمر میں کسی کے پاس اتنا کون ٹِکتا ہے؟
ہاں‘ یہ بات تو صحیح ہے۔
بڑی بات ہے بزرگو‘ اس عمر میں آپ کو بھی اور کہیں ڈرائیوری نہیں ملنی، اس لیے آپ شکر کر کے کام ٹھیک ہی کرتے ہوں گے۔
کوشش تو یہی ہوتی ہے۔
تنخواہ ٹھیک ہے اور وقت پر مل جاتی ہے؟
ہاں‘ شکر ہے۔ پہلی کی پہلی کو کہے بغیر مل جاتی ہے۔
یہ تو کمال ہے۔ اچھا یہ لوگ چائے پانی اور کھانے کا خیال بھی رکھتے ہیں؟
جی ہاں بہت خیال رکھتے ہیں۔
خاندانی لوگ لگتے ہیں‘ ورنہ تو اب ایسا بہت کم ہوتا ہے۔
جی ہاں‘ شاید۔
بزرگو‘ آپ بڑے بختوں والے لگتے ہیں۔
ہاں‘ اس میں کوئی شک نہیں ہے۔
ابھی میں نے ان سب کو رخصت کیا ہے۔ گیٹ کو تالا لگایا ہے۔ بجلی آ گئی ہے۔ موسم بھی خوشگوار ہے۔ انتظار‘ کوفت‘ تھکن اور حوصلہ افزا مکالمے کے بعد شاید نیند بھی کچھ بہتر آ جائے۔ اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے جس نے مجھے معمولی سے جھوٹ سے بھی بچایا اور لفظ بہ لفظ سچ بولنے میں نصرت فرمائی۔
مزدا والے نوجوان‘ سگریٹ نوش ڈرائیور کا جس بزرگ سے مکالمہ ہو رہا تھا اور جنہیں وہ اس گھر کا ڈرائیور سمجھ رہا تھا‘ وہ ہمارے دوست پروفیسر ڈاکٹر معین نظامی ہیں۔ نظامی صاحب پنجاب یونیورسٹی میں ڈین رہے۔ شعبۂ فارسی کے صدر رہے۔ اورینٹل کالج کے پرنسپل رہے۔ لمز میں بھی پڑھاتے رہے۔ ان دنیاوی مناصب سے قطع نظر وہ فقیر منش انسان ہیں۔ علومِ تصوف کے ماہر ہیں۔ ایک بڑے علمی اور روحانی خانوادے کے چشم و چراغ ہیں۔ استاد ہیں اور ان اساتذہ کی یاد دلاتے ہیں جو چٹائیوں پر بیٹھ کر پڑھاتے تھے اور دنیا اور اہلِ دنیا سے بچتے تھے۔ آج کل جب ہر شخص‘ میرے سمیت‘ ملازمت میں توسیع کا متمنی ہے‘ نظامی صاحب نے ریٹائرمنٹ سے پہلے ہی چھٹی لے لی اور ملازمت کو خدا حافظ کہہ دیا۔ وہ ڈرائیور کو بتا سکتے تھے کہ وہ گھر کے مالک ہیں مگر فارسی ادب کا کوئی بھی شناور‘ جبکہ وہ اہلِ نظر بھی ہو ’’میں‘‘ سے ہمیشہ پرہیز کرتا ہے۔ فرقۂ ملامتیہ کے بزرگ بھی اہلِ دنیا کے سامنے اپنا مرتبہ گھٹا کر پیش کرتے تھے اور اپنی نیکیوں کو اخفا میں رکھتے تھے۔ میرا یہ مطلب نہیں کہ نظامی صاحب کا تعلق فرقۂ ملامتیہ سے ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ خاندانی لوگ‘ خاص طور پر جب وہ بصیرت اور طریقت سے بھی تعلق رکھتے ہوں‘ کبھی کوئی ایسی بات نہیں کہتے یا کرتے جس سے فخر و مباہات کا اظہار ہو۔ وہ چونکہ گاڑی زیادہ تر خود ہی چلاتے ہیں اس لیے ڈرائیور ہونے کی تصدیق کر کے انہوں نے سچ ہی کہا۔
ہمارے ایک اور بزرگ سردار اسلم خان مگسی کے ساتھ بھی ایک بار اس سے ملتا جلتا واقعہ پیش آیا۔ وہ ان دنوں ملٹری اکائونٹنٹ جنرل آف پاکستان کے منصبِ جلیلہ پر فائز تھے۔ لاہور میں انہیں ایک بڑا‘ محل نما‘ سرکاری گھر ملا ہوا تھا۔ باغبانی وہ خود کرتے تھے۔ ایک دوپہر کو سخت گرمی میں‘ عام لباس پہنے‘ سر پر رومال یا چادر رکھے‘ گھر کے باغ میں گوڈی کر رہے تھے۔ محکمے کا ایک اہلکار کسی دوسرے شہر سے ان کی خدمت میں اپنا کوئی کام کرانے حاضر ہوا۔ گھر کے اندر آکر اس نے دیکھا کہ ’’مالی‘‘ کام کر رہا ہے۔ اس نے پوچھا ’’صاحب گھر میں ہیں کیا‘‘؟ ’’مالی‘‘ نے پوچھا: بتائیے کیا کام ہے؟ سائل پہلے ہی تھکا ہوا تھا۔ اس نے ڈانٹ دیا کہ تمہیں کس حساب سے بتائوں کہ کیا کام ہے۔ صاحب سے ملنا ہے۔ مگسی صاحب عجز و انکسار سے‘ جو اْن کی شخصیت کا خاصہ تھا‘ کہنے لگے: بہتر! میں انہیں بتاتا ہوں! اندر گئے۔ لباس تبدیل کیا۔ اتنی دیر میں ان کے ملازم نے ملاقاتی کو ڈرائنگ روم میں بٹھایا اور پانی پلایا۔ پھر مگسی صاحب اندر سے آئے‘ بہت نرمی سے کہا کہ میں ہی ملٹری اکائونٹنٹ جنرل ہوں‘ فرمائیے‘ آپ کے لیے کیا کر سکتا ہوں؟ وہ پریشان ہوا لیکن سردار صاحب نے تسلی دی کہ کوئی بات نہیں‘ آخر تم مجھے پہچانتے تھوڑی ہی تھے!
ہمارے ایک اور بزرگ سید شوکت حسین کاظمی ہیں! یہ جو مشہور شعر ہے‘ جسے لوگ اقبال کا شعر سمجھتے ہیں: تندیٔ باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب؍ یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے‘ یہ اْن کے والدِ گرامی سید صادق حسین مرحوم کا ہے۔ ایک زمانے میں شوکت کاظمی صاحب برّی فوج کے مالی مشیر کے عہدے پر تعینات تھے اور جی ایچ کیو میں بیٹھتے تھے۔ ان سطور کا راقم ان کا نائب تھا۔ ان سے ہم نے ایک بہت بڑا سبق سیکھا۔ وہ ادنیٰ سے ادنیٰ ماتحت کا تعارف کراتے وقت بھی کبھی نہیں کہتے تھے کہ یہ نائب قاصد ہے یا پی اے ہے یا ڈرائیور ہے۔ ہمیشہ کہتے کہ یہ ہمارے کولیگ (رفیق کار) ہیں! بعد میں وہ وفاقی سیکرٹری کے منصب پر بھی فائز ہوئے۔ ان کے دفتر اور گھر کے دروازے ہمہ وقت ہر سائل کے لیے کھلے رہتے تھے۔
یہ جو بادشاہ پہلے زمانوں میں بھیس بدل کر شہروں کے گلی کوچوں میں پھرتے تھے تو ایک مقصد تو ظاہر ہے یہی تھا کہ رعایا کے احوال سے براہِ راست آگاہی ہو۔ (موجودہ دور کی بات ہے کہ اسکینڈے نیویا کے ایک ملک کا وزیراعظم کچھ عرصہ ٹیکسی ڈرائیوری کرتا رہا تاکہ عوام کے خیالات کا اندازہ لگا سکے) مگر ایک فائدہ یہ بھی تھا کہ بادشاہ عام آدمی بن کر شہر میں پھرے گا‘ ساتھ پروٹوکول ہو گا نہ ہٹو بچو کی آوازیں‘ تو بادشاہ کی ’’میں‘‘ کچھ دیر کے لیے دب جائے گی اور انانیت کے خول سے باہر نکل سکے گا۔ یہ ایک لحاظ سے نفس کی سرکشی کا علاج بھی تھا۔ کیا عجب‘ اولیا اور فقرا بادشاہوں کو نصیحت کرتے ہوں کہ دن کو نہیں تو رات ہی کو بادشاہی کا طوق گلے سے اتار کر کچھ دیر کے لیے خدا کے عام بندوں کی طرح چلو پھرو۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
فلسطین کی صورتحال اور امتِ مسلمہ کی ذمہ داری
غزہ کی صورتحال، فلسطین کی صورتحال، دن بدن نہیں لمحہ بہ لمحہ گھمبیر سے گھمبیر تر ہوتی جا رہی ہے اور اسرائیل تمام اخلاقیات، تمام قوانین، تمام معاہدات کو پامال کرتے ہوئے اس درندگی کا مظاہرہ کر رہا ہے اور اس پر دنیا کی خاموشی بالخصوص عالمِ اسلام کے حکمرانوں پر سکوتِ مرگ طاری ہے۔ مجھے تو بغداد کی تباہی کا منظر نگاہوں کے سامنے آ گیا ہے، جب تاتاریوں کے ہاتھوں خلافتِ عباسیہ کا خاتمہ ہوا تھا، بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی تھی، اور اس وقت بھی کم و بیش یہی صورتحال تھی، آج پھر ’’بغداد‘‘ کی تباہی کا منظر ہمارے سامنے ہے، اسرائیل اور اس کے پشت پناہ، آج وہ چادر جو انہوں نے اوڑھ رکھی تھی، مغرب نے، امریکہ نے، یورپی یونین نے، عالمی طاقتوں نے، انسانی حقوق کی، بین الاقوامی معاہدات کی، انسانی اخلاقیات کی، وہ آج سب کی چادر اسرائیلی درندگی کے ہاتھوں تار تار ہو چکی ہے۔لیکن اس سے زیادہ صورتحال پریشان کن، اضطراب انگیز یہ ہے کہ مسلم حکمران بھی اسی مصلحت کا، مصلحت نہیں بے غیرتی کا شکار ہو گئے ہیں۔ آج او آئی سی (اسلامی تعاون تنظیم) کو، عرب لیگ کو، مسلم حکمرانوں کو، جو کردار ادا کرنا چاہیے تھا وہ اس کے لیے مل بیٹھ کر سوچنے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں۔ اور امتِ مسلمہ، عالمِ اسلام سناٹے کے عالم میں اپنے حکمرانوں کو دیکھ رہی ہے کہ یہ ہمارے ہی حکمران ہیں، کون ہیں یہ؟لے دے کے دینی حلقوں کی طرف سے دنیا بھر میں کچھ نہ کچھ آواز اٹھ رہی ہے، جو اس بات کی علامت ہے کہ ملتِ اسلامیہ بحیثیت ملتِ اسلامیہ اپنے حکمرانوں کے ساتھ نہیں، اپنی دینی قیادتوں کے ساتھ ہے جو کسی نہ کسی انداز میں اپنی آواز بلند کر رہے ہیں، اس آواز کو زیادہ سے زیادہ مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔میں اس موقع پر دنیا بھر کے دینی حلقوں سے، علماء کرام سے، یہ گزارش کرنا چاہوں گا کہ آج کی صورتحال کو سمجھنے کے لیے تاتاریوں کی یلغار اور بغداد کی تباہی کا ایک دفعہ پھر مطالعہ کر لیں، کیا ہوا تھا؟ کس نے کیا کیا تھا؟ اور کون سے حلقے تھے جنہوں نے ملتِ اسلامیہ کی تباہی کی راہ ہموار کی تھی اور کون سے لوگ تھے جنہوں نے اس وقت ملتِ اسلامیہ کو سہارا دیا تھا؟ مجھے اس وقت کی دو بڑی شخصیتیں ذہن میں آ رہی ہیں (۱) شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالیٰ اور (۲) شیخ الاسلام عز الدین بن عبد السلام رحمہ اللہ تعالیٰ، دینی قیادت تھی، سامنے آئے تھے، امت کو سنبھالا تھا، مقابلہ کر سکے یا نہ کر سکے، امت کو سنبھالنا، امت کا حوصلہ قائم رکھنا، اور اپنے مشن کے تسلسل کو قائم رکھنا، یہ تو بہرحال بہرحال دینی قیادتوں کی ذمہ داری ہے، علماء کرام کی ذمہ داری ہے کہ حمیت کو باقی رکھیں، غیرت کو باقی رکھیں۔تو میری پہلی درخواست تو علماء کرام سے ہے، کسی بھی مکتبِ فکر سے تعلق رکھتے ہوں، کسی بھی فقہی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں، کسی بھی علاقے سے تعلق رکھتے ہوں، کہ آج شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ اور شیخ الاسلام عز الدین بن عبد السلامؒ کے کردار کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے اور یہی ہماری سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔ ویسے تو فقہاء نے لکھا ہے کہ دنیا کے کسی بھی کونے میں مسلمان مظلوم ہوں، ذبح ہو رہے ہوں، تو دنیا بھر کے مسلمانوں پر جہاد فرض ہو جاتا ہے، ہماری فقہی صورتحال تو یہ ہے، درجہ بدرجہ ’’ علی الاقرب فالاقرب‘‘ ، ’’الاول فالاول‘‘۔ لیکن بہرحال مجموعی طور پر ہم امتِ مسلمہ پر جہاد کی فرضیت کا اصول اس وقت لاگو نہیں ہو گا تو کب لاگو ہو گا۔
لیکن بہرحال ہمیں اپنے اپنے دائرے میں امتِ مسلمہ کا حوصلہ قائم رکھنے کے لیے، بیدار رکھنے کے لیے، فکری تیاری کے لیے۔اور دو تین محاذ ہمارے ہیں: ایک تو یہ ہے کہ علماء کرام ہر علاقے میں ہر طبقے میں ہر دائرے میں اپنے کردار کو اپنے حوصلے کو قائم رکھتے ہوئے امت کا حوصلہ قائم رکھنے کی کوشش کریں۔ دوسری بات یہ ہے کہ آج ایک محاذ میڈیا وار کا بھی ہے، لابنگ کا بھی ہے، اس میں جو لوگ صلاحیت رکھتے ہیں ان کو کوتاہی نہیں کرنی چاہیے، اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ اور تیسرا محاذ بائیکاٹ کا ہے، اب تو یہ مرحلہ آ گیا ہے، اسرائیل نہیں، اس کے سرپرستوں کے معاشی بائیکاٹ کی بھی ضرورت پیش آ رہی ہے، اور یہ معاشی بائیکاٹ کوئی نئی چیز نہیں ہے، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں معاشی بائیکاٹ حضورؐ کا بھی ہوا ہے، حضورؐ نے بھی کیا ہے۔ شعبِ ابی طالب میں حضورؐ کا ہوا تھا، غزوہ خندق میں حضورؐ نے کیا تھا۔ اور اس کی مختلف مثالیں موجود ہیں۔تو لابنگ کی جنگ، میڈیا کی جنگ، حوصلہ قائم رکھنے کی جنگ، اور معاشی بائیکاٹ، اس میں جس قدر ہم زیادہ توجہ دے سکیں۔ کوئی لکھ سکتا ہے تو لکھے، بول سکتا ہے تو بولے، خرچ کر سکتا ہے تو خرچ کرے، کوئی لوگوں کے ساتھ رابطے کر سکتا ہے تو رابطے کرے۔ جو بھی کسی میں صلاحیت ہے، آج یہ وقت ہے، جو بھی کسی کے پاس موقع ہے، توفیق ہے، صلاحیت ہے، وہ اس کو اپنے فلسطینی بھائیوں کے لیے، فلسطین کی آزادی کے لیے، اسرائیلی درندگی کی مذمت کے لیے، اس میں رکاوٹ کے لیے، مسجد اقصیٰ بیت المقدس کی آزادی کے لیے، جو بھی کر سکتا ہے وہ کرے۔ہمارے والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمۃ اللہ علیہ ایک مثال دیا کرتے تھے کہ حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کو جب آگ میں ڈالا گیا تو ایک چڑیا چونچ میں پانی ڈالتی تھی، ایک پرندہ تھا، اس سے کسی نے پوچھا، تیرے پانی ڈالنے سے کیا ہو گا؟ اس نے کہا، ہو گا یا نہیں ہو گا، میری جتنی چونچ ہے اتنا پانی تو میں ڈالوں گی۔ یہ کم از کم کہ جو ہم کر سکتے ہیں وہ تو کریں، میں دیانت داری کے ساتھ (کہوں گا) کہ مجھے، سب کو اپنے اپنے ماحول کو دیکھنا چاہیے، اپنی اپنی توفیقات کو دیکھنا چاہیے اور جو کر سکتے ہیں اس میں کوتاہی نہیں کرنی چاہیے۔اللہ تبارک و تعالیٰ ہمارے مظلوم فلسطینی بھائیوں پر رحم فرمائے، ہم پر رحم فرمائے۔ مولا کریم! فلسطین کی آزادی، غزہ کے مسلمانوں کی اسرائیلی درندگی سے گلوخلاصی، اور اسرائیل اور اس کے سرپرستوں کی بدمعاشی سے نجات دلانے کے لیے اللہ پاک ہمیں توفیق عطا فرمائیں اور خود مہربانی فرمائیں، فضل فرمائیں کہ اس مرحلے پر عالمِ اسلام کی، امتِ مسلمہ کی دستگیری فرمائیں، ان کو اس عذاب سے نجات دلائیں۔