"گلگت بلتستان ترقی یافتہ استعمار کی زد میں" کالم پر ایک مختصر تبصرہ
اشاعت کی تاریخ: 11th, February 2025 GMT
اسلام ٹائمز: استعمار کی ترقی یافتہ شکل میں مذہب، عقائد، کلچر، تہذیب و تمدن، تعلیم و تربیت اور لوگوں کے نظریات اصلی ٹارگٹ تھے، جن تک پہنچنے کیلئے انکا بنیادی سہارا میڈیا تھا۔ آج کا میڈیا؛ پرنٹ، الیکٹرانک ہو یا سوشل(میڈیا یہ سب) ترقی یافتہ استعمار کی خدمت میں سرگرم ہیں۔ گلگت بلتستان کی جغرافیائی اہمیت ایک طرف اور خطہ کی متنازع آئینی اور سیاسی حیثیت دوسری طرف، اس بات کا سبب بنی کہ عرصہ دراز سے عالمی طاقتوں کی نظریں اس علاقہ پر مرکوز ہوں۔ یہ علاقہ قدیم نوآبادیات کی زد میں تو پہلے سے ہی رہا ہے، لیکن استعمار نو کے بعد اب استعمار کی ترقی یافتہ شکل بھی اپنی پوری تیاری کیساتھ یہاں مصروف عمل ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ کے بعد اس علاقہ کی اہمیت دوچنداں ہوگئی ہے۔ تحریر: عارف بلتستانی
arifbaltistani125@gmail.
استعمار کے نام، اقسام اور کام سے تو سب آشنا ہی ہوں گے۔ اگر آشنا نہیں ہیں تو آئیے گلگت بلتستان پر ایک نظر ڈالیئے۔ استعمار کی تینوں اقسام (استعمار قدیم، استعمار جدید، استعمار نامرئی) ایک ہی وقت میں مصروف عمل ہیں۔ جی بی وزراء کا امریکی دورے پر سیاسی معاہدہ ہو یا لینڈ ریفام ایکٹ، علمی و تحقیقی اداروں میں کلچر شو ہو یا ریسرچ ٹریکنگ کے نام سے دو دو ہفتے یونیورسٹی کی جوان لڑکیوں اور لڑکوں کا پہاڑوں اور جنگلوں کے راستوں پر پیدل سفر ہو۔ جوانوں کی ٹک ٹاک پر شعبدہ بازیاں ہوں یا حکومت کی ناکام تعلیمی پالیسی ہو۔ جنسی بے راہ روی ہو یا لواط و ریپ جیسے ہر عمل پر مصلحت آمیز صلح ہو۔ اگر مہذب قوم ہو تو افراط و تفریط کے اس طور و طریقے اور حرمت شکنی پر سوال تو اٹھے گا اور اٹھنا بھی چاہیئے۔ آخر ایسا کیوں اور کس کی ایما پر؟ ان تمام کے پس پردہ آیا استعماری طاقتوں کا ہاتھ ہے۔؟
خیر مختصر یہ کہ بلتستان میں استعمار اور ان کے کاموں پر کچھ کالم کا مطالعہ کر رہا تھا۔ برادر ذاکر حسین میر نے بہترین انداز میں اس پر قلم اٹھایا ہے۔ کوشش کی ہے کہ اس کو مختصراً آپ قارئین کی خدمت میں پیش کروں۔ موصوف نے استعمار کی تاریخ اور اس کی اقسام کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ "استعمار کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ قدیم استعمار یا کلاسیک استعمار کا آغاز سولہویں صدی میں دور رنسانس کے بعد شروع ہوا ہے۔ یہ مدت جو 400 سال پر مشتمل تھی، اس کے دوران استعماری قوتیں ڈائریکٹ فوجی مداخلت کے ذریعے کمزور اور پسماندہ اقوام اور ملل پر مسلط رہی ہیں۔ اس طریقہ کار کی سب بڑی خامی یہ تھی کہ ایک طرف اس کے ساتھ سنگین فوجی اور جنگی اخراجات تھے، جبکہ دوسری طرف ان کے خلاف لوکل مزاحمتی تحریکیں ایک غیر متوقع چیلنج کے طور پر سامنے آتی تھیں۔ یہی وجہ بنی کہ استعمار قدیم نے اپنے طریقہ کار پر نظرثانی کی اور نیو کلونائزیشن یا جدید استعمار کے روپ میں ظاہر ہوا۔
جنگ عظیم دوم کا خاتمہ اور ساتھ ہی دو طاقتوں امریکہ و روس کا ابھرنا اور یورپی طاقتوں کا انحطاط استعمار جدید کے وجود میں آنے کے اصلی اسباب ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر آنے والی اس بڑی تبدیلی نے یورپی ممالک کے روابط کو ان کی کالونیز کے ساتھ یا تو کمزور یا پھر سرے سے ختم کر دیا تھا۔ استعمار کے خلاف اٹھنے والی مزاحمتی تحریکیوں نے سامراج کو اپنی پالیسی تبدیل کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔ استعمار جدید نے زمینوں پر قبضہ جمانے کی پالیسی چھوڑ کر ملکوں کی سیاست اور حکمرانوں کو اپنا تابع بنانا شروع کیا، باہر سے جنگ مسلط کرنے کی جگہ ملکوں کو داخلی جنگوں میں دھکیل دیا، علی الاعلان مداخلت چھوڑ کر مختلف ایجنسیز کا جال بچھا دیا اور سول وار کو مضبوط بنانے کے لئے مختلف ملکوں میں تربیت یافتہ عسکری و غیر عسکری گروپ تشکیل دیئے، لیکن اس کے نتایج بھی استعمار قدیم سے چنداں مختلف نہ تھے۔
وہی اخراجات جنہیں استعمار قدیم جنگوں میں خرچ کرتے تھے، استعمار جدید کو سول وارز میں خرچ کرنا پڑا۔ اس کے علاوہ مقامی مزاحمتی تحریکوں کا مسئلہ جوں کا توں باقی رہا بلکہ پہلے سے کہیں زیادہ پیچیدہ صورت اختیار کر گیا۔ یوں نیو استعمار نے دوبارہ اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کی اور دیکھتے ہی دیکھتے دنیا استعمار کی ایک ترقی یافتہ شکل اختیار کرگیا۔ استعمار کی ترقی یافتہ شکل کا پورا دھیان لوکل مزاحمتی تحریکوں کو دبانا اور ان کی جگہ ایسے گروہوں کو وجود میں لانا تھا، جو استعمار کو ایک انسان دوست، ترقی پسند، دلسوز اور تمام مسائل کے لئے مشکل کشا کے طور پیش کریں۔ اس طرح ترقی یافتہ استعمار کی پالیسی "تھوڑا دو اور بہت کچھ لو" کی بنیاد پر آگے بڑھنے لگی، تاکہ لوکل اینٹی استعمار نہ صرف مخالفت چھوڑ دیں، بلکہ ہر سطح پر ان کا دفاع بھی کریں۔
استعمار کی ترقی یافتہ شکل میں مذہب، عقائد، کلچر، تہذیب و تمدن، تعلیم و تربیت اور لوگوں کے نظریات اصلی ٹارگٹ تھے، جن تک پہنچنے کے لئے ان کا بنیادی سہارا میڈیا تھا۔ آج کا میڈیا؛ پرنٹ، الیکٹرانک ہو یا سوشل(میڈیا یہ سب) ترقی یافتہ استعمار کی خدمت میں سرگرم ہیں۔ گلگت بلتستان کی جغرافیائی اہمیت ایک طرف اور خطہ کی متنازع آئینی اور سیاسی حیثیت دوسری طرف، اس بات کا سبب بنی کہ عرصہ دراز سے عالمی طاقتوں کی نظریں اس علاقہ پر مرکوز ہوں۔ یہ علاقہ قدیم نوآبادیات کی زد میں تو پہلے سے ہی رہا ہے، لیکن استعمار نو کے بعد اب استعمار کی ترقی یافتہ شکل بھی اپنی پوری تیاری کے ساتھ یہاں مصروف عمل ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ کے بعد اس علاقہ کی اہمیت دوچنداں ہوگئی ہے۔"
برادر ذاکر حسین میر نے بہترین طریقے سے استعمار کی قسموں پر قلم اٹھایا ہے۔ یہ خود اس بات پر دلیل ہے کہ بلتستان کے باشعور جوان اس طرف بھی نظر رکھتے ہیں۔ اپنے قلم کو نئی نسل کو شعور کی طرف لانے کے لئے حرکت میں لا رہا ہے۔ جو لوگ استعمار کے چال چلن کو ترقی و تعمیر کا نام دیتے ہیں، ان کے لئے لمحہ فکر ہے کہ مفادات کی خاطر قوم و ملت کے مستقبل داؤ پر لگا رہے ہیں، یا اپنے فکری آقا کی نامرئی ایما پر چل رہے ہیں۔؟ آیا ہر قلم کار جس صنف اور طبقے سے بھی تعلق رکھتے ہوں، وہ اس طرح لوگوں کے علم و شعور اور آگہی میں اضافہ کرکے بیدار کرنے کے لئے قلم کو حرکت دیں گے۔؟ آیا قومی میراث، قومی ثقافت، قومی زبان، قومی تاریخ کو بیان کرنا اور اس کی حفاظت کرنا ہم میں سے ہر ایک کی ذمہ داری نہیں ہے۔؟ آیا سوشل ایکٹوسٹ، سماجی شخصیات اور سنجیدہ قلم کاروں کو علاقے کی حساس اور نامرئی طاقت کی سازشوں سے عوام کو آگاہ رکھ کر ان سے مقابلہ کرنے کے راستے کو بیان کرنا اور اس کی نشاندہی کرنا ضروری نہیں ہے۔؟
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ترقی یافتہ استعمار کی گلگت بلتستان استعمار کے اس علاقہ کے لئے کے بعد
پڑھیں:
وزیر اعلیٰ کے مشیر کا بیان خطے کے سیاسی و سماجی ماحول پر ایک سنگین سوال ہے، شیعہ علماء کونسل گلگت
شیعہ علما کونسل گلگت کے جنرل سیکرٹری شیخ علی محمد عابدی نے ایک بیان میں کہا کہ کسی حکومتی نمائندے کی جانب سے تند و تیز، ذاتی نوعیت اور غیر شائستہ انداز میں گفتگو نہ صرف قابلِ افسوس ہے بلکہ اس سے خطے کی حساس فضاء کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔ اسلام ٹائمز۔ شیعہ علماء کونسل ضلع گلگت کے جنرل سکریٹری شیخ علی محمد عابدی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ مورخہ 19 اپریل 2025ء کو جاری ہونے والی مشیر وزیراعلیٰ گلگت بلتستان مولانا محمد دین کی پریس ریلیز محض ایک بیان نہیں بلکہ گلگت بلتستان کے سیاسی و سماجی ماحول پر ایک سنگین سوال ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس خطے کی شناخت پرامن بقائے باہمی، مذہبی رواداری اور اجتماعی شعور ہے۔ ایسے میں کسی حکومتی نمائندے کی جانب سے تند و تیز، ذاتی نوعیت اور غیر شائستہ انداز میں گفتگو نہ صرف قابلِ افسوس ہے بلکہ اس سے خطے کی حساس فضاء کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔ وزیراعلیٰ گلگت بلتستان سے ہمارا سوال ہے کہ کیا مشیر موصوف کی یہ پریس ریلیز آپ کی منظوری سے جاری کی گئی؟ اگر ہاں، تو یہ طرز حکمرانی پر سوالیہ نشان ہے کہ ایک حکومت اپنے عوام سے اس انداز میں مخاطب ہو رہی ہے جو نفرت، تقسیم اور اشتعال کو ہوا دے رہا ہے۔ اور اگر یہ بیان آپ کی اجازت یا علم کے بغیر جاری کیا گیا ہے تو آپ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ایسے غیر سنجیدہ اور نالائق مشیروں کو فوراً برطرف کریں تاکہ حکومت کی نیک نامی، شفافیت اور سنجیدگی پر عوام کا اعتماد قائم رہ سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ مشیر موصوف نے خطیب جامع مسجد امامیہ گلگت جناب آغا سید راحت حسین الحسینی جیسے محترم، سنجیدہ اور باوقار عالم دین کے خلاف جو زبان استعمال کی، وہ گلگت بلتستان کے مہذب سیاسی و سماجی کلچر سے متصادم ہے۔ ان کی باتوں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اختلاف رائے کو ذاتی حملے سمجھتے ہیں اور سنجیدہ تنقید کا جواب اخلاقیات کے دائرے سے باہر نکل کر دینا مناسب سمجھتے ہیں۔ حکومتی پالیسیوں پر تنقید اور سوال اٹھانا ہر باشعور شہری، خصوصاً اہل علم کا آئینی، اخلاقی اور سماجی حق ہے۔ اگر حکومت کی پالیسیاں واقعی عوامی مفاد پر مبنی ہیں تو دلیل و حکمت سے عوام کو مطمئن کیا جائے، نہ کہ ان پر الزام تراشی کر کے ان کی زبان بند کرنے کی کوشش کی جائے۔ مشیر موصوف کا یہ کہنا کہ "دین کو سیاست سے الگ رکھا جائے" نہ صرف فکری گمراہی کی نشانی ہے بلکہ اس قوم کے نظریاتی اساس سے انحراف بھی ہے۔ پاکستان کا قیام ہی کلمہ طیبہ ”لا الہ الا اللہ“ کے نام پر ہوا تھا، اور اس ملک کی بقاء اسی وقت ممکن ہے جب دین اور سیاست کو ہم آہنگی سے مربوط کیا جائے۔