ختم نبوت لائرزفورم کی علامہ حمادی کی آخری آرام گاہ پر آمد
اشاعت کی تاریخ: 11th, February 2025 GMT
ٹنڈوآدم(پ ر)ختم نبوت لائرز فورم کی علامہ حمادی کی آخری آرامگاہ پر آمد رقت آمیز مناظر، چیئرمین میئو منظوراحمد کا علامہ حمادی کو خراج عقیدت اور تحفظ ختم نبوت کا مشن جاری رکھنے کا عزم۔ تفصیلات کے مطابق کراچی سے ختم نبوت لائرز فورم کا ایک بہت بڑا وفد چیئرمین ختم نبوت لائرز فورم میئو منظور احمد راجپوت ایڈووکیٹ کی سربراہی میں اسماعیل شاہ قبرستان کھنڈو روڈ ٹنڈو ادم میں واقع تنظیم تحفظ ناموس خاتم الانبیا پاکستان کے بانی سربراہ علامہ احمد میاں حمادی کی آخری آرامگاہ پر فاتحہ خوانی کیلئے پہنچا،وفد میں میئو منظور احمد راجپوت ایڈووکیٹ کے ساتھ محمد نذیر تنولی ،ایڈووکیٹ رحیم خان ایڈووکیٹ، رانا ذیشان ایڈووکیٹ، سرکاری ایڈووکیٹ ثریاخانزادہ ڈی ڈی اے، خاور منظور ایڈووکیٹ، زاہد حسین ایڈووکیٹ ، سرفراز، دانیال ، ارمان اورسرفراز احمد و دیگر شامل تھے۔اس موقع پر تنظیم تحفظ ناموس خاتم الانبیا پاکستان کے سربراہ مفتی محمد طاہر مکی مرکزی رہنما قاری عبدالرحمن الحذیفی حافظ شیر اسامہ بن طاہر شبان ختم نبوت سندھ کے سربراہ محمد محرم علی راجپوت اور دیگر رہنما موجود تھے۔ختم نبوت لائرز فورم کے چیئرمین میئو منظور احمد ایڈووکیٹ نے اس موقع پر علامہ احمد میاں حمادی کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ختم نبوت کے تحفظ اور فتنہ قادیانیت کے تعاقب کے لیے علامہ احمد میاں حمادی کی دیوانہ وار خدمات ناقابل فراموش ہیں، فتنہ قادیانیت ہی نہیں ہرگستاخ رسول کے خلاف قانونی اور آئینی طور پر جتنا کام علامہ احمد میاں حمادی نے کیا ہے اس کی مثال ملک بھر میں نہیں ملتی۔ انہوں نے کہا کہ گوہر شاہی فتنہ جو مرزا غلام محمد قادیانی کے بعد اس صدی کا سب سے بڑا فتنہ ہے علامہ احمد میاں حمادی نے انسداد دہشتگردی کورٹ میں قانونی اور آئینی طور پر اس کا مقابلہ کر کے اس کے ناک میں نکیل ڈالی۔ اس کے علاوہ میئو منظور احمد راجپوت کا کہنا تھا کہ علامہ احمد میاں حمادی نے توہین خدا، رسالت، توہین قران ،توہین صحابہ اور مذہبی جذبات مجروح کرنے کے سیکڑوں ملزموں پرمقدمات اعلیٰ عدالتوں میں درج کروائے ہوئے ہیں جس کی وکالت میں منظور احمد ایڈووکیٹ اورختم نبوت لائرز فورم کر رہا ہے۔منظور احمد ایڈووکیٹ راجپوت نے کہا کہ علامہ احمد میاں حمادی کی مذہبی اور عقیدہ ختم نبوت سے متعلق خدمات کو جس قدر خراج تحسین پیش کیا جائے کم ہے۔علامہ احمد میاں حمادی کی آخری ارام گاہ پر حاضری کے وقت انتہائی رقت آمیز مناظر نظر آئے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: علامہ احمد میاں حمادی کی حمادی کی ا خری ا
پڑھیں:
بیوروکریسی کی کارکردگی جانچنے کا نیا نظام منظور، ایف بی آر پر تجربہ کامیاب
ملک میں سول سروس کی کارکردگی اور استعداد میں اضافے کیلئے بڑی اصلاحات لائی گئی ہیں اور کسٹمز اور ان لینڈ ریونیو کیلئے ایف بی آر میں ایک نئی پرفارمنس مینجمنٹ اسکیم متعارف کرائی گئی جسے سینٹرل سپیریئر سروسز کی تمام سروسز اور کیڈرز تک وسعت دی جائے گی تاکہ کارکردگی کی جائزہ رپورٹس (پرفارمنس ایویلیوایشن رپورٹس) ’’پی ای آرز‘‘ کے موجودہ ناقص اور ہیرا پھیری پر مبنی نظام کو تبدیل کیا جا سکے۔وزیر اعظم شہباز شریف نے اس سکیم کی منظوری دے دی ہے جس کے تحت ایف بی آر کے معاملے میں کسٹمز اور ان لینڈ ریونیو سروس (جسے انکم ٹیکس گروپ کے نام سے بھی پہچانا جاتا ہے) کے 98 فیصد افسران کی سابقہ درجہ بندی کو ’’شاندار‘‘ اور ’’بہت اچھا‘‘ کے طور پر کم کر کے صرف 40 فیصد کر دیا گیا ہے۔گزشتہ نظام کے تحت، کسٹمز اور انکم ٹیکس افسران کی 99؍ فیصد تعداد کو ان کی دیانتداری کے لحاظ سے بہترین (’’اے کیٹگری‘‘) قرار دیا جاتا تھا۔ نئے نظام کے تحت بہترین کارکردگی دکھانے والوں کو دوسروں کے مقابلے بہتر معاوضہ دیا جائے گا۔ کارکردگی اور اس کے نتیجے میں ملنے والے معاوضے کے پیکیج کا ہر 6 ماہ بعد جائزہ لیا جائے گا۔وزیر اعظم نے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن سے کہا ہے کہ وہ سینٹرل سپیریئر سروسز کی دیگر تمام سروسز اور کیڈرز کیلئے ایف بی آر کے نئے پرفارمنس مینجمنٹ سسٹم کا جائزہ لیکر اس پر عمل درآمد کرے۔خیال کیا جاتا ہے کہ یہ نظام ملک کی سول سروسز کی کارکردگی اور اس کے موثر ہونے کو ڈرامائی انداز سے تبدیل کر دے گا۔ نیا نظام موجودہ چیئرمین ایف بی آر راشد لنگڑیال کا آئیڈیا ہے، جنہوں نے اپنی ٹیم کے تعاون سے پوری اسکیم کو ڈیزائن، اس کا تجربہ اور پھر کسٹمز اور ان لینڈ ریونیو سروس کے ہر افسر کے گزشتہ 6 ماہ کے جائزے کے دوران اسے کامیابی سے نافذ کیا۔ ماضی میں تقریباً ہر افسر کو اس کی ساکھ اور کارکردگی سے قطع نظر ’’شاندار‘‘ ’’بہت اچھا‘‘ اور ’’بہت ایماندار‘‘ سمجھا جاتا تھا۔ لیکن اب نئے نظام کے تحت، ’’اے‘‘ کیٹیگری سے ’’ای‘‘ کیگٹری تک کی ہر کیٹیگری میں 20؍ فیصد افسران ہوں گے جن کا فیصلہ مکمل طور پر ڈیجیٹائزڈ کارکردگی کے نظام کی بنیاد پر کیا جائے گا اور اس میں افسران کے کام کے معیار اور ان کی ساکھ پر مرکوز رہے گی۔
نہ صرف ہر افسر کی کارکردگی کا جائزہ لینے کا نظام کسی بھی ممکنہ ہیرا پھیری یا مداخلت سے پاک ہے بلکہ بہتر گریڈ میں آنے والوں کو ان کی کارکردگی کی بنیاد پر معاوضہ بھی دیا جائے گا۔ ایف بی آر کے معاملے میں، اے کیٹگری کے 20 فیصد افسران کو چار گنا زیادہ تنخواہ ملنا شروع ہوگئی ہے، بی کیٹگری کے 20 فیصد افسران کو تین گنا، سی کیٹگری کے 20 فیصد افسران کو دو گنا جبکہ ڈی کیٹگری کے 20 فیصد افسران کو ایک اضافی تنخواہ مل رہی ہے۔ای کیٹگری کے افسران کیلئے کوئی اضافی معاوضہ نہیں۔ اس اسکیم کا ہر 6؍ ماہ بعد انفرادی لحاظ سے کارکردگی کی بنیاد پر جائزہ لیا جائے گا۔ ایف بی آر کے افسران کے معاملے میں شاید ہی چند ارب روپے کا ہی اضافی بوجھ ہو۔ کارکردگی جانچنے کے اس نئے نظام کو اس انداز سے ڈیزائن کیا گیا ہے کہ اس میں نہ تو کوئی چھیڑ چھاڑ ہو سکتی ہے نہ اس میں مداخلت کی جا سکتی ہے۔ کسی فرد، سینئر حتیٰ کہ حکمرانوں کی خواہشات کو بھی پورا کرنا ممکن نہیں۔ اس سسٹم کے تحت، پہلے ہی کسٹمز اور ان لینڈ ریونیو سروس کے 1500 سے زائد افسران پر تجربہ کرکے اسکیم پر عمل شروع کیا جا چکا ہے۔ ہر افسران کا 45 ساتھیوں (سینئرز، جونیئرز، سول سروس کے ساتھیوں اور بیچ میٹ) کے ذریعے ہر 6 ماہ بعد گمنام انداز سے فورسڈ رینکنگ سسٹم کے ذریعے جائزہ لیا جاتا ہے۔ فورسڈ رینکنگ سسٹم اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ 5 کیٹگریز میں ہر ایک میں20 فیصد افسران تک محدود رکھا جائے۔
اس کا مطلب ہے کہ کسی بھی سروس یا کیڈر میں 20 فیصد سے زیادہ ’’شاندار‘‘ کارکردگی والے افسران نہیں ہوں گے۔ 45 ساتھیوں کی شناخت کو مکمل طور پر گمنام رکھنے کیلئے جدید سائبر سیکیورٹی ٹولز کا استعمال کیا گیا ہے اور سسٹم کو مکمل طور پر ڈیجیٹائز کیا گیا ہے۔ سسٹم تک رسائی چیئرمین ایف بی آر اور ایف بی آر کے تین ممبران کو ہو گی تاہم ان میں سے کوئی بھی شخص کسی افسر کی رپورٹ کو تبدیل یا اس میں چھیڑ چھاڑ نہیں کر سکتا۔ ایف بی آر کے تینوں ممبران ڈیٹا تک صرف مشترکہ انداز سے رسائی حاصل کر سکتے ہیں، اور ڈیٹا تک رسائی کے حوالے سے کسی بھی غیر مجاز حرکت یا سرگرمی کی اطلاع 5 مختلف افراد تک پہنچ جائے گی تاہم، رپورٹ میں تبدیلی پھر بھی ممکن نہیں ہوگی۔45 افراد کو منتخب کرنے کیلئے ایک چار سطحوں پر مشتمل ایک طریقہ استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ سسٹم ایسے افراد کو منتخب کرتا ہے جو اُس افسر کو ممکنہ طور پر جانتے ہیں جس کی کارکردگی کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ یہ لوگ دیانتداری پر نمبر دیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ایک تکنیکی ٹیم افسر کے کام کے معیار کا بھی جائزہ لے گی۔تکنیکی پینل، جس میں ایف بی آر کے ریٹائرڈ افسران اور دیگر ٹیکس پریکٹیشنرز شامل ہیں، ڈیجیٹائزڈ سسٹم کے ذریعے بے ترتیب (رینڈم) انداز سے منتخب کردہ افسران کے کام کے معیار کا جائزہ لے گا۔ ایف بی آر نے نئی حکومت کے تحت گزشتہ 6 ماہ سے اپنے تمام افسران کا جائزہ (اسیسمنٹ) کامیابی سے مکمل کر لیا ہے۔