Express News:
2025-04-22@14:13:28 GMT

صرف 12 لوگ

اشاعت کی تاریخ: 11th, February 2025 GMT

عمران خان کے زمانے میں جنرل باجوہ اور وزیراعظم دونوں یو اے ای کے دورے پر گئے‘ متحدہ عرب امارات کے صدر محمد بن زید النہیان کے ساتھ ان کی ملاقات تھی‘ ملاقات کا مقصد اسٹیٹ بینک میں 3ارب ڈالر ڈیپازٹ کرانا تھے تاکہ پاکستان ڈیفالٹ سے بچ سکے۔

یو اے ای کے صدر نے رقم دے دی لیکن ساتھ ہی مشورہ دیا ’’وزیراعظم آپ اپنے لوگوں کو دولت بنانے دیں‘ یہ دولت بنائیں گے تو ملک چلے گا ورنہ آپ اسی طرح دوسرے ملکوں کے پیچھے دوڑتے رہیں گے۔

عمران خان کو یہ مشورہ اچھا لگا لہٰذا اس نے واپس آ کر معیشت کو کھول دیا اور یوں ملک کا معاشی پہیہ چلنے لگا اور پاکستان کی جی ڈی پی گروتھ چھ فیصد کراس کرگئی لیکن اس کے بعد حکومت بدل گئی اور ہم نے ایک بار پھر ملک کو صفر سے اسٹارٹ کر لیا۔

ایف بی آر کے موجودہ چیئرمین راشد لنگڑیال نے چند دن قبل معیشت کی اسٹینڈنگ کمیٹی میں ٹیکس کے اعدادوشمار دیے‘ ان کے انکشافات کے مطابق25 کروڑ لوگوں کے ملک میں صرف 12 افراد ہیں جن کی دولت 10 ارب سے زیادہ ہے جب کہ 10 کروڑ روپے کے اثاثوں سے زیادہ صرف 3500 لوگ ہیں۔ 

اس کا کیا مطلب ہے؟ اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں‘ ایک ہماری معیشت خفیہ ہے‘ لوگ اپنے اثاثے ظاہر نہیں کر رہے اور دو سرا ہماری معیشت کا سائز بہت چھوٹا ہے‘ ہم اگر تحقیق کریں تو ہم میں یہ دونوں نقص موجود ہیں‘ اول لوگ اپنی دولت چھپا کر رکھتے ہیں‘ اس کی وجہ ریاست کا رویہ ہے‘ ریاست عوام کے ساتھ ڈاکوؤں جیسا سلوک کرتی ہے۔

یہ لوگوں سے دن رات چھینتی رہتی ہے اور اس کے بدلے میں انھیں دیتی کچھ نہیں‘ میری اپنی آمدنی کا پچاس فیصد حکومت لے لیتی ہے لیکن اس کے بدلے میں آج تک اس نے مجھے صحت کی سہولت دی اور نہ تعلیم کی‘ میں اپنا کوڑا تک خود اٹھاتا اور اسے ٹھکانے لگاتا ہوں‘ سیکیورٹی کا بندوبست بھی خود کرنا پڑتا ہے اور یہ ذمے داریاں صرف یہاں تک محدود نہیں ہیں بلکہ دوسرے پچیس تیس لوگوں اور ان کے خاندانوں کا بوجھ بھی میرے سر پر لدا ہے۔

یہ لوگ بظاہر میرے پاس کام کرتے ہیں لیکن انھوں نے مجھے ملازم رکھا ہوا ہے اور میں دن رات ان کے لیے کام کرتا رہتا ہوں  جب کہ اس کے مقابلے میں میرے چند کلاس فیلوز نے تعلیم کے بعد سرکاری نوکری کر لی تھی‘ انھوں نے ایک امتحان دیا اور پوری زندگی کے لیے ریاست کے داماد بن گئے۔

حکومت اب انھیں رہائش بھی دیتی ہے‘ گاڑی بھی‘ پٹرول بھی‘ ڈرائیور بھی‘ بجلی اور گیس بھی‘ میڈیکل بھی‘ ہوائی سفر کے ٹکٹ بھی اور بچوں کی تعلیم کے اخراجات بھی‘ ان کے پاس سرکاری ملازم بھی ہیں‘ صرف ایک امتحان سے عمر بھر کے لیے یہ تمام سہولتیں چھوٹا سودا نہیں اوران سہولتوں کے بدلے ان کا کام کیا ہے؟

اگر کوئی مقدر کا مارا ان کے پاس انصاف کے لیے چلا جائے یا کسی کاروبار کی اجازت کے لیے ان کے پاس آ جائے تو یہ اسے ذلیل کر کے رکھ دیں‘ اس کی عزت نفس کچل کر اس کا مرونڈا بنا دیں‘ آپ اسی طرح ملک میں کوئی کاروبار کر کے دکھا دیں‘ اول آپ کو کاروبار کی فیزیبلٹی نہیں ملے گی۔ 

حکومت کے درجنوں ادارے ہیں لیکن کسی ادارے کے پاس کسی کاروبار کی فیزیبلٹی نہیں ہو گی‘ دوم آپ کو شروع میں کاغذات مکمل کرنے اور اجازتیں لینے کے لیے لاکھوں روپے چاہیے ہوں گے‘ انسان کا آدھا سرمایہ اور توانائی اس میں ضایع ہو جاتی ہے‘ اس کے بعد آپ کو ٹرینڈ ورکرز نہیں ملیں گے‘ آپ لوگ بھرتی کریں گے‘ آپ کے پاس ’’سی ویز‘‘ کا انبار لگ جائے گا۔

ملازمت کے متمنی امیدوار اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوں گے‘ یہ ایم بی اے اور ایم اے پاس ہوں گے مگر کام کسی کو نہیں آتا ہوگا‘ اس کی وجہ ہمارا نظام تعلیم ہے‘ ہم تعلیمی اداروں میں صرف ڈگری دیتے ہیں‘ صلاحیت پیدا نہیں کرتے چناں چہ نوجوان تعلیم کے بعد بھی والدین کا پلو پکڑ کر پھرتے رہتے ہیں۔ 

یہ ابو سے پوچھتے ہیں ہم کیا کریں اور والدین بے چارے ان کا سی وی اٹھا اٹھا کر سفارشیں تلاش کرتے رہتے ہیں‘ کاروبار کے لیے اس ہجوم سے لوگ تلاش کرنے پڑتے ہیں‘ ہمارے ملک میں کوئی ادارہ نہیں جو نوجوانوں کو ٹرینڈ کر سکے‘ سافٹ سکلز تو دور یہاں ہارڈ سکلز تک ڈویلپ نہیں کی جاتیں۔ 

ہم نے آج تک کسی کو پلمبرنگ‘ الیکٹریشننگ‘ پینٹنگ اور کارپینٹنگ کی ٹریننگ بھی نہیں دی‘ ملک میں ڈرائیونگ اسکول تک نہیں ہیں‘ آپ کسی ڈرائیور سے پوچھ لیں تم نے کس اسکول سے ڈرائیونگ سیکھی‘ آپ کو سو میں سے ایک بھی ٹرینڈ اور سرٹیفائیڈ ڈرائیور نہیں ملے گا۔

چناں چہ پھر ہیومین ریسورس کہاں سے آئے گا؟ بہرحال آپ جیسے تیسے لوگ بھرتی کرتے ہیں اور انھیں ٹرینڈ بھی کر لیتے ہیں لیکن اصل ذلالت اس کے بعد شروع ہوتی ہے‘ آپ کام اسٹارٹ کرتے ہیں اور کبھی بجلی چلی جاتی ہے اور کبھی گیس‘ یہ دونوں اگر موجود ہوں تو ان کے ریٹس ناقابل برداشت ہوتے ہیں۔ 

فیکٹری اور کمرشل ایریا میں سڑکیں‘ پانی اور سیکیورٹی نہیں ہوتی‘ آپ ملک کے کسی انڈسٹریل ایریا میں چلے جائیں آپ کو وہاں بنیادی سہولتیں نہیں ملیں گی‘ فیکٹریوں میں ڈاکے پڑ جاتے ہیں‘ روز ملک میں احتجاج ہوتے ہیں اور ریاست خود سڑکیں‘ شہر اور انٹرنیٹ بند کر دیتی ہے‘ رہی سہی کسر ملازمین پوری کر دیں گے‘ یہ ہڑتال کر دیں گے یا پھر کوئی دوسرا ان سب کو توڑ کر لے جائے گا اور یہ جاتے جاتے وہ ایڈوانس بھی لے جائیں گے جو انھوں نے وقتاً فوقتاً والدین اور بچوں کی بیماری اور تعلیم کے نام پر لیا ہوگا۔

سوم ملک میں ہر کاروبار کی اصل مالیت سے زیادہ رقم مارکیٹ میں پھنس جائے گی‘ آپ کی فیکٹریاں یا کاروبار کی راس دس کروڑ ہے لیکن مارکیٹ میں آپ کا 20 کروڑ پھنس جائے گا اور اس کو کور کرنے کے لیے آپ کو مسلسل کام کرنا پڑے گا‘ آپ جس دن کام بند کردیں گے اس دن آپ کی رقم ختم ہو جائے گی۔ 

کوئی دکان دار آپ کو رقم واپس نہیں کرے گا اور چہارم اس کے ساتھ ساتھ حکومت کے سیکڑوں ادارے تلواریں لے کر آپ کا پیچھا کرتے رہیں گے‘ دنیا بھر میں بزنس کے دو طریقے ہیں‘ آپ حکومت کو ٹیکس دیں یا پھر رشوت‘ پاکستان میں آپ کو دونوں دینے پڑتے ہیں لیکن اس کے بعد بھی آپ کی جان نہیں چھوٹتی کیوں کہ اس کے بعد آپ کے پاس جو بچ جاتا ہے وہ ڈاکو لے جاتے ہیں اور آپ جب پرچہ درج کرانے کے لیے تھانے جاتے ہیں تو پولیس آپ کے کپڑے اتروا لیتی ہے۔

ہم اگر کسی دن ٹھنڈے دل ودماغ سے سوچیں تو ہمیں ماننا ہو گا ہم من حیث القوم اینٹی بزنس‘ اینٹی پراگریس اور اینٹی سکسیس ہیں‘ ہم کام یاب لوگوں سے نفرت کرتے ہیں‘ پوری دنیا میں کام یاب لوگوں کی تعریف ہوتی ہے‘ انھیں ایوارڈز دیے جاتے ہیں جب کہ پاکستان میں انھیں ذلیل کیا جاتا ہے‘ ہم اینٹی پراگریس بھی ہیں‘ آپ کسی جگہ سڑک‘ ڈیم یا اسکول بنانا شروع کر دیں مقامی لوگ ڈنڈے لے کر آ جائیں گے‘ عدالت سے بھی اسٹے آرڈر آ جائے گا۔

اور رہ گیا بزنس تو آج بھی پوری ریاست بزنس مینوں کو چور سمجھتی ہے‘ یہ انھیں پیسے کا پتر اور لٹیرا کہتی ہے چناں چہ پھر کام کیسے ہو گا؟ ملک آگے کیسے بڑھے گا؟ آپ اس کے مقابلے میں انڈیا چلے جائیں‘ آپ کو اپروچ میں زمین آسمان کا فرق ملے گا‘ بھارت میں آج بھی 334 بلینئرز ہیں اگر ان کی دولت ایک بلین ڈالر بھی ہو تو یہ بھارتی روپوں میں 80 ارب اور پاکستانی میں 280 ارب روپے ہو گی،

جب کہ پاکستان میں صرف 12 لوگ ہیں جن کی دولت 10 ارب روپے سے زیادہ ہے لہٰذا آپ خود اندازہ کر لیجیے گنجی نہائے گی کیا اور نچوڑے گی کیا‘ آپ ان سے کیا وصول کر لیں گے؟ آپ اگر ان 12 لوگوں کی ساری دولت بھی ضبط کرلیں تو بھی ریاست کے سر درد کی ایک گولی نہیں آئے گی۔ 

اب سوال یہ ہے اس کا حل کیا ہے؟ حل بہت سادہ ہے‘ سرکار کا بوجھ کم کریں ‘ جتنے محکمے ہیں اتنی ہی رکاوٹیں ہیں ‘ بزنس کے راستے کی رکاوٹیں ختم کر دیں‘ کسی بھی شخص کو کام کرنے کے لیے ایک سرٹیفکیٹ سے زیادہ کی ضرورت نہ ہو اور وہ بھی آسانی سے مل جائے‘ کاروبار کے شروع میں ٹیکس میں رعایت دیں اور پھر آہستہ آہستہ ٹیکس بڑھاتے چلے جائیں۔ 

لوگ اپنے اثاثے اور دولت جتنی ڈکلیئر کرتے جائیں انھیں اتنی ہی سہولت ملتی جائے اگر دولت ڈکلیئر ہو گی تو پھر یہ استعمال بھی ہو گی اور اگر یہ استعمال ہو گی تو پھر سرکار کو ٹیکس ملے گا‘ لوگوں نے اگراسے ڈالر یا سونے یا کرنسی کی شکل میں دفن کر رکھا ہے تو ریاست کو کیا فائدہ؟۔

بزنس مینوں کے تمام مقدمے فوری طور پر نبٹا دیں اگر انھوں نے فراڈ کیا ہے تو انھیں سزا دیں اور فائل بند کر دیں اور اگر ان کے ساتھ زیادتی ہوئی تو اس کا ازالہ کر دیں تاکہ یہ لوگ کام کر سکیں‘ ہم جب لوگوں کا بہترین وقت سرکاری برآمدوں‘ عدالتوں اور جیلوں میں ضایع کر دیں گے تو پھر ملک آگے کیسے بڑھے گا‘ یہ کیسے چلے گا؟

حکومت کو چاہیے یہ سلیبس تبدیل کردے‘ ہمارا سلیبس نان پریکٹیکل ہے‘ حکومت کو چاہیے یہ اسے 80 فیصد پریکٹیکل اور 20 فیصد تھیوریٹیکل کر دے تاکہ نوجوان ڈگری کے ساتھ ساتھ مہارت لے کر مارکیٹ میں آئیں اور آخری مشورہ جو لوگ ٹیکس دے رہے ہیں آپ انھیں کچھ نہ دیں لیکن کم از کم عزت تو دے دیں۔

انھیں گاڑیوں کی آسان سیریز دے دیں‘ ان کا پراپرٹی ٹیکس معاف کر دیں یا پھر پراپرٹی کی خریدوفروخت میں سہولت دے دیں یا انھیں فیکٹری یا کمرشل پلاٹ قسطوں میں دے دیں‘ آپ انھیں کسی قسم کی عزت تو دیں‘ آخر ہم کب تک ان کی خدمات کا اعتراف جوتوں کی شکل میں کرتے رہیں گے۔

شاید یہی وجہ ہے لوگ جب کام کرتے ہیں تو ہم انھیں اتنا تنگ کرتے ہیں کہ یہ دوبئی جا کر بیٹھ جاتے ہیں اور دوبئی کی حکومت انھیں سر پر بٹھا لیتی ہے لہٰذا سوال یہ ہے اگر دوبئی ہمارے کارآمد لوگوں کو عزت دے سکتا ہے تو ہم کیوں نہیں دیتے؟ چناں چہ پلیز بزنس مینوں کو عزت دیں ورنہ 25کروڑ لوگوں میں سے صرف 12 ہی سامنے آئیں گے باقی دوسرے ملکوں میں بس جائیں گے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کاروبار کی اس کے بعد کرتے ہیں لے جائیں جاتے ہیں سے زیادہ ہیں لیکن انھوں نے تعلیم کے کے ساتھ ہیں اور جائے گا چناں چہ ملک میں کام کر اگر ان گا اور دیں گے کے لیے ہے اور کے پاس

پڑھیں:

Rich Dad -- Poor Dad

وہ پانچ بہن بھائی تھے‘ تین بھائی اور دو بہنیں‘ والد ٹھیکیدار تھا‘ جنرل ایوب خان کے دور میں ملک میں ترقیاتی کام شروع ہوئے‘ سڑکیں بنیں‘ ڈیم بننے لگے اور بجلی کی ٹرانسمیشن لائنیں بچھنے لگیں‘ والد نے اس دور کا بھرپور فائدہ اٹھایا‘ اس نے منگلا ڈیم سے مٹی نکالنے کا ٹھیکہ لیا‘ پھر سندھ میں اسکولوں کی عمارتیں بنانے اور آخر میں بلوچستان میں ہیلتھ یونٹس کی تعمیر کا کام سنبھال لیا‘ یہ کام، کام نہیں تھے‘ یہ سونے کی کانیں تھیں‘ والد ان کانوں کا جتنا سونا سمیٹ سکتا تھا اس نے سمیٹ لیا‘ وہ سمجھ دار آدمی تھا۔

 اس نے جو کمایا پراپرٹی میں لگا دیا‘ بچوں کی تعلیم و تربیت کا بندوبست بھی خوب کیا‘ لڑکے ایچی سن میں پڑھے اور لڑکیوں نے کانونٹ اسکولوں اور کالجوں میں تعلیم حاصل کی‘ والد نے بچوں کو دنیا کی ہر نعمت فراہم کی‘ یہ لوگ اس وقت ذاتی گاڑیوں پر اسکول اور کالج جاتے تھے جب نوے فیصد پاکستانی تانگوں پر سفر کرتے تھے‘ دنیا میں دولت 80 فیصد لوگوں کو خراب کر دیتی ہے‘ یہ لوگ شراب‘ شباب کباب اور جوئے کے عادی ہو جاتے ہیں یا پھر نمود ونمائش کے ذریعے اللہ کے دیے رزق کو آگ لگانے لگتے ہیں لیکن ان کا والد مختلف انسان تھا‘ دولت نے اسے خراب نہیں کیا‘ وہ آخری سانس تک سادہ اور شریف آدمی رہا‘ پانچ وقت کا نمازی‘ زندگی میں تین حج اور دس عمرے اور سگریٹ تک کو منہ سے نہیں لگایا‘ بچے بھی بہت اچھے تھے۔

 یہ پانچوں ایک دوسرے پر جان چھڑکتے تھے چنانچہ خاندان کی زندگی میں ہر طرف امن ہی امن‘ سکون ہی سکون اور خوش حالی ہی خوش حالی تھی لیکن پھر اچانک ہر چیز بدل گئی‘ حالات نے پلٹا کھایا‘ خاندان ٹوٹا اور پانچوں بہن بھائی ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو گئے‘ ان پانچوں کی باقی زندگی عدالتوں‘ کچہریوں اورو کیلوں کے دفتروں میں دھکے کھاتے گزری‘ کیوں؟ ہم اس کیوں کی طرف آنے سے پہلے اس واقعے کی طرف جائیں گے جو اس خوشحال فیملی کو بکھیرنے کی وجہ بنا‘ ان کا والد 1972ء میں اچانک فوت ہو گیا۔

 والد کی تدفین کے بعد جائیداد کے کاغذات اکٹھے کیے گئے‘ پتہ چلا والد نے کراچی‘ لاہور‘ کوئٹہ اور ڈھاکہ میں کروڑوں روپے کی کمرشل پراپرٹی چھوڑی‘ فیصل آباد کے مضافات میں زرعی زمین بھی تھی اور ملتان میں دو فیکٹریاں بھی۔ جائیداد کی تقسیم پہلا تنازع تھا جس نے ان بہن بھائیوں کو آمنے سامنے کھڑا کر دیا جنھیں ایک دوسرے کو دیکھے بغیر نیند نہیں آتی تھی‘ یہ تنازع بڑھتے بڑھتے دشمنی بن گیا‘ پانچوں بہن بھائی جائیداد میں حصے کے لیے عدالتوں میں گئے اور پھر اس کے بعد واپس نہ آئے‘ جائیداد کی دشمنی اب تیسری نسل میں منتقل ہو چکی ہے‘ اب کزن ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں‘ یہ لوگ بھی نہ جانے کب تک لڑتے رہیں گے۔

آپ یقینا ان پانچ بہن بھائیوں کو لالچی‘ مطلبی‘ کوتاہ فہم اور ظالم کہیں گے لیکن میں ان کو مظلوم اور بے گناہ سمجھتا ہوں‘ کیوں؟ کیونکہ میری نظر میں یہ لوگ لالچی‘ مطلبی‘ کوتاہ فہم اور ظالم نہیں ہیں‘ ان کا والد تھا‘ وہ ایک ایسا ظالم اور لالچی شخص تھا جو دنیا سے رخصت ہونے سے پہلے اپنی اولاد کے لیے فساد کی بے شمار جڑیں چھوڑ گیا‘ یہ والد کی چھوڑی ہوئی وہ زمین‘ جائیداد‘ ملیں اور رقم تھی جس نے 53 برسوں تک بچوں کو اکٹھے نہیں بیٹھنے دیا‘ جس نے انھیں ایک دوسرے کی خوشیوں اور غمیوں میں بھی جمع نہیں ہونے دیا اور جس نے بہن کو بہن اور بھائی کو بھائی نہیں رہنے دیا چنانچہ آپ فیصلہ کیجیے‘ ظالم اور لالچی کون تھا‘ بچے یا والد؟ آپ جتنا غور کریں گے۔

 آپ بھی اتنا ہی والد کو اس سارے فساد کا ذمے دار قرار دیں گے‘ اب سوال یہ ہے‘ کیا یہ صرف ایک خاندان یا چند لوگوں کی داستان ہے؟ جی نہیں‘ آپ دائیں بائیں دیکھیں‘ آپ کو اپنے ہر طرف ایسے ہزاروں خاندان نظر آئیں گے جن کے والدین اپنے بچوں کے لیے عمر بھر خوشحالی جمع کرتے رہے‘ جو زندگی بھر اپنی آل اولاد کے لیے دولت کے انبار لگاتے رہے لیکن جوں ہی ان کی آنکھ بند ہوئی‘ ان کی وہ اولاد ان کے جنازے میں ہی لڑ پڑی جس کی خوشحال اور مطمئن زندگی کے لیے وہ تنکا تنکا جمع کرتے رہے تھے‘ ان کی اولاد پھر کبھی اکٹھی نہ بیٹھ سکی۔

 بچے عمر بھر وکیلوں کے ذریعے ایک دوسرے سے مخاطب ہوتے رہے اور جب بچوں کا آخری وقت آیا تو ان کی کوئی بہن‘ بھائی‘ بھتیجا اور بھانجا ان کا منہ دیکھنے کے لیے نہیں آیا چنانچہ پھر ظالم کون ہوا‘ والد یا اولاد؟ آپ ان کے مقابلے میں اب ان لوگوں کو دیکھئے‘ جو اپنی اولاد کے لیے کچھ نہیں چھوڑ کر جاتے‘ یہ لوگ زندگی میں جتنا کماتے رہے‘ اتنا کھاتے رہے‘ کرائے کے چھوٹے مکانوں میں زندگی گزاری‘ گھر بنایا تو وہ بھی تنگ اور چھوٹا تھا‘ ایک آدھ گاڑی خریدی اور کپڑے اور جوتے بھی زیادہ نہیں تھے لیکن بچوں کی تربیت‘ تعلیم اور صحت پر بے انتہا توجہ دی‘ اپنی اولاد کو خود اسکول چھوڑ کر آئے‘ ان کے لیے کتابیں خریدیں‘ ان کے ساتھ میدانوں میں دوڑ لگائی‘ کرکٹ کھیلی‘ ہاکی اور فٹ بال سے لطف لیا‘ قہقہے لگائے‘ لطیفے سنائے اور باربی کیو کیا۔

 یہ لوگ جب یہ مشکل اور غریب زندگی گزار کر دنیا سے رخصت ہوئے تو ان کی اولاد کے پاس کوئی ایسی چیز موجود نہیں تھی جسے یہ آپس میں تقسیم کرتے اور اس تقسیم کے دوران کوئی تنازع پیدا ہوتا چنانچہ اولاد نہ صرف والدین کے انتقال کے بعد بھی ایک دوسرے سے ملتی رہی بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی محبت میں اضافہ بھی ہوتا گیا‘ آپ کبھی ملک میں ’’کزن میرجز‘‘ پر بھی تحقیق کریں‘ آپ یہ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے ’’کزن میرج‘‘ کرنے والے زیادہ تر لوگ وہ ہوتے ہیں جن کے دادا اور نانا ترکے میں زمین جائیداد چھوڑ کر نہیں جاتے‘ والدین نے کیونکہ دولت نہیں چھوڑی ہوتی چنانچہ بچے آپس میں ملتے رہتے ہیں اورجب ان کی اولاد جوان ہوتی ہے تو بھائی بھائی سے رشتہ مانگ لیتا ہے اور بہن اپنی بیٹی بھتیجے سے بیاہ دیتی ہے اور یوں محبت اور رشتے آگے بڑھتے جاتے ہیں جبکہ آپ ان کے مقابلے میں امیر خاندان کے بچوں کو اپنے کزنز کے گلے کاٹتے دیکھیں گے‘ یہ غریب اور امیر خاندانوں کی زندگی کا ایک پہلو ہے‘ آپ اب دوسرا پہلو بھی ملاحظہ کیجیے۔

میں نے زندگی میں غریب والدین کے زیادہ تر بچوں کو ترقی کرتے دیکھا‘ آپ بھی سروے کریں‘ آپ بھی زندگی کے مختلف شعبوں کے کامیاب لوگوں کا بیک گراؤنڈ دیکھیں‘ آپ کو اسی فیصد کامیاب لوگوں کا بچپن غربت اور عسرت میں لتھڑا دکھائی دے گا‘ والد غریب تھا‘ وہ لوہا کوٹتا تھا‘ وہ موچی‘ کسان‘ سیلز مین یا فیکٹری مزدور تھا‘ وہ کلرک یا سیکشن آفیسر تھا‘ وہ مزارع تھا یا پھر وہ معمولی دکاندار تھا لیکن بیٹا سیٹھ بن گیا‘ مل مالک‘ اعلیٰ افسر‘ جرنیل‘ سائنس دان یا اداکار ہو گیا‘ آپ یہ ڈیٹا جمع کریں اور پھر اپنے آپ سے پوچھیں‘ کیوں؟ اور کیسے؟ آپ وجہ جان کر حیران رہ جائیں گے۔

 غربت میں دس ہزار خرابیاں اور ایک لاکھ خامیاں ہوتی ہیں لیکن اس میں ایک ایسی حیران کن خوبی ہوتی ہے جو دنیا کی کسی دوسری چیز میں نہیں پائی جاتی‘ غربت دنیا کا سب سے بڑا طعنہ ہے‘ یہ طعنہ انسان کے اندر غربت کے خلاف شدید نفرت پیدا کر دیتا ہے اور انسان سینہ ٹھونک کر اس کے سامنے کھڑا ہو جاتا ہے‘ یہ غربت سے لڑ پڑتا ہے اور ہمیشہ کامیاب ہو جاتا ہے‘ میں غریب والدین کے کامیاب بچوں سے ہمیشہ عرض کرتا ہوں‘ آپ اللہ تعالیٰ کے بعد اپنے غریب والد کا شکریہ ادا کریں‘ کیوں؟ کیونکہ آپ کی یہ ساری کامیابی آپ کے والد کی غربت کا رد عمل ہے‘ آپ کو آپ کے ناکام اورغریب والد نے کامیاب اور امیر بنایا‘ آپ اگر بچپن میں غربت اور ناکامی نہ دیکھتے تو آپ کے دل میں کبھی ناکامی اور غربت کے خلاف اتنی نفرت پیدا نہ ہوتی اور آپ کے دل میں اگر یہ نفرت سر نہ اٹھاتی تو آپ کبھی کامیاب نہ ہوتے‘ میں اسی طرح سخت ماں باپ کے کامیاب بچوں سے بھی عرض کرتا ہوں‘ آپ اپنے والدین کی سختی کا شکریہ ادا کریں۔

 وہ اگر آپ پر سختی نہ کرتے تو آپ شاید گھر سے نہ بھاگتے‘ آپ شاید کتابوں‘ اسپورٹس اور کاروبار میں پناہ نہ لیتے اور شاید آپ میں حالات کے خلاف لڑنے کا اتنا حوصلہ پیدا نہ ہوتا‘ یہ حوصلہ‘ سختی کا مقابلہ کرنے کی یہ ہمت آپ کی کامیابی کا اصل گُر ہے اور آپ نے یہ گُر اپنے والدین کی سختی‘ ظلم اور منفی رویوں سے کشید کیا‘ وہ اگر نرم نہ ہوتے تو آپ اس وقت کامیابی کی آخری سیڑھی کی بجائے میاں چنوں میں بوریاں جھاڑ رہے ہوتے یا پھر آپ نے لاڑکانہ میں آلو چھولے کی ریڑھی لگائی ہوتی‘ یہ آپ کے والدین کی سختی تھی جس نے آپ کو زندگی کے نئے میدان تلاش کرنے پر مجبور کیا‘ یہ سختی تتلی کے انڈے کا وہ باریک سوراخ ثابت ہوئی جس سے نکلنے کی کوشش میں قدرت تتلی کے جسم پر خوبصورت پر اگا دیتی ہے‘ انڈے کا سوراخ جتنا چھوٹا ہوتا ہے‘ تتلی کے پر اتنے ہی خوبصورت اور لمبے ہوتے ہیں اور یہ سوراخ جتنا بڑا ہوتا ہے۔

 تتلی کے مرنے کے چانس بھی اتنے ہی بڑھ جاتے ہیں‘ زندگی میں اگر سختی‘ غربت اور مسائل نہ ہوں تو شاید دنیا میں کوئی ایڈیسن‘ آئن سٹائن‘ نیوٹن‘ شیکسپیئر‘ مائیکل اینجلو‘ مارک زکر برگ اور بل گیٹس پیدا نہ ہو‘ دنیا کے زیادہ تر کامیاب لوگ سختی اور غربت کی پیداوار ہوتے ہیں‘ یہ مشکلات کے کوکون سے نکلتے ہیں چنانچہ آپ اگر امیر ہیں تو آپ جان لیں آپ کی جائیداد آپ کے بعد آپ کے بچوں کو اکٹھا نہیں بیٹھنے دے گی اور آپ اگر غریب ہیں تو آپ ہرگز ہرگز شرمندہ نہ ہوں‘ آپ کی یہ غربت آپ کے بچوں کی کامیابی کا ذریعہ بنے گی اور یہ ان کو ایک دوسرے سے جوڑے بھی رکھے گی‘ غریب باپ امیر باپ کے مقابلے میں ہمیشہ فائدے میں رہتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • عوام کو اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کی ضرورت ہے ، عمران خان
  • پی ٹی آئی کو کرش کرنے کے لیے ملک کو بنانا ریپبلک بنا دیا گیا ، بانی پی ٹی آئی
  • فصلوں کے لحاظ سے یہ بہت ہی خراب سال ہے، اسد عمر
  • Rich Dad -- Poor Dad
  • فلسطین کی صورتحال اور امتِ مسلمہ کی ذمہ داری
  • حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
  • بجلی
  • یہودیوں کا انجام
  • پوپ فرانسس… ایک درد مند انسان
  • فلسطین: انسانیت دم توڑ رہی ہے