دباؤ اور دھمکیوں کیساتھ مذاکرات نہیں چل سکتے، عباس عراقچی
اشاعت کی تاریخ: 10th, February 2025 GMT
آزادی، استقلال اور بیرونی طاقتوں پر عدم انحصار کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ ایران کسی بھی صورت میں دھمکیوں اور دباؤ کا مثبت جواب نہیں دے گا۔ اسلام ٹائمز۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ سید محمد عباس عراقچی نے انقلاب اسلامی کی سالگرہ کے موقع پر منعقد ہونیوالی ریلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارے پاس اس بات کو قبول کرنے کی کوئی منطق نہیں ہے کہ ہم دباؤ اور دھمکیوں کیساتھ مذاکرات کریں۔ سید عباس عراقچی نے انقلاب اسلامی کی تاریخ اور انقلابی بیانیے کا حوالہ دیتے ہوئے آزادی، استقلال اور بیرونی طاقتوں پر عدم انحصار کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ایران کسی بھی صورت میں دھمکیوں اور دباؤ کا مثبت جواب نہیں دے گا اور ایرانی عوام کو اپنی تقدیر کا خود تعین کرینگے۔ ایرانی وزیر خارجہ نے امریکہ پر اعتماد کے فقدان کا بھی حوالہ دیا اور کہا کہ ایران نے پہلے نیک نیتی سے مذاکرات کیے لیکن نتیجہ کیا نکلا؟۔
انہوں نے کہا کہ 46 سال قبل ایرانی عوام نے ایک ظالم اور غیر ملکی انحصار حکومت کے خلاف فتح حاصل کی، نہ مشرق نہ مغرب کا نعرہ ایران کی خارجہ پالیسی کا عظیم اصول ہے، ایرانی قوم رہبر انقلاب کی قیادت میں استکبار کے خلاف کھڑی ہے اور کسی کو ایرانی قوم پر اپنی مرضی مسلط کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔ عراقچی کے الفاظ نہ صرف غیر ملکی دباؤ کے خلاف ایران کے مضبوط موقف کی نشاندہی کرتے ہیں بلکہ آزادی اور خود کفالت کی جدوجہد میں ایران کی قومی تاریخ اور ثقافت کی بھی عکاسی کرتے ہیں۔ ان بیانات کو عالمی برادری کے لیے ایک پیغام کے طور پر دیکھا جا رہا ہے کہ ایران اپنی شناخت اور خودمختاری کو برقرار رکھنا چاہتا ہے اور اپنی مرضی کو باہر سے مسلط کرنے کی کسی بھی کوشش کی مزاحمت کرے گا۔
واضح رہے کہ وائٹ ہاؤس کے نئے حاکم ایرانی قوم پر اپنے ناجائز مطالبات مسلط کرنے کے درپے ہیں۔ اس ماحول میں وزیر خارجہ یہ الفاظ ایران کے اپنی آزادی کو برقرار رکھنے اور غیر ملکی دباؤ کے سامنے نہ جھکنے کے عزم کی عکاسی کرتے ہیں۔ مبصرین کے مطابق ایران کے اسلامی انقلاب نے دیگر اقوام کے لیے ایک نمونہ ثابت ہوا، خاص طور پر مشرق وسطیٰ کے خطے میں، انقلاب اسلامی ایران نے نہ صرف مزاحمت کی تشکیل میں مدد کی بلکہ اقوام کو امریکہ کی قیادت میں عالمی استکبار کے خلاف کھڑے ہونے اور اپنے حقوق کے لیے لڑنے کی تحریک بھی دی۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کہ ایران ایران کے کے خلاف کہا کہ
پڑھیں:
ایران کا جوہری پروگرام(3)
اسلام ٹائمز: مسقط میں ہونیوالے جوہری مذاکرات کے دوران ایران ایک مضبوط پوزیشن میں تھا، یہی وجہ ہے کہ یہ بات چیت نہایت خوشگوار ماحول میں ہوئی۔ مستقبل میں بھی امریکہ کو مذاکرات میں لچک دکھانی پڑے گی، کیونکہ ایران کی جوہری صلاحیت اب اس مقام تک پہنچ چکی ہے، جہاں سے پیچھے ہٹنا ممکن نہیں۔ رواں حالات اور بین الاقوامی تجزیہ کاروں کی آراء کے مطابق، ایران مسقط مذاکرات کی میز پر ایک مضبوط اور پراعتماد فریق کے طور پر موجود تھا۔ ایران اپنی ٹیکنالوجی اور حکمتِ عملی کے بل بوتے پر عالمی اسٹیج پر نئی حقیقت کے طور پر ابھر چکا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ دنیا اس حقیقت کو کس نظر سے دیکھے گی۔؟ تحریر: سید نوازش رضا
مسقط مذاکرات سے قبل ایران نے دنیا کو ایک مضبوط پیغام دیا کہ بین الاقوامی پابندیوں کے باوجود سائنسی و جوہری ترقی ممکن ہے اور وہ اس میدان میں خود کفیل ہوچکا ہے۔ اگرچہ جوہری پروگرام پُرامن مقاصد کے لیے ہے، تاہم ساتھ ہی ایک خاموش مگر واضح پیغام بھی دیا کہ وہ جوہری ہتھیار بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اس کا جوہری پروگرام اب اُس سطح تک پہنچ چکا ہے، جہاں سے واپسی ممکن نہیں۔ مزید برآں، ایران نے یہ انتباہ بھی دیا کہ اگر اس کے خلاف کوئی فوجی کارروائی کی گئی تو اس کا ردعمل نہایت سخت اور سنگین ہوگا، جس کے عالمی سطح پر خطرناک اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔"
اسرائیل کے لیے پیغام:
"ہم ٹیکنالوجی میں اتنے قریب ہیں کہ اگر چاہیں تو جوہری ہتھیار بنا سکتے ہیں، اس لیے حملے کی غلطی نہ کرنا۔" اسرائیل کے لیے یہ اسٹریٹیجک ڈیٹرنس (Strategic Deterrent) ہے، تاکہ اسرائیل کو باز رکھا جا سکے۔
امریکہ کے لیے پیغام:
ایران نے واضح طور پر یہ پیغام دیا کہ اگر امریکہ نے باعزت اور برابری کی سطح پر مذاکرات نہ کیے اور عائد پابندیاں ختم نہ کیں، تو وہ اپنے راستے پر بغیر رکے آگے بڑھتا رہے گا۔ ایران نے یہ بھی باور کرا دیا کہ وہ جوہری ٹیکنالوجی میں اُس مقام سے آگے نکل چکا ہے، جہاں سے واپسی ممکن نہیں۔"
اسرائیل اور امریکہ کا ممکنہ ردعمل کیا ہوگا؟
اسرائیل:
ممکنہ طور پر ایران کے سائنسدانوں، تنصیبات یا سپلائی چین کو ہدف بنا سکتا ہے، لیکن: امریکہ براہ راست فوجی کارروائی سے اس وقت گریز کرے گا، کیونکہ: یوکرین کا محاذ ابھی کھلا ہے۔ ایران کا جوابی حملہ مشرق وسطیٰ کو آگ میں جھونک سکتا ہے
اس تمام صورتحال میں امریکہ کا ردعمل کیا ہوسکتا ہے
-امریکن صدر ٹرمپ اسرائیل کو خوش کرنے کے لیے صرف جارحانہ بیانات دے سکتا ہے، لیکن امریکہ فوجی کارروائی سے گریز کرے گا۔
-امریکی اسٹیبلشمنٹ (سی آئی اے، پینٹاگون) سفارتی حل کو ترجیح دے گی۔
یورپ اور امریکہ، خاص طور پر ان کی انٹیلیجنس ایجنسیاں (جیسے CIA ،MI6) ایران کی جوہری پیش رفت پر مسلسل نظر رکھتی آئی ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ: ایران یورینیم کو 60% تک افزودہ کر رہا ہے، جبکہ 90 فیصد بنانے کی صلاحیت موجود ہے۔ ایران نے جدید IR-6 اور IR-9 سینٹری فیوجز بنائے ہیں۔ ایران نے ریسرچ ری ایکٹرز اور بھاری پانی کی ٹیکنالوجی میں خاطر خواہ پیش رفت کی ہے۔
اس لیے مغربی انٹیلیجنس دائرے میں یہ بات اب ایک تسلیم شدہ حقیقت بن چکی ہے کہ ایران جوہری ٹیکنالوجی میں ایک اہم مرحلہ عبور کرچکا ہے۔ البتہ وہ عوامی سطح پر اس کو تسلیم نہیں کرتے، تاکہ ایران پر دباؤ برقرار رکھا جا سکے اور اپنے لاڈلے لونڈے اسرائیلی کے اس مطالبات سے بچا جاسکے کہ "فوری حملہ کرو۔" اب سوال یہ ہے کہ امریکہ مسقط مذاکرات میں کیا حاصل کرنا چاہتا تھا اور کیا حاصل کرنا چاہ رہا ہے۔؟ کیا وہ سفارتی ذرائع کے ذریعے JCPOA جیسے معاہدے کی جانب واپسی کا راستہ اختیار کرے گا، یا پھر اپنی سپر پاور حیثیت کا بھرم قائم رکھنے کے لیے مزید دباؤ، اقتصادی پابندیاں اور خفیہ فوجی اقدامات کا سہارا لے گا؟"
ظاہراً امریکہ کے پاس سفارتی ذرائع کے ذریعے کسی معاہدے تک پہنچنے کے سوا کوئی مؤثر آپشن نظر نہیں آتا، کیونکہ ماضی میں اقتصادی پابندیوں نے ایران پر خاطر خواہ اثر نہیں ڈالا اور فوجی اقدام دنیا کو ایک ممکنہ عالمی جنگ کی طرف دھکیل سکتا ہے۔ "ایران نے جس انداز سے اب تک اپنی فوجی اور جوہری طاقت کا مظاہرہ کیا ہے، اس نے امریکہ کو یہ باور کرا دیا ہے کہ مذاکرات کی میز پر اب ایک طاقتور اور متوازن فریق موجود ہے۔ ٹرمپ چاہے زبان سے سخت لہجہ اختیار کریں، لیکن اندرونی طور پر انہیں لچک دکھانا پڑے گی، کیونکہ ایران اب "دباؤ" کے بجائے "ٹیکنالوجی" کی زبان میں بات کرے گا۔
مسقط میں ہونے والے جوہری مذاکرات کے دوران ایران ایک مضبوط پوزیشن میں تھا، یہی وجہ ہے کہ یہ بات چیت نہایت خوشگوار ماحول میں ہوئی۔ مستقبل میں بھی امریکہ کو مذاکرات میں لچک دکھانی پڑے گی، کیونکہ ایران کی جوہری صلاحیت اب اس مقام تک پہنچ چکی ہے، جہاں سے پیچھے ہٹنا ممکن نہیں۔ رواں حالات اور بین الاقوامی تجزیہ کاروں کی آراء کے مطابق، ایران مسقط مذاکرات کی میز پر ایک مضبوط اور پراعتماد فریق کے طور پر موجود تھا۔ ایران اپنی ٹیکنالوجی اور حکمتِ عملی کے بل بوتے پر عالمی اسٹیج پر نئی حقیقت کے طور پر ابھر چکا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ دنیا اس حقیقت کو کس نظر سے دیکھے گی۔؟