امریکا کا کینیڈا پر قبضے کا ارادہ اٹل، ٹرمپ نے اصل وجہ بھی بتادی
اشاعت کی تاریخ: 10th, February 2025 GMT
واشنگٹن(انٹرنیشنل ڈیسک)امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ کینیڈا کو 51 ویں ریاست بنانے کے معاملے پر سنجیدہ ہیں۔
امریکی نشریاتی ادارے فاکس نیوز کو دیے گئے انٹرویو میں صدر ٹرمپ سے جب سوال کیا گیا کہ کیا کینیڈا کو ضم کرنے کی بات حقیقی ہے تو اس پر صدر ٹرمپ نے کہا کہ ’جی ہاں بالکل‘۔
صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ کینیڈا کے لیے امریکا کی 51 ویں ریاست بننا بہت بہتر ہوگا کیوں کہ ہم اس کے ساتھ تجارت میں سالانہ 200 ارب ڈالرز کا نقصان اُٹھاتے ہیں اور میں مزید ایسا نہیں ہونے دوں گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم کینیڈا کو ہر سال 200 ارب ڈالرز کیوں دے رہے ہیں اور یہ ایک طرح کی سبسڈی ہی ہے۔
واضح رہے کہ امریکا قدرتی وسائل سے مالا مال کینیڈا سے تیل سمیت کئی مصنوعات خریدتا ہے اور حالیہ برسوں میں دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی فرق 72 ارب ڈالرز تک جا پہنچا ہے۔
ماہرین کے مطابق یہ تجارتی فرق امریکا میں کینیڈا سے توانائی کی درآمدات کی وجہ سے ہے۔
صدر ٹرمپ کے بیان پر کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے کہا تھا کہ ٹرمپ اس معاملے میں سنجیدہ ہیں۔
کینیڈا کے سرکاری نشریاتی ادارے سی بی سی کے مطابق جمعے کو وزیر اعظم ٹروڈو کی بزنس اور لیبر یونین کے رہنماؤں سے نجی گفتگو کا کچھ حصہ غلطی سے لاؤڈ اسپیکر پر منتقل ہو گیا تھا۔
اس گفتگو میں کینیڈین وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ ’صدر ٹرمپ ہمارے پاس موجود معدنی وسائل سے پوری طرح واقف ہیں اس لیے وہ ان سے فائدہ اُٹھانا چاہتے ہیں‘۔
اس سے قبل سپر بول ایونٹ پر جاتے ہوئے ایئر فورس ون میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ کینیڈا فوج پر زیادہ اخراجات نہیں کرتا اور وہ ایسا اس لیے نہیں کرتا کیوں کہ وہ سمجھتا ہے کہ امریکا ان کی حفاظت کرتا رہے گا۔
امریکی صدر کے بقول انہوں نے ٹیرف سے بچنے کے لیے کینیڈا اور میکسیکو کی جانب سے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں دیکھے۔
یاد رہے کہ صدر ٹرمپ نے امریکا کے بڑے تجارتی شراکت داروں کینیڈا اور میکسیکو سے درآمدات پر 25 فی صد ٹیرف عائد کر دیے تھے۔
انہوں نے کینیڈا سے تیل کی درآمدات پر 10 فی صد ٹیکس لگانے کا اعلان کیا تھا۔ تاہم صدر ٹرمپ نے بعدازاں اسے 30 روز کے لیے مؤخر کر دیا تھا۔
صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ اس اقدام کا مقصد غیر قانونی امیگریشن اور نشہ آور دوا فینٹینل میں استعمال ہونے والے اجزا کی امریکا اسمگلنگ روکنے کے لیے ان ممالک پر دباؤ بڑھانا ہے۔
مزیدپڑھیں:جائیداد کی منتقلی پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی واپس لینے کا امکان
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: کا کہنا تھا کہ کے لیے
پڑھیں:
ڈونلڈ ٹرمپ کے دور اقتدار کے ہلچل سے بھرے پہلے 3 ماہ؛ دنیا کا منظرنامہ تبدیل
امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں دوبارہ واپسی کے بعد ان کے اقدامات اور بیانات نے دنیا بھر میں ہلچل مچا دی۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دوسرے دورِ صدارت کے پہلے 100 دن 30 اپریل کو مکمل ہو رہے ہیں اور اب تک صدر ٹرمپ نے صدارتی اختیارات کو نئی بلندیوں تک پہنچایا۔
78 سالہ صدر ٹرمپ نے ایک ایونٹ میں کہا کہ میرا دوسرا دورِ حکومت پہلے سے زیادہ طاقتور ہے۔ جب میں یہ کہتا ہوں 'یہ کام کرو تو وہ کام ہو جاتا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی ٹیرف پالیسی کا دفاع کیا اور سب سے پہلے امریکا کے اپنے ایجنڈے کو پورا کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔
امریکی صدر نے اپنی سمت کو درست قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ بڑی کامیابی کے ساتھ اپنے اہداف کو حاصل کر رہے ہیں۔
البتہ ان کے ناقدین نے پہلے 100 دنوں کی حکومت کو "آمرانہ طرزِ حکومت" قرار دیا ہے اور ان کی پالیسیوں کو انتشار کا باعث قرار دیا۔
سیاسی مورخ میٹ ڈالک کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کا دوسرا دورِ صدارت پہلے سے کہیں زیادہ آمرانہ ذہنیت اور اقدامات سے بھرپور ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ روزانہ اوول آفس میں صحافیوں کے سوالات کا سامنا کرتے اور ایگزیکٹو آرڈرز پر دستخط کرتے ہوئے خود کو ایک "ریئلٹی شو" کے مرکزی کردار کے طور پر پیش کرتے ہیں۔
ٹرمپ کے ناقدین کا بھی کہنا ہے کہ نئے صدر کے دوسرے دور میں وائٹ ہاؤس میں مخصوص اور من پسند نیوز اداروں کو رسائی دی جارہی ہے۔
علاوہ ازیں عدلیہ کے ساتھ بھی صدر ٹرمپ کا رویہ جارحانہ رہا ہے جہاں انہوں نے ماضی کے مقدمات میں شریک کئی لاء فرمز کو سخت معاہدوں میں جکڑ دیا ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کے پہلے 100 دنوں کی تکمیل پر ان کی مقبولیت تمام جنگ عظیم دوم کے بعد صدور میں سب سے کم ہے۔ سوائے خود ان کے پہلے دور کے۔
ریپبلکن سینیٹر لیزا مرکاؤسکی نے کہا کہ ہم سب خوف زدہ ہیں جبکہ پروفیسر باربرا ٹرش کا کہنا تھا کہ صدر آئینی پابندیوں کی پرواہ کیے بغیر فیصلے کر رہے ہیں۔
ناقدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ نے روس کے توسیع پسندانہ عزائم کی تقلید میں گرین لینڈ، پاناما اور کینیڈا پر علاقائی دعوے کرتے ہوئے امریکی اثرورسوخ بڑھانے کا عندیہ دیا ہے۔
ٹرمپ نے تعلیمی اداروں، جامعات اور ثقافتی مراکز کو نشانہ بناتے ہوئے خود کو ایک اہم آرٹس سینٹر کا سربراہ مقرر کیا اور ڈائیورسٹی پروگرامز کو ختم کر دیا ہے۔
اسی طرح تارکین کو پکڑ پکڑ کر دور دراز علاقے میں قائم خطرناک جیلوں میں زبردستی بھیجا جا رہا ہے۔
یاد رہے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 20 جنوری کو عہدے کا حلف اُٹھایا تھا اور اسی دن چند اہم لیکن متنازع اقدامات کی منظوری دی تھی۔