Nai Baat:
2025-04-22@09:45:09 GMT

ڈونلڈ ٹرمپ کا بڑا فیصلہ: ایک سینٹ کے سکے کی تیاری بند

اشاعت کی تاریخ: 10th, February 2025 GMT

ڈونلڈ ٹرمپ کا بڑا فیصلہ: ایک سینٹ کے سکے کی تیاری بند

واشنگٹن: سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی محکمہ خزانہ کو ہدایت دی ہے کہ ایک سینٹ کے نئے سکے نہ بنائے جائیں، تاہم پہلے سے موجود سکے بدستور زیر گردش رہیں گے۔

رپورٹ کے مطابق، ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ اعلان اپنی سوشل میڈیا ویب سائٹ "ٹروتھ سوشل” پر کیا۔ اپنی پوسٹ میں انہوں نے کہا، "امریکا طویل عرصے سے ایک سینٹ کے ایسے سکے تیار کر رہا ہے جن کی قیمت پیداواری لاگت سے کم ہے۔ یہ بالکل بے کار ہے! میں نے امریکی محکمہ خزانہ کو ہدایت دی ہے کہ وہ نئے سکے بنانے کا سلسلہ ختم کر دیں۔ ہمیں اپنی عظیم قوم کے بجٹ کو بچانے کی ضرورت ہے، چاہے وہ محض ایک پیسہ ہی کیوں نہ ہو۔”

ذرائع کے مطابق، پینی یا ایک سینٹ کے سکے کی تیاری پر زیادہ اخراجات کی وجہ سے اسے ختم کرنے کی مہم پہلے ہی زور پکڑ رہی تھی، خاص طور پر جب گزشتہ ماہ ایلون مسک کے DOGE حکومتی کارکردگی کے محکمے نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر اس حوالے سے مہم چلائی۔

سی این این کے مطابق، 2023 میں امریکی ٹکسال نے 4.

1 بلین مالیت کے ایک سینٹ کے سکے مارکیٹ میں متعارف کروائے تھے۔ مالی سال 2024 میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق، امریکی پینی کے ایک سکے کی تیاری اور ترسیل پر تقریباً 3.7 سینٹ لاگت آ رہی ہے، جو گزشتہ برس کے مقابلے میں 20 فیصد زیادہ ہے۔ اس اضافے کی بنیادی وجہ زنک اور تانبے جیسی دھاتوں کی قیمتوں میں ہونے والا اضافہ ہے۔

یاد رہے کہ 2013 میں بروکنگ انسٹی ٹیوشن کی ویب سائٹ پر نہ صرف ایک سینٹ بلکہ "نکل” (پانچ سینٹ کا سکہ) کی تیاری بھی ختم کرنے کی تجویز دی گئی تھی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کم مالیت کے سکے اب عملی طور پر غیر ضروری ہوتے جا رہے ہیں اور حکومت کے لیے اضافی مالی بوجھ بن رہے ہیں۔

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: ایک سینٹ کے کے مطابق کی تیاری کے سکے

پڑھیں:

ٹرمپ کی ناکام پالیسیاں اور عوامی ردعمل

اسلام ٹائمز: ایسا لگتا ہے کہ اگر موجودہ رجحان جاری رہا تو امریکہ افراط زر کے ساتھ کساد بازاری کے دور میں داخل ہو جائے گا۔ ایک تشویشناک منظر نامہ جسے ماہرین اقتصادیات 1970ء کی دہائی کی "جمود" کی طرف واپسی کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ان مسائل کی وجہ سے نہ صرف ٹرمپ کی مقبولیت میں تیزی سے کمی آئی ہے بلکہ دنیا کے ساتھ امریکہ کے تعلقات بھی متاثر ہوئے ہیں اور بلا شبہ عالمی سطح پر خدشات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ان حالات میں امریکہ کو عظیم بنانا ایک ناقابل حصول خواب لگتا ہے۔ تحریر: آتوسا دینیاریان

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے من پسند پالیسیوں پر انحصار کرتے ہوئے دنیا کے بیشتر ممالک خصوصاً چین کے خلاف ٹیرف کی ایک وسیع جنگ شروع کی ہے، اس طرزعمل کے نتائج نے موجودہ امریکی معیشت پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں اور عوام کے عدم اطمینان میں اضافہ ہوا ہے۔ حالیہ مہینوں میں ریاستہائے متحدہ میں معاشی حالات خراب ہوئے ہیں اور حالیہ مہینوں میں ٹرمپ کے فیصلوں کی وجہ سے امریکی صارفین کے لیے قیمتوں میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ وہ تحفظ پسند پالیسیوں کو نافذ کرکے اور چین اور دیگر ممالک کے خلاف تجارتی محصولات میں اضافہ کرکے "عظیم امریکی خواب" کے نظریے کو بحال کر رہے ہیں۔ لیکن عملی طور پر ان پالیسیوں کی وجہ سے مہنگائی میں اضافہ، معاشی ترقی کی رفتار میں کمی اور وسیع پیمانے پر عدم اطمینان پیدا ہوا ہے۔

ٹرمپ کی مقبولیت میں کمی:
اس وقت صرف 44% امریکی ان کے معاشی انتظام سے مطمئن ہیں اور اگر یہ سلسلہ جاری رہتا ہے تو ان کی مقبولیت کا گراف مزید نیچے آئے گا۔

افراط زر اور بڑھتی ہوئی قیمتیں:
افراط زر کی شرح 3% تک پہنچ گئی ہے، جبکہ فیڈرل ریزرو کا ہدف 2% ہے۔ یہ وہ علامات ہیں، جو کسی ملک میں کساد بازاری کو دعوت دینے کے مترادف سمجھی جاتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں ترقی کی رفتار رک جاتی ہے اور سست اقتصادی ترقی کا سایہ منڈلانے لگتا ہے۔ تجارتی پالیسی کے عدم استحکام کی وجہ سے سرمایہ کار طویل مدتی سرمایہ کاری سے گریز کرنے لگتے ہیں۔

بڑے پیمانے پر احتجاج:
 ٹرمپ کی اقتصادی پالیسیوں کے خلاف ہزاروں امریکیوں نے مختلف شہروں میں مظاہرے کیے ہیں۔ یہ مظاہرے متوسط ​​طبقے اور محنت کشوں کی ان پالیسیوں سے عدم اطمینان کی عکاسی کرتے ہیں، جو دولت مند اور بڑی کارپوریشنز کے حق میں ہیں۔ ادھر فیڈرل ریزرو کے چیئرمین جیروم پاول نے خبردار کیا ہے کہ نئے ٹیرف مہنگائی اور سست اقتصادی ترقی کو بڑھا سکتے ہیں۔ اگرچہ ٹرمپ کے معاشی فیصلے ظاہری طور پر امریکی معاشی حالات کو بہتر بنانے اور ملکی پیداوار کو سپورٹ کرنے کے دعوے کے ساتھ کیے گئے تھے، لیکن عملی طور پر وہ مسابقت میں کمی، قیمتوں میں اضافے، معاشی ترقی میں سست روی اور مارکیٹ میں عدم استحکام کا باعث بنے ہیں۔

ایسا لگتا ہے کہ اگر موجودہ رجحان جاری رہا تو امریکہ افراط زر کے ساتھ کساد بازاری کے دور میں داخل ہو جائے گا۔ ایک تشویشناک منظر نامہ جسے ماہرین اقتصادیات 1970ء کی دہائی کی "جمود" کی طرف واپسی کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ان مسائل کی وجہ سے نہ صرف ٹرمپ کی مقبولیت میں تیزی سے کمی آئی ہے بلکہ دنیا کے ساتھ امریکہ کے تعلقات بھی متاثر ہوئے ہیں اور بلا شبہ عالمی سطح پر خدشات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ان حالات میں امریکہ کو عظیم بنانا ایک ناقابل حصول خواب لگتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ہیگستھ پیٹ بہترین کام کر رہے ہیں‘ میڈیا پرانے کیس کو زندہ کرنے کی کوشش کررہا ہے .ڈونلڈ ٹرمپ
  • ٹرمپ کی ناکام پالیسیاں اور عوامی ردعمل
  • ڈونلڈ ٹرمپ کے دور اقتدار کے ہلچل سے بھرے پہلے 3 ماہ؛ دنیا کا منظرنامہ تبدیل
  • روس اور یوکرین رواں ہفتے معاہدہ کرلیں گے، ڈونلڈ ٹرمپ
  • روس اور یوکرین رواں ہفتے معاہدہ کر لیں گے، ڈونلڈ ٹرمپ
  • امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکی محکمہ خارجہ کی از سرِ نو تشکیل کی تجویز
  • چین پر محصولات عائد کرنے سے پیداہونے والے بحران پر وائٹ ہاؤس ایک ٹاسک فورس تشکیل دے گا
  • ’ امریکا میں کوئی بادشاہ نہیں‘ مختلف شہروں میں ٹرمپ مخالف مظاہرے
  • ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف امریکا میں 700 مقامات پر ہزاروں افراد کے مظاہرے
  • ٹرمپ انتظامیہ شام پر عائد پابندیوں میں نرمی پر غور کر رہی ہے،امریکی اخبار