فائر بندی ناکام ہوئی تو غزہ میں قحط میں اضافے کا خدشہ، اقوام متحدہ
اشاعت کی تاریخ: 10th, February 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 10 فروری 2025ء) اقوام متحدہ کے انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر امدادی امور کے سربراہ ٹام فلیچر نے غزہ کے دو روزہ دورے کے بعد اتوار کو خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا، ''میرے خیال میں قحط کا خطرہ بڑی حد تک ٹل گیا ہے۔ بھوک کی شدت اب اس سطح پر نہیں، جہاں فائر بندی سے پہلے تھی۔ لیکن اگر فائر بندی ختم ہو جاتی ہے، تو یہی خطرہ جلد واپس آ سکتا ہے۔
‘‘پوری غزہ پٹی میں قحط کا شدید خطرہ، عالمی ادارے کی تنبیہ
انیس جنوری کو شروع ہونے والی فائربندی کے بعد سے روزانہ سینکڑوں ٹرک امدادی سامان لے کر غزہ پہنچ رہے ہیں۔
ٹام فلیچر کا یہ بیان ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب فائر بندی کے تسلسل سے متعلق خدشات بڑھ رہے ہیں اور اس کے زیادہ پیچیدہ دوسرے مرحلے پر بات چیت ہونے والی ہے۔
(جاری ہے)
چھ ہفتے کی فائر بندی کا پہلا مرحلہ اپنے نصف کو پہنچ چکا ہے۔غزہ میں ’نصف سے زائد زرعی زمین ناقابل کاشت‘ ہو چکی
فائر بندی کے معاہدے کے تحت اسرائیل نے روزانہ 600 امدادی ٹرکوں کو غزہ میں داخلے کی اجازت دینے کا وعدہ کیا تھا جو کئی ماہ کی تاخیر اور سکیورٹی خدشات کے بعد ایک نمایاں بہتری ہے۔
فریقین سے معاہدے پر کاربند رہنے کی اپیلاقوام متحدہ کے انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر امداد کے دفتر کے مطابق جنگ بندی کے بعد سے اب تک 12,600 سے زیادہ امدادی ٹرک غزہ میں داخل ہو چکے ہیں۔
فلیچر نے حماس اور اسرائیل دونوں پر زور دیا کہ وہ اس معاہدے پر کاربند رہیں جس نے ''بہت سی جانیں بچائی ہیں۔‘‘
تاہم انہوں نے کہا، ''حالات اب بھی بہت خراب ہیں، لوگ اب بھی بھوکے ہیں۔ اگر فائر بندی ختم ہو گئی تو قحط جیسی صورت حال دوبارہ بہت جلد واپس آ جائے گی۔"
اسرائیلی فورسز کا غزہ کی مرکزی راہداری سے مکمل انخلا
بین الاقوامی طور پر قحط کا تعین کرنے کا معیار یہ ہے کہ ہر 10 ہزار افراد میں سے روزانہ کم از کم دو افراد بھوک سے مر جاتے ہوں۔
موجودہ فائر بندی سے پہلے کئی ماہ تک غذائی تحفظ کے ماہرین، اقوام متحدہ کے حکام اور دیگر تنظیمیں غزہ میں، خاص طور پر شمالی حصے میں قحط کے خطرے سے خبردار کرتے رہے تھے جو سولہ ماہ کی جنگ کے ابتدائی ہفتوں سے تقریباً باقی حصوں سے کٹ چکا تھا۔ تاہم فائر بندی کے دوران لاکھوں فلسطینی شمالی غزہ واپس لوٹنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
غزہ کی بیشتر آبادی بے گھر ہو چکی ہے، فلیچرفلیچر نے کہا کہ 20 لاکھ سے زیادہ افراد پر مشتمل غزہ کی آبادی، جس میں سے زیادہ تر افراد بے گھر ہو چکے ہیں، کو مزید خوراک اور طبی امداد کی اشد ضرورت ہے۔
انہوں نے صحت کی بنیادی سہولیات کی کمی کی وجہ سے بیماریوں کے پھیلنے کے خدشے کا اظہار کیا اور اس علاقے میں فوری طور پر مزید خیمے اور پناہ گاہیں فراہم کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔انہوں نے کہا، ''ہمیں ہزاروں خیمے فوری طور پر پہنچانا ہوں گے تاکہ جو لوگ واپس آ رہے ہیں وہ سخت موسم کی مار سے بچ سکیں۔‘‘
فلیچر نے غزہ میں تباہ شدہ علاقوں کا مشاہدہ کرنے کے بعد کہا، ''تباہی کے باعث وہاں یہ فرق کرنا مشکل تھا کہ کون سی عمارت اسکول تھی، کون سا ہسپتال تھا، اور کون سا گھر تھا۔
‘‘انہوں نے مزید کہا کہ انہوں نے لوگوں کو اپنے گھروں کی باقیات تلاش کرتے اور ملبے میں دبے اپنے پیاروں کی لاشیں نکالتے دیکھا۔ یہاں تک کہ کچھ کتوں کو بھی ملبے میں لاشوں کی تلاش میں بھٹکتے ہوئے پایا گیا۔
فلیچر کا کہنا تھا، ''یہ کسی ہولناک فلم جیسا منظر ہے۔ یہ ایک بھیانک حقیقت ہے جو بار بار دل توڑ دیتی ہے۔ آپ یہاں میلوں سفر کریں لیکن ہر طرف یہی کچھ نظر آتا ہے۔
‘‘ فلسطینی عوام عالمی برادری کے رویے سے ناراضفلیچر نے تسلیم کیا کہ فلسطینی عوام عالمی برادری کے رویے سے ناراض ہیں۔
انہوں نے کہا، ''وہاں مایوسی اور غصہ موجود ہے اور میں سمجھ سکتا ہوں کہ دنیا پر ان کا غصہ کیوں ہے، کیونکہ یہ سب کچھ ان کے ساتھ ہوا ہے۔ لیکن میں نے ایک مزاحمتی جذبہ بھی دیکھا۔ لوگ کہہ رہے تھے، ''ہم اپنے گھروں کو واپس جائیں گے۔ ہم ان جگہوں پر واپس جائیں گے جہاں ہم نسلوں سے رہ رہے ہیں اور ہم انہیں دوبارہ تعمیر کریں گے۔‘‘
ج ا ⁄ ص ز، م م (اے پی، اے ایف پی)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے اقوام متحدہ فائر بندی انہوں نے رہے ہیں بندی کے کے بعد نے کہا
پڑھیں:
اسرائیل اور اس کے سہولت کاروں کو غزہ کی تعمیرِ نو کا خرچ اٹھانا چاہیے، اقوامِ متحدہ
اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی خصوصی نمائندہ برائے فلسطین فرانسسکا البانیز نے غزہ کی صورت حال کا ذمہ دار اسرائیل، امریکا، جرمنی، برطانیہ اور اٹلی کو قرار دیتے ہوئے کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق فرانسسکا البانیز نے کہا کہ غزہ پر اسرائیلی بمباری میں استعمال ہونے والے اسلحہ امریکا، جرمنی، برطانیہ اور اٹلی نے فراہم کیا تھا۔
انھوں نے مزید کہا کہ غزہ کی تباہی کا ذمہ دار صرف حملے کرنے والا اسرائیل ہی نہیں بلکہ اسے اسلحہ فراہم کرنے والے ممالک بھی اتنے ہی ذمہ دار ہیں۔
فرانسسکا البانیز نے مطالبہ کیا کہ تباہ حال غزہ کی تعمیر نو کے لیے نہ صرف اسرائیل بلکہ اسے اسلحہ فراہم کرنے والے امریکا، جرمنیی، برطانیہ اور اٹلی رقم فراہم کریں۔
انھوں نے مزید کہا کہ شہری آبادی، رہائشی علاقوں، اسپتالوں، اسکولوں اور بنیادی ڈھانچے کو جس پیمانے پر نقصان پہنچایا گیا اس کی ذمہ داری صرف اسرائیل نہیں بلکہ اس کے سہولت کاروں کی بھی ہے۔
فرانسسکا البانیز کا کہنا تھا کہ جن ممالک نے اسرائیل کو اسلحہ فراہم کیا جنھوں نے سیاسی و سفارتی تحفظ دیا اور جنھوں نے جنگ بندی کی کوششوں کو کمزور کیا ان ہی کو اب غزہ میں مکانات، اسپتال، اسکول، بجلی، پانی اور دیگر بنیادی سہولیات کی بحالی کے لیے مالی وسائل فراہم کرنا ہوں گے۔
خیال رہے کہ فرانسسکا البانیز کو غزہ کے معاملے پر دوٹوک مؤقف، اسرائیل کی مذمت اور فلسطینیوں کے لیے آواز اُٹھانے پر کئی پابندیوں کا سامنا ہے جن میں امریکا کے سفر پر پابندی بھی شامل ہے۔
تاہم ان کا کہنا ہے کہ یہ پابندیاں میرے لیے کوئی معنی نہیں رکھتیں نہ ہی یہ مجھے میرے اصولی مؤقف سے ہٹا سکتی ہیں۔ میں جانتی ہوں اس میں خطرہ ہے لیکن میں غزہ پر کھل کر بات کرتی رہوں گی۔