وکلا کا احتجاج: آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں شہریوں کے ٹرائل کی سماعت ملتوی کردی
اشاعت کی تاریخ: 10th, February 2025 GMT
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔10 فروری ۔2025 )جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سات رکنی آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل سے متعلق کیس کی سماعت کی جسے درخواست گزار کے وکیل سلمان اکرم راجہ کی عدم موجودگی کے باعث منگل تک ملتوی کر دیا گیا. دوران سماعت معاون وکیل رانا وقار نے عدالت کو بتایا کہ سلمان اکرم راجہ ٹریفک کے سبب نہیں پہنچ سکے خیال رہے کہ جوڈیشل کمیشن کے اجلاس کے خلاف وکلا کی طرف سے احتجاج کی کال کے پیش نظر اسلام آباد پولیس نے ریڈ زون کے داخلی اور خارجی راستے سیل کر رکھے ہیں جبکہ سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں.
(جاری ہے)
رانا وقار نے عدالت کو بتایا کہ سپریم کورٹ آنے کے لیے صرف ایک ہی راستہ مارگلہ روڈ والا کھلا ہے اس پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ خواجہ حارث صاحب پہنچ گئے باقی لوگ بھی پہنچ گئے آپ بھی تو آ گئے ہیں. انہوں نے کہا کہ اگر آدھا گھنٹہ پہلے نکل آتے اس وقت سپریم کورٹ ہوتے لگتا ہے وکلا چاہتے ہیں لوگ قید میں سڑتے رہیں ٹھیک ہے وکلا نہیں چاہتے تو کیا کیا جاسکتا ہے ہم جوڈیشل کمیشن کے ممبران کے سامنے اپنا احتجاج ریکارڈ کروائیں کے ریڈ زون میں احتجاج کے لیے موجود وکلا راہنماﺅں کا کہنا ہے کہ وہ جوڈیشل کمیشن کے اجلاس کے دوران سپریم کورٹ کے باہر اپنا احتجاج جاری رکھیں گے. سندھ بار کے رکن منیر اے ملک نے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج وکلا 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف آواز اٹھانے جمع ہوئے ہیں ہمارا احتجاج پرامن ہے ہم جوڈیشل کمیشن کے ممبران کے سامنے اپنا احتجاج ریکارڈ کروائیں گے ہم جوڈیشل کمیشن کو بھی باور کروانا چاہتے ہیں کہ موجودہ نظام سے انصاف کا قتل ہو رہا ہے ہم یہاں سے سپریم کورٹ کی طرف جائیں گے یہاں آج پورے ملک کی بار سے وکلا موجود ہیں. انہوں نے اعتراض اٹھایا کہ وکلا کا راستہ روکنے کے لیے جگہ جگہ کنٹینر لگا کر راستہ بند کر دیا گیا ہے خیال رہے کہ ملک کی بعض وکلا تنظیموں نے اس معاملے پر احتجاج کی کال مسترد کی ہے.
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے جوڈیشل کمیشن کے سپریم کورٹ
پڑھیں:
امریکی سپریم کورٹ نے وینزویلا کے شہریوں کی جبری بیدخلی روک دی
امریکی سپریم کورٹ نے ٹرمپ انتظامیہ کو وینزویلا کے تارکین وطن کو جبری طور پر ملک بدر کرنے سے تاحکم ثانی روک دیا ہے۔ یہ حکم وینزویلا کے متاثرہ تارکین وطن کی جانب سے دائر کی گئی مداخلتی استدعا پر جاری کیا گیا، جنہوں نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ انہیں عدالتی جائزے کے بغیر جبری بیدخلی کا سامنا ہے۔
درخواست گزاروں کا کہنا ہے کہ اُنہیں بنیادی عدالتی عمل کے بغیر ملک بدر کیا جا رہا ہے، جو انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہے۔ اس کے برعکس ٹرمپ انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ یہ تارکین وطن خطرناک گینگز سے تعلق رکھتے ہیں، اور ان کی موجودگی قومی سلامتی کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ اس عدالتی فیصلے کے خلاف آخری کامیابی وائٹ ہاؤس کو ہی حاصل ہوگی، تاہم انتظامیہ نے یہ واضح نہیں کیا کہ وہ عدالتی حکم پر عملدرآمد سے انکار کرے گی۔
امریکی میڈیا کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ اب بھی مزید پچاس سے زائد وینزویلا کے تارکین وطن کو جبری بیدخل کرنے کے لیے سرگرم ہے۔ یاد رہے کہ اس سے قبل دو سو سے زائد وینزویلا کے باشندوں سمیت متعدد افراد کو السلواڈور کی جیلوں میں منتقل کیا جا چکا ہے، جس پر انسانی حقوق کے اداروں نے تشویش کا اظہار بھی کیا ہے۔
ٹرمپ کی پالیسیوں کے خلاف امریکہ بھر میں مظاہرے
سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد اور ٹرمپ انتظامیہ کی سخت پالیسیوں کے خلاف امریکہ کے مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے بھی سامنے آئے ہیں۔ واشنگٹن، شکاگو اور دیگر اہم شہروں میں عوام سڑکوں پر نکل آئے، جب کہ نیویارک میں صدر ٹرمپ کے خلاف سب سے بڑی ریلی نکالی گئی، جس کی قیادت ڈیموکریٹ پارٹی کے رہنماؤں نے کی۔
مظاہرین نے صدر ٹرمپ کے خلاف شدید نعرے بازی کی اور مطالبہ کیا کہ ان کے غیر جمہوری اور غیر انسانی اقدامات کو فوری طور پر واپس لیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ کی سخت گیر پالیسیوں اور متنازع اقدامات سے نہ صرف ملک کی معیشت کو نقصان پہنچا ہے بلکہ امریکہ کی عالمی ساکھ بھی متاثر ہوئی ہے۔
ان مظاہروں کی کال معروف تحریک ’ففٹی ففٹی ون موومنٹ‘ کی جانب سے دی گئی تھی، جس کا مقصد تمام پچاس امریکی ریاستوں میں بیک وقت مظاہروں کا انعقاد کرنا ہے تاکہ ایک منظم عوامی ردعمل دنیا کے سامنے لایا جا سکے۔
Post Views: 3