Daily Ausaf:
2025-04-22@01:13:33 GMT

حکمرانوں کو کفایت شعاری اختیار کرنی چاہیے

اشاعت کی تاریخ: 10th, February 2025 GMT

(گزشتہ سے پیوستہ)
سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں اور اس سیمت کئی دیگر چیزوں کے بارے میں نشر و اشاعت کے ادارے مناظر دیکھا رہے ہوتے ہیں اور کالم نگار اپنے قلم سے توجہ دلانے کی کوشش کرتے نظر آرہے ہوتے ہیں مگر مجال ہے کہ حکمرانوں یا سرکاری عہدہ داروں کے کان پر جوں تک رینگ جائے۔ حکمرانوں کے پاس اتنا بھی وقت نہیں ہوتا کہ وہ ہر چھوٹے و بڑے شہروں کے بارے میں جانیں یا دیکھیں کہ لوگ کس حال میں گزر بسر کر رہے ہیں حتیٰ کہ انہیں اپنے حلقے کی عوام اور وہاں کے مسائل کے بارے میں بھی علم نہیں ہوتا۔ عوام سے براہ راست تعلق نہ رکھنے کی وجہ سے حکمران عموماً عوام کے اصل مسائل اور زمینی حقائق سے بے خبر رہتے ہیں لہٰذا ان سے خیر کی کوئی توقع کیسے رکھی جاسکتی ہے۔ ہمارے حکمران اپنے اخراجات اور عیاشیوں پر خرچ ہونے والے اربوں روپے کے اخراجات ختم کردیں تو غریب عوام کی حالت میں بہتری کے آثار پیدا ہوسکتے ہیں۔ ہر آنے والا حکمران باتیں تو بہت کرتا ہے موجودہ وزیرِ اعظم سمیت پر عمل کہیں بھی نظر نہیں آرہا ہوتا بلکہ روز بروز ان کے اخراجات میں کئی ہزار قسم کے اضافے نظر بھی آرہے ہوتے ہیں اور اس کے ساتھ یہ بھی سننے کو ملتا ہے ان لوگوں کو جو مشاہرہ ملتا ہے اس میں ان کا گزارا نہیں ہو پاتا جبکہ ماشاء اللہ سے تمام سیاسی رہنما ہی کھرب پتی ہیں۔ وطنِ عزیز کے موجودہ حالت کے تناظر میں دیکھا جائے تو ان تمام سیاسی رہنماؤں کو کسی بھی قسم کا مشاہرہ نہیں لینا چاہیے اور اگر یہ رہنما چاہیں تو آج ہی وطنِ عزیز قرض سے نجات پاسکتا ہے مگر کیا کہیں۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ
اپنی اپنی مصلحت ہے اپنا اپنا ہے مفاد
ورنہ اس دنیا میں کب کوئی کسی کے ساتھ ہے
سادگی کے حوالے سے کئی برس قبل ایک کالم میں پڑھا تھا جو میں نقل کررہا ہوں کہ ’’سن انیس سو ساٹھ میں ایک بریگیڈیئر جب چین میں ملٹری اٹیچی بننے تو انہوں نے وہاں کی حکومت سے درخواست کی کہ وہ ہوچی منہ سے ملنا چاہتے ہیں ان کی درخواست پر ملاقات کا وقت طے پا گیا تھا۔ فوجی طریقہ کار کے مطابق وہ کچھ وقت قبل ہی پہنچ گئے تھے۔ ان کا رہنما انہیں ایک خوبصورت سے باغ کے دروازے کے باہر چھوڑ کر چلا گیا اور وہ اس باغ میں داخل ہوگئے تھے، اس باغ میں ایک چھوٹا سا مکان تھا جس کے باہر ایک مالی کیاریوں میں پودے لگا رہا تھا، وہ اس مالی سے بڑے متاثر ہوئے جو اپنے کام میں ہمہ تن مشغول تھا۔ وہ ایک کرسی پر بیٹھ گئے تھے، انہوں نے ارد گرد نظر دورائی تو انہیں کرسی، میز اور چھوٹے سے مکان بھی نظر آیا اور غور کرنے پر انہیں پتہ چلا کہ یہ سب کچھ بانس سے تعمیر کیا گیا تھا حتیٰ کہ کیلیں بھی بانس کی بنی ہوئی تھیں۔ وہ انتظار کررہے تھے کہ کب کوئی آئے اور ان کو صدارتی محل لے جائے گا تاکہ ملاقات ہوسکے۔ اتنے میں وہی مالی اپنے ہاتھ جھاڑ کر ان کے پاس آیا اور ان سے کہا میں ہوچی منہ ہوں اس پر بریگیڈیئر صاحب کی حالت دیکھنے والی تھی وہ جو چھوٹا سا مکان تھا وہ ہوچی منہ کا پیلس تھا۔ یہ کوئی کہانی نہیں بلکہ حقائق ہیں جو اسی دنیا میں ظہور پزیر ہوئے ہیں، ہمارے لیے ان سب کہانیوں میں بڑے سبق ہیں۔‘‘
کاش وطنِ عزیز میں بھی ایسے رہنما اور ایسی سیاسی جماعتیں وجود میں آئیں جن کو عوام کی فلاح وبہود کا خیال ہو، عوام کے مسائل حل کرنے میں دلچسپی رکھتے ہوں، صرف ذاتی مفاد کے لیے نہ آئیں۔ ہر سیاسی جماعت کا مقصد ہوتا ہے حصولِ اقتدار لیکن جب اقتدار مل جاتا ہے تو پھر لوٹ مار، عیاشیاں اور اپنے اقتدار کو قائم رکھنے کی فکری رہتی ہیں۔ اصل میں ذمہ داری کا مظاہرہ ہونا چاہیے جس دن اقتدار کی جگہ ذمہ داری نے لے لی حالات تبدیل ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔
ایک غریب ملک جس کے اٹھانوے فیصد لوگوں کو پینے کا صاف پانی نہ ملے، بے روزگاری عام ہو، لوگ خودکشی کررہے ہوں، بغیر پیسے کے کسی دفتر میں کوئی کام نہ ہو، تعلیم کے دروازے غریبوں کے لیے بند ہوں، اسپتالوں کی حالت خراب ہو، پبلک ٹرانسپورٹ کی کمی ہو تو اس ملک کے حکمرانوں کو عیاشیاں زیب نہیں دیتیں۔ فضول اخراجات اس وقت اچھے لگتے ہیں جب ملک خوش حال ہو آج بھی ملک پر تقریباً سترہ ہزار تین سو باسٹھ ارب روپے کا قرض پہنچ گیا ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم ہر سطح پر کفایت شعاری اور سادگی اختیار کریں یہی ایک صورت ہے جس سے عوام کو کچھ راحت مل سکتی ہے۔ اگر اب بھی سنجیدگی سے نہیں سوچا گیا تو پھر اللہ ہی حافظ ہے وطنِ عزیز کا۔
وہ سادگی میں بھی ہے عجب دل کشی لیے
اس واسطے ہم اس کی تمنا میں جی لیے

.

ذریعہ: Daily Ausaf

پڑھیں:

پیپلز پارٹی وفاق کا حصہ، آئینی عہدوں پر رہتے بات زیادہ ذمہ داری سے کرنی چاہئے، رانا ثنا

وزیراعظم کے مشیر برائے بین الصوبائی رابطہ کا کہنا تھا کہ ‎کسی صوبے کا پانی دوسرے صوبے کے حصے میں نہیں جا سکتا، اس امر کو یقینی بنانے کے لیے ملک میں آئینی طریقہ کار اور قوانین موجود ہیں، ‎پانی کے مسئلے پر سیاست نہیں کرنی چاہئے، معاملات میز پر بیٹھ کر حل کرنے چاہئیں۔ اسلام ٹائمز۔ وزیراعظم کے مشیر برائے بین الصوبائی رابطہ رانا ثنا اللہ خان نے کہا کہ ‎اکائیوں کے پانی سمیت وسائل کی منصفانہ تقسیم پر مکمل یقین رکھتے ہیں، ‎پیپلز پارٹی وفاق کا حصہ ہے، آئینی عہدوں پر رہتے ہوئے بات زیادہ ذمہ داری سے کرنی چاہئے۔ رانا ثنا اللہ نے کہا کہ ‎قائد محمد نواز شریف، وزیراعظم شہباز شریف نے پی پی پی سے بات چیت کے ذریعے مسائل کے حل کی ہدایت کی ہے، ہمیں پی پی پی کی قیادت کا بہت احترام ہے، 1991ء میں صوبوں کے درمیان طے پانے والے معاہدے اور 1992ء کے ارسا ایکٹ کی موجودگی میں کسی سے ناانصافی نہیں ہو سکتی۔

انہوں نے کہا کہ ‎کسی صوبے کا پانی دوسرے صوبے کے حصے میں نہیں جا سکتا، اس امر کو یقینی بنانے کے لیے ملک میں آئینی طریقہ کار اور قوانین موجود ہیں، ‎پانی کے مسئلے پر سیاست نہیں کرنی چاہئے، معاملات میز پر بیٹھ کر حل کرنے چاہئیں۔ رانا ثنا اللہ نے کہا کہ ‎اکائیوں کی مضبوطی کو وفاق کی مضبوطی سمجھتے ہیں، ماضی کی طرح اسی طرز عمل پر چلتے رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ‎آئین و جمہوریت پر پختہ یقین رکھنے والی جماعت کے طور پر اکائیوں اور اس میں رہنے والے عوام کے حقوق کے تحفظ پر سمجھوتہ کیا نہ کریں گے، ‎بات چیت اور مشاورت ہی ہر مسئلے کا حل ہے۔

متعلقہ مضامین

  • سندھ کی عوام اپنے حقوق کا سودا کرنے والوں کو کسی قسم کے مذاکرات کا حق نہیں دیگی، سردار عبدالرحیم
  • آغا راحت نے پورے گلگت بلتستان کے عوام کی ترجمانی کی ہے، عطاء اللہ
  • علامہ اقبال نے مردہ قوم کو شعور دیا: احسن اقبال
  • اسرائیلی مظالم پر مسلم حکمرانوں کی خاموشی ،بے حسی افسوسناک :زوار بہادر  
  • پانی کے مسئلے پر ہمیں سیاست نہیں کرنی چاہیے: احسن اقبال
  • عوام کا ریلیف حکومت کے خزانے میں
  •  خیبر پختونخوا کی بے اختیار بلدیاتی حکومتیں اور نمائندے 3 سال گزرنے کے باوجود فنڈز سے محروم
  • وزیراعظم کی کینال منصوبے پر پی پی کے تحفظات دور کرنے کی ہدایت
  • پیپلز پارٹی وفاق کا حصہ، آئینی عہدوں پر رہتے بات زیادہ ذمہ داری سے کرنی چاہئے، رانا ثنا
  • پیپلز پارٹی وفاق کا حصہ ہے، پانی کے مسئلے پر سیاست نہیں کرنی چاہئے: رانا ثنا اللہ