انتہا پسند قابض ذہنیت فلسطینی علاقوں کا مطلب نہیں سمجھ رہی، سعودی عرب
اشاعت کی تاریخ: 10th, February 2025 GMT
ریاض(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 10 فروری2025ء)اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی جانب سے غزہ کی پٹی سے فلسطینیوں کی منتقلی کی ضرورت کے اعادہ کے بعد سعودی عرب نے مسئلہ فلسطین پر اپنے مضبوط موقف کی تجدید کی اور نقل مکانی کو مسترد کردیا ہے۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق سعودی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ فلسطینی عوام کا اپنی سرزمین پر حق ہے ۔
وہ فلسطین میں دخل اندازی کرنے والے یا تارکین وطن نہیں ہیں۔ فلسطینی عوام کا حق مضبوطی سے قائم رہے گا اور کوئی بھی ، چاہے جتنا طویل وقت لگا لے، ان سے ان کا یہ حق چھین نہیں سکتا ۔سعودی عرب نے فلسطینیوں کی نقل مکانی کے بارے میں اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کے بیانات کو مسترد کرتے ہوئے مسئلہ فلسطین کی مرکزیت پر زور دینے والے موقف کو سراہا اور اس بات پر زور دیا کہ دو ریاستی حل کے ذریعے بقائے باہمی کے اصول کو قبول کرنے کے سوا مستقل امن حاصل نہیں کیا جا سکتا۔(جاری ہے)
سعودی عرب نے فلسطینیوں کو اپنی سرزمین سے بے گھر کرنے کے حوالے سے دیگر ملکوں کی مذمت کو بھی سراہا۔ سعودی وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا کہ سعودی عرب ایسے بیانات کو دوٹوک طور پر مسترد کرتا ہے جس کا مقصد اسرائیل کے پے درپے جرائم سے توجہ ہٹانا ہے۔سعودی عرب نے نشاندہی کی کہ یہ انتہا پسند قابض ذہنیت نہیں سمجھتی کہ فلسطینی سرزمین فلسطین کے عوام کے لیے کیا معنی رکھتی ہے ۔ اس سرزمین سے ان کا جذباتی، تاریخی اور قانونی تعلق کیا ہی یہ ذہنیت نہیں سمجھتی کہ فلسطینی عوام کو زندگی گزارنے کا بنیادی حق حاصل ہے۔ اسی ذہنیت نے غزہ کی پٹی کو مکمل طور پر تباہ کردیا ہے اور وہا ں بسنے والے ایک لاکھ 60 ہزار افراد کو قتل اور زخمی کردیا ہے۔ فلسطین کے ان مقتولین اورزخمیوںمیں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے
پڑھیں:
عمران زیادہ بڑے خود پسند اور ذہنی مریض ہیں یا جرنیل؟
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251212-03-5
اقبال کا مشہورِ زمانہ شعر ہے
ہند کے شاعر و صورت گر و افسانہ نویس
ہائے بیچاروں کے اعصاب پہ عورت ہے سوار
ڈی جی آئی ایس پی آر احمد شریف چودھری کی حالیہ پریس کانفرنس سننے کے بعد ہم نے عرض کیا ہے۔
ملک کے فوجی اہلکار ہوں یا آلِ شریف
ہائے بیچاروں کے اعصاب پہ ’’بانی‘‘ ہے سوار
اس اجمال کی تفصیل ڈی جی آئی ایس پی آر کی اخبارات میں شائع ہونے والی پریس کانفرنس ہے۔ اس کانفرنس میں احمد شریف چودھری نے کہا ہے کہ عمران خان خود پسند، ذہنی مریض اور قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’یہ شخص‘‘ سمجھتا ہے کہ میں نہیں تو کچھ بھی نہیں، ’’تمہارا باپ‘‘ بھی فوج اور عوام میں دراڑ نہیں ڈال سکتا۔ تم خود کو سمجھتے کیا ہو؟ انہوں نے کہا کہ ایک ذہنی مریض افواج پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کررہا ہے۔ اپنے آپ کو عقل کل سمجھنے والا دوسروں کو غدار کہتا پھر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’اس شخص‘‘ کی سیاست ختم ہوچکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’کسی شخص‘‘ کو فوج کے خلاف بیانیہ بنانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ احمد شریف چودھری نے کہا بھارت اور افغانستان ’’ان کے‘‘ بیانیے کو بڑھاوا دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’ایسے لوگوں‘‘ کے بارے میں یہی ہوں گا کہ جب ’’کتا‘‘ بھونک رہا ہوتا ہے تو زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ (روزنامہ جسارت اور ڈیلی ڈان۔ 6 دسمبر 2025)
عمران خان کے بارے میں یہ بات ’’مشہورِ زمانہ‘‘ بھی ہے اور ’’بدنام زمانہ‘‘ بھی کہ وہ ایک ’’خودپسند‘‘ شخص تھے اور ہیں۔ اس کی وجہ ان کی کرکٹ کی عظمت ہے۔ کرکٹ کی تاریخ کے اگر دس بڑے بولرز کا شمار کیا جائے تو عمران ان میں سے ایک ہوں گے۔ کرکٹ کے پانچ عظیم بولرز کا انتخاب کیا جائے گا تو ان میں عمران کا نام شامل ہوگا۔ کرکٹ کے تین عظیم بولرز کی فہرست بنائی جائے گی تو عمران اس فہرست کا بھی حصہ ہوں گے۔ عمران خان دنیائے کرکٹ کے چند بڑے آل رائونڈرز میں بھی شامل تھے۔ وہ ان خوش قسمت کپتانوں میں سے ایک ہیں جنہوںنے اپنے ملک کو کرکٹ کا ورلڈ کپ جیت کر دیا ہے۔ وہ 25 سال تک کروڑوں افراد کے دل کی دھڑکن بنے رہے۔ کروڑوں خواتین ان کی پرستار تھیں، بھارت میں وہ ’’دیوتا‘‘ کی طرح دیکھے جاتے تھے۔ ایسا شخص اگر خود پسند ہوجائے تو بات سمجھ میں آتی ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ خود پسند شخص ذہنی مریض بھی بن جاتا ہے بلکہ خود پسندی تو خود ایک ذہنی و نفسیاتی مرض ہے لیکن اس سلسلے کا بنیادی سوال یہ ہے کہ عمران خان زیادہ بڑے خود پسند، ذہنی مریض اور قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں یا پاکستانی جرنیل؟
تاریخ شاہد ہے کہ پاکستان کی تخلیق میں جرنیلوں کا کوئی کردار نہیں تھا۔ اس لیے کہ 1940ء سے 1947ء تک کوئی پاکستانی فوج ہی موجود نہیں تھی۔ لیکن پاکستان بنتے ہی جرنیل پاکستان کے اقتدار پر قبضے کے خواب دیکھنے لگے۔ امریکا کی خفیہ دستاویزات کے سامنے آنے سے معلوم ہوا کہ جنرل ایوب 1954ء سے امریکیوں کے ساتھ خفیہ خط و کتابت کررہے تھے۔ وہ امریکیوں سے کہہ رہے تھے کہ پاکستان کے سیاست دان نااہل ہیں اور وہ پاکستان کو تباہ کردیں گے۔ جنرل ایوب فرما رہے تھے کہ پاکستان کی فوج سیاست دانوں کو پاکستان تباہ نہیں کرنے دے گی۔ سوال یہ ہے کہ جو فوج تخلیق پاکستان کے عمل میں کہیں شریک ہی نہیں تھی اسے جنرل ایوب نے اچانک پاکستان کا ’’مائی باپ‘‘ کیسے بنادیا؟ یہ جنرل ایوب کی ’’خود پسندی‘‘ اور ’’ذہنی مرض‘‘ نہیں تھا تو کیا تھا جو انہیں اقتدار پر قبضے کا خواب دکھا رہا تھا؟ دیکھا جائے تو جنرل ایوب کے اقتدار پر قبضے کا نہ کوئی مذہبی جواز تھا، نہ تاریخی و تہذیبی جواز تھا۔ یہاں تک کہ ان کے قبضے کا کوئی جمہوری اور سیاسی جواز بھی نہیں تھا مگر جنرل ایوب خود پسندی کے ذہنی مرض میں مبتلا تھے۔ چنانچہ انہوں نے عملاً 1958ء میں اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ ایسا کرکے انہوں نے قائداعظم کی میراث اور تحریک پاکستان کی عظیم جمہوری جدوجہد پر تھوک دیا۔ چنانچہ احمد شریف چودھری کو عمران خان کے ساتھ ساتھ جنرل ایوب کو بھی ان کی خود پسندی اور ذہنی مرض پر مطعون کرنا چاہیے۔ جنرل ایوب نے اقتدار پر قبضہ کرتے ہی 1956ء کا آئین منسوخ کردیا۔ یہ بھی ان کی خود پسندی اور ذہنی مرض کا شاخسانہ تھا۔ جنرل ایوب کے زمانے میں قومی اخبارات میں مادرِ ملت فاطمہ جناح کے خلاف آدھے آدھے صفحے کے ایسے اشتہارات شائع کرائے گئے جن میں انہیں ’’بھارتی ایجنٹ‘‘ قرار دیا گیا تھا۔ ایسے اشتہارات جنرل ایوب کی مرضی کے بغیر شائع نہیں کرائے جاسکتے تھے۔ ان اشتہارات سے ثابت ہوتا ہے کہ جنرل ایوب خود پسند بھی تھے اور ذہنی مریض بھی۔ یہاں تک کہ وہ قومی سلامتی کے لیے بھی خطرہ تھے اس لیے کہ فاطمہ جناح قائداعظم کی بہن تھیں اور وہ قومی اتحاد کی علامت تھیں۔ چنانچہ ان کے امیج کو نقصان پہنچانے کی ہر کوشش قومی سلامتی کے لیے خطرہ تھی۔ فاطمہ جناح نے جنرل ایوب کے خلاف صدارتی انتخابات میں حصہ لیا تو جنرل ایوب نے دھاندلی کرکے انہیں ہرا دیا۔ یہ عمل بھی جنرل ایوب کی خود پسندی اور ذہنی مرض کی علامت تھا۔ اہم بات یہ تھی کہ اس عمل سے قومی سلامتی کے لیے بھی سنگین خطرہ پیدا ہوا کیونکہ فاطمہ جناح مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان دونوں جگہ مقبول تھیں۔ محترمہ فاطمہ جناح صدر پاکستان بن جاتیں تو مغربی اور مشرقی پاکستان کی یکجائی بڑھ جاتی۔
جنرل یحییٰ خان بلا کے شراب نوش اور عورت باز تھے۔ انہوں نے تین سال میں ملک کے دو ٹکڑے کردیے۔ اس سے ثابت ہوا کہ وہ پہلے دن سے قومی سلامتی کے لیے ایک بہت ہی بڑا خطرہ تھے۔ جنرل یحییٰ کے ملک توڑنے کی بات ہم خود نہیں کہہ رہے۔ جنرل یحییٰ کے زمانے کے ڈی جی آئی ایس پی آر بریگیڈیئر صدیقی نے کچھ سال پہلے جیو کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے بتایا تھا کہ جنرل یحییٰ نے 1970ء کے انتخابات میں شیخ مجیب الرحمن کو ہرانے کے لیے مولانا بھاشانی کو بھاری رشوت دی تھی مگر پھر مولانا بھاشانی نے دیہی علاقوں میں شیخ مجیب کے خلاف انتخابات میں حصہ نہیں لیا۔ انٹرویو لینے والے نے پوچھا کہ اس کی کیا وجہ تھی تو 1970ء کے ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ اس کی وجہ یہ تھی کہ جنرل یحییٰ پاکستان توڑنے کا فیصلہ کرچکے تھے۔ مگر اس کے باوجود جنرل یحییٰ شان سے جیے اور مرنے کے بعد پورے فوجی اعزاز کے ساتھ دفن کیے گئے۔ 1971ء کے بحران کا ایک اہم کردار جنرل نیازی تھا۔ اسے ایسٹرن کمانڈ کا سربراہ بنایا گیا تو اس نے بنگالیوں کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ اگر وہ باز نہ آئے تو ہم بنگالی عورتوں کو اس بڑے پیمانے پر ریپ کریں گے کہ بنگالیوں کی نسل بدل کر رہ جائے گی۔ کیا ایسا بیان خود پسندی اور ذہنی مرض میں مبتلا ہوئے بغیر دیا جاسکتا ہے؟ کیا اس بیان سے ثابت نہیں ہوتا کہ جنرل نیازی قومی سلامتی کے لیے بہت ہی بڑا خطرہ تھا۔ لیکن پاکستانی فوج کے کسی جرنیل نے آج تک جنرل نیازی کو خود پسند، ذہنی مریض اور قومی سلامتی کے لیے خطرہ باور نہیں کرایا۔
بنگالی پاکستان کی آبادی کا 56 فی صد تھے مگر 1947ء سے 1962ء تک فوج میں ایک بھی بنگالی نہیں تھا۔ 1971ء میں جب ملک دو ٹکڑے ہوا تو فوج میں بنگالیوں کی تعداد 7 سے 8 فی صد تھی حالانکہ وہ آبادی کا 56 فی صد تھے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو 1947ء سے 1971ء تک جتنے جرنیل آئے وہ سب قومی سلامتی کے لیے ایک سنگین خطرہ تھے۔ اس لیے کہ انہوں نے ملک کے اکثریتی طبقے کو فوج جیسے اہم ادارے میں وہ مقام ہی حاصل کرنے نہیں دیا جس کے بنگالی مستحق تھے۔ فوج کے حوالے سے ’’مارشل ریس‘‘ یا ’’برترنسل‘‘ کا فلسفہ ایجاد کیا گیا۔ برتر نسلیں دو تھیں پنجابی اور پشتون جن کی فوج میں اکثریت تھی۔ بنگالیوں کے بارے میں کہا گیا کہ وہ ’’پستہ قد‘‘ ہیں اس لیے فوج کے لیے موزوں نہیں۔ یہ بھی پنجابی اور پشتون جرنیلوں کی خود پسندی اور ذہنی مرض کا حاصل تھا۔
جنرل ضیا الحق نے کراچی اور حیدر آباد میں الطاف حسین جیسے جرائم پیشہ سیاست دان کی پشت پناہی کی۔ اسے زیرو سے ہیرو بنایا اور سندھ کے شہری علاقوں کو ’’ناپاک مہاجریت‘‘ کے نشے میں مبتلا کیا۔
اس سے معلوم ہوا کہ جنرل ضیا الحق کی ’’مذہبیت‘‘ بھی جعلی تھی اور ’’پاکستانیت‘‘ بھی جعلی تھی۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں الطاف حسین نے بھارت کے دورے کے موقع پر کہا کہ اگر میں 1947ء میں ہوتا تو کبھی پاکستان کے حق میں ووٹ نہ ڈالتا لیکن اس بیان کے بعد بھی جنرل پرویز نے دہلی میں پاکستان کے سفارت خانے کو حکم دیا کہ وہ الطاف حسین کو رات کے کھانے پر مدعو کرے اور پاکستانی سفارت خانے نے ایسا ہی کیا۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اگر جنرل پرویز مشرف نواب اکبر بگٹی کو ڈرون حملے میں ہلاک نہ کرتے تو بلوچستان آج آتش فشاں بنا ہوا نہ ہوتا۔ یہ تمام واقعات بھی جرنیلوں کے ذہنی مرض میں مبتلا ہونے اور ان کے سیکورٹی رسک ہونے کا ثبوت ہیں۔
جہاں تک عمران خان کی خودپسندی کا تعلق ہے تو وہ کبھی بھی راز نہیں تھی مگر اس کے باوجود جرنیلوں نے انہیں اپنے سائے میں لیا۔ انہیں ذرائع ابلاغ پر چھا جانے کے مواقعے دیے۔ انہیں Electables فراہم کیے، انہیں ملک کا وزیر اعظم بنایا یہاں تک کہ بشریٰ بی بی سے ان کی شادی کرائی۔ یہاں تک سب کچھ ٹھیک تھا۔ عمران خان صاحب ِ کردار تھے، قومی ہیرو تھے، وزیراعظم بننے کے لائق تھے لیکن جیسے ہی وہ جرنیلوں کے ہاتھ سے نکلے وہ اچانک ’’خود پسند‘‘ بھی ہوگئے، ’’ذہنی مریض‘‘ بھی بن گئے اور قومی سلامتی کے لیے خطرہ بھی قرار پاگئے۔ کیا یہی جرنیلوں کی ’’ایمانداری‘‘ ہے کیا یہی ان کی ’’حب الوطنی‘‘ ہے؟۔