بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
اشاعت کی تاریخ: 10th, February 2025 GMT
فرمان ربیّ ہے ہم ظالموں کو آپس میں لڑا دیتے ہیں، آمنا و صدقنا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ملک ریاض پراپرٹی کی دنیا کا بے تاج بادشاہ جس کے دربار میں ملکی محمود و ایاز حاضری ہی نہیں دیتے بلکہ خوب گنگا اشنان سیم و زر بھی 20 سال تک کرتے رہے اور کراتے رہے۔ اب اُس کو گردش دوراں نے لرزہ براندام کردیا ہے۔ حکومت کے کار پرداز جو دو عشروں سے حصہ دار تھے، اُس کی لوٹ کھسوٹ کا تماشا دیکھتے رہے، اب جب دیکھا کہ اس ایشیا کے سب سے بڑے پراپرٹی ٹائیکون کو بدہضمی ہوگئی اور تابعدار رہنے کے بجائے یہ کھٹی میٹھی ڈکار نکال رہا ہے تو یاد آیا کہ بین الاقوامی انسداد منی لانڈرنگ قوانین اور ویانا کنونشن کے چورن کو استعمال میں لا کر ملک ریاض کا نیب کے مطب میں علاج کیا جائے۔ جس کے کامیاب کردار نے اچھے بھلے سے لے کر پیٹ بھروں کو ایسی چاٹ اور لت لگائی کہ وہ اپنا سبق بھول گئے اور ملک کے اثاثوں کو بھی یاجوج ماجوج کی طرح چاٹنے میں لگ گئے۔ ملک ریاض بھی بڑا کایاں ہے وہ بھی دھمکا رہا ہے کہ اُس کی زنبیل میں بڑے راز ہیں، پردہ اٹھا تو راز کھل جائیں گے اور بہت معصوم چہرے مکروہ نظر آئیں گے۔ اب اعصابی لڑائی ملک کے تاجدار حکمراں اور بے تاج بادشاہ کے درمیان ہورہی ہے، کل کے دوست کٹی کھانے والے مجنوں بنے ہوئے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دو عشرے تک نیب و دیگر ادارے جو انسداد بدعنوانی کے ذمے دار تھے کیوں آنکھیں موندے خواب خرگوش کے مزے لوٹتے رہے، کیا یہ اس کے جرم میں شریک اور سزاوار نہیں۔
کہتے ہیں کہ ایک جسٹس صاحب جو نیک و نامور باپ کے فرزند ہیں انکوائری کے طفیل تحفہ میں بحریہ ٹائون میں شاندار بنگلے کے مالک بن گئے۔ یوں تو شمار کریں تو ہر اک نے جن میں قانون فروش، قلم فروش، ضمیر فروش نے حصہ بقدر جثہ پایا اور خاموشی کی صورت میں قیمت لی اور یوں ملک ریاض ایسے منہ چڑھے ہوئے کہ وہ اپنی خواہش کا وزیراعظم تک لانے میں کامیاب ٹھیرے۔ جرائم کی دنیا کے ڈان کا یہ اصول بتایا جاتا ہے کہ وہ اپنے کارندوں سے جرائم کراتے ہیں۔ مذموم مقاصد پورے کرتے ہیں پھر اُسے ٹھکانے لگا دیتے ہیں۔ شہری لسانی تنظیم ایم کیو ایم نے حلف یافتہ کارکن ان ہی کو بنایا جو قتل و غارت کا جاندار ریکارڈ رکھتے تھے اُن سے خوب جرائم کرائے اور پھر اُن کو ٹھکانے لگوادیا یا اُن کے حوالے کرکے جو سرکار میں اُن کے سرپرست تھے ان کے سینہ پر کارکردگی کا تمغہ سجانے کا سامان کردیا۔ یوں ہی اندرون سندھ میں بھی وڈیرے، پتھارے دار کرتے ہیں۔ ڈاکو پالتے ہیں اُن کو کمائی کا ذریعہ بناتے ہیں اپنے سیاسی اثر رسوخ سے ان کے بچائو کا سامان کرتے ہیں۔ پھر جب دیکھتے ہیں کہ یہ اب وہ کام کا نہ رہا جو مطلوب تھا تو پولیس مقابلہ کے نام پر قانون کے مرگھٹ کی بھینٹ چڑھا دیا۔ یہ جرائم کی دنیا کا طریقہ کار ہے۔ قانون کے آنکھ پر بندھی پٹی جب ہی کھلتی ہے جب پیا نہ چاہے یا اُس کی قربانی دے کر اپنی گلوخلاصی کی ضرورت سرپرست کو پڑے۔ سندھی زبان کی خوب کہاوت ہے کہ چور کو نہیں اس کی ماں کو مارو جو چور نہ جنے، مگر کون ایسا کرے جن کا تکیہ ہی چور کی ماں پر ہے۔
ملک ریاض جو مہرہ شطرنج تھا۔ اب زیر عتاب ہے مگر سوال یہ ہے کہ یہ وقتی جھٹکا ہے جھکانے کا؟ اور پھر وہی تاریخ دہرائی جائے گی جس کو سیاسی زبان میں این آر او کہتے ہیں۔ قانونی زبان نظریہ ضرورت بتاتی ہے، حکمرانوں کی ڈکشنری اُن کو ’’سدھر جائے گا‘‘ سے نوازتی ہے۔ اس لغت کی بدولت کچے سے لے کر پکے تک۔ اوپر سے لے کر نیچے تک مجرم بے قابو ہیں۔ کون ہے جو روکے ٹوکے کوئی کلاشنکوف سے لوٹ رہا ہے کوئی سرکار کے اختیارات سے جیب خالی کرا رہا ہے۔ کوئی حکمرانی کی بدولت چھوٹ کا حامل ہے، کوئی قلم کی مار سے گھربار سجا رہا ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ اس طوفان بدتمیزی نے قانون، آئین کی آنکھیں موند دی ہیں۔ اندھیر نگری چوپٹ راج ہے، جرائم کا نظام دندنا رہا ہے۔ شریف سہما ہوا ہے۔ وہ سب کی مانگے خیر… کون نہیں جانتا کہ آج کے کھرب پتی حکمران سیاست دان، علما کرام، مفتیان عظام، ڈیرے، لچے، غنڈے، حاشیہ بردار سب چور کی ماں کی پیداوار ہیں۔ یہ کنگلے تھے اب ان کے شاندار بنگلے ہیں۔ بیرون ملک ٹھکانے، مال ملکیت کے ڈھیر ہیں، یہی قاتل ہیں یہی مسیحا ہیں، جب تک حاکم سے یہ پوچھنے کا مرحلہ نہیں آئے گا کہ اے عمرؓ یہ کرتا کیسے بنا؟، یا بیٹی فاطمہ چوری کرے گی تو اس کا بھی ہاتھ کٹے گا، اور جس کی گردن میں پھندا آئے اُسے لٹکا دو اور موٹی گردن کو چھوڑ دو والی پالیسی ہے۔ احتساب دیوانے کا خواب ہے دھوکا ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
بجلی
ہمارے پاس کوئی ایسا قومی رہنما موجود نہیں ہے جو پہلے قوم کو بتا سکتا کہ ہماری اصل بدحالی کتنی گھمبیر ہے۔ ملک میں بجلی کے بحران‘ اس کا حد درجہ مہنگا علاج اور آئی پی پیز وہ استعارے ہیں جس کی آڑ میںبجلی کا بحران پیدا کیا گیا۔ آج بھی حکومتی پالیسی کی وجہ سے گردشی قرضے ادا کرنا مشکل سے مشکل بنا دیا گیا ہے۔
Ember‘ لندن میں موجود ایک ایسا تحقیقاتی ادارہ ہے جس میں دنیا کے ہر ملک کی بجلی بنانے کے ذرائع اور حکمت عملی پر غیر متعصب تجزیہ کیا جاتا ہے۔ ادارہ کی رپورٹ کے مطابق‘ پوری دنیا میں کلین انرجی’’Clean Energy‘‘کا تناسب 41فیصد ہے۔ 2024ء میں سولرانرجی میں 29فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے رجحان میں (Wind energy) تقریباً آٹھ فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ سب سے کم ترین اضافہ‘ کوئلے اور ڈیزل (Fossil) سے حاصل کرنے والی توانائی کے ذرائع میں ہوا ہے۔ جو تقریباً 1.4 فیصد کے قریب ہے۔ یعنی پوری دنیا ‘ فوسل توانائی سے دور بھاگ رہی ہے اور کلین انرجی کی طرف رواں دواں ہے۔ یہ رجحان روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔
مگر ہمارے ملک کی داستان الگ ہے۔ پاکستان میں بجلی کے نام پر وہ کرپشن ہوئی ہے، جو ایک منفی مثال کے طور پر پیش کی جاتی ہے۔ قیامت یہ بھی ہے کہ کمال عیاری سے ڈیم بنانے کے کام کی رفتار کو حد درجہ شکستہ کردیا گیا ہے۔ پھر لوڈشیڈنگ کو بطور ہتھیار استعمال کیاگیا، اس کی آڑمیں نجی بجلی گھر بنانے کے معاہدے شروع ہو گئے۔ جن سے ہمارے ملک کی معیشت کی کمر ٹوٹ گئی۔
کمال دیکھئے کہ پاکستان میں زیادہ تر بجلی ڈیزل یا کوئلے سے بنائی جاتی ہے۔ پھر یہ بھی ہوا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک سے‘ ایسے استعمال شدہ بجلی گھر درآمد کیے گئے جو متعلقہ ممالک میں متروک کیے جارہے تھے۔ یہ ملک سے انتقام لینے کی مونہہ بولتی تصاویر ہیں۔ کمال یہ بھی ہے کہ باخبر حلقے حقائق جانتے ہیں ۔ مگر ہمارے نیرو تو دہائیوں سے چین کی بانسری مسلسل بجاتے آرہے ہیں۔
ایک سابقہ بجلی اور پانی کے وزیر ملے، فرمانے لگے کہ جب میں وزیر بنا تو پیغام بھجوایا گیا کہ آپ اگر نجی شعبے کے متعلق کوئی فیصلہ نہ کریں تو … وزیر موصوف کاریگر آدمی تھے، ہر چیز کو بھانپ گئے ، پھر سیاست میں آ گئے۔ اور آج بھی خیر سے میڈیا پرمیرٹ اور شفافیت پر بات کرتے نظر آتے ہیں۔ بہرحال جانے دیجیے۔
اس طرح کے سرفروش کردار ‘ ہر سیاسی جماعت میں اور ہر دور میں موجود رہے ہیں ۔ کیا آپ کو یہ بات عجیب نہیں لگتی کہ ہمارے سیاستدان اور حکمران کسی بھی بڑے آبی ڈیم کو مکمل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔ واپڈا کو تو ویسے ہی کئی حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ جو چیئرمین بنائے جاتے ہیں اور ان کی ’’کہانیاں‘‘ آپ واپڈا ملازمین سے پوچھ سکتے ہیں۔ شاید انھیں بتا دیاجاتا ہے کہ برخوردار کسی ڈیم کو بروقت مکمل نہیں کرنا ۔ ہاں‘ ان کی طرف‘ ایک مصنوعی توجہ ضرور رکھنی ہے۔
پاکستان کا نجی شعبہ ’’کلین انرجی‘‘ نہیں پیدا کر رہا۔ ہمارے ہاں تو ایسا بھی ہوا ہے کہ ہماری ایک حکومت میں تعینات ہونے والے مشیر نے اچھی خاصی کمائی کی ، ذرا سی بازپرس ہوئی تو بوریا بستر گول کر کے باہر چلے گئے۔ یہ اس حکومت کا کارنامہ ہے ‘ جو صرف ساڑھے تین سال حکومت کر پائی۔ جناب ‘ ہمارے تمام اکابرین ایک جیسے رویے کے حامل ہیں۔ شفاف حکومت‘ تبدیلی حکومت اور عوامی حکومت کے طرز عمل میں رتی برابر کا کوئی فرق نہیںہے۔
ایک بات عرض کرنا چاہوں گا۔ بجلی کی چار گنا اور انواسنگ بھی ہوتی ہے۔ اور ہمارے سرکاری بابوؤں نے کبھی کوئی اعتراض نہیں کیا۔کسی سرکاری بابو نے یہ معائنہ نہیں کیا‘ کہ اصل پیداواری صلاحیت کتنی ہے۔ آپ خود مجھے سمجھائیے کہ کیا ہماری معیشت کو ہندوستان نے تباہ کیا ہے؟ نہیں جناب! یہ کام ہم نے خود کیا ہے۔ اقتدار بھی اشرافیہ کا‘ میڈیا بھی ان کا‘ ریاستی ادارے بھی ان کے ۔Amber کی رپورٹ کے مطابق‘ پاکستان میں سولر انرجی کو لوگوں نے مجبوراً استعما ل کرنا شروع کیا ہے کیونکہ سرکاری بجلی ناقابل برداشت حد تک مہنگی کردی گئی ۔
لوگوں نے پیٹ کاٹ کر سولر پینل اور نیٹ میٹرنگ پر توجہ دی ہے۔ 2024 میں ہمارے ملک میں سترہ گیگا واٹ کے پینل امپورٹ کیے گئے ہیں۔ World Economic Forumنے بتایا ہے کہ چین نے سولر پینلزکی پیداوار حد سے زیادہ کر دی ہے۔ اور انھوں نے پاکستان کے عوام کی نفسیات سے بھرپور طریقے سے فائدہ اٹھایا ہے۔ چین نے ڈبل منافع کمایا۔ ایک طرف تو چین نے بجلی گھر فراہم کیے ‘ دوسری طرف‘ ہمیں سولر پینل مہیا کرنے شروع کر د یئے۔
بہرحال لوگوں میں سولر پینل کے بڑھتے ہوئے استعمال کا نتیجہ یہ نکلا کہ سرکاری بجلی کا استعمال کم ہونا شروع ہوا ، سرکاری بجلی کی فروخت میں کمی آنی شروع ہو گئی۔ اس پر حکومت نے وہ بجلی جو لوگ سولر پینل سے اپنے گھروں میں پیدا کر رہے تھے، اس کی قیمت خرید مبینہ طور پر صرف دس روپے کر دی۔ عوامی رد عمل کا خوف محسوس ہوا تو بجلی کی قیمت میں سات روپے کی کمی فرما دی۔ اس کی تشہیر ایسے کی گئی جیسے کہ ملک پر ایک ایسا احسان فرما دیا گیا ہے یا عوام کے تمام مسائل حل ہو گئے ہیں۔ اس پر کیا لکھوں۔ بلکہ کیوں لکھوں۔ہر ایک کو بجلی کے معاملات کی اصلیت معلوم ہے۔ لوگوں میں شعور کی سطح حد درجہ بلند ہے۔ وہ اپنے غم خواروں اوررقیبوں کو خوب پہچانتے ہیں۔