ڈونلڈ ٹرمپ کی جارحانہ پالیسیاں ... گریٹر امریکا بنا سکیں گے؟؟
اشاعت کی تاریخ: 10th, February 2025 GMT
نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جی جارہانہ پالیسیوں اور مستقبل کے منظر نامے کا جائزہ لینے کیلئے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں ماہرین امور خارجہ اور سیاسی تجزیہ کاروں کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر ارم خالد
ڈین فیکلٹی آف بیہیوئرل اینڈ سوشل سائنسز
جامعہ پنجاب
ڈونلڈ ٹرمپ کا سٹائل ماضی سے مختلف ہے۔ ان کا اندازجارحانہ اور اپنے خلاف ہونے والے اقدامات کا ردعمل معلوم ہوتا ہے۔ ٹرمپ اپنے لوگوں کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ وہ ان کی خواہشات اور توقعات پوری کرنے آئے ہیں۔ ٹرمپ کے ایگزیکٹیو آرڈر ایک لیڈر کے بیانات ہیں، امریکی معاشرے ، سینیٹ و دیگر میں ان پر غور و فکر کا آغاز ہوگیا ہے۔ ان میں سے بعض عدالتوں میں چیلنج ہوگئے ہیں لہٰذا آگے چل کر معاملات میں بہت تبدیلی آئے گی۔ کوئی بھی ملک یا حکومت اپنی اسٹیبلشمنٹ سے ٹکراؤ کی متحمل نہیں ہوسکتی، نہ ہی ڈونلڈ ٹرمپ اپنی اسٹیبلشمنٹ سے ٹکر لے سکتے ہیں، میرے نزدیک ٹرمپ نے اپنے دل کا بوجھ ہلکا کیا ہے، نظام چلانے کیلئے انہیں اداروں کے ساتھ چلنا ہوگا۔ ٹرمپ کی شکل میں یہ ’’نیو اتھاری ٹیرین پریزیڈینسی ‘‘ کا سٹائل ہے، یہ امریکی معاشرے کو قابل قبول نہیں ہوگا۔
یہ واضح ہونا چاہیے کہ امریکا کسی ایک شخص کی وجہ سے سپر پاور نہیں بنا بلکہ اس میں وہاں کی اسٹیبلشمنٹ، اداروں، سابق صدور ودیگر کا بڑا اور طویل کردار ہے۔ اس میں امریکا کے اتحادی ممالک بھی انتہائی اہم ہیں لہٰذا ٹرمپ سب کچھ یکسر ختم نہیں کرسکتے، انہیں اپنے احکامات اور پالیسیوں پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔
وہ اپنے اتحادیوں پر پابندیاں نہیں لگا سکتے، اس کا شدید ردعمل آئے گا۔ امریکی کانگریس اور میڈیا میں تو ابھی سے ہی کچھ آوازیں اٹھ رہی ہیں لہٰذا آگے چل کر معاملات میں تبدیلی آئے گی۔ امریکی امداد سے دنیا میں منصوبے چل رہے ہیں، یہ بند ہونے سے غریب ممالک کو نقصان ہوگا۔
اقوام متحدہ ایک اہم ماڈل ہے، امریکی صدر روایات کو ختم نہیں کر سکتے، انہیں حقیقت پسندانہ پالیسیوں کی طرف آنا ہوگا۔ پاک امریکا تعلقات کبھی بھی مثالی نہیں رہے، ہم نے اپنی ضروریات کے حساب سے تعلق بنائے، ہمیں ہاتھ پھیلانے کے بجائے خود انحصاری کی طرف بڑھنا ہوگا، صرف اسی صورت میں امریکا اور دنیا کے ساتھ ہمارے اچھے تعلقات استوار ہوسکتے ہیں۔
ڈاکٹر اعجاز بٹ
ماہر امور خارجہ و سیاسی تجزیہ کار
1947ء سے لے کرآج تک ہمارا انحصار امریکا پر رہا ہے۔ ہمیں اس سے مالی و ملٹری امداد ملتی رہی ہے۔ ہمارا انحصار آج بھی ختم نہیں ہوا۔ اس وقت ڈونلڈ ٹرمپ کی توجہ امریکا کے اندرونی معاملات پر ہے، وہ بیرونی جنگوں میں وسائل ضائع نہیں کرنا چاہتے بلکہ چین کی طرح جنگ کے بجائے ترقی کی پالیسی اپنا رہے ہیں۔ وہ خود کو عالمی ادارہ صحت، جنگوں و دیگر کاموں سے دور کر رہے ہیں، انہوں نے اقوام متحدہ کے بجٹ میں بھی کمی کر دی ہے۔ یو ایس ایڈ جو خود مختار ادارہ تھا، اسے حکومت کے تابع لایا جا رہا ہے، اب ریاست طے کرے گی کہ کہاں خرچ کرنا ہے اور کیسے خرچ کرنا ہے۔
امریکا دنیا میں بطور سپر پاور جو کردار ادا کر رہا تھا، ٹرمپ اس سے پیچھے ہٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ امریکا کی مالی ذمہ داریوں میں کمی لا رہے ہیں تاکہ گریٹر امریکا کا خواب پورا کرسکیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسی کا مرکز چین ہے، وہ چینی مصنوعات پر زیادہ ڈیوٹی لگا رہے ہیں، ٹرمپ چاہتے ہیں کہ بڑی طاقت ہونے کے ناطے چین بھی عالمی معاملات میں کردار ادا کرے، امداد دے، صرف امریکا ہی کیوں۔ ٹرمپ کی پالیسیوں سے تجارتی جنگ میں شدت آئے گی۔ انہوں نے بارہا چینی امپورٹ پرڈیوٹی لگانے کی بات کی ہے۔ امریکی صارفین کی بڑی تعداد چینی مصنوعات کا استعمال کرتی ہے، یہ سستی اور ان کی پہنچ میں ہیں۔ جب ڈیوٹی لگے گی تو یہ مہنگی ہو جائیں گی، اس کا اثر یقینی طور پر امریکی عوام پر ہوگا۔ کنیڈا، میکسیو، یورپین یونین کے ممالک سے بہت ساری اشیاء امریکا امپورٹ کرتا ہے، ڈیوٹی لگنے سے امریکی مارکیٹ میں مہنگائی کا طوفان آجائے گا۔ اسی طرح یہ ممالک بھی امریکی پراڈکٹس پر ڈیوٹی لگائیں گے جس سے عالمی معاشی ماڈل پر بُرا اثر پڑے گا ۔
دنیا کے ممالک ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں اور اسی طرح ہی آگے بڑھتے ہیں لیکن امریکی صدر اس کے برعکس کام کر رہے ہیں۔ میرے نزدیک پاکستان کی مشکلات میں اضافہ ہوگا، اس کا حل سفارتکاری نہیں بلکہ خود انحصاری ہے، جب تک ہم امریکا پر انحصار کم نہیں کریں گے، ہم متاثر ہوتے رہیں گے۔ امریکی صدر نے اسرائیل کے حوالے سے پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔ انہوں نے ابراہیم اکارڈ کی بات کی ہے۔ اس معاہدے کے تحت بہت سارے اسلامی ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کرکے اس کے ساتھ سفارتی تعلقات کا آغاز کیا تھا، ان ممالک میں بحرین، مراکش، متحدہ عرب امارات و دیگر شامل ہیں۔ اگر ٹرمپ کی حکومت ختم نہ ہوتی تو وہ سعودی عرب کو بھی اس میں شامل ہونے پر آمادہ کر رہے تھے۔
سعودی عرب کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے سے اسرائیل کے لیے راہ ہموار ہوجائے گی، سعودی عرب کے اثرو رسوخ کی وجہ سے دیگر اسلامی ممالک بھی اسے تسلیم کریں گے۔ اب دوبارہ سے ٹرمپ ابراہیم اکارڈ کو آگے بڑھانے کیلئے کام کریں گے، اس سے پاکستان کیلئے بھی چیلنج پیدا ہوگا۔ دو ریاستی حل اور علیحدہ فلسطینی ریاست کے قیام کو تسلیم کیے بغیر اگر ٹرمپ ابراہیم اکارڈ پر اپنی پالیسی کے تحت اسرائیل کو تسلیم کروا لیتے ہیں تو یہ امت مسلمہ کیلئے ایک بڑی شکست تصور کیا جائے گا۔ڈونلڈ ٹرمپ کا انداز جارحانہ ہے۔ اس سے جہاں امریکا کو فائدہ پہنچے گا وہاں اسے سارے چیلنجز کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔
ڈ اکٹر امجد مگسی
ڈائریکٹر، پاکستان سٹڈی سینٹر، جامعہ پنجاب
نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بڑی تعداد میں ایگزیکٹیو آرڈرز جاری کر کے پوری دنیا کو جھٹکا دیا۔ ان سے تو اقوام متحدہ میں بھی تشویش پیدا ہوگئی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے عالمی ادارہ صحت کے امریکی فنڈز ختم کر دیے ہیں۔ امریکا اکیلے 18 فیصد فنڈز دیتا تھا لہٰذا یہ فنڈز ختم کرنے سے دنیا میں ایڈز، پولیو و دیگربیماریوں کی روک تھام چیلنج بن جائے گا اور عالمی نظام صحت بری طرح متاثر ہو گا۔ غیر قانونی تارکین وطن اور برتھ رائٹ کے حوالے سے بھی ٹرمپ نے جو کچھ کیا اس پر وہاں کے عوام نے عدالت سے رجوع کیا ۔پہلے مقامی عدالتوں اور پھر وفاقی عدالت نے اسے معطل کر دیا۔
یہ پہلے ہی توقع کی جا رہی تھی کہ ٹرمپ کے جارحانہ اقدامات کو امریکی عدالتیں ، سول سوسائٹی اور معاشرہ قبول نہیں کرے گا، انہیں مذاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا اس وقت جو موڈ ہے وہ سابق دور میں نہیں تھا، ان کا انداز جارحانہ ہے، وہ چین اور یورپی یونین پر پابندیاں لگا رہے ہیں، امپورٹ پر 25فیصد مزید بڑھا دیا ہے، نومنتخب امریکی صدر نے 78 آرڈیننس جاری کیے جو نئی مثال ہے، انہوں نے تشدد کے کیسز میں سزا یافتہ 1500 قیدیوں کو بھی رہا کر دیا ہے، یہ سب اقدامات غیر معمولی ہیں جن سے خود امریکا بھی پریشان ہے۔ ڈونلڈٹرمپ ابھی تک غیر ذمہ دارانہ انداز میں حکومت چلا رہے ہیں۔ پاکستان کے حوالے سے ابھی کوئی واضح پالیسی نہیں لی۔ صدر آصف علی زرداری کے دورہ چین ،چینی صدر سے ملاقات اور تعلقات میں مزید فروغ کی باتوں پر امریکا کو تحفظات ہوں گے۔
امریکا اور پاکستان کے جہاں مشترکہ مفادات ہیں، ان پر کام کرنا چاہیے اور تعلقات بڑھانے چاہئیں لیکن پاک امریکا تعلقات چین کے تناظر میں نہیں ہونے چاہئیں۔ اسی طرح امریکا اوربھارت کے حوالے سے جو تشویش چل رہی ہے اس میں پاکستان کے لیے مواقع بھی ہیں۔ چین اور ایران کے حوالے سے پاکستان پر امریکا کا دباؤ آسکتا ہے۔
ٹرمپ کے سابق دور حکومت میں ہم امریکا سے اچھے تعلقات استوار نہیں کر سکے تھے، اب ہمارے لیے چیلنجز بڑھ گئے ہیں لہٰذا ہمیں موثر سفارتکاری اور لابنگ پر فوری کام کرنا ہوگا، ہمیں امریکا کے ساتھ نارمل تعلقات کو قائم رکھنا ہوگا، پاکستان کو اس وقت داخلی استحکام اور موثر سفارتکاری کی اشد ضرورت ہے، بھارت، امریکا کو پاکستان مخالف استعمال کرنے کی بھرپور کوشش کرے گا، ہمیں موثر حکمت عملی بنانا ہوگی۔ فلسطین اور غزہ کے حوالے سے ڈونلڈ ٹرمپ نے جو حالیہ بیان دیا اس کی عالمی سطح پر مخالفت ہو رہی ہے۔ اس میں کافی مسائل ہیں، ٹرمپ کو پذیرائی نہیں ملے گی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کے حوالے سے ڈونلڈ ٹرمپ امریکی صدر ہیں لہ ذا انہوں نے کو تسلیم کے ساتھ ٹرمپ کی رہے ہیں نہیں کر کام کر کر رہے
پڑھیں:
تبدیل ہوتی دنیا
صدر ٹرمپ کی ٹیرف پالیسیز کے تحت پوری دنیا ایک تبدیلی کی لپیٹ میں ہے۔ صدر ٹرمپ کے اقدامات جو وہ آزاد تجارت کو کچلنے کے لیے اٹھا رہے ہیں، ایسی پالیسیز ماضی میں امریکا کے کسی صدر نے نہیں لاگو کیں اور دوسری طرف ہیں ماحولیاتی چیلنجز جن کا سامنا ہم نے کرنا ہے۔
انٹارکٹیکا اور الاسکا جو دنیا کے نارتھ اور ساؤتھ پول ہیں وہاں برف کے گلیشئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ یقینا سمندر کی سطح تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ ہزاروں ارب ڈالر کی اراضی اور اثاثے سمندر نگل رہا ہے۔ بہت سے علاقوں سے لوگوں کی نقل مکانی شروع ہو چکی ہے۔ تیسری مائیکرو چپ نے وہ جوہر دکھائے ہیں کہ مصنوعی ذہانت ایک حقیقت سے زیادہ ضرورت بنتی جا رہی ہے۔
ٹرمپ کی پالیسیز دنیا کی آزاد تجارت کو کچلنے کے مترادف ہیں، ان پالیسیز نے نہ صرف دنیا بھرکے ممالک کی اسٹاک ایکسچینج کو شدید نقصان پہنچایا ہے بلکہ یہ پالیسیز خود امریکا کی معیشت کے لیے مسائل پیدا کر رہی ہیں۔
امریکا کی بانڈز مارکیٹ دنیا کی مضبوط ترین مارکیٹ تھی۔ دنیا میں جہاں بھی سر پلس ہوا وہ امریکی حکومت کے (بانڈز) خرید کرتے تھے مگر اب ٹرمپ کی حکومت میں دنیا امریکی بانڈز خریدنے سے شش و پنج میں ہے۔ ٹرمپ کے صدر بننے سے پہلے میں نے اپنے کالم میں یہی لکھا تھا کہ سٹہ لگانے والے اس بات کو سمجھ رہے ہیں کہ ٹرمپ کی حکومت میں ڈرٹی کیپیٹل ازم پروان چڑھے گا۔
اسٹاک ایکسچینج کو ایک دم سے گرایا بھی جائے گا اور اچانک بڑھایا بھی جائے گا اور اس اتار چڑھاؤ سے کچھ مخصوص لوگ مستفید ہوںگے۔ جب صدر ٹرمپ نے چین اور دیگر ممالک جو امریکا کو اپنی اشیاء ایکسپورٹ کرتے تھے، ان پر بھاری ٹیرف عائد کیے تو اسٹاک مارکیٹ نے لگ بھگ پانچ ہزار ارب ڈالرگنوا دیے۔
ان کے اثاثوں کی قیمت گر گئی۔ پھر چند ہی دنوں میں صدر ٹرمپ نے ٹیرف عائد کرنے کا یہ فیصلہ واپس لے لیا اور نیو یارک اسٹاک مارکیٹ واپس چار ہزار ڈالر چڑھ گئی۔ ٹرمپ کے مخالف ڈیموکریٹس کا یہ کہنا ہے کہ ٹرمپ کے قریبی لوگوں کے پاس پہلے سے ہی یہ اطلاعات تھیں جن سے انھوں نے اربوں ڈالرکمائے ہوںگے۔
مشرقِ وسطیٰ کے محاذ پر ٹرمپ کی پالیسیاں، تضادات کو تیزکررہی ہیں۔ یوکرین کی معدنیات پر ٹرمپ حکومت اپنا قبضہ جمانا چاہتی ہے۔ یورپ جو دوسری جنگِ عظیم کے بعد امریکا کا سب سے بڑا اتحادی تھا، وہ امریکا سے بدظن ہوچکا ہے۔
امریکا کی اب کوشش یہ ہے کہ روس سے تعلقات بہتر کیے جائیں، روس اور چین کے تعلقات میں دراڑیں ڈالی جائیں۔ دوسری طرف یورپین یونین، امریکا کی ان غیر مستقل مزاج پالیسیزکو دیکھتے ہوئے دنیا کے اندر ایک نئے عالمی لیڈر کی طرف دیکھ رہی ہے اور یہ نیا لیڈر چین بھی ہو سکتا ہے۔
اس تمام منظرنامے میں ایک نئی قوت اور تیسری بڑی عالمی قیادت بہت تیزی سے ابھر رہی ہے وہ ہے بھارت۔ امریکا کی بیشترکمپنیوں نے ٹرمپ کے اتحادی ایلون مسک کی گاڑیوں کا بائیکاٹ کردیا ہے۔ اسی طرح یورپ نے بھی جس سے ایلون مسک کو لگ بھگ ایک ہزار ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔
مگر اس دنیا کی تیزی میں ہم کہاں کھڑے ہیں؟ کیا ہم اس قابل ہیں کہ آنے والے چیلنجز کا مقابلہ کرسکیں؟ کیا ہماری کوئی تیاری ہے؟کیا ہم نے کوئی متبادل راستہ ڈھونڈا ہے، جب صدر ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی ہم پر بھی لاگو ہوںگی۔
ہمارا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر امریکا ہے۔ یقینا ہم پر بھی ان پالیسیز کے منفی اثرات مرتب ہوںگے۔ امریکا یہ چاہے گا کہ پاکستان پر اسی طرح کے دباؤ ڈال کرکچھ شرائط عائد کی جائیں اور ان شرائط کی مد میں اپنے من پسند کام لیے جائیں۔
پاکستان کی سیاست میں جب بھی امریکا نے پالیسیز بنائیں، ان سے پاکستان میں جمہوریت کو شدید نقصان پہنچااور خاص کر ان ادوار میں جب امریکا میں ری پبلیکن کا دورِ ہو۔یہ ہماری غلط فہمی ہوگی، اگر ہم یہ سوچ رہے ہیں افغانستان، امریکا سے ٹکراؤ بڑھائے گا،کیونکہ امریکا کو بٹگرام ایئر پورٹ واپس چاہیے۔
امریکا نے اس حوالے اپنی درخواست ، طالبان کے آگے پیش بھی کردی ہے۔ امریکا، ایران کے ساتھ فوجی محاذ بنانے کا ارادہ رکھتا ہے، اس منظرنامے میں دونوں ہی ممالک ہمارے پڑوسی ہیں۔ دنیا کی تیسری طاقت یعنی ہندوستان بھی ہمارا پڑوسی ہے۔
اگر ہم امریکا کا جائزہ لیں تو داخلی اعتبار سے موجودہ انتظامیہ میں، پاکستان کوئی دیرینہ دوست نہیں رکھتا۔ ہماری موجودہ سول قیادت ایک سال گزار چکی ہے لیکن اسٹبلشمنٹ کو اس حکومت کو ہٹانے کے لیے زیادہ دقت کا سامنا نہیں ہوگا۔
بس ایک خوش آئند بات یہ ہے کہ جو معاشی بحران عمران خان کی حکومت میں آیا تھا، اب ملک اس بحر ان سے نکل چکا ہے۔ اس کا کریڈٹ یقینا شہباز شریف اور اس کی ٹیم کو جاتا ہے۔ اس دورِ حکومت میں پارلیمنٹ اور سول حکومت اتنی آزاد نہیں جتنی آزادی بانی پی ٹی آئی کے دور میں میسر تھی۔
بلوچستان، سندھ اور پنجاب کے صوبوں میں جو ہلچل مچی ہوئی ہے، اس تیزی میں اس حکومت کے خلاف آوازیں ابھر رہی ہیں۔ موجودہ بحران بانی پی ٹی آئی کے لیے اسٹبلشمنٹ کے ساتھ بات چیت کرنے کی راہ ہموار کرسکتا ہے۔ امریکا کی مداخلت ہمیشہ پاکستان کی داخلی سیاست میں رہی۔ ٹرمپ کے دورِ حکومت میں ہمارے جیسے ممالک اپنی آزاد خارجہ پالیسی بنانے میں آزاد نہیں رہے۔
دوسری جنگِ عظیم کے بعد دنیا کے اسٹیج پر پہلی مرتبہ اتنی نمایاں اور واضح تبدیلی نظر آرہی ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی کے اعداد و شمار کے تحت پاکستان دنیا کے سات ملکوں میں شمار ہوتا ہے جو اس بحران کا شکار ہیں۔ ماہرین کے مطابق پاکستان کی ساحلی پٹی پر بڑی واضح تبدیلیاں آئی ہیں جس سے نقل و حمل کے امکانات زیادہ ہوگئے ہیں۔
ہماری داخلی سیاست انتہائی کمزور ہے۔ کسی مضبوط سول قیادت کا وجود نہیں جو ابھرتے ہوئے بین الاقوامی ٹکراؤ میں بھرپور انداز میں ہماری ترجمانی کرسکے بلکہ ایسی مضبوط سول قیادت بھی میسر نہیں جو چار یا تین صوبوں میں یکساں طور پر مقبول ہو۔ فیڈریشن کے حوالے سے پاکستان اس وقت انتہائی نازک موڑ سے گزر رہا ہے۔ یہاں بلوچستان کا بیانیہ الگ ہے۔ خیبر پختونخوا کا بیانیہ الگ ہے اور اب سندھ میں بھی ایک نیا بیانیہ جنم لے چکا ہے۔
یہ تبدیلیاں بڑی تیزی سے آرہی ہیں۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد کانگریس نے انگریز حکومت کے خلاف ’’ہندوستان چھوڑ دو ‘‘ کی تحریک چلائی اور ان تحاریک میں سبھاش چندر بوس جیسے لیڈر تھے جنھوں نے انگریز سامراج کو کمزور دیکھتے ہوئے جارحانہ انداز اپنایا۔صرف امید کی کرن ہے ٹیکنالوجی کے اندر انقلاب ! اس انقلاب میں چین امریکا کے ساتھ کھڑا ہے۔
لاکھ بحران سہی لیکن اس ٹیکنالوجی نے دنیا کو ایک کردیا ہے۔ پچیس سالوں سے دنیا میں آزاد تجارت کا سکہ چل رہا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ اس ٹیکنالوجی نے مزید سے مزید ترقی پائی۔صدر ٹرمپ اس وقت جو اقدامات کر رہے ہیں وہ دنیا کی آزاد تجارت کو کچل دیں گے۔
دائیں بازو کی پاپولر ازم بھی اس وقت اپنی انتہا پر ہے۔ یقینا اس کا زوال بھی ہوگا مگر جانے سے پہلے جو منفی اثرات چھوڑے گا، وہ دنیا کے لیے بہت خطرناک ہوںگے۔ ماحولیاتی تبدیلیاں اگر اسی رفتار سے رواں رہیں تو دنیا ایک بہت بڑے بحران میں داخل ہو رہی ہے اور اگر ماحولیاتی تبدیلیاں ایسے بحران کو جنم نہیں دیتیں تو دائیں بازو کے پاپولر ازم کو شکست ہوگی جو دنیا کو اس وقت تیسری جنگِ عظیم کے دہانے لے آیا ہے۔