لوئر دیر: خاتون کے ہاں بیک وقت 5 بچوں کی پیدائش
اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT
لوئر دیر: خیبر پختونخوا کے ضلع لوئر دیر میں ایک خاتون کے ہاں بیک وقت 5 بچوں کی پیدائش ہوئی ہے، جن میں 2 بیٹے اور 3 بیٹیاں شامل ہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق تیمرگرہ ٹیچنگ اسپتال کے ڈی ایم ایس ڈاکٹر عباس کاکہنا ہےکہ زچہ اور تمام نومولود مکمل طور پر صحت مند ہیں، بچوں کے والد سراج خان نے اس خوشخبری پر مسرت کا اظہار کیا ہے۔
پاکستان میں ایک سے زائد بچوں کی پیدائش کے حالیہ واقعات
خیال رہےکہ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں بلکہ گزشتہ ماہ بنوں میں بھی ایک خاتون کے ہاں 5 بچوں کی ولادت ہوئی تھی، اس سے قبل فروری 2023 میں ملتان میں ایک خاتون نے چھ جڑواں بچوں کو جنم دیا تھا جب کہ 2022 میں لاہور میں بھی ایک خاتون کے ہاں بیک وقت 7 بچوں کی پیدائش ہوئی تھی۔
پاکستان کی آبادی اور پیدائشی شرح
پاکستان کا شمار دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے ممالک میں ہوتا ہے۔ 2024 کے تخمینے کے مطابق، پاکستان کی آبادی 240 ملین (24 کروڑ) سے تجاوز کرچکی ہے، ملک میں پیدائش کی شرح نسبتاً زیادہ ہے، اور ایک اندازے کے مطابق ہر سال 35 سے 40 لاکھ بچے پیدا ہوتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ صحت کی بہتر سہولیات اور زچہ و بچہ کی دیکھ بھال میں بہتری کے باعث زیادہ تعداد میں بچوں کی صحت مند پیدائش کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔
پاکستان میں ایسے نایاب واقعات وقتاً فوقتاً سامنے آتے رہتے ہیں، جو ملک میں صحت کے شعبے میں ہونے والی پیشرفت کو بھی نمایاں کرتے ہیں۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: بچوں کی پیدائش خاتون کے ہاں ایک خاتون
پڑھیں:
خلع لینے والی خاتون کو بھی حق مہر لینے کا حقدار قرار دے دیا گیا
لاہور (نیوزڈیسک) جن خواتین نے خلع لیا ہے وہ بھی حق مہر کی حقدار ہیں۔لاہور ہائی کورٹ نے خلع لینے والی خواتین کو حق مہر کا حقدار قرار دے دیا۔ عدالت نے فیصلہ دیا کہ صرف خلع لینے کی بنیاد پر عورت کو حق مہر کی رقم سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔عدالت نے قرار دیا کہ حق مہر کی رقم عورت کے لیے تحفظ سمجھی جاتی ہے، اگر شوہر کا رویہ خاتون کو خلع لینے پر مجبور کرتا ہے تو وہ حق مہر لینے کی مکمل حقدار ہے۔
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس راحیل کامران شیخ نے شہری آصف محمود کی درخواست پر فیصلہ سنایا، جس میں خلع کی بنیاد پر حق مہر کی ڈگری اور رقم دینے کو چیلنج کیا گیا تھا۔عدالت نے قرار دیا ہے کہ بیٹی کو حق مہر دینا ہمارے معاشرے میں جڑ پکڑ چکا ہے اور والدین کو اپنی بیٹی کو اتنا ہی حق مہر دینا چاہیے جتنا وہ برداشت کر سکتے ہیں۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ طلاق دینا بنیادی طور پر شوہر کا حق ہے اور طلاق کی صورت میں شوہر حق مہر اور تحائف کی واپسی کا مطالبہ کرنے کا حق کھو دیتا ہے۔عدالت نے مزید ریمارکس دیئے کہ طلاق کی صورت میں سورہ نساء شوہر کو بیوی کی طرف سے دی گئی جائیداد اور تحائف واپس مانگنے سے بھی منع کرتی ہے۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے تحت عدالت شوہر کے تشدد، برے رویے وغیرہ کی بنیاد پر طلاق کے بعد مہر کی رقم واپس نہ کرنے کا حکم دے سکتی ہے۔عدالت نے قرار دیا کہ محض طلاق لینے کی بنیاد پر عورت کو مہر کی رقم سے محروم نہیں کیا جا سکتا، مہر کی رقم کو عورت کے لیے تحفظ تصور کیا جاتا ہے۔ اگر شوہر کا رویہ عورت کو طلاق دینے پر مجبور کرتا ہے تو وہ مہر کی رقم وصول کرنے کی مکمل حقدار ہے۔
مزید پڑھیں :اگر کسی نے اسرائیل سے دوستی بڑھانے کی کوشش کی تو انسانوں کو سمندر اسے لے ڈوبے گا، حافظ نعیم الرحمن