ڈونلڈ ٹرمپ عرب ممالک کے سربراہان سے جلد ملاقات کرنیوالے ہیں، اسرائیلی صدر
اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT
امریکی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اسرائیلی صدر نے کہا کہ صدر ٹرمپ پہلے شاہ اردن پھر مصری صدر عبدالفتاح السیسی سے ملاقات کریں گے، ٹرمپ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے بھی ملاقات کرسکتے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ اسرائیلی صدر اسحاق ہرزوگ کا کہنا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ بڑے عرب سربراہان سے جلد ملاقات کرنے والے ہیں۔ صدر ٹرمپ اردن، سعودی عرب اور مصر کے سربراہان سے ملاقات کریں گے۔ امریکی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اسرائیلی صدر نے کہا کہ صدر ٹرمپ پہلے شاہ اردن پھر مصری صدر عبدالفتاح السیسی سے ملاقات کریں گے، ٹرمپ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے بھی ملاقات کرسکتے ہیں۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق اسرائیلی صدر نے ٹرمپ کی سعودی، مصری رہنماؤں سے کب اور کہاں ملاقات ہونے کا نہیں بتایا، انہوں نے ٹرمپ کی عرب رہنماؤں سے ممکنہ ملاقات کی مزید تفصیل نہیں بتائی۔ امریکی میڈیا کے مطابق اردن کا سرکاری میڈیا شاہ اردن کی صدر ٹرمپ سے ملاقات کی خبر دے چکا ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ شاہ اردن کی امریکی صدر ٹرمپ سے وائٹ ہاؤس میں 11 فروری کو ملاقات ہوگی۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: اسرائیلی صدر سے ملاقات شاہ اردن
پڑھیں:
اسرائیلی مائنڈ سیٹ،کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ؟
کیا مروت کیا چودھری اور کیا غامدی اینڈ کمپنی ، یعنی کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ؟ کہاں شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی اور مفتی منیب الرحمن اور کہاں شیطان اکبر کے یہ خرکار؟مفتی تقی عثمانی آسمان علم وعمل کا وہ چمکتا ہوا چاند ہیں کہ جس کی روشنی سے پوری اسلامی دنیا مستفید ہو رہی ہے،عرب وعجم کے علماء و اسکالرز جن کی راہوں میں پلکیں بچھانا اپنے لئے سعادت سمجھتے ہیں ، اخلاص،علم وتقوی ، للہیت اور امت مسلمہ بلخصوص غزہ کے مظلوم مسلمانوں کا غم ہی جن کا اوڑھنا بچھونا ہے،آپ ایک دو ،چار یا سو نہیں بلکہ ہزاروں علماء اور مفتیان کے استاد ہیں،اک ایسے ولی کامل کو شیطان لعین کے گماشتوں کی طرف سے تضحیک کا نشانہ بنایا جانا عذاب خداوندی کو دعوت دینے کے مترادف ہے،میں ایسی صحافت ،ایسی وکالت،ایسی سیاست ،اور ایسے دانشوروں کو نہیں مانتا کہ جو دینی احکامات کا مذاق اور دینی شخصیات کو تضحیک کا نشانہ بنا کر غیر ملکی آقائوں سے ڈالر بٹورتے ہوں،اس خاکسار نے اپنے 30سالہ صحافتی کیرئیر میں ایسے شیطانی گماشتوں کو نہ صرف یہ کہ مسترد کیا،بلکہ اپنے قلم کے ذریعے انکے مکروہ چہروں کو عوام کے سامنے بے نقاب بھی کیا۔ قارئین اوصاف!کو یا د ہو گا کہ جب رسوا کن ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے اقتدار کا سورج نصف النہار پر تھا،اسلام آباد کو امریکی بلیک واٹر نے اپنے باپ کی جاگیر سمجھ رکھا تھا،دجالی چینلز کے بعض اینکرز ،دانش فروش اور اینکرنیاں امریکی بلیک واٹر ز کی بانہوں میں بانہیں ڈال کر جام لنڈھانا دانشوری اور میڈیا کی آزادی کی معراج سمجھتی تھیں،وہ دور نائن الیون کے فوراً بعد کا تھا،امریکی ڈالروں کی برکھا برس رہی تھی،ہم جیسے طالب علم امریکی ڈالروں کے حصول کے لئے تھوتھنیاں لٹکانے والے ’’معززین‘‘ کی شکلیں دیکھ کر حیرت میں گم ہو جاتے تھے،بے حیائی ،فحاشی و عریانی ،عورتوں و مردوں کی مخلوط میراتھن ریس ،لاہور کی ایک حویلی میں بو کاٹا کے نعروں میں شراب و شباب کی محفلیں سجانا روشن خیالی کی معراج سمجھا جاتا تھا ،نائن الیون کے بعد کون بکا؟ کس نے ضمیر اور نظریات کی سوداگری کی’’ڈالر خوری‘‘ صرف دجالی میڈیا ،حکمرانوں ،ساست دانوں ، دانشور وں اور اسٹیبلشمنٹ تک ہی محدود رہی یا پھر اس بہتی گنگا میں پگڑیوں ،ٹوپیوں والے صاحبان جبہ و دستار نے بھی حصہ بقدر جثہ وصول کیا؟
ہم نے اپنے چیف ایڈیٹر محترم مہتاب خان صاحب کی قیادت میں نائن الیون کے ان سب ڈالر خوروں کے خلاف قلمی جہاد جاری رکھا،یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ جب چیف ایڈیٹر بہادر ،گوروں سے نہ مرعوب ہونے والا اور نہ بکنے والا ہو تو پھر ہم جیسے طالب علموں کے لئے صحافت کا مزہ دو آشتہ ہو جاتا ہے،رسوا کن ڈکٹیٹر کی کوکھ نے جانے، انجانے میں کتنے فواد چودھری جنم دئیے اور دجالی میڈیا کتنے مروت اور مرزا جہلمی پیدا کر چکا؟،ان سب کے مکروہ چہروں سے نقاب سرکانا میری صحافتی ذمہ داری ہے،اور یہ ذمہ داری ہم مرتے دم تک ادا کر تے رہیں گے ،ان شااللہ ،پاکستان میں نا موس رسالت ﷺ ،ناموس صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین اور شعائر اسلام پہ حملے کرنے والے شیطانوں کو اگر سزائیں دے دی جاتیں تو بات آرمی چیف اور امت کے مشترکہ سرمایہ اکابر علماء کی گستا خیوں تک نہ پہنچتی ،حد تو یہ ہو گئی ،کہ یہاں محض جھوٹی رپورٹ دجالی میڈیا اور غیر ملکی آقائوں کی مدد سے ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ کے ہاتھوں پانچ سو کے لگ بھگ گرفتار گستاخوں کے حق میں باقاعدہ کمپین چلائی گئی اور گر فتار گستاخ ملعونوں کو رہا کروانے کے لئے بعض ایسے سفید داڑھی والے بابے بھی پیش پیش نظر آئے کہ جن کی کئی نسلیں زکوٰۃ کے مال پر پل بڑھ کر جوان ہو ئیں،کراچی اور گوجرانولہ کے دو بگڑے مولوی زادوں نے اپنی سوشل میڈیا کی پوسٹوں میں گرفتار گستاخوں کے حق میں جس طرح سے ٹسوے بہائے انہیں دیکھ کر ان کے حق ڈالر خوری کا اندازہ لگانا چنداں مشکل نہ تھا،لیکن سپیشل برانچ سے عدلیہ سے لے کر دجالی میڈیا تک جھوٹ کے پھیلے ہوئے بادلوں کو چیر کر ’’سچائی‘‘نے بہرحال اپنا را ستہ تلاش کر ہی لیا اور دنیا گرفتار گستاخ ملعونوں کے جھوٹے حامیوں اور ان کے سہولت کاروں کی ذلت و رسوائی اپنی آنکھوں سے دیکھے گی،ان شااللہ۔
یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ پاکستان ایک اسلامی نظریاتی مملکت ہے،یہاں عوام کی اسلامی راہنمائی کرنا حکمرانوں کی آئینی ذمہ داری ہے،جب حکمران ،سیاست دان،جرنیل، ججز ،جرنلسٹ مدثر شاہ جیسے جعلی پیر اور بیورو کر یٹ نما مولوی اپنے اپنے ڈالر کھرے کر کے ڈالر دینے والوں کے ایجنڈے کو اسلامی جمہوریہ پاکستان میں پروان چڑھانے کی کوشش کریں گے تو اس سے نہ صرف یہ کہ ملک میں انارکی پھیلے گی بلکہ ملکی سلامتی کو بی، خطرات لاحق ہو جائیں گے ، کیا آپ جانتے ہیں کہ اسرائیلی صدر کا فرستادہ جہلم کا پیرمدثرشاہ المعروف مصدر شاہ 10مارچ کو چند پاکستانیوں کے ہمراہ اسرائیل کادورہ کر چکا ہے،پیرمدثرشاہ کے علاوہ اس وفد میں برطانوی نشریاتی ادارے سے منسلک رہنے والی صحافی سبین آغا، ایک غیر ملکی اخبار سے منسلک صحافی کسور کلاسرا، اسلام آباد کے ویب اخبار کے صحافی قیصر عباس، صحافی شبیر خان اوردیگرشامل تھے۔سب سے اہم سوال یہ ہے کہ یہ لوگ پاکستانی پاسپورٹ پراسرائیل کیسے گئے؟ اگرچہ حکومت نے اعلان کیاہے کہ پاکستانی پاسپورٹ غلط استعمال کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی، مگر ابھی تک اسرائیل کے ان گماشتوں کے خلاف حکومتی کارروائی ہوتی کہیں نظر نہیں آرہی تو کیوں ؟یہ بھی ممکن ہے کہ یہ لوگ دہری شہریت کے تحت کسی دوسرے ملک کے پاسپورٹ پر اسرائیل گئے ہوں ، لیکن انہوں نے شناخت پاکستان کی استعمال کی ، پاکستان کے معاشرے میں بگاڑ اور ہیجان پید اکرنے کی کوشش کی ، پاکستان کے دشمن ملک سے اظہار یک جہتی کرکے ملکی قوانین اور ملکی موقف کی توہین کی ، اگر یہ ثابت بھی ہوجائے کہ ان لوگوں نے پاکستا نی پاسپورٹ استعما ل نہیں کیا ، تو بھی ان کے خلاف سخت ترین کارروائی لازم ہے ، جس کا ابھی کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا البتہ حکومتی ادارے اسلام آباد ،لاہور،اور کراچی کی سڑکوں پر لگے ہوئے فلسطینی جھنڈوں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے تو نظر آ رہے ہیں،مگر اسرائیل کا دورہ کرنے والوں کے خلاف کارروائی ’’ہنوزدلی دور است‘‘کا مصداق کب تک بنی رہے گی؟