قوم کے حق میں تباہ کن فتنے!
اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT
آج کل ایک خاص بات جو بری طرح کھٹکتی ہے وہ یہ ہے کہ بدی پہلے سے زیادہ منہ پھٹ ہوگئی ہے اور نیکی نے ہکلانا شروع کردیا ہے۔ اگر جبر کی حالت میں نہ بولنے والے کو بھی اپنے اس گمان کا ثواب پہنچتا ہے کہ جبر نہ ہوتا تو میں ضرور بولتا، تو پھر جو لوگ اختیار پاکر بولنے کے بہ جائے گالیاں بکنا شروع کر دیتے ہیں ان کی کچھ سزا بھی ہونی چاہیے۔گزشتہ دنوں بہت اچھی باتیں بھی کہی گئی ہیں۔ پر انہیں بڑے معاندانہ جذبے کے ساتھ سنا گیا ہے۔ بہت سے نیک جذبے بھی معرض اظہار میں آئے ہیں۔ پر ان کے باب میں بڑی بدنیتی اور بد طینتی کا ثبوت دیا گیا ہے۔ کوئی شبہ نہیں کہ قوم میں کچھ اور بیداری پیدا ہوگئی ہے اور اپنے حق کا شعور بھی پہلے سے کچھ زیادہ ہے، پر ایسے لوگوں کی اب بھی کوئی کمی نہیں جو اپنے درد مندوں کی بات سن کر بھڑک اٹھتے ہیں اور اپنے حق میں بولنے والوں کو اپنی برہمی کا ہدف بناتے ہیں۔سیاست کی دنیا میں فتویٰ فروشی کا بازار گرم ہے۔ اب ہر وہ شخص جہنمی ہے جو عوام کے حق کی بات کرتا ہو۔ جماعتیں اور جمعیتیں قوم کو جمع کرنے کے بجائے اس میں تفرقہ ڈال رہی ہیں۔ دلوں میں نفرتیں بٹھائی جارہی ہیں اور محبت کو درمیان سے اٹھا دیا گیا ہے۔ اس طرح ایک عجیب بد دلی اور دل برداشتگی کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔ کچھ اتنی لغو اور بے معنی بولیاں بولی گئی ہیں کہ سننے والوں نے تنگ آکر سننا ہی چھوڑ دیا ہے۔ یہ ہے اس سیاست کی دین جو زمین و آسمان کے سارے دکھوں کو دور کرنے کا دعویٰ کرتی ہے۔ حق یہ ہے کہ قوم اپنے حق ناشناس راہ نماؤں سے عاجز آچکی ہے۔مقاماتِ ہدایات و ارشاد میں یہ فرمایا جاتا ہے کہ لوگوں کو اپنے دور میں نہیں بلکہ اپنے دور سے پہلے کے دور میں رہنا چاہیے۔ کہا جاتا ہے کہ جو اپنے زمانے کی فضا میں سانس لینا چاہتے ہیں وہ نابکار اور گناہ گار ہیں۔ حال کو ماضی کی صلیب پر چڑھانے کا یہ شوق بڑے گہرے معنی رکھتا ہے۔
ہر نسل اپنے زمانے میں پیدا ہوتی ہے اور اپنے زمانے میں ہی سانس لے سکتی ہے۔ ہر دور کا اپنا ایک رمز ہوتا ہے، جس دور میں ہم زندگی گزار رہے ہیں اس کا اپنا ایک رمز ہے، جو اس رمز سے انکاری ہے۔ وہ خود بھی ہلاکت میں پڑیں گے اور اپنے ساتھ دوسروں کو بھی ہلاکت میں ڈالیں گے۔ تاریخ کے نظام قضا و قدر کو جھٹلانا امتوں اور ملّتوں کو کبھی راس نہیں آیا۔ یہ وہ مسخری ہے، جو تاریخ کی کبریائی نے کبھی برداشت نہیں کی۔
اختلاف کرنے والوں کو اس امر پر تو اتفاق کرنا ہی پڑے گا کہ ہم اپنے آبا و اجداد کے زمانے میں نہیں اپنے زمانے میں پیدا ہوئے ہیں اور اگر ہم اپنے زمانے میں پیدا نہیں ہوئے تو پھر مژدہ ہوکہ ہم پیدا ہی نہیں ہوئے۔ پچھلی نسلیں اپنا اپنا بوجھ اٹھا کر اپنے دن گزار گئیں۔ ہمیں اپنا بوجھ اٹھانا ہے اور ان کے تجربوں سے سبق حاصل کرنا ہے۔مشکل یہ ہے کہ اس نسل کے بعض آسمان نژاد راہ نما اس کی موجودگی ہی کے قائل نہیں ہیں۔ وہ محلّ خطاب میں اس ہجوم کی طرف سے منہ موڑے کھڑے ہیں، جو ان کے سامنے موجود ہیں اور اس کارواں کی گرد سے مخاطب ہیں، جو کبھی کا گزر چکا ہے۔پورا سچ تو خیر بولا ہی کہاں گیا ہے۔ یہ لوگ تو آدھے سچ کی بھی تاب نہیں رکھتے۔ یہی نہیں بلکہ انھیں وہ بات بھی سخت گراں گزرتی ہے جو سچ سے کچھ مشابہت رکھتی ہو۔ لوگوں کو ان کے حقوق اور ان کے حقیقی مسئلوں سے بے خبر رکھنے کی کوششیں کی جارہی ہیں اور نہ جانے کیا چاہا جا رہا ہے۔اس قوم کو ایک ایسی فضا درکار ہے جس میں حقیقتوں کے طور پر برتا جائے۔ یہ فضا اسی وقت پیدا ہو سکتی ہے، جب حق طلبی کے ساتھ سوچا جائے، چلایا نہ جائے اور لوگوں کی نیتوں پر حملے نہ کیے جائیں۔ یہ بڑی الم ناک بات ہے کہ لوگ اپنے آپ کو ’سند‘ قرار دے کر دوسروں کی ہر بات کو مسترد کر دیتے ہیں۔ پر یاد رکھنا چاہیے کہ یہ انداز قوم کے حق میں تباہ کن فتنوں کا سبب بن سکتا ہے۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: اپنے زمانے میں اور اپنے ہیں اور گیا ہے ہے اور
پڑھیں:
تھوڑی توانائی، بڑے امکانات، رات کے وقت بجلی بنانے والے سولر پینلز
واشنگٹن (انٹرنیشنل ڈیسک)قابل تجدید توانائی کے ایک نئے دور کا آغازکرنے کی صلاحیت کے ساتھ سٹینفورڈ یونیورسٹی کے محققین نے ایک انقلابی ٹیکنالوجی تیار کی ہے جو شمسی پینلز کو نہ صرف دن بلکہ رات کے وقت، چاندنی میں، اور یہاں تک کہ بادلوں یا بارش کے دوران بھی بجلی پیدا کرنے کے قابل بناتی ہے۔
یہ بریک تھرو اُس دیرینہ مسئلے کا حل ہے جس کا سامنا روایتی سولر پینلز کو ہمیشہ سے رہا ہے، یعنی رات کے وقت بجلی پیدا نہ کر پانا۔
سٹینفورڈ یونیورسٹی کے محققین نے ایک نیا طریقہ دریافت کیا ہے جس کے ذریعے رات کے وقت بھی بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔ یہ طریقہ ”ریڈی ایٹو کولنگ“ یعنی تابکار ٹھنڈک پر مبنی ہے۔
اس عمل میں زمین کی سطح اپنی گرمی رات کے وقت خلا میں خارج کرتی ہے، خاص طور پر صاف آسمان والی راتوں میں۔ اس گرمی کے اخراج سے جو درجہ حرارت کا فرق پیدا ہوتا ہے، اُسے بجلی بنانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
یہ نئی ٹیکنالوجی، جسے ”مون لائٹ پینلز“ کہا جاتا ہے، پروفیسر شنہوئی فین اور ان کی ٹیم نے تیار کی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ یہ ٹیکنالوجی ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے، لیکن یہ خاص طور پر اُن جگہوں کے لیے بہت فائدہ مند ہو سکتی ہے جہاں بجلی کی سہولت نہیں ہے، جیسے دور دراز دیہات یا آف گرڈ علاقے۔ یہ اختراع مستقبل میں صاف اور پائیدار توانائی حاصل کرنے کا ایک نیا راستہ ثابت ہو سکتی ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ سولر پینلز رات کو بجلی کیسے پیدا کر سکتے ہیں؟
پروفیسر شنہوئی فین اور ان کی ٹیم نے اس کا حل نکال لیا ہے۔ انہوں نے تھرمو الیکٹرک جنریٹرز کو عام سولر پینلز کے ساتھ جوڑ کر ایسا سسٹم بنایا ہے جو رات کے وقت زمین سے نکلنے والی گرمی کو اکٹھا کر کے بجلی پیدا کرتا ہے۔ اس طریقے سے تبدیل شدہ سولر پینل رات میں تقریباً 50 ملی واٹ فی مربع میٹر بجلی بنا سکتے ہیں۔
اگرچہ یہ مقدار دن کے وقت عام سولر پینل سے بننے والی 200 واٹ فی مربع میٹر بجلی سے کہیں کم ہے، لیکن یہ پھر بھی چھوٹے برقی آلات جیسے ایل ای ڈی لائٹس اور ماحولیاتی سینسرز چلانے کے لیے کافی ہے۔ پروفیسر فین کا کہنا ہے کہ اگر اس ٹیکنالوجی کو مزید بہتر بنایا جائے تو مستقبل میں اس سے کہیں زیادہ فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔
مزیدپڑھیں:سیاستدان کو الیکشن اور موت کے لیے ہر وقت تیار رہنا چاہیئے، عمر ایوب