ڈی پورٹیشن کے بعد قرضوں، افلاس، ذلت اور تحقیقات کا سامنا
اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT
دنیا بھر کے ترقی پذیر اور پس ماندہ معاشروں کا ایک بنیادی المیہ یہ ہے کہ اِن کے بہت سے نوجوان ملک میں کچھ کرنے کے بجائے باہر جاکر بہت کچھ کرنے کے لیے تڑپتے رہتے ہیں اور جب تک یہ کہیں جاکر کچھ کرنے کے قابل نہیں ہو جاتے تب تک ملک میں ڈھنگ سے کچھ کرنے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔
پاکستان، بھارت، بنگلا دیش، سری لنکا اور دیگر علاقائی ممالک کے بہت سے نوجوان اپنے ملک میں کچھ کرنے کے بجائے مغربی دنیا میں قدم رکھ کر وہاں اپنی صلاحیت و سکت کو بروئے کار لانے کے خواب دیکھتے رہتے ہیں اور اِن خوابوں کی تعبیر پانے کے لیے کچھ بھی کر گزرنے پر آمادہ رہتے ہیں۔
پاکستان اور بھارت دونوں ہی کے بہت سے نوجوان بیرونِ ملک قیام اور کام کرنے کے لیے جائز و ناجائز ہر طرح کے طریقوں سے بیرونِ ملک جانے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ انسانی اسمگلرز اِس کیفیت کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور لاکھوں روپے بٹور کر لوگوں کو کہیں جنگل میں چھوڑ کر غائب ہو جاتے ہیں۔ غیر قانونی تارکینِ وطن کی کشتیوں کے ڈوبنے کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی آمد نے امریکا میں غیر قانونی تارکینِ وطن کے لیے مشکلات بڑھادی ہیں۔ ملک بھر میں غیر قانونی طور پر مقیم افراد کو چُن چُن کر تحویل میں لینے کے بعد ملک بدر کیا جارہا ہے۔ یہ سب کچھ ٹرمپ کے انتخابی وعدوں کے مطابق ہے۔ انتخابی مہم کے دوران انہوں نے ہر جلسے میں کھل کر کہا کہ وہ ملک میں غیر قانونی تارکینِ وطن کو کسی طور برداشت نہیں کریں گے اور اگر انہیں نکال باہر کرنے کے لیے فوج سے بھی مدد لینا پڑی تو لیں گے۔ اور وہ ایسا ہی کر رہے ہیں۔
گزشتہ بدھ کو امریکی ایئر فورس کا ایک طیارہ 104 غیر قانونی بھارتی تارکینِ وطن کو لے کر امرتسر پہنچا۔ اس طیارے میں پنجاب، ہریانہ اور گجرات سے تعلق رکھنے والے باشندے سوار تھے۔ انڈیا ٹوڈے نے ایک رپورٹ میں بتایا کہ امریکا میں آباد ہونے کا خواب چکناچور ہوگیا اور یہ لوگ اب اپنے اپنے علاقوں میں ایسی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوں گے جس میں اُن کے لیے کچھ نہ ہوگا نہ اُن کے متعلقین کے لیے۔ اںہیں ذلت، تحقیر، قرضوں اور بے روزگاری کا سامنا ہوگا۔ ساتھ ہی ساتھ غیر قانونی طور پر امریکا جانے کی پاداش میں اِنہیں تحقیقات کا بھی سامنا رہے گا۔
جو لوگ غیر قانونی طور پر ملک سے باہر جاتے ہیں اُنہیں جب وہاں سے ڈٰ پورٹ کیا جاتا ہے تو اُن پر ترس آتا ہے کہ انہوں نے اچھی خاصی رقم بھی گنوائی، مشکلات بھی برداشت کیں اور ملک بدری کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ یہ کچھ اپنی جگہ اور یہ حقیقت اپنی جگہ کہ وہ لوگ غیر قانونی طور پر ملک سے باہر گئے تھے۔ ملک کو قانونی دستاویزات کے بغیر چھوڑنے کی پاداش میں اُنہیں تحقیقات کا سامنا تو کرنا ہی پڑے گا۔
غیر قانونی طور پر مغربی دنیا کا رخ کرنے والے اِدھر اُدھر سے قرضے لے کر جاتے ہیں۔ اگر واپسی آنا پڑے تو یہ قرضے اُن کے حلق کی ہڈی بن جاتے ہیں۔ امریکا سے جن 104 بھارتی باشندوں کو واپس آنا پڑا ہے انہیں اب قرضوں کے ساتھ ساتھ ذلت اور تحقیقات کا بھی سامنا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اِن کی زندگی مزید اذیت میں گزرے گی۔ لوگ طنز کے تیر برساکر جینا حرام کردیں گے۔ اور پھر ایک اضافی مصیبت یہ ہے کہ امریکا اور یورپ کے ترقی یافتہ معاشروں میں رہنے سے اُن کی سوچ بھی بدل چکی ہے۔ وہ اب اپنے ماحول میں مشکل ہی سے ایڈجسٹ کر پائیں گے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کچھ کرنے کے تحقیقات کا رہتے ہیں کا سامنا جاتے ہیں ملک میں ہے کہ ا کے لیے
پڑھیں:
چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کیلئے بلاسود قرضے دئیے جا رہے ہیں: شافع حسین
لاہور (کامرس رپورٹر) صوبائی وزیر صنعت و تجارت شافع حسین کی زیر صدارت وزیر اعلیٰ آسان کاروبار فنانس اور وزیر اعلیٰ آسان کاروبار کارڈ سکیموں کے بارے میں سٹیئرنگ کمیٹی کا پہلا اجلاس پیسک ہاؤس میں منعقد ہوا، جس میں بلاسود قرضوں کی دونوں سکیموں پر پیش رفت کا جائزہ لیا گیا۔ ایم ڈی پیسک سائرہ عمر نے سکیموں پر پیش رفت کے بارے میں بریفنگ دی۔ صوبائی وزیر صنعت و تجارت نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ پنجاب سمال انڈسٹریز کارپوریشن کی بلاسود قرضوں کی سکیموں کے تحت قرضوں کے حصول کیلئے لاکھوں افراد نے درخواستیں دی ہیں۔ آسان کاروبار فنانس سکیم کے تحت 3کروڑروپے تک کے بلاسود قرضے دئیے جا رہے ہیں جبکہ آسان کاروبار کارڈ سکیم کے تحت 10لاکھ روپے تک بلا سود قرضے کی سہولت موجود ہے۔ یہ دونوں سکیمیں چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباروں کے فروغ کیلئے معاون ثابت ہورہی ہیں۔ بلاسود قرضوں کی یہ دونوں سکیمیں انتہائی کامیابی کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہیں۔ صوبائی وزیر صنعت و تجارت چودھری شافع حسین سے کینیڈا کے ایکٹنگ ہائی کمشنر مسٹر ڈینیل آرسینلٹ نے مقامی ہوٹل میں ملاقات کی جس میں پاکستان اور کینیڈا کے مابین تجارت بڑھانے کے امور پر بات چیت ہوئی۔ صوبائی وزیر نے پنجاب کے مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کے مواقع سے آگاہ کیا۔ ایکٹنگ ہائی کمشنر کینیڈا نے کہا کہ کینیڈا اور پاکستان کے مابین باہمی تجارت بڑھانے کی وسیع گنجائش موجود ہے۔ کینڈا اور پاکستان کی بزنس کمیونٹی کے مابین روابط بڑھانے کی ضرورت ہے۔