سٹی 42 : آل گورنمنٹ ایمپلائزگرینڈ الائنس پاکستان نے مختلف الاؤنسز ڈبل کرنے سمیت دیگر مطالبات منوانے کیلئے کل (10 فروری) پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے گرینڈ دھرنے کا اعلان کردیا۔

آل گورنمنٹ ایمپلائر گرینڈ الائنس کے  چیف کوارڈینیٹر رحمان باجوہ کا کہنا ہے کہ 10 فروری کو پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے گرینڈ دھرنا ہو گا، ملک بھر سے سرکاری ملازمین پارلیمنٹ ہاؤس پہنچیں گے، چاروں صوبوں، گلگت بلتستان، آزاد کشمیر کے ملازمین دھرنا دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ حقوق پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو گا، سرکاری ملازمین ہر قربانی کیلئے تیار ہیں ۔ 

راولپنڈی میں آپریشن،غیر قانونی 205 افغان باشندوں کو ملک بدر کر دیا گیا

آل گورنمنٹ ایمپلائز گرینڈ الائنس کے چیف آرگنائزر رحمان باجوہ نے چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کر دیا، جس کے مطابق وفاقی سرکاری اداروں کے ملازمین کی تنخواہوں میں تفریق ختم کی جائے، صوبائی طرز پر تمام وفاقی ملازمین کی اپگریڈیشن بمہ مراعات کی جائے،  لیو انکیشمنٹ اور وفاقی ملازمین کی پینشن اصلاحات واپس لی جائیں، بجٹ 2024-25 میں تنخواہوں پر نافذ کردہ ٹیکس واپس لئے جائیں۔ ملازمین کی جانب سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ اسکولوں و اداروں کی بندش و نجکاری کے بجائے بہتر اصلاحات کی جائیں، اداروں کی نجکاری کے دوران ملازمین کی نوکریوں کا تحفظ یقینی بنایا جائے، ظالمانہ پنشن اصلاحات کو فی الفور واپس لیا جائے۔ اس کے علاوہ مکان ہائرنگ کا نئے اضافے کے ساتھ نوٹیفکیشن جاری کیا جائے، میڈیکل، کنوینس، ہاؤس الاونس میں 100 فیصد اضافہ کیا جائے ۔

وزیرکھیل فیصل کھوکھر کی ریکارڈمدت میں قذافی سٹیڈیم کی تعمیر پر محسن نقوی کو مبارکباد

احتجاج میں اساتذہ، وفاقی وزارتوں، ڈویژنز، اداروں کے ملازمین شرکت کریں گے، احتجاج میں آل گورنمنٹ ایمپلائز گرینڈ الائنس میں شامل تمام تنظیمیں شرکت کریں گی۔ 

.

ذریعہ: City 42

کلیدی لفظ: پارلیمنٹ ہاؤس گرینڈ الائنس آل گورنمنٹ ملازمین کی

پڑھیں:

سندھ کے تعلیمی اداروں میں کیا ہورہا ہے؟

سندھ کے تعلیمی اداروں میں اس وقت ابتر صورت حال ہے، محکمہ تعلیم کی اعلیٰ بیوروکریسی تعلیمی ترقی کے لیے منصوبہ بندی اختیارکرنے میں ناکام نظر آتی ہے، اگرچہ محکمہ تعلیم کے پاس وافر بجٹ ہے اور بین الاقوامی اداروں سے بھی سندھ کے محکمہ تعلیم کو امداد ملتی رہی ہے، لیکن حقائق ظاہر کرتے ہیں کہ سندھ کے حکومت کی نگرانی میں چلنے والے تعلیمی اداروں میں نظم وضبط کا فقدان ہے۔

اساتذہ اپنی ذمے داریاں ادا نہیں کر رہے ہیں اور طلبہ بھی تعلیم کے بجائے زیادہ تر غیرنصابی سرگرمیوں میں مصروف رہتے ہیں۔ یہ ایک تشویش ناک صورتحال ہے جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، سندھ کے دیہی علاقوں میں فقط سرکاری فائلوں پر تعلیمی ادارے موجود ہیں لیکن عملاً ان کا کوئی وجود نہیں ہے۔ اس طرح زیادہ تر تعلیمی بجٹ خرد برد کیا جاتا ہے اور قومی خزانے کو لوٹا جاتا ہے۔

خود حکومت کے ذرائع تسلیم کرتے ہیں کہ محکمہ تعلیم میں ہر سطح پر بدعنوانیاں موجود ہیں لیکن ان بدعنوانیوں کے خاتمے کے لیے موثر اقدامات نہیں کیے جا رہے ہیں۔ سندھ ایک ایسا صوبہ ہے جس کی یونیورسٹیوں میں بھی اعلیٰ تعلیم میں تحقیق کے پہلو کو نظر اندازکیا جا رہا ہے اور تعلیمی معیار پر توجہ نہیں دی جا رہی ہے۔

1973ء کے آئین کے آرٹیکل 25 اے کے تحت ملک میں 5 سے 16 سال کی عمرکے بچوں کو مفت لازمی تعلیم دینے کی حکومت پابند ہے۔ نومبر 2011میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے کابینہ سیکریٹریٹ نے میٹرک تک مفت اور لازمی تعلیم کے بل کی اتفاق رائے سے منظوری دی، اس بل کے تحت بچوں کو نہ پڑھانے والے والدین کو پانچ ہزار روپے اور اسکول میں داخل نہ کرنے کی بنیاد پر پانچ سو روپے روزانہ کی بنیاد پر جرمانہ عائد کیا جائے گا۔

کینیڈا کے ایک ادارے اور پاکستان کی ایک یونیورسٹی کے ٹیچر ایجوکیشن کے شعبے کے اشتراک عمل سے جو تحقیقی رپورٹ سندھ کے تعلیمی اداروں کی ابتر صورتحال کے متعلق منظر عام پر آئی ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ صوبے میں تعلیمی معیار زوال پذیر ہے اور اساتذہ بھی اپنی ذمے داریاں پوری نہیں کررہے ہیں۔

اس تحقیقی رپورٹ کے مطابق سندھ کے 70 فیصد پرائمری اسکولوں میں صرف 15 منٹ پڑھایا جاتا ہے۔ 20 فیصد اساتذہ 20 منٹ سے زائد اور 10 فیصد 5 منٹ سے بھی کم وقت تک پڑھاتے ہیں۔ اس تحقیق کے لیے سندھ کے بہت سے اضلاع کا انتخاب کیا گیا تھا۔

سروے کے نتائج مرتب کرنے والوں کا کہنا ہے کہ ان اضلاع کے طالب علموں کو تعلیم دینے پر اساتذہ کی توجہ نہیں ہے اور طلبہ بھی پڑھائی میں دلچسپی نہیں لے رہے ہیں۔ اساتذہ تنخواہیں اور مراعات وصول کرتے ہیں مگر وہ تدریسی ذمے داریاں ادا کرنے سے گریزکرتے ہیں۔ اس تحقیقی رپورٹ کے مطابق سندھ کے ان اضلاع میں بچوں کو عام طور پر تعلیمی اداروں میں نہیں بھیجا جاتا۔

اس طرح ان تعلیمی اداروں میں 46 فیصد طالب علم عموماً غیر حاضر رہتے ہیں اور تعلیم پر توجہ نہیں دیتے ہیں۔ رپورٹ مرتب کرنے والوں کی یہ بھی رائے ہے کہ اساتذہ کی تربیت کے لیے اصلاحات میں تسلسل نظر نہیں آرہا ہے۔ اس تحقیقی رپورٹ سے سندھ حکومت کے محکمہ تعلیم کی ناقص کارکردگی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے اور اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے لائحہ عمل طے کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ صوبے میں نہ صرف تعلیمی معیار بہتر ہوسکے بلکہ اساتذہ بھی اپنی تدریسی ذمے داریاں یکسوئی اور سنجیدگی سے ادا کریں۔

آج کے پاکستانی معاشرے میں تعلیم کو بنیادی اہمیت حاصل ہے اور مستقبل میں بھی تعلیم کا فروغ اقتصادی ترقی کے لیے ضروری ہے۔ حکومت کے تعلیم سے متعلق پالیسی ساز ادارے بلند و بانگ دعوے کرتے ہیں۔ تعلیمی معیارکو بڑھانے کے لیے اقدامات کے اعلان کیے جاتے ہیں۔

خوشنما الفاظ پر مشتمل تقاریرکی جاتی ہیں مگر عملاً سندھ میں تعلیمی معیارکی ترقی پر کوئی توجہ نہیں دی جا رہی ہے اور طالب علموں میں بھی تعلیم کے حصول کا جذبہ موجود نہیں ہے۔ جب اساتذہ کو اپنی تدریسی ذمے داریاں کا احساس نہیں ہے اور طالب علموں کو وہ مقررہ وقت تک پڑھانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ محکمہ تعلیم کا بجٹ منظورکرنے والے حکام خواب خرگوش میں کیوں مبتلا ہیں؟ اور کس لیے وہ نااہل اساتذہ کے خلاف کارروائی سے گریزکر رہے ہیں؟ حکومت اور اقوام متحدہ کے یونیسف ادارے کی طرف سے کرائے گئے مشترکہ سروے کے مطابق سندھ میں بچوں کو غیر انسانی حالات کا سامنا ہے، جوکہ بین الاقوامی معیار سے بہت کم ہے، اس غذائی قلت کی وجہ سے بچے مختلف ذہنی و جسمانی امراض میں پہلے ہی مبتلا ہیں۔ سندھ کے تعلیمی اداروں میں بچوں کے تعلیمی حقوق و مفادات کے تحفظ کے لیے جامع حکمت عملی طے کرنا بھی محکمہ تعلیم سندھ کی ذمے داری ہے۔

متعلقہ مضامین

  • خیبرپختونخوا حکومت نے آئندہ مالی سال کیلیے بجٹ کی تیاری شروع کر دی
  • فضل الرحمان حافظ نعیم ملاقات: فلسطین کا مسئلہ اجاگر کرنے کے لیے ’مجلس اتحاد امت‘ کے نام سے فورم بنانے کا اعلان
  • آغا راحت کی سرکاری ملازمین پر تنقید مناسب نہیں، انجینیئر انور
  • پنجاب میں تنخواہ دار ملازمین پر ٹیکس شکنجہ کسنے کی تیاری، بل آج پیش کیا جائے گا
  • نئی ترمیم لانے کی فی الحال کوئی تجویز نہیں: وزیرِ قانون اعظم نذر تارڑ
  • پیپلز پارٹی نے سندھ کے حقوق اور دریائے سندھ کے پانی کا سودہ کیا ہے، حلیم عادل شیخ
  • بی جے پی عدلیہ کی توہین کرنے والے اپنے اراکین پارلیمنٹ کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتی، جے رام رمیش
  • سندھ کے پانی کے معاملے پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے، فاروق ستار
  • ایم کیو ایم سندھ کے پانی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گی: فاروق ستار 
  • سندھ کے تعلیمی اداروں میں کیا ہورہا ہے؟