کیا برسوں کے بچھڑے مہاکمبھ میں مل گئے؟ امیتابھ اور ریکھا کی تصاویر وائرل
اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT
بھارت کے لیجنڈری سپر اسٹار امیتابھ بچن اور بلیک بیوٹی ریکھا کی جوڑی سے کون ناواقف ہے؟ بھارتی سینما کی یہ جوڑی حقیقی زندگی میں کبھی ایک نہیں ہوسکی لیکن مداح اس جوڑی کو ساتھ دیکھنے کے خواہش مند ہیں۔
حال ہی میں بھارت میں جاری مہاکمبھ میلے میں کئی مشہور شخصیات کی شرکت خبروں میں رہی اور ان کی تصاویر میڈیا کی زینت بنی۔ لیکن جن تصاویر نے صارفین کی فوری توجہ حاصل کرلی ان میں امیتابھ بچن اور ریکھا کی ایک ساتھ تصویر تھی۔
بالی ووڈ کے بگ بی اور بلیک بیوٹی کی یہ تصاویر مختلف سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر شیئر ہوئیں اور دیکھتے ہی دیکھتے وائرل ہوگئیں۔
کئی صارفین نے ان تصاویر کو شیئر کرواتے ہوئے کیپشن میں مشہور گانے کے بول بھی لکھے کہ ’’کب کہ بچھڑے ہوئے ہم آج کہاں آ کے ملے‘‘۔
لیکن یہ صرف ان دونوں شخصیات کے مداحوں کے دل کی آواز تھی۔ ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ مہاکمبھ میلے میں شرکت کے دوران امیتابھ بچن اور ریکھا کی یہ تصاویر آرٹی فیشل انٹیلی جنس (اے آئی) کا کارنامہ تھا، جس نے حقیقی زندگی میں ایک نہ ہونے والی اس جوڑی کو اس طرح ملا دیا۔
سوشل میڈیا پر وائرل تصاویر میں امیتابھ اور ریکھا کو پریاگ راج میں منعقدہ مہاکمبھ میلے کے موقع پر پانی میں ڈبکی لگاتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔
یہ تصویر بظاہر حقیقی لگتی ہے، لیکن فیکٹ چیک کرنے پر یہ بات سامنے آئی ہے کہ یہ تصویر مصنوعی ذہانت (AI) کے ذریعے بنائی گئی ہے۔
TagsShowbiz News Urdu.
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: پاکستان کھیل اور ریکھا ریکھا کی
پڑھیں:
خیبر پختونخوا کی بے اختیار بلدیاتی حکومتیں اور نمائندے 3 سال گزرنے کے باوجود فنڈز سے محروم
خیبر پختونخوا کی بے اختیار بلدیاتی حکومتیں اور نمائندے 3 سال گزرنے کے باوجود فنڈز سے محروم ہیں، ویلج کونسلر اور بلدیاتی نمائندے ایک پیسہ اعزازیہ بھی نہیں دیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق پشاور سمیت خیبر پختونخوا کے تمام اضلاع میں بلدیاتی حکومتیں تو قائم ہیں لیکن عملی طور پر ان کے پاس نہ فنڈز ہیں، نہ اختیارات، 3 سال گزرنے کے باوجود مقامی نمائندے ایک ایک پیسے کو ترس رہے ہیں۔
خیبر پختونخوا کی بے اختیار بلدیاتی حکومتیں اور نمائندے فنڈز کو ترس گئے، نائبر ہوڈ اور ویلیج کونسلز کے چیئرمین لاکھوں روپے واجب الادا اعزازیے کے انتظار میں ہیں، جبکہ تمام چیئرمین تاحال 30 ہزار روپے ماہانہ اعزازیہ بھی نہیں پا سکے۔
تحصیل اور ڈسٹرکٹ مئیرز بھی حکومت کی ”قسطوں“ کے منتظر ہیں۔ 90 ارب روپے کے ترقیاتی فنڈز کی منظوری تو ہو چکی ہے،لیکن زمین پر کام کی صورتحال صفر ہے ۔
بلدیاتی نمائندوں نے بارہا احتجاج بھی کیا لیکن صوبائی حکومت صرف باتوں سے ٹالتی رہی۔ بلدیاتی نظام کو مؤثر بنانے کے حکومتی دعوے، صرف کاغذوں کی حد تک محدود نظر آتے ہیں۔
بلدیاتی حکومتوں کا وجود صرف نام کا رہ گیا ہے۔ اختیارات کی منتقلی اور فنڈز کی فراہمی کے بغیر مقامی حکومتیں عوامی مسائل کیسے حل کریں گی؟ یہ سوال اب ہر شہری کی زبان پر ہے۔