غزہ پر قبضے کا موقف: غیر دانشمندانہ اور ناقابلِ عمل سوچ
اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT
غزہ پر قبضے کی سوچ نہ صرف بڑی تباہی کا پیش خیمہ ہو سکتی ہے بلکہ عملی طور پر بھی ناقابلِ عمل ہے۔ کسی بھی بیرونی طاقت کی طرف سے غزہ پر براہ راست قبضے کی کوشش بین الاقوامی قوانین، سفارتی اصولوں اور انسانی حقوق کے بنیادی ضوابط کی کھلی خلاف ورزی ہوگی۔ یہ اقدام نہ صرف اقوام متحدہ کے چارٹر کے منافی ہوگا، بلکہ عالمی برادری، خاص طور پر مسلم دنیا اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی شدید مزاحمت کا سامنا بھی کرے گا۔ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی بین الاقوامی قانون کے تحت، کسی بھی خودمختار یا نیم خودمختار علاقے پر زبردستی قبضہ غیر قانونی ہے۔ اقوام متحدہ کی قراردادیں اور عالمی معاہدے ریاستوں کی خودمختاری اور عوام کے حقِ خود ارادیت کو تسلیم کرتے ہیں۔
فلسطینی عوام کو بھی اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا وہی حق حاصل ہے جو دیگر اقوام کو دیا گیا ہے۔ کسی طاقتور ملک کی جانب سے اس حق کو دبانے کی کوشش عالمی سطح پر کشیدگی کو مزید بڑھا سکتی ہے اور علاقائی استحکام کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔امریکہ کے لیے عالمی تنہائی کا خطرہ ڈونلڈ ٹرمپ کا غزہ پر قبضے کا نیا موقف ان کی سابقہ پالیسیوں سے ہٹ کر ہے۔ اگر امریکہ براہ راست یا بالواسطہ اس نظریے کی حمایت کرتا ہے تو اسے شدید عالمی ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ امریکہ کی بین الاقوامی ساکھ پہلے ہی کئی متنازعہ پالیسیوں کے باعث متاثر ہو چکی ہے، اور غزہ پر ممکنہ قبضے جیسا قدم اسے مزید عالمی تنہائی کی طرف دھکیل سکتا ہے۔خاص طور پر مسلم ممالک میں اس فیصلے کے خلاف شدید ردِعمل آئے گا، جو نہ صرف سفارتی سطح پر امریکہ کے اثر و رسوخ کو کمزور کرے گا بلکہ امریکہ کے معاشی اور تجارتی مفادات کو بھی نقصان پہنچا سکتا ہے۔
ایک طاقتور ملک ہونے کے باوجود، امریکہ کو یہ سمجھنا چاہیے کہ طاقت کے بے جا استعمال سے قلیل مدتی فوائد حاصل ہو سکتے ہیں، لیکن طویل مدتی نقصانات ناگزیر ہیں۔
چین، روس، یورپی یونین اور دیگر بڑی عالمی طاقتیں بھی اس اقدام کی مذمت کریں گی، جس سے امریکہ کے لیے نئے چیلنجز پیدا ہوں گے۔طاقت کے زعم کے نتائج اگرچہ طاقتور ممالک بسا اوقات اپنی فوجی قوت کے بل پر فیصلے مسلط کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ایسے فیصلے دیرپا کامیابی حاصل نہیں کر پاتے۔ افغانستان، عراق اور دیگر خطوں میں فوجی مداخلت کے نتائج واضح ہیں، جہاں طاقت کے بل پر مسلط کیے گئے فیصلے طویل مدتی استحکام اور امن کی بجائے مزید تنازعات کو جنم دیتے ہیں۔غزہ ایک منفرد جغرافیائی، سیاسی اور سماجی حیثیت رکھتا ہے۔ وہاں طاقت کے بل پر قبضہ کرنا کسی بھی عملی حکمتِ عملی کے مطابق ممکن نہیں۔ مقامی آبادی کی مزاحمت، بین الاقوامی پابندیاں، اور عالمی سطح پر ممکنہ ردِعمل اسے ایک ایسی جنگ میں تبدیل کر دے گا جس کے نتائج خود قبضہ کرنے والوں کے لیے بھی خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔
غزہ پر قبضے جیسے اقدام سے نہ صرف عالمی امن کو خطرہ لاحق ہوگا، بلکہ امریکہ کی اپنی معاشی، سیاسی اور سفارتی حیثیت کو بھی شدید دھچکا لگے گا۔غزہ پر قبضے کا ممکنہ اقدام نہ تو قانونی ہے، نہ ہی عملی۔ یہ نہ صرف بین الاقوامی برادری کی جانب سے مسترد کیا جائے گا، بلکہ امریکہ کے لئے بھی تباہ کن نتائج کا باعث بن سکتا ہے۔ ایسے اقدامات سے پرہیز کرنا اور تنازعات کے حل کے لئے پرامن اور قانونی راستے بین الاقوامی قراردادوں کے مطابق اختیار کرنا ہی دانشمندی ہے۔ طاقت کا زعم کسی طرح کسی مسئلہ کا حل نہیں ہو سکتا۔
تنازع کے حل کے لیے پرامن راستہ ہی بہترین آپشن عقلمندی اسی میں ہے کہ عالمی برادری طاقت کے غیر ضروری استعمال کی بجائے، سفارتی اور قانونی ذرائع سے فلسطینی مسئلے کا حل تلاش کرے۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں اور بین الاقوامی معاہدوں کے مطابق مسئلے کا پرامن اور منصفانہ حل ہی حقیقی استحکام اور امن کی ضمانت دے سکتا ہے۔غزہ پر قبضے کی کوئی بھی کوشش نہ صرف ناقابلِ عمل ہے بلکہ عالمی برادری کی طرف سے شدید مخالفت اور ممکنہ ردِعمل کا سامنا بھی کرے گی۔ بہتر یہی ہے کہ عالمی قیادت انصاف اور امن کی راہ اختیار کرے، تاکہ ایک دیرپا اور منصفانہ حل ممکن ہو سکے۔ ورنہ طاقت کے گھمنڈ میں کئی فرعون اور نمرود نیست و نابود ہوگئے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: بین الاقوامی امریکہ کے کہ عالمی سکتا ہے طاقت کے کے لیے
پڑھیں:
پنجاب بارکونسل میں دو روزہ بین الاقوامی مصالحت و ثالثی ٹریننگ کا آغاز
لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 21 اپریل2025ء)وفاقی وزیر قانون اعظم نذیرتارڑ نے کہا ہے کہ 26 ویں ترمیم اسٹرکچرل ریفارم ہے جو نظام کی بہتری کے لیے کی گئی،علم غیب کسی کے پاس نہیں ہے، ضرورت کے تحت کل کو اگر کوئی چیز کرنا پڑی تو تمام اتحادی جماعتیں و پارلیمنٹ بیٹھ کر سوچیں گی۔پنجاب بار کونسل میں دو روزہ بین الاقوامی مصالحت و ثالثی ٹریننگ کا آغاز ہوگیا، تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ 15 سال پہلے محمد احمد نعیم صاحب سے گزارش کی تھی کہ سیکھنے کے عمل میں ہمارا ساتھ دیں۔ان کا کہنا تھا کہ لاہور کا شکریہ کہ جو رسپانس ہے وہ خوش آئند ہے، اے ڈے آر کی مصالحت کی بات ہو، کہا جائے کہ یہ جوڈیشل سسٹم کا حصہ نہیں یہ غلط ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ ایڈووکیسی کی ایک نئی شکل ہے، حکومت پاکستان نے وقت کی اس ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے آئی میک کا سنگ بنیاد رکھا، میرے پاس بہت وائبرنٹ ٹیم ہے، بنیادی پلیٹ فارم فراہم کرنا ہمارا کام ہے باقی آپ کا کام ہے۔(جاری ہے)
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے اپنے آپ کو عالمی کمیونٹی میں رہنے کے لیے اور اپنا رول پلے کرنے کے لیے بل تیار کر لیا ہے، صوبائی اسمبلیوں کا شکرگزار ہوں جنہوں نے قراردادیں پیش کیں، 3 لاکھ مقدمات ہائیکورٹس میں پینڈنگ ہیں، سپریم کورٹ میں بھی ایسے ہزارہا کیس ہیں۔وزیر قانون نے کہا کہ جو مقدمات سپریم کورٹ میں نہیں آنے چاہییں، ان کے لیے الگ سے بینچ اور ٹائم مختص کر دیا گیا ہے، جو نئے قانون میں شقیں ہیں، اس میں آپ کو زیادہ روم ملے گا، وکلا کا رول کم ہونے کے بجائے بڑھا ہے، مستقبل کی وکالت کا آپ کو حصہ ہونا ہے۔اعظم نذیر نے کہا کہ نئی چیزوں کو نئے آئیڈیا کو لے کر چلیں گے تو بلندیوں تک جائیں گے، علم کا قانون کا یہ ایک اور آسمان ہے جس پر ہمیں پرواز کرنا ہے، امید کرتا ہوں کہ اگلے دو روز پوری دلچسپی کے ساتھ ہماری ٹیم کے ساتھ کام کریں گے۔انہوں نے کہا کہ اس طرح کی کاوشیں پاکستان کی عوام کے لیے ہیں، ہمیں سب سے زیادہ عوام کی آسانی کرنی ہے۔بعد ازاں اعظم نذیر تارڑ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میری خواہش ہے کہ کراچی کی طرح لاہور میں بھی ایک ہی جگہ عدالتیں ہوں، اس کا سب سے زیادہ فائدہ بار اور پھر سائلین کو ہے، جوڈیشل افسران کے لیے بھی اس میں سہولت ہے۔انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے یہ پلان حکومت پنجاب کو بھیجا ہے، وزیر اعلی پنجاب مریم نواز اس کے لیئے بالکل تیار ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ چھبسویں ترمیم ایک اسٹرکچرل ریفارم ہے جو کہ نظام کی بہتری کے لیے کی گئی ہے، میرا نہیں خیال کہ چھبسویں ترمیم کے بعد کسی ترمیم کی ضرورت ہے۔وزیر قانون نے کہا کہ علم غیب کسی کے پاس نہیں، ضرورت کے تحت کل کو اگر کوئی چیز کرنا پڑی تو تمام اتحادی جماعتیں و پارلیمنٹ بیٹھ کر سوچیں گی۔اعظم نذیر کا کہنا تھا کہ بار کونسلز کے انتخابات کو صاف شفاف رکھنے کے لیئے ووٹرز کی ڈیجیٹلائزیشن کریں گے، سٹیمرز، بینرز، کھانوں اور زائد خرچہ پر پہلے بھی پابندی ہے لیکن اب یہ قانون کا حصہ ہو گا۔انہوں نے کہا کہ آپ اگر فوجی تنصیبات پر حملہ آور ہوں گے، آپ اگر سرکاری پراپرٹی اور پولیس وینز جلائیں گے تو آپ کو پھولوں کے ہار تو نہیں پہنائے جائیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت جو پیسے ہائیکورٹ بارز کو دیتی ہے وہ پیسے ہم نے پچھلے اور اس سے پچھلے سال لاہور ہائیکورٹ بار کو دیے تھے، اگر خیبر پختونخواہ حکومت اپنے صوبے پر خرچ کرے اور وہاں کے عدالتی نظام کو بہتر کرے تو زیادہ خوشی ہو گی۔