استنبول (نیوزڈیسک)ترکیہ کے بڑے شہروں انقرہ اور استنبول سمیت زہریلی شراب ایک سو سے زائد افراد کی زندگیوں کو نگل گئی۔این ٹی وی کے مطابق یہ ہلاکتیں حالیہ چند ہفتوں کے دوران ہوئی۔

ترکیہ ٹی وی کے مطابق استنبول میں 70 شہری زہریلی شراب پینے سے ہلاک ہوئے ہیں۔ تاہم گورنر استنبول نے اس بارے میں ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔ یہ ہلاکتیں 14 جنوری سے اب تک ہوئی ۔

جبکہ ترکیہ کے دارالحکومت انقرہ میں 33 افراد اس زہریلی شراب کی وجہ سے ہلاک ہو ئے ہیں۔ انقرہ میں ہلاکتوں کا اس وجہ سے سلسلہ جنوری کے آغاز سے چل رہا ہے۔ انقرہ کے گورنر نے ان ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے۔

علاوہ ازیں دونوں بڑے شہروں میں 230 شہری اسی شراب کے پینے کی وجہ سے حالت بگڑنے پر ہسپتالوں میں داخل کرائے گئے ہیں۔ جہاں ان کا علاج جاری ہے۔ ‘این ٹی وی’ کے مطابق 40 افراد کی ہسپتالوں میں حالت نازک بتائی گئی ہے۔

یاد رہے ترکیہ میں شراب پینے کی لت کافی دہائیوں سے چلی آرہی ہے۔ تاہم شراب پر لگائے گئے ٹیکسوں کی وجہ سے ہر ایک تک اس کی رسائی مشکل ہو گئی ہے۔ اس لیے لوگ سستی کے چکر میں جلد مار دینے والا زہر پینے لگے ہیں۔

استنبول میں ابھی پچھلے ماہ اس زہریلی شراب کی فروخت روکنے کے لیے چھاپے مارے گئے مگر پھر بھی یہ واقعات سامنے آئے ہیں۔ حکام نے اس شراب کی فروخت میں ملوث افراد میں سے دونوں شہروں میں بالترتیب 13 اور 11 کو حراست میں لیا ہے۔
امریکی جزیرے کیریبین میں 7.

6 شدت کا زلزلہ، سونامی وارننگ جاری

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: زہریلی شراب

پڑھیں:

غزہ پٹی: اسرائیلی حملوں میں مزید نوے افراد ہلاک

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 19 اپریل 2025ء) غزہ میں حماس کے زیر انتظام وزارت صحت نے بتایا ہے کہ تازہ اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں مزید نوے فلسطینی مارے گئے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ یہ ہلاکتیں گزشتہ اڑتالیس گھنٹوں کے دوران کیے گئے حملوں کی وجہ سے ہوئی ہیں۔ اسرائیلی دفاعی افواج حماس کے جنگجوؤں کے خلاف کارروائیاں کر رہی ہے۔

ہلاک ہونے والے افراد میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں۔ غزہ پٹی میں وزارت صحت کے مطابق کچھ افراد ایسے علاقوں میں بھی مارے گئے ہیں، جو اقوام متحدہ کی جانب سے انسانی ہمدردی کے زون قرار دیے گئے تھے۔

جنوبی شہر خان یونس میں بھی کم از کم گیارہ افراد ہلاک ہوئے۔ اس شہر کے علاقے مواسی کو اسرائیل نے انسانی ہمدردی کا زون زون قرار دیا ہوا ہے۔

(جاری ہے)

یہاں عارضی بنائی گئی پناہ گاہوں میں لاکھوں بے گھر فسلطینی رہائش پذیر ہیں۔ تاہم اسرائیل کا مؤقف ہے کہ جنگجو شہریوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کر رہے ہیں، اس لیے ان ہلاکتوں کی ذمہ داری عسکریت پسند حماس پر ہی عائد ہوتی ہے۔ انسانی بحرانی المیہ شدید ہوتا ہوا

اکتوبر 2023ء سے جاری جنگ نے غزہ کے بڑے حصے کو تباہ کر دیا ہے، جس کے نتیجے میں وہاں کے باسی خوراک پیدا کرنے کی صلاحیت سے تقریبا محروم ہو چکے ہیں۔

اس مسلح تنازعے کے باعث غزہ پٹی کی نوے فیصد سے زائد آبادی بے گھر ہو چکی ہے جبکہ لاکھوں افراد خیموں یا تباہ شدہ عمارتوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔

نئے اسرائیلی فضائی حملے ایسے وقت میں کیے جا رہے ہیں، جب امدادی تنظیمیں اسرائیل کی جانب سے غزہ پر عائد مکمل ناکہ بندی پر تشویش کا اظہار کر رہی ہیں۔ غزہ پٹی میں گزشتہ چھ ہفتوں سے تمام اشیائے خور و نوش اور دیگر ضروریات زندگی کی رسد بند ہے۔

اقوام متحدہ کے مطابق ہزاروں بچے غذائی قلت کا شکار ہو چکے ہیں اور بیشتر افراد بمشکل ایک وقت کا کھانا کھا پا رہے ہیں کیونکہ خوراک کے ذخائر ختم ہوتے جا رہے ہیں۔

محاصرے اور جنگ کی تباہ کاریوں کا شکار افراد خوراک کی شدید قلت کے باعث سمندری کچھوؤں کا گوشت کھانا شروع ہو گئے ہیں۔ مقامی ذرائع کے مطابق کچھ مجبور خاندانوں نے پروٹین کی ضروریات کو پورا کرنے کی خاطر ایسا اقدام اٹھایا ہے۔

جنگ بندی کی جامع ڈیل چاہتے ہیں، حماس

دریں اثنا حماس نے فائر بندی کی اسرائیلی پیشکش مسترد کر دی ہے۔ اس عسکریت پسند تنظیم کا کہنا ہے کہ وہ کسی جزوی ڈیل کو قبول نہیں کرے گی بلکہ وہ جنگ بندی کا ایک جامع معاہدہ چاہتی ہے۔

غزہ میں جنگ بندی کی نئی کوششیں جاری ہیں لیکن حماس کا کہنا ہے کہ وہ صرف اسی معاہدے کو قبول کرے گی جو جنگ کا مکمل خاتمہ کرے۔

غزہ میں حماس کے سربراہ خلیل الحیہ نے کہا، ''ہماری تحریک (حماس) جنگ بندی کے ایک ایسے معاہدے پر فوری مذاکرات کے لیے تیار ہے، جس کے تحت اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینی قیدیوں کی طے شدہ تعداد کی رہائی کے بدلے یرغمالیوں کی آزادی ممکن ہو سکے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس نئی ڈیل کے تحت ہماری عوام کے خلاف جنگ کا مکمل خاتمہ ہو، اسرائیلی افواج غزہ سے مکمل طور پر نکل جائیں اور غزہ پٹی کی تعمیر نو کا آغاز ہو۔

‘‘ اسرائیل نے کیا پیشکش کی تھی؟

اسرائیل 45 دن کی جنگ بندی کے بدلے مزید 10 یرغمالیوں کی رہائی کا مطالبہ کر رہا ہے۔ یہ تجویز بھی ہے کہ اس مدت میں فریقین مستقل جنگ بندی کے لیے مذاکرات کریں گے۔

اسرائیلی منصوبے میں یہ بھی شامل ہے کہ حماس ہتھیار ڈال دے تاہم یہ عسکری گروہ اس مطالبے کو مسترد کر چکا ہے۔

مذاکرات ابھی تک تعطل کا شکار ہیں جبکہ غزہ میں لڑائی جاری ہے۔

اس صورتحال میں غزہ کے عام شہریوں کی مشکلات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ یہ تنازعہ کیسے شروع ہوا تھا؟

غزہ پٹی کی وزارت صحت کے مطابق دو ماہ کی جنگ بندی ختم ہونے کے بعد دوبارہ شروع کیے گئے اسرائیلی زمینی اور فضائی حملوں میں اب تک کم از کم 1,691 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ سات اکتوبر سن 2023ء سے جاری اس جنگ میں فلسطینیوں کی ہلاکتوں کی مجموعی تعداد اکاون ہزار سے زائد ہو چکی ہے۔

سات اکتوبر سن 2023ء کو حماس کے جنگجوؤں نے اسرائیل کی سرزمین پر حملہ کرتے ہوئے اسرائیل کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 1,218 افراد کو ہلاک کر دیا تھا جبکہ ڈھائی سو سے زائد افراد کو یرغمال بھی بنا لیا تھا۔ اس دہشت گردانہ حملے کے بعد اسرائیلی دفاعی افواج نے غزہ پٹی میں حماس کے جنگجوؤں کے خلاف کارروائی شروع کر دی تھی۔ یورپی یونین، امریکہ اور متعدد دیگر مغربی ممالک حماس کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہیں۔

ادارت: عرفان آفتاب، مریم احمد

متعلقہ مضامین

  • میانوالی اور مکڑوال میں پولیس اور سی ٹی ڈی کی کارروائی میں 10 سے زائد دہشتگرد ہلاک
  • پنجاب پولیس اور سی ٹی ڈی کا خوارجی دہشت گردوں کیخلاف کامیاب آپریشن،10 سے زائد دہشت گرد ہلاک
  • ملازمین کی سائیکلوجیکل پروفائلنگ کیلئےسافٹ ویئر تیار
  • کتاب ہدایت
  • تھرپارکر، پراسرار بیماری سے 8 سے زائد مور ہلاک، سیکڑوں بیمار
  • نئی دہلی میں عمارت گرنے سے کم ازکم 11 افراد ہلاک
  • کانگو؛ کشتی میں آگ لگنے سے 148 افراد ہلاک
  • غزہ پٹی: اسرائیلی حملوں میں مزید نوے افراد ہلاک
  • دکی: سی ٹی ڈی سے فائرنگ کا تبادلہ، 5 افراد ہلاک
  • غیرقانونی افغان باشندوں کا انخلا، مزید 5 ہزار سے زائد افغانیوں کو بھیج دیا گیا